• 29 اپریل, 2024

اسلام کی فتح عظیم (قسط دوم۔ آخری)

اسلام کی فتح عظیم
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت مباہلہ میں ڈوئی کی ہلاکت
قسط دوم۔ آخری

(کل موٴرخہ 11؍نومبر کے مضمون کا تسلسل)

یہ وہی خنزیر تھا

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اس کی موت پر 17 اپریل 1907ء کو ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں اس عظیم الشان پیشگوئی کے ظہور اور ڈوئی کے مرنے کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے لکھا کہ:۔
پس میں قسم کھا سکتا ہوں کہ یہ وہی خنزیر تھا جس کے قتل کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ مسیح موعود کے ہاتھ پر مارا جائے گا۔ اگر میں اُس کو مباہلہ کے لئے نہ بُلاتا اور اگر میں اُس پر بد دعا نہ کرتا اور اس کی ہلاکت کی پیشگوئی شائع نہ کرتا تو اس کا مرنا اسلام کی حقیّت کے لئے کوئی دلیل نہ ٹھہرتا لیکن چونکہ میں نے صدہا اخباروں میں پہلے سے شائع کرا دیا تھا کہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہوگا میں مسیح موعود ہوں اور ڈوئی کذّاب ہے اور بار بار لکھا کہ اس پر یہ دلیل ہے کہ وہ میری زندگی میں ذلت اور حسرت کے ساتھ ہلاک ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہو گیا۔ ا س سے زیادہ کھلا کھلا معجزہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو سچا کرتا ہے اور کیا ہوگا؟ اب وہی اس سے انکار کرے گا جو سچائی کا دشمن ہوگا۔ وَالسَّلاَمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی۔‘‘

(حقیقۃ الوحی صفحہ نمبر515، 516 روحانی خزائن جلد22 ایڈیشن 2009ء)

مکرم محمد جاوید صاحب نے اس عنوان پر اپنا ایک مضمون لکھا اور جو الفضل ربوہ 9مارچ 2000ء میں شائع ہوا۔ وہ لکھتے ہیں:۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب ڈوئی کی اس گستاخی کی اطلاع ملی تو آپؑ نے اللہ کے حضور اس فیصلے میں کامیابی کے لئے زیادہ توجہ اور الحاح سے دعائیں شروع کردیں۔

ڈوئی کی اخلاقی موت اس طرح ہوئی کہ کچھ ہی عرصہ بعد ایک شخص نے خود کو ڈوئی کے بیٹے کے طور پر پیش کردیا۔ 25؍ستمبر 1904ء کو ڈوئی نے اس کا انکار کیا۔ قریباً ایک سال بعد یکم اکتوبر 1905ء کو ڈوئی پر فالج کا شدید حملہ ہوا۔ 19؍دسمبر کو دوسرا شدید حملہ ہوا اور وہ بیماری سے لاچار ہوکر صیحون سے ایک جزیرہ کی طرف چلا گیا۔ جونہی وہ صیحون سے نکلا تو مریدوں کو علم ہوا کہ وہ نہایت ناپاک، شرابی اور تمباکونوش انسان تھا۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ اُس نے ایک لاکھ سے زائد روپیہ صیحون کی خوبصورت عورتوں کو بطور تحائف دیدیا تھا۔ ڈوئی ان الزامات سے اپنی بریت ثابت نہ کرسکا۔ آخر اپریل 1906ء میں اس کی کونسل کے نمائندوں نے ہی اُس کو برطرف کرکے والوا کو اپنا قائد منتخب کرلیا۔ ڈوئی نے عدالتوں کے ذریعہ صیحون اور روپے پر قبضہ حاصل کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ جب وہ واپس صیحون آیا تو کوئی شخص بھی اُس کے استقبال کو موجود نہ تھا۔ جسمانی حالت ایسی تھی کہ خود ایک قدم بھی نہیں اٹھاسکتا تھا اور اُس کے حبشی غلام اُسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جاتے تھے۔ اسی حالت میں وہ دیوانہ ہوگیا اور 9؍مارچ 1907ء کی صبح بڑی حسرت کے ساتھ دنیا سے کوچ کرگیا۔

اسی طرح الفضل 22 نومبر 2008ء میں ایک مضمون مکرم کریم ظفر ملک صاحب نے تحریر کیا جس میں یہ دلچسپ اور ایمان افروز بات بھی درج ہے۔

مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ 1972ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب جب عالمی بینک میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے تو ایک دفعہ شکاگو تشریف لائے۔ خاکسار ان دنوں ILLINOIS سٹیٹ میں نیا نیا مقیم ہوا تھا اور بنک میں ملازم تھا۔ ایک دن محترم ڈاکٹر صلاح الدین شمس صاحب مرحوم کا فون آیا کہ حضرت میاں صاحب ZOIN آرہے ہیں۔ اُسی روز ڈاکٹر صاحب ہمیں ایک بڑے Nursing Home میں لے گئے۔ اور ایک کمرہ میں لے جاکر ایک بوڑھے امریکی سے پوچھا کہ کیا تمہیں ڈاکٹر ڈوئی کے بارہ میں کچھ یاد ہے۔ تو اس نے برملا کہا کیوں نہیں میں خود اس کا پیروکار تھا اور ZOINکا ہی رہنے والا ہوں۔ وہ ہمارا مذہبی رہنما تھا اور بہت اثرو رسوخ والا اورمال دار انسان تھا اور ہزاروں اس کے مرید تھے۔ اسی اثنا میں دوسرے بستر والا شخص بھی ہماری گفتگو میں شامل ہو چکا تھا۔ پھر ڈاکٹر صاحب کے استفسا ر پر کہ آخر اس کا کیا ہوا؟ تو کہنے لگا کہ انڈیا کے کسی قصبے میں ایک شخص کے ساتھ اس کی خط و کتابت شروع ہوگئی تھی۔ اس نے مسیح ہونے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ پھر کافی دیر اُن میں خط و کتابت رہی اور اخبارات کی سرخیاں بھی بنتی رہیں۔ بالآخر ڈاکٹر ڈوئی بہت ہی بیچارگی اور رنج و غم کی حالت میں مرگیا۔

اُس امریکی نے سوال کیا کہ ہم کیوں اس سے یہ پوچھ رہے ہیں اور کیا ہم اس انڈیا والے مہدی کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ تو خاکسار نے برملا حضرت صاحبزادہ صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر عرض کیا کہ ہاں یہ بزرگ انسان اُنہی کا پوتا ہے جنہوں نے ڈاکٹر ڈوئی کے اس طرح ہلاک ہونے کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ وہ امریکی تو جہاں حیران ہوا۔ مگر میری نظر جب حضرت میاں صاحب کے چہرے پر پڑی تو ان کا ایسا چہرہ خاکسار نے زندگی میں کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک نور کا پیکر انکساری سے آنکھیں جھکی ہوئیں اور یقیناً خداتعالیٰ کے اس نشان سے انتہائی متاثر اور ان کا چہرہ اس طرح دکھائی دیا کہ خود چہرے کا نور حضرت اقدس کی سچائی کی گواہی دے رہا ہو۔

ڈوئی کی موت کا ذکر شکاگو کے ٹریبیون اخبار نے یوں کیا تھا: ’’ڈوئی کل صبح 7 بجکر 40 منٹ پرشیلو ہاؤس میں مر گیا اس کے خاندان کا کوئی فرد بھی موجود نہ تھا۔ یہ خود ساختہ پیغمبر بغیر کسی اعزاز کے اور بالکل کسمپرسی میں مرگیا‘‘۔

نشان فتح عظیم اور زائن جماعت

خدا تعالیٰ کے فضل سے حق کا بول بالا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا عظیم الشان نشان حضرت مسیح موعودؑ کی دعائے مباہلہ کا ذریعہ ظاہر فرمایا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ جب آخری زمانے میں مسیح موعود اور امام مہدی آئیں گے تو حکم و عدل ہوں گے۔ ان کے ذریعہ صلیبی عقائد کو پاش پاش کر دیا جائےگا نیز خنزیر کو بھی وہ قتل کریں گے۔ اس حدیث کے صحیح مصداق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ہیں جنہوں نے زائن میں ڈوئی کے ساتھ مباہلہ کر کے اس خنزیر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مباہلہ کے ذریعہ ہلاک کر کے دکھایا۔ کیوں کہ یہ خبیث باطن ہمارے پیارے آقا سید الانبیاء کو گالیاں دیتا اور نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹا سمجھتا تھا۔

حضرت مسیح موعودؑ کی تبلیغ یہاں اس زائن میں پہنچی اور ڈوئی کی عبرتناک موت سے یہاں پر توحید باری تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بلند شان سے گاڑ دیا گیا اور اس کی آبیاری کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا فرمایا کہ امریکہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک مخلص اور فدائی جماعت قائم ہوگئی۔ خاکسار امریکہ میں کئی جماعتوں کی دن دگنی ترقی کا ذکر کرنے سے پہلے زائن کا ذکر کرتا ہے۔ اس کے بعد امریکہ کی ترقی کی طرف آؤں گا۔ ان شاء اللہ

کچھ زائن جماعت کے متعلق

1965ء تک یہاں جماعت نہ تھی۔ شاید ہی یہاں کوئی احمدی آیا گیا ہو۔ جس وقت امریکہ میں صرف چند ایک مبلغین ہی کام کر رہے تھے۔ یہاں پر سب سے پہلے مولوی شکر الٰہی صاحب تشریف لائے۔ آپ 1945ء سے امریکہ میں خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ 1964ء میں مولوی شکر الٰہی صاحب نے شکاگو میں خدمت سرانجام دی اس کے بعد آپ زائن میں متعین ہوئے۔ اس کے بعد مکرم ڈاکٹر صلاح الدین شمس صاحب مرحوم ابن حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب خالد احمدیت یہاں آکر سیٹلڈ ہوگئے۔ آپ محترم فلاح الدین شمس صاحب نائب امیر امریکہ کے بڑے بھائی تھے۔ مکرم ڈاکٹر صلاح الدین شمس پیشہ کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر تھے۔ آپ نے ڈوئی کے ماننے والے کچھ بوڑھے لوگوں کا علاج بھی کیا تھا۔ ڈاکٹر صلاح الدین صاحب کی فیملیز اور بھائیوں کے علاوہ زائن کے اردگرد کچھ لوگ تھے جن کو ملا کر زائن کی جماعت بنی اور یہ سب زائن ہی میں اکٹھے ہو کر نمازیں پڑھتے اور میٹنگز کرتے تھے۔

محترم علی رضا صاحب اور ان کی اہلیہ ناصرہ رضا صاحبہ اس علاقہ کی مقامی احمدیوں میں ایسے ہیں جنہوں نے یہاں تبلیغ کی۔ اگرچہ یہ دونوں سینٹ لوئس سے تعلق رکھتے تھے۔ ہر دو یہاں کے ہی اپنی وفات تک ہو کر رہ گئے تھے۔ محترم علی رضا صاحب نے 1947ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ آپ کی اہلیہ محترمہ ناصرہ رضا صاحبہ کی والدہ صاحب محترمہ طاہرہ رشیدہ صاحبہ سب سے زیادہ عمر پانے والی خاتون تھیں جو کہ 103سال تک زندہ رہیں۔ اس کے بعد تبلیغ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں احمدیت کی محبت پیدا کر دی اور سکول و کالج کے طلباء اور دیگر لوگ احمدیت میں داخل ہوئے جن میں سے کچھ کے نام درج ذیل ہیں۔

فضل عمر صاحب۔ احمد خالد صاحب۔ محمد رشید صاحب۔ بشیر محمود صاحب۔ صدیقہ محمود صاحبہ۔ عالیہ رشید صاحبہ۔ عبدالحکیم صاحب۔ حمیدہ حکیم صاحبہ۔ ناصر حکیم صاحب۔ حسن حکیم صاحب (صدر زائن رہے ہیں)۔ فضل کریم صاحب۔ عبدالکریم صاحب (یہ شکاگو جماعت کے بڑے عرصہ تک صدر جماعت رہے ہیں) بشیر داؤد صاحب۔ مصطفیٰ عبداللہ صاحب۔ قدیرہ عطاء صاحبہ۔ عزیز ڈار صاحب۔ ذکی ڈار صاحب۔ حافظ ڈار صاحب۔ فکیرہ احمد صاحبہ۔ امینہ حکیم صاحبہ۔ احمد نور الدین صاحب۔ احمد خالد صاحب اور محمد صادق صاحب۔ ان میں سے بعض احمدی احباب اپنی نمازوں، میٹنگز کے لئے احمدی گھروں میں اکٹھے ہوتے تھے۔ نمازیں بھی وہاں ہی جماعت کے ساتھ پڑھنے، تبلیغ کے پلان بھی بناتے اور اسی کے مطابق عمل ہوتا رہا۔ نماز جمعہ کے لئے احباب جماعت نے کرایہ پر جگہ حاصل کر نی شروع کی یہ ایک ہوٹل تھا اور گرانڈ ایونیو اور جے نی سی سٹریٹ پر واقع تھا۔ اب تو یہ ہوٹل وہاں نہیں رہا۔

زائن کی یہ جماعت واکیگن کی جماعت کہلاتی تھی۔ جو کہ آفیشل 1969ء میں بنی اور پھر اس میں عہدے داروں کا انتخاب مولوی شکر الٰہی صاحب نے کر ایا۔ فضل عمر صاحب اس جماعت کے پہلے صدر بنے۔ اور عالیہ رشید صاحبہ صدر لجنہ منتخب ہوئیں۔ اس کے بعد یہاں کی احمدیہ کمیونٹی نے ریلوے سٹیشن کے قریب ڈاؤن ٹاؤن میں ایک جگہ اپنی تبلیغی، تربیتی سرگرمیوں کے لئے چنی۔

وسکانسن کے ساؤتھ ایسٹرن علاقہ کا ایک شہر Racine (رے سن) میں 1979ء میں یہ جماعت اکٹھی ہوئی تھی۔ جو بعد میں زائن کی جماعت کہلائی۔ یہ یاد رہے کہ شروع شروع میں اس بڑے ملک امریکہ میں لوگ کوئی کہیں تو کوئی کہیں رہتا تھا۔ اور اب بھی ایسے ہی ہے لیکن اب جماعت بڑی ہوئی ہے۔ لیکن اس وقت کوئی ایک سٹیٹ میں تو دوسرا کسی اور سٹیٹ میں پھر جو نزدیکی شہر بنتا اس میں سب اکٹھے ہوجاتے تھے۔ پھر خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا اور آہستہ آہستہ احمدیوں کی تعداد تبلیغ کے ذریعہ بڑھنے لگی اور شہروں میں لوکل طور پر جماعتیں قائم ہوئیں جب یہ سب لوگ رے سن (Racine)میں اکٹھے ہونے لگے تو یہاں پر مکرم ابوبکر صاحب پہلے صدرمنتخب ہوئے۔ اس کے بعد دوسرے لوگ صدر بنے لیکن اس وقت بھی مکرم ابوبکر صاحب ہی زائن جماعت کے صدر ہیں۔ اور آپ کی اہلیہ سسٹر Dhiya Bakr۔ صدر لجنہ اماء اللہ یو ایس اے ہیں۔ ابوبکر صاحب کے بعد مکرم ڈاکٹر صلاح الدین شمس صاحب صدر جماعت زائن منتخب ہوئے مکرم ڈاکٹر صلاح الدین شمس صاحب کے گھر پر نمازیں اور میٹنگز ہوتی رہیں۔ 1983ء میں جماعت نے یہاں پر مشن ہاؤس کے لئے ایک عمارت خریدی۔ یہ جگہ Gabriel Ave 2103 پر واقع ہے۔

اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے مکرم صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ امریکہ کی قیادت میں ایک بڑی جگہ خریدی ہے۔ جس میں گذشتہ سال ایک بڑی مسجد کی تعمیر کے لئے سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ اس وقت تکمیل کے مراحل میں ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

(نوٹ: یہ بھی یاد رہے کہ مولوی شکر الٰہی صاحب جماعت سے خلافت ثالثہ میں الگ ہوگئے تھے۔)

جماعت احمدیہ امریکہ کی ترقی کی موجودہ صورت حال

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ امریکہ دن رات خلافت کے زیر سایہ ترقی کرتی چلی جارہی ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ اس وقت جماعت امریکہ کی ترقی کی مختصر سی جھلک پیش کرتا ہوں۔

  1. تعداد جماعت:64۔ نوٹ اس سےقبل جماعتوں کی تعداد 74 بیان کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جماعتیں کم ہوگئی ہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو بڑی شہروں کی جماعتوں میں مدغم کر دیا گیا ہے۔ مثلاً لاس اینجلس، شکاگو، سان فرانسسکو، نیویارک، میری لینڈ، ورجینیا کی چھوٹی جماعتیں بڑی جماعتوں میں شامل ہوگئی ہیں۔ اس لئے تعداد میں کمی ہے لیکن تعداد کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کے فضل سے تعداد بڑھی ہے۔ الحمد للّٰہ۔
  2. تعداد مساجد: سن 2020ء تک مساجد کی تعدد 56 ہے۔
  3. تعداد مشن ہاؤسز: 60۔ اس میں 4 جگہیں کرایہ پر حاصل کی ہوئی ہیں۔
  4. مبلغین کی تعداد: 2020ء تک 35 تھی۔ لیکن اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اس سے زیادہ ہوچکی ہے۔

زائن جماعت میں نئی مسجد ’’فتح عظیم‘‘ کا سنگ بنیاد

اللہ تعالیٰ کے فضل سے 10جولائی 2021ء کو زائن بینٹن ٹاؤن شپ ہائی سکول (Zion Benton Township High School) کے ایڈوٹوریم میں ایک عالی شان اور پروقار تقریب کا آغاز ہوا۔ جس میں ہمارے نائیجیرین بھائی مکرم حافظ مبارک احمد صاحب کو کوئی نے پرسوز آواز میں تلاوت قرآن کریم کی۔ اس کے بعد مکرم جنید لطیف صاحب نے تقریب کا تعارف کرایا۔ اور مکرم ابوبکر صاحب صدر جماعت زائن نے سب کو خوش آمدید کہا۔ مکرم فلاح الدین شمس صاحب نائب امیر امریکہ نے اس موقعہ پر زائن مسجد کے بارے میں تفصیلات بیان کیں۔

مکرم انور محمود خان صاحب نے جو ہمارے نیشنل سیکرٹری تحریک جدید ہیں نے اس مسجد کی تعمیر کے لئے مالی قربانیوں کا ذکر کیا ہے کہ یہ رقم کس طرح حاصل ہوئی اور احباب جماعت کے ایمان افروز واقعات بیان کئے۔ اس کے بعد کانگرس کے ممبر جو الیناس سٹیٹ کے ڈسٹرکٹ8 سے تعلق رکھتے ہیں نے جماعت احمدیہ کی خدمات اور مسجد کی تعمیر پر جماعت کو مبارک باد دی۔ اس کے بعد زائن کے میئر نے تقریر کی۔ اور جماعت احمدیہ کی تاریخی خدمات کو سراہا اور خصوصاً زائن کے حوالہ سے مسجد کی تعمیر کو سراہا۔ ان کے بعد Mr. Joyce Mason اور پولیس کے انچارج لیک کونٹی الیناس نے تقاریر کیں۔

اس موقعہ پر ممبر آف کانگرس Ms Gwen Mooreکا پیغام خط کی صورت میں مکرم جنیدلطیف صاحب نے پڑھ کر سنایا۔ اور پھر سب سے آخر میں مکرم صاحبزادہ مرزا مغفور احمدصاحب امیر جماعت احمدیہ امریکہ نے تقریر فرمائی۔ سب کا اس خوشی اور بابرکت تقریب میں شامل ہونے پر شکریہ ادا کیا۔ اور اسلام میں مسجد کی اہمیت کوبیان کیا۔ یہاں پر ممبر آف کانگرس مِس گی ون مورکے خط اور ترجمہ دیا جارہا ہے۔

اس موقعہ پر ممبر آف کانگرس مِس گیون مُور(Gwen Moore) نے اپنے پیغام میں کہا۔

’’یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ میں امریکہ کی احمدیہ مسلم کمیونٹی کو 10 جولائی 2021ء کو زائن الینوائے میں پہلی بامقصد مسجد کی تعمیر کے لئے سنگ بنیاد رکھنے پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ جس طرح آپ نے صیحون میں پہلی بامقصد مسجد کی تعمیر کی بنیاد رکھی بالکل اسی طرح مذہبی کمیونٹیز، شہر ملواکی کو برقرار رکھنے کی ہی بنیاد ہیں۔ کسی بھی خاندان، کمیونٹی اور یہاں تک کہ فرد کی مضبوطی کی جڑ مذہبی استقامت اور عزم میں ہی پیوست ہیں۔

یہ اسلامی کمیونٹی، ملواکی شہر کی سب سے بڑی اور مضبوط ترین مذہبی برادریوں میں سے ایک ہے۔ خاص طور پر میرے کانگریشنل ڈسٹرکٹ میں مجھے مختلف قوموں کے بہت سے مسلمانوں کی نمائندگی کرنے پر فخر ہے۔ میرے ضلع کی احمدیہ مسلم کمیونٹی اور ملک بھر کی باقی تمام احمدیہ مسلم جماعتیں ان اقدار کی عکاسی کرتی ہیں جن کے لئے ہم بحیثیت قوم ہر روز کوشش کرتے ہیں۔ جیسے پڑوسیوں سے محبت، شہری کے فرائض، اور مصیبت میں مضبوط ایمان۔

میں احمدیہ مسلم کمیونٹی کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے اپنے چوتھے کانگریگیشنل وومن ہونے کے طور پر نمائندگی کا موقع دیا۔ میں خاص طور پر آپ کے نیشنل امیر مرزا مغفور احمد کو بھی سراہنا چاہوں گی۔ جو ہم میں آج موجود ہیں۔ میں آپ کے عالمی سربراہ مرزا مسرور احمد صاحب کی قیادت کو بھی خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔ جنہوں نے اس ملک کی 60 سے زائد جماعتوں سمیت پوری دنیا میں احمدیہ مسلم کمیونٹی کی ترقی کی قیادت کی ہے۔ انہوں نے عالمی امن اور بین المذاہب شراکت داری کے لئے انتھک جدوجہد کی ہے۔ ان تمام لوگوں کے لئے اونچی آواز بننے کے لئے انتھک جہدوجہد کی ہے۔ ان لوگوں کے لئے اونچی آواز بننے کے لئے آپ کا شکریہ جو اپنے لئے اور تمام لوگوں کے امن اور بہبود کے لئے نہیں بول سکتے۔

وسکانسن 4th کانگریشنل ڈسٹرکٹ کی جانب سے میں اور میرا عملہ پہلی بامقصد تعمیر شدہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔

گیون مُور ممبر آف کانگرس

مکرم ڈاکٹر محمود احمد صاحب ناگی کولمبس سے اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں جو الحکم کی اشاعت میں ہے۔

حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام کی مباہلے کی دعا کے نتیجے میں ڈاکٹر ڈوئی 1907ء میں ایک اذیت ناک بیماری میں مبتلا ہو کر اُنسٹھ برس کی عمر میں ہلاک ہوا۔ سچائی کا بول بالا ہوا۔ ایوننگ امریکن شکاگو (Evening American Chicago) نے 9 مارچ 1907ء کی اشاعت میں ڈاکٹر ڈوئی کی کہانی کے خلاصہ کو مندرجہ ذیل الفاظ میں قلم بند کیا:۔
فتح عظیم اور المناک ناکامی نے ڈاکٹر ڈوئی کی زندگی کو داغدار کیا۔ اس نے چند بڑے کام انجام دیئے لیکن اس کے برعکس بدنامی کا باعث بننے والے کام اچھے کاموں سے کئی گنا زیادہ تھے۔ اس نے ایک عقیدہ روشناس کرایا لیکن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس نے ایک شہر بسایا اور وہ اسی شہر سے دربدر کیا گیا۔ اس نے لاکھوں ڈالرز کی جائیدادیں بنائیں لیکن وہ شخص غربت کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔ طاقت کے نشہ نے جو وقت اسے بخشی اسی نے ہی اسے خوار کیا۔ اس کے مریدوں کی تعداد ہزاروں میں تھی لیکن جب وہ لقمہ اجل بنا تو سوائے چند وفاداروں کے سب اسے چھوڑ گئے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے ماننے والے اب اسلام کی تبلیغ اور ترقی کے لئے زائن شہر میں ایک الشان کمپلیکس تعمیر کر رہے ہیں۔ اس جگہ پر ایک مسجد تعمیر ہوگی جس کا نام ’’مسجد فتح اسلام‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس کمپلیکس کے سنگ بنیاد کی تقریب مورخہ 10 جولائی 2021ء تک پائے تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ یہ منصوبہ 8 ایکڑ راضی پر مشتمل ہے۔ اور لیوز ایونیو (Lewis Avenue) اور ستائیس سٹریٹ (27th Street) پر واقع ہے۔ اس منصوبےکی لاگت کا تخمینہ 50 لاکھ ڈالر لگایا گیا ہے۔ عمارت کا ڈیزائن جدید اور روایتی طرزِ تعمیر کا شاہکار ہوگا جو عمارتیں تعمیر ہوں گی۔ ان کا رقبہ تقریبًا 13000 مربع فٹ ہوگا۔ مرکزی جگہ پر نماز کے لے ایک بڑا ہال اور کمیونٹی روم (Community Room) بنے گا جبکہ باورچی خانہ تہ خانے میں بنے گا۔ اسلامی طرز کا ایک مینار اس کمپلیکس کی شان کو دوبالا کر دے گا۔ تمام عمارتیں تین ایکڑ رقبہ پر محیط ہوں گی جبکہ بقیہ سات ایکڑاراضی دوسرے کاموں کے لئے استعمال ہوگی۔ کافی بڑا حصہ گرین ایریا (Green Area) ہوگا۔ اس کے علاوہ اس کمپلیکس کا ایک ضروری جزو ایک دوسرے ہال کی تعمیر ہے۔ جس میں تاریخی نوعیت کی دستاویز اور تصاویر کا اہتمام کیا جائے گا۔ یہ قیمتی نوادرات امریکی تاریخ احمدیت کو اجاگر کریں گے۔

سنگِ بنیاد کی تقریب زائن بینٹن ٹاؤن شپ سکول (Zion Benton Township School) میں منعقد ہوئی جس میں جماعت احمدیہ کے سرکردہ عہدیدار، کانگرس کے چند شرکاء، کاونٹی (County) کے مقتدر اربابِ اختیار اور مقامی قانون نافذ کرنے والے احباب خاص طور پر مدعو کئے گئے تھے۔

زائن شہر کے میئر بلی میکینی (Billy McKinney) نے تقریب کے آغاز میں سپاس نامہ پیش کیا۔ امیر جماعت احمدیہ امریکہ مکرم صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب اس تقریب کے روحِ رواں اور کلیدی مقرر تھے انہوں نے اپنی تقریر میں کہا:۔
’’اسلام میں مسجد کا مقام صرف خدا کے گھر کا ہی نہیں جہاں مسلمان باجماعت عبادت کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں بلکہ یہ جگہ امن و سلامتی اور اسلامی اخوت کے لئے مخصوص ہے۔ یہ مسجد احمدیہ جماعت زائن کو ایک خدائے واحد کی پرستش کی ذمہ داری اور اس کی مخلوق کی دیکھ بھال یاد دلاتی رہے گی۔‘‘

ظہرانے کے بعد کئی مہمانوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کے بعد احباب نے کمپلکس اور مسجد کی بنیادوں میں اینٹیں رکھیں۔ تقریب کے آخر میں احمدیہ مسلم کمیونٹی زائن کے صدر مکرم ابوبکر نے اپنی ٹیم کے احباب کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے انتھک محنت سے اس منصوبے کے لئے دن رات کام کیا۔

مسجد کا نام مسجد فتح عظیم

سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس مسجد کا نام ’’مسجد فتح عظیم‘‘ عطا فرمایا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ اس خوشی اور بابرکت موقعہ پر تمام جماعت احمدیہ کو مبارکباد پیش ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِِ۔ 10جولائی 2021ء کو جو تقریب ہوئی اس سارے پروگرام کا انعقاد ہمارے نیشنل سیکرٹری امور خارجیہ مکرم امجد محمود خان صاحب اور ان کی ٹیم کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے۔ آمین

اس تقریب کے بعد مکرم امیر صاحب صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب تمام احباب کی معیت میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھے جانے کی جگہ کی جگہ پر تشریف لے گئے۔ اور سنگ بنیاد رکھا۔ امید ہے یہ مسجد اس سال کے پہلے چوتھائی حصہ میں ان شاء اللہ مکمل ہوگی۔ اور ہم انتظار کرتے ہیں کہ ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس کا خود افتتاح فرمائیں گے۔ آمین

اس تقریب میں خاکسار کو بھی شامل ہونے کی سعادت ملی۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

زائن سے متعلق معلومات اور فوٹوز مکرم ناصر الدین شمس صاحب ابن مکرم ڈاکٹر صلاح الدین شمس صاحب مرحوم جو حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کے پوتے ہیں نے مہیا فرمائیں۔ فَجَزَاہُ اللّٰہُ خَیْرًا۔

خاکسار دوبارہ یہ بات دہرانا چاہتا ہے کہ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ ڈوئی کتنا مشہور، امیر اور طاقتور انسان تھا۔ پوری دنیا اس کو جانتی تھی اور سیاستدان بھی اس کی تائید کرتے تھے۔ وہ ایک ایسا بافراست انسان تھا جس پر مذہبی حکومت کو قائم کرنے کے لئے اعتماد کیا جاتا تھا۔ وہ پرانے عہد نامہ کے قوانین کا سخت پیرو کار تھا۔ اس نے اپنے نمائندگان کو سور کا گوشت کھانے، شراب نوشی اور تمباکو نوشی کرنے سے سخت منع کر رکھا تھا اس کو یہ بھی لگتا تھا کہ تمام بیماریاں روحانی علاج سے ٹھیک ہوسکتی ہیں اور وہ ان کے لئے میڈیکل کی اجازت نہیں دیتا تھا۔

اپنے نقطہ نگاہ سے جب اس نے زائن شہر کی منصوبہ بندی کی تو اس نے زمین کا ایک بڑا پلاٹ خریدا جو مشی گن جھیل پر تھا اور دو بڑے شہروں (شکاگو اور ملواکی) کے درمیان میں تھا اور ٹرین اسٹیشن اس سے آدھے راستے پر واقع تھا۔ اس نے شہر کو یونین جیک برطانیہ کے جھنڈے کی طرف پر وضع کیا اور اس نے گرجا گھر کو بالکل مرکز میں رکھا جہاں دونوں صلیبیں ملتی تھیں اور ہر گلی کا نام بائیبل سے رکھا۔ یعنی اس شہر کو مسیح کی دوسری آمدکے استقبال کے لئے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ ڈوئی کو یقین تھا کہ وقت قریب ہے اور یہ پیشگوئی اس نے 1902ء میں کی تھی کہ یہ 25 سال کے اندر اندر ہوگا۔ شائد اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ خود کو ایلیا کہتا تھا جو آخری دنوں میں مسیحا کے ظاہر ہونے کا راستہ ہموار کرے گا۔ ہاں اس شخص نے غرور و تکبر سے مسیح محمدی کے بارے میں کہا تھا۔

’’ہندوستان کا ایک بے وقوف محمدی مسیح مجھے بار بار لکھتا ہے کہ یسوع مسیح کی قبر کشمیر میں ہے اور لوگ مجھے کہتے ہیں کہ تُو کیوں اس شخص کو جواب نہیں دیتا۔ مگر کیا تم خیال کرتے ہو کہ مَیں ان مچھروں اور مکھیوں کو جواب دوں گا۔ اگر مَیں ان پر اپنا پاؤں رکھوں تو مَیں ان کو کچل کر مار ڈالوں گا‘‘

(حقیقۃ الوحی صفحہ 509)

پس یہ وہی مسیح محمدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہے کہ جس کی دعا سے یہ شخص نابود اور ذلت کی موت سے مرا۔ اور اس طرح توحید باری تعالیٰ، اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند ہو کر ایک ’’فتح عظیم‘‘ کا نشان بن گیا۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

مسجد فتح عظیم کے افتتاح کے موقع پر

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 نومبر 2022