• 29 اپریل, 2024

This Week with Huzoor (30؍ستمبر 2022ء)

This Week with Huzoor
زائن شہر میں قیام کے دوران 30؍ستمبر 2022ء کو حضور کا پروگرام

جب صیحون کا یہ شہر شکاگو کے شمال میں 1900ء میں قائم ہواتو اِس کے بانی نے یہ دعویٰ کیا کہ صیحون اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گا۔اس کے ایک سو سال بعد، اسلام اسی شہر کے عین درمیان اپنا گھر بسا رہا ہے۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بروز سوموار موٴرخہ 26؍ستمبر 2022ء کی شام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی امریکہ کے دورہ کے لئے شکاگو ائیر پورٹ پر تشریف آوری ہوئی۔حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کایہ تاریخی دورہ کووِڈ کی وبا کے بعد پہلا دورہ ہے۔ائیر پورٹ سے جب حضور کا قافلہ Police Escort کے ساتھ صیحون کے لئے روانہ ہوا توایک ہزار سے زائد احمدی مسلمان ’’مسجد فتحِ عظیم‘‘ میں جمع تھے اور حضور کی تشریف آوری کا بڑی شدت سے انتظار کر رہے تھے۔حضور نے صیحون پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھائیں۔صیحون کے مرکز میں روشن منار کے طور پر ’’مسجد فتحِ عظیم‘‘ کا افتتاح حضرت خلیفۃالمسیح کے با برکت ہاتھوں سے ہونا تھا جو حضرت مسیح موعودؑ کے پانچویں خلیفہ ہیں۔ اسلام کے خلاف الیگزنڈر ڈوئی کی نفرت اور بانیٴ اسلام ؐ کے خلاف بدگوئی نے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے عاشق صادق یعنی حضرت مرزا غلام احمدؑ کو اسلام کے دفاع میں فوراً کھڑا کیا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے ڈوئی کو باز آنے پر متنبہ فرمایا لیکن اس نے آپؑ کی تنبیہ کی کوئی پرواہ نہ کی۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت مسیح موعودؑ نے ڈوئی کو مباہلہ کا چیلنج دیا کہ جو شخص ان میں سے جھوٹا ہے وہ سچے شخص کی زندگی میں ہلاک ہو گا۔پیشگوئی کے عین موافق ڈوئی جو عمر میں حضرت مسیح موعودؑ سے تقریباً 12 سال چھوٹا تھا اور جو بظاہر اپنی طاقت کے لحاظ سے عروج پر تھا اچانک فالج کا شکار ہو گیا اور 1907ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں متروک، مسترد اور ذلت کی حالت میں وفات پا گیا۔اس کی وفات سے حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی پوری ہوئی جسے آپؑ نے الٰہی منشاء کے موافق فتحِ عظیم قرار دیا۔یہ محض ان لوگوں کے لئے ہی ایک عظیم نشان نہیں تھا جو ہندوستان میں آباد تھے بلکہ پوری مغربی دنیا میں لاکھوں لوگوں نے اس نشان کا مشاہدہ کیااور یہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ شخص یعنی حضرت مسیح موعود و مہدی معہودؑ کی صداقت کا عظیم الشان نشان ہے۔

پھر حضورانور ایدہ اللہ نے مسجد فتح عظیم کی نقاب کشائی فرمائی۔ نقاب کشائی سے قبل حضورانور ایدہ اللہ نے مسجد کے احاطے میں حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی سے متعلق لگائی گئی نمائش دیکھی۔ نمائش میں پیشگوئی کے حوالے سے مختلف مطبوعات دکھائی گئیں جن میں مباہلہ کے چیلنج کے متعلق معلومات ملتی ہیں۔

اسی روز ایک مشہور میڈیا چینل ریلیجن نیوز سروس نے حضور انور کا انٹرویو لیا۔ صحافی نے حضور انور سے دورانِ انٹرویو مختلف سوالات پوچھے جس کی تفصیل یوں ہے:

صحافی: آپ کے لئے اس مسجد کے افتتاح کے موقعے پر یہاں آکر شامل ہونا کیوں ضروری تھا؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’جہاں کہیں بھی ہم مسجد کا افتتاح کرتے ہیں تو عموماً ہماری متعلقہ ملک کی جماعت درخواست کرتی ہے کہ اگر ممکن ہو تو میں مسجد کےافتتاح کیلئے وہاں جاؤں۔چنانچہ جرمنی، یوکے وغیرہ میں مَیں کووِڈ سے پہلے عموماً مسجد کے افتتاح کے لیے سفر کیا کرتا تھاتاہم یہاں ایک خاص بات ہے۔ جیسا کہ آپ نے نمائش سے دیکھا ہو گا، تو یہ بھی ان وجوہات میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ جیسا کہ میں نے بتایا کہ میں عموماً مساجد کا افتتاح کرتا ہوں اور افراد جماعت سے ملاقات کرتا ہوں اور یوں ان کی حوصلہ افزائی ہو جاتی ہے اور میں ان کو مسجد کے مقصد کے بارہ میں بتاتا ہوں کہ ہماری زندگی کا مقصد ہمارے ایمان اور مذہب کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے چنانچہ مساجد اسی مقصد کیلئے تعمیر کی جاتی ہیں اور میں انہیں توجہ دلاتا ہوں کہ ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ مسجد کی تعمیر پر صرف خوش ہی نہیں ہونابلکہ اس بات کا احساس پیدا ہونا چاہیےکہ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اس طرح ان میں حوصلہ افزائی پیدا ہوتی ہے، ایک نیا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور پھر وہ اپنے اندر تبدیلی لاتے ہیں اور ان میں اپنے فرائض کا احساس پیدا ہوتا ہے۔‘‘

صحافی: آپ کیا امید رکھتے ہیں کہ لوگ ڈوئی کے واقعے سے کیا سبق سیکھیں گے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’دیکھیں! ہمارا کام تو اسلام کا پیغام پہنچانا ہے۔ قرآن تو فرماتا ہے کہ ’’دین میں کوئی جبر نہیں‘‘ اور یہ بھی فرماتا ہے کہ کسی کو مذہب بدلنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا بلکہ تم اپنا کام کرتے رہو۔وہ جو اپنا مذہب نہیں بدلتے ان کو کم از کم یہ احساس توہو گاکہ اسلام کی تعلیمات ایسی ہیں جو انسان سے اس بات کا مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ خوش اسلوبی کے ساتھ رہیں اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں۔ بانیٴ جماعت احمدیہ نے فرمایا ہے کہ ’’میرا مقصد دنیا کے باشندوں کو خدا تعالیٰ کے قریب لانا ہے۔ان میں یہ فہم پیدا کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کیسے کرنی ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کیوں کرنی چاہیے اور ان کو اپنے خالق کے سامنے جھکنا چاہیے۔دوسرا مقصد لوگوں کو یہ احساس دلانا ہے کہ ان کے ایک دوسرے پر کیا فرائض ہیں۔وہ ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کریں۔ یہی قرآن تعلیم دیتا ہے، یہی ہمارا ایمان ہے اور یہی ہمار عمل ہے اور اس کی ہم تبلیغ کرتے ہیں۔‘‘

صحافی: کیا اب بھی منظم مذہب کا کوئی کردار ہے اور کیا مذہب امن کی آواز بن سکتا ہے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’دیکھیں! ہم کہتے ہیں کہ مذہب کا مقصد کسی کو ڈرانا نہیں جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا ہے دو مقاصد ہیں جن کیلئے بانیٴ جماعت احمدیہ تشریف لائے ہیں۔اسلام کی حقیقی تعلیم کا احیاء اور حقیقی تعلیمات کی بنیاد اس پر ہےکہ لوگوں میں احساس پیدا ہو کہ ان کے اپنے خالق کی نسبت کیا فرائض ہیں اور دوسرے ان میں یہ احساس پیدا ہو کہ ان کے مخلوق کی نسبت کیا فرائض ہیں۔ اگر آپ ان دو فرائض سے آگاہ ہیں تو ہم سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ ہم زبردستی تونہیں کریں گے۔ ہم تبلیغ کرتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ کو ماننا پڑے گا ورنہ ہم ایسا کر دیں گے یا ویسا کردیں گے۔ ہم ان کٹر ملاؤں یا شرپسندوں کی طرح نہیں ہیں جو معاشرے کا امن خراب کر رہے ہیں۔ہم تو کہتے ہیں کہ ہمیں امن کے ساتھ رہنا چاہیے اور ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔قرآن تعلیم دیتا ہے کہ تم نے ایک دوسرے کے مذہب کا احترام ضرور کرنا ہے۔یہ بھی کہتا ہے کہ تم نے بت پرستوں کے بتوں کے خلاف بھی کوئی بری زبان استعمال نہیں کرنی ورنہ وہ بدلہ کے طور پر تمہارے خدا کے خلاف وہی زبان استعمال کریں گےاور اس کا یہ مطلب ہوا کہ تم اس زبان کے استعمال کی وجہ بنو گے۔ پس ان لوگوں تک کا احترام کرو۔ کسی کے خلاف بد گوئی نہ کرو، کسی مذہب کے معبود کے خلاف بد زبان استعمال نہ کرو۔‘‘

ہفتے کے دورن امریکہ کے احمدیوں کو اپنے پیارے امام کی قربت میں وقت گزارنے کی توفیق ملی۔ احمدیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو فیملی ملاقات کرنے کا شرف ملا جبکہ دوسروں کو اجتماعی ملاقاتوں میں شمولیت کی توفیق ملی۔

مختلف احباب کا حضور انور ایدہ اللہ سے
ملاقات کے بعد اظہار خیال

ایک شخص نے بیان کیا کہ: آج ہماری حضور انور ایدہ اللہ سے ملاقات تھی اور یہ میری اور میرے بچوں کی زندگی کا کل سرمایہ تھا۔اتنی شفقت تھی، اتنا نور تھا کہ میرے پاس اسے بیان کرنے کیلئے الفاظ نہیں ہیں۔ میرا ایمان ہے اور آج میں نے یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ خلیفۃ المسیح کا وجود ایک الٰہی وجود ہے جسے اللہ نے اس مقام پر فائز کیا اور مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ یہ محبت دو طرفہ ہے ایک طرف نہیں ہے۔

ایک اور شخص نے بیان کیا کہ دنیا میں خدا تعالیٰ کے سب سے زیادہ مقرب وجودخلیفۃ المسیح ہیں اور خلیفۃ المسیح کی صحبت میں رہنا اور آپ کی اقتداء میں نمازیں ادا کرنا ایسی بات ہے جس سے ہم کئی سالوں سے محروم تھے۔ حضور کی خوبصورت اور سریلی قراٴت کو سننا اور آج وہاں پر موجود ہونا یقیناً دل کو موہ دینے کاموجب تھا۔ موصوف نے عرض کیا کہ حضور کی اقتداء میں نمازیں پڑھنا ہی وہ واحد محرک ہےجس کی وجہ سے میں نے اپنی فیملی کے ساتھ یہ سفر اختیار کیا ہے۔ میں نے اپنے کام سے اور میرے بچوں نے اسکول اور کالجوں سے چھٹی لی تا کہ ہم زیادہ سے زیادہ حضور کی صحبت سے مستفیض ہو سکیں۔

• ایک اور شخص نے بیان کیا کہ یہ میرے لئے پہلا موقع ہے کہ حضور کو بنفس نفیس دیکھ رہا ہوں۔حضور کو ٹی وی، ایم ٹی اے وغیرہ پر تو دیکھا ہے نیز حضور کے ساتھ خط و کتابت بھی رہی ہے جس میں حضور سے کئی معاملات کے بارے ہدایات لیتا رہا۔ حضورانور ایدہ اللہ نے میری رہنمائی فرمائی اور میرے لئے دعائیں بھی کی ہیں لیکن اس وجود کو بنفس نفیس دیکھنا جس کے دیدار اور صحبت میں ہونے کیلئے میں ترستا تھا۔ اس کو زندگی میں پہلی دفعہ دیکھنا ایک ایسا تجربہ ہے جو الفاظ میں ڈھالنا بہت مشکل امر ہے۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہ بہت ہی حسین اور دلربا لمحہ ہے۔

اس ملاقات کے دوران حضور نے بعض بچوں سے گفتگو بھی کی اور انہیں چاکلیٹ سے نوازا۔

جمعرات کے روز احمدیہ مسلم سائنسدان ایسوسی ایشن امریکہ کو حضور انور سے شرف ملاقات نصیب ہوا۔حضور انور ایدہ اللہ نے استفسار فرمایا کہ آپ میں سے کتنے ایسے ہیں جنہوں نے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے؟

جس پر بتایاگیا کہ 35 ایسے ہیں جنہوں نے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ پھر حضور نے اس میٹنگ میں شامل مرد و زن کی تعداد کا پوچھا جس پر بتایا گیا کہ مرد 45 اور خواتین 37 ہیں۔

مرد سائنسدان کی طرف سے ایک صاحب نے حضورکو بتایا کہ حضور! دسمبر 2019ء میں حضور نے یوکے میں منعقد ہونے والی احمدیہ مسلم ریسرچ ایسوسی ایشن کانفرس میں اپنے خطاب کا اختتام ان الفاظ پر فرمایا تھا کہ اللہ کرے کہ ہم (لوگ) احمدی مسلمانوں کی سرکردگی میں ایک نیا اسلامی دور کا مشاہدہ کرنے والے بنیں۔ حضور! ہم نے اپنا یہ مشن بنایا ہے کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی میں اسلام کے سنہری دور میں سب سے آگے ہوں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’یہ تقریباً چار سال قبل کی بات ہے۔آپ نے اُس وقت سے لیکر اب تک کیا نمایاں کام کیا ہے؟ Theme یا مرکزی خیال تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام جیسے سو لوگ پیدا ہوں۔ تو (اب تک) آپ نے کتنے عبدالسلام تیار کرلیے ہیں؟ آپ میں استعداد تو ہے لیکن ابھی اسے مکمل طور پر بروئے کار نہیں لایا گیا۔

جس پر موصوف نے جواب دیا کہ حضور! یہ درست بات ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ (احمدی مسلم سائنٹسٹ امریکہ) اس کے بہت قریب ہیں اور ان میں کئی احباب بڑے پائے کے ہیں۔

اس کے بعد خواتین کے ساتھ دورانِ گفتگو ایک خاتون نے عرض کیا کہ مَیں خواتین کی احمدیہ ایسوسی ایشن یو ایس اے کی صدر کی حیثیت سے خدمت کرنے کی توفیق پا رہی ہوں۔ حضور جب ہم نے یونیسکو اور ایمرا کے مواقع پر حضور انور کے خطابات کا بغور مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ حضور نے بار بار اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور کئی صدیوں پہلے کے غیر معمولی مسلمان علماء کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی جائے اور حضور انور نے ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ حضر ت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی یہ دلی خواہش تھی کہ کم از کم سو احمدی مسلمان ایسے ہوں جو ڈاکٹر عبدالسلام کے نقش قدم پر چلنے والے بنیں اور اعلیٰ سائنسدان بنیں۔

حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا: آپ کی خواہش یہ تھی کہ 1989ء تک اتنے سو سائنس دان بنیں اور اب تو اس سال کو گزرے ہوئے بھی 33 سال ہو گئے ہیں تو میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ چند سالوں میں ایک یا دو ہو جائیں گے۔ ان شاءاللّٰہ

صدر صاحبہ نے جواب دیا کہ یہاں پر چند امیدوار ہیں جو عبدالسلام کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں جن کو ہم نے شامل کیا ہے اور ان کی قدم قدم رہنمائی کے لیے پروگرام ہوں گے۔ ان شاءاللّٰہ۔

حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: اب ان شاءاللّٰہ کو ماشاءاللّٰہ بننا چاہیے۔ تو جب آپ اپنے ہدف کو حاصل کر لیں گے تو پھر آپ ماشاءاللّٰہ کہہ سکیں گی۔

احمدیہ مسلم سائنسدان ایسوسی ایشن امریکہ کے ایک ممبر نےعرض کیا کہ حضور! میں الیکٹرک موٹرز کی فیلڈ میں بیٹری ٹیکنالوجی پر کام کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں نے ایک کمپنی کی بنیاد رکھی ہے جس کا نام ’’ONE‘‘ ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی عظمت ظاہر ہو اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک الیکٹرک موٹرز پہنچائی جا سکیں۔ اس مہینہ کے آغاز میں ’’ONE‘‘ (کمپنی) نے Lithium Ion Cell Performance کا اعلان ایک نئی کیمسٹری کے ساتھ کیا جس کے ذریعہ ایک ہی چارج میں 1000 کلو میٹرز کا فاصلہ طے کیا جا سکتا ہے اور اس کی قیمت عام lead acid battery سے کم ہے۔قبل ازیں مجھے حضور انور کی جانب سے ہدایت ملی تھی کہ میں کثیر التعداد لوگوں کیلئے ٹیکنالوجی پر کام کروں۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعہ عالمگیر سطح پر الیکٹرک موٹرز کو زیادہ سے زیادہ اپنا یا جائیگا جس میں ترقی پذیر ممالک بھی شامل ہوں گے۔ حضور سے عاجزانہ دعا کی درخواست ہے۔ جزاکم اللّٰہ

حضورانور ایدہ اللہ نے مو صوف سے استفسار فرمایا کہ کیا آپ گھانا گئے ہیں تا کہ آپ مزید نئے راستے تلاش کر سکیں؟

جس پر موصوف نے جواب دیا کہ حضور میں گھانا نہیں گیا۔

حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہاں آپ بزنس کھول سکتے ہو؟

موصوف نے جواب دیا کہ گھانا میں Lithium اور دیگر مواد ہے جس کے متعلق ہم تحقیق کر رہے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کو دوسرے افریقن ممالک میں بھی تحقیق کرنی چاہیے۔ آپ صرف ایک ملک پر انحصار نہیں کر سکتے۔ ایک مکمل منصوبہ بنائیں۔ پھر آگے بڑھیں۔

موصوف نے جواب دیا جی ان شاءاللّٰہ۔

شہر صیحون شاید ڈوئی اور اس کے دعووں کو بھول گیا ہو لیکن حضرت مسیح موعودؑ کی سچائی کا نشان اب فتحِ عظیم مسجد کے قیام سے لافانی ہو گیا ہے۔ خطبہ جمعہ کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس مسجد کا افتتاح فرمایا۔

(ٹرانسکرپشن و کمپوزنگ: ابو اثمار اٹھوال)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی