• 18 مئی, 2024

خدا تجھے غیر معمولی عزت دے گا۔ لوگ تجھے نہیں بچائیں گے پر میں تجھے بچاوٴں گا (الہام حضرت مسیح موعودؑ)

خدا تجھے غیر معمولی عزت دے گا۔ لوگ تجھے نہیں بچائیں گے پر میں تجھے بچاوٴں گا
(الہام حضرت مسیح موعودؑ)

اخبار لکھتا ہے کہ شروع میں ڈوئی نے مشرقِ بعید کی طرف سے اس چیلنج پر کوئی عوامی توجہ نہیں دی لیکن 26؍ستمبر 1903ء کو اس نے اپنے زائن سٹی پبلیکیشن میں کہا کہ لوگ بعض دفعہ مجھ سے کہتے ہیں کہ تم اس طرح کی چیزوں کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ کہتا ہے کیا تم سمجھتے ہو کہ مجھے ان مکھیوں اور مچھروں کا جواب دینا چاہیے۔ اگر میں اپنے پاؤں ان پر رکھ دوں تو انہیں کچل دوں۔ میں انہیں موقع دیتا ہوں کہ اڑ جائیں ا ور زندہ رہیں۔ صرف ایک دفعہ اس نے کسی بھی طرح سے یہ ظاہر کیا کہ اسے مرزا غلام احمد کے وجود کا علم ہے۔ اس نے مرزا صاحب کا بیوقوف محمدی مسیح کے نام سے ذکر کیا۔ نعوذ باللہ اور 12؍دسمبر 1903ء کو وہ لکھتا ہے اگر میں خدا کا نبی نہیں ہوں تو خدا کی زمین میں اَور کوئی بھی نہیں۔ اس کے بعد آنے والے جنوری میں اس نے لکھا کہ میرا کام یہ ہے کہ لوگوں کو مشرق، مغرب، شمال اور جنوب سے باہر نکالنا ہے اور انہیں اس اور دوسرے صیحونی شہروں میں آباد کرنا ہے اس وقت تک جب تک مسلمانوں کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ اللہ ہمیں وہ وقت دکھائے۔ یہ اس ڈوئی نے لکھا جبکہ مرزا صاحب نے اسے سختی سے چیلنج کیا۔

اخبار پھر لکھتا ہے کہ مرزا صاحب نے سختی سے اسے چیلنج کیا کہ اللہ سے دعا کرو کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے ہلاک ہو جائے۔ ڈوئی اس حالت میں مرا کہ اس کے دوست اسے چھوڑ کر جانے لگے اور قسمت خراب ہو گئی۔ وہ فالج اور جنون جیسےامراض میں مبتلا ہو گیا اور اسے عبرت ناک موت ملی۔

اس کے ساتھ صیحون شہر اندرونی اختلافات کے باعث تباہ و برباد ہو گیا۔ مرزا صاحب سامنے آئے ہیں اور انہوں نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ وہ چیلنج یا پیشگوئی جیت گئے ہیں اور وہ ہر سچائی کے طالب کو سچائی قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں جیساکہ انہوں نے اعلان کیا ہے۔ وہ اس آفت کو جو اُن کے امریکہ مخالف پر پڑی خدائی انتقام کے ساتھ ساتھ خدائی انصاف کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جیساکہ ایک پیرو یعنی کوئی احمدی بیان کرتا ہے کہ دشمن کے مرنے پر خوشی نہیں کرنی چاہیے کہ ہم ڈوئی کی زندگی کے بعض مخصوص حالات کی طرف اشارہ کریں۔ اس طرح کی چیزیں ہمارے دماغوں میں بہت دور ہیں۔ ہم ان حقائق کو اپنے مقصد کے لیے اور مزید سچائی کے اظہار کے لیے شائع کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کا مقدس مذہب مُردوں کی برائی کرنے کی تعلیم نہیں دیتا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ حقائق کو اس وقت چھپا لیا جائے جب ان کا ظاہر کرنا معاشرے کے حق میں اور انسانیت، سچائی اور خدا کی خاطر ہو۔ پھر احمدی کے حوالے سے ہی لکھتا ہے کہ ڈوئی پر مصائب نازل کر کے اور بالآخر اس کی بے وقت موت کے سبب غم اورعذاب نازل کر کے خدا تعالیٰ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے جیساکہ اس نے اپنے رسول کو اس واقعہ کے وقوع ہونے سے تین چار سال قبل بتا دیا تھا۔

(SUNDAY HERALD-BOSTON JUNE 23, 1907-MAGAZINE SECTION)

یہ ایک اخبار کا نمونہ ہے جو میں نے پیش کیا ہے۔ یقیناً یہ فتح تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی پر دلیل بھی تھی اور ہے لیکن جیساکہ میں نے کہا آپ علیہ السلام کا مشن تو بہت وسیع ہے۔ یہ تو ایک محاذ کی ایک جگہ کی فتح کا ذکر ہے۔ ہماری حقیقی خوشی تو اس وقت ہو گی، جب ہم دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نیچے لائیں گے۔ اس کے لیے ہمیں اب اس مسجد کے بننے کے ساتھ تبلیغ کے نئے راستے تلاش کرنے ہوں گے۔ مسیح محمدی کے دلائل کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہو گا۔ پہلے سے بڑھ کر اپنی عملی اور روحانی حالت کو بہتر بنانا ہو گا۔ جیساکہ میں نے کہا اصل فتح عظیم تو فتح مکہ تھی۔ کیا فتح مکہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے یا بعد کے مسلمانوں نے تبلیغ کے کام کو روک دیا تھا؟ کیا اسلام کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کی بھرپور کوشش نہیں کی تھی؟ جنگوں سے علاقے فتح نہیں کیے تھے؟ ہاں جنگیں بھی ہوئیں لیکن اس لیے نہیں کہ دین پھیلے بلکہ دل جیتے تھے جس سے قربانی کرنے والے لوگ گروہ در گروہ اسلام میں شامل ہوتے چلے گئے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ حاصل ہونے والی فتح کو مستقل تبلیغ اور دعاؤں سے دائمی کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں کا شمار ان آخرین میں ہوتا ہے جو پہلوں سے ملے۔ تو کیا پہلوں نے تبلیغ روک دی تھی؟ اپنی روحانی اور اخلاقی حالتوں میں بہتری روک دی تھی؟ عبادتوں کے معیار کم کر دیے تھے؟ جب تک یہ چیزیں مسلمانوں میں رہیں اسلام ترقی کرتا رہا اور مسلمانوں پر زوال اس وقت آنا شروع ہوا جب دنیا غالب آنے لگی اورتقویٰ کے معیار گرنے شروع ہو گئے۔ عبادتوں کی طرف توجہ کم ہوتی چلی گئی لیکن کیونکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ تھا کہ قیامت تک اس دین کو قائم رکھنا ہے اور تمکنت عطا فرمانی ہے اس لیے آخری زمانے میں مسیح موعود اور مہدی معہود کو بھیجے گا اور پھر مسیح موعود کو بھیجا اور آپؑ نے دنیا کو اپنی بعثت کی خبر دی اور باوجود وسائل نہ ہونے کے یورپ اور امریکہ اور دنیا کے کئی ملکوں میں آپ کا پیغام پہنچا اور ڈوئی کے حوالے سے ہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ کس شان سے پہنچا۔ آپ علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جو اسلام کی نشأة ثانیہ کا بیج بویا تھا وہ ایک شان سے دنیا میں پھیلتا پھولتا چلا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے بےشمار وعدے فرمائے ہیں۔آپ کو الہاماً فرمایا: خدا ایسا نہیں جو تجھے چھوڑ دے۔ خدا تجھے غیر معمولی عزت دے گا۔ لوگ تجھے نہیں بچائیں گے پر میں تجھے بچاؤں گا۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ442)

(خطبہ جمعہ 30؍ستمبر 2022ء مطبوعہ الفضل آن لائن موٴرخہ 24؍اکتوبر 2022ء)

پچھلا پڑھیں

مسجد فتح عظیم کے افتتاح کے موقع پر

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 نومبر 2022