• 25 اپریل, 2024

تعارف سورۃ سبا (34ویں سورۃ)

تعارف سورۃ سبا (34ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 55 آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003)

وقت نزول اور سیاق و سباق

یہ سورۃ مکی دور کی ہے۔ اس کے معین وقت نزول کا تعین کرنا مشکل امر ہے۔ بعض علماء اس سورۃکو مکی دور کے وسط کی شمار کرتے ہیں جبکہ بعض کے نزدیک جن میں روڈویل اور نولڈ شامل ہیں۔ اس کو مکی دور کے آخری حصہ کی سورۃ شمار کرتے ہیں۔ سابقہ چند سورتوں میں تسلسل سے اسلام کے عروج ،ترقی اور دیگر ادیان پر اسلام کی حتمی فتح کے بارے میں پیشگوئیاں مذکور ہیں۔ جبکہ اس سورۃ سبا میں سابقہ سورۃ الاحزاب میں اس عروج اور فتح کے مضمون کو زیادہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہےکہ کس طرح ظلمت نے پوری طاقت کے ساتھ اسلام کی سرکوبی کی کوشش کی مگر اپنی تمام سازشوں میں ناکام و نامراد رہے اور اسلام لاچارگی کے عالم میں کڑی آزمائشوں سے گزر کر اپنی شان و شوکت کو پہنچا۔

موجودہ سورۃ میں مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ برے راستوں پر چلنے سے بچیں کیونکہ دولت اور کامیابی کے حصول کے بعد لوگوں میں آسائش اور آرام کا خیال پنپنے لگتا ہے۔ اب کیونکہ خدا کا کسی دوسرے فرقے یا مذہب سے براہ راست کوئی تعلق نہ ہے اس لئے اگر مسلمانوں نے اپنے عروج کے دنوں میں خود کو برائیوں میں مبتلا کر دیا جیساکہ قوم سبا اور بنی اسرائیل نے حضرت سلمان کے بعد کیا تو مسلمانوں کا مقدر بھی ان پہلی قوموں جیسا ہی ہوگا۔

مضامین کا خلاصہ

اس سورۃ کا آغاز اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید سے ہوتا ہے۔ جس کے قبضہ قدرت میں زمین و آسمان کی ہر چیز ہے۔ جس کے بیان کا مقصد یہاں یہ ہے کہ ایسی عظمتوں والے خدا سے لڑائی کا خیال جن لوگوں کو بھی آئے گا تو لازماً ناکامی و نامرادی ہی ان کا مقدر ہوگی۔ یہاں مزید بتایا گیا ہے کہ کفار کا یہ زعم ہے کہ اسلام کے پیغام کا انکار بغیر سزا کے ہوگا اور یہ کہ قیامت کی گھڑی ان پر کبھی برپا نہ ہوگی۔ ان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ ان کی طاقت کا غرور ٹوٹے گا اور ان کی شان و شوکت جاتی رہے گی اور اس حقیقت کا آشکار ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی سچائی کی دلیل ہوگا۔

پھر اس سورۃ میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ جنہیں وسیع فتوحات نصیب ہوئی اور انہوں نے کئی باغی قبائل کا سر کچلا اور ان کے دور میں بنی اسرائیلیوں کو شان و شوکت اور جاہ و جلال نصیب ہوا۔ لیکن اپنی طاقت اور کامیابی کے غرور میں بنی اسرائیل برائیوں میں مبتلا ہو گئے اور گناہ کی زندگی بسر کرنے لگے۔ بنی اسرائیل کے ذکر کے معاً بعد قوم سبا کا ذکر کیا گیا ہے جو بہت خوشحال اور مہذب قوم تھی مگر جب انہوں نے بنی اسرائیل کی طرح الہٰی احکامات کا انکار کیا اور ان کی طرح خدا کے غضب کا نشانہ بنے تو ایک تیز وتند سیلاب سے تباہ و برباد کر دیے گئے۔ بنی اسرائیل اور قوم سبا کی طاقت، شان و شوکت اور خوشحالی کا ذکر کیا گیا ہے جو حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کے دور میں انہیں نصیب ہوئی۔ دونوں کی تباہی کے ذکر کے بعد اس سورۃ میں مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ دولت، طاقت اور خوشحالی ان کو بھی نصیب ہوگی لیکن اپنے شان و شوکت کے دنوں میں اگر بنی اسرائیل اور قوم سبا کی طرح آسائش اور آرام کی زندگی اختیار کر لی تو ان کا انجام بھی ویسا ہی ہوگا۔

پھر اس سورۃ کے اصل مضمون کی طرف عود کر کے اسلام کی غیر معمولی بڑھوتری اور اس کے مقابل پر مشرکوں اور ان کے مصنوعی خداؤں کی بدبختی کا ذکر کیا گیا ہے۔ کفار کو چیلنج دیا گیا ہے کہ وہ اپنے معبودانِ باطلہ کی مدد سے اسلام کی ترقی کو روک کر دکھائیں اور اپنے عقائد باطلہ کی تنزلی کی راہ میں حائل ہو کر دکھائیں۔ ان کو بتایا گیا ہے کہ اب دنیا کی کوئی طاقت اس (اسلام) کی ترقی کو روک نہیں سکتی۔ کفار کو یہ یقین دہانی کروانے کے لیے کہ ان کے عقائد مٹنے والے ہیں اور اسلام ما قبل (عقائد باطلہ) کو اچھی طرح کچل ڈالے گا، ان کو بتایا گیا ہے کہ قانون قدرت کا مطالعہ کریں جو اسلام کی تائید میں کھڑے ہیں۔

کفارکے اس مطالبہ کے جواب میں کہ اسلام کی ترقی کی پیشگوئی کب پوری ہوگی، اس سورۃ میں اس کے لیے معین تاریخ بھی وضع کر دی گئی ہے۔ اس ترقی کی علامات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکہ سے ہجرت کے اگلے سال سے دکھائی دینے لگیں گی جب قریش، جنہوں نے آپ کو آپ کے آبائی علاقہ سے نکلنے پر مجبور کیا، الٰہی سزا کے مورد بنیں گے۔ بعد ازاں اس سورۃ میں بتایا گیا ہے کہ جب بھی کوئی نبی آتا ہے تو ہمیشہ ذاتی مفاد کے حامی اور صاحب ثروت لوگ اس کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔ ان کو اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ یہ نئی تحریک (نبوت) غریبوں پر ان کی پکڑ کمزور کر دے گی اور اس نئے مذہب کو قبول کرنے کے بعد وہ ان کے استحصال اور محکوم بنائے جانے سے انکار کر دیں گے۔ اسی لیے وہ سر توڑ کوشش کرتے ہیں کہ اس نئے مذہب کو پنپنے سے پہلے ہی دبا دیں اور محکوم اور کمزور لوگوں کو دھمکیاں دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے سرداروں کی بات پر کان دھریں اور خدا کے نبی کا انکار کر دیں۔

اپنے اختتام پر یہ سورۃ ایک سادہ معیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سچے مدعی نبوت ہونے کا بیان کرتی ہے کہ ایک جھوٹا مدعی نبوت کبھی بھی ترقی نہیں پاتا اور لازماً اپنے بدانجام کو پہنچتا ہے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ مسلسل ترقی پا رہا ہے اور یہ کہ (نعوذ بااللہ) ایک پاگل، اپنی قوم میں ایسی تبدیلی کیونکر پیدا کر سکتا ہے جیسی پاک تبدیلی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قوت قدسیہ سے پیدا کی۔

٭…٭…٭

(مترجم: مترجم: وقار احمد بھٹی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 نومبر 2020