• 7 مئی, 2024

ہمیں تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ عاجزی اگر کسی میں نظر آتی ہے تو وہ آنحضرتﷺ کی ذات ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔

وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا

(سورۃ الفرقان آیت64)

عاجزی اور انکساری ایک ایسا خلق ہے جب کسی انسان میں پیدا ہو جائے تو اس کے ماحول میں اور اس سے تعلق رکھنے والوں میں باوجود مذہبی اختلاف کے جس شخص میں یہ خلق ہو اس پر انگلی اٹھانے کا موقعہ نہیں ملتا بلکہ اس خُلق کی وجہ سے لوگ اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں، اس سے تعلق رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ہمیں تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ عاجزی اگر کسی میں نظر آتی ہے تو وہ آنحضرتﷺ کی ذات ہے چنانچہ دیکھ لیں باوجود خاتم الانبیاء ہونے کے آپ اپنے ماننے والوں کو یہی فرماتے ہیں کہ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو اور اس یہودی کو بھی پتہ تھا کہ باوجود اس کے کہ میں یہودی ہوں اور جھگڑا میرا مسلمان سے ہے اور پھر معاملہ بھی آپﷺ کی ذات سے تعلق رکھتا ہے اپنے اس جھگڑے کا معاملہ آپﷺ کے پاس ہی لاتا ہے، آپ کی خدمت میں ہی پیش کرتا ہے۔ کیونکہ مذہبی اختلاف کے باوجود اس کو یہ یقین تھا اور وہ اس یقین پر قائم تھا کہ یہ عاجز انسان ﷺ کبھی اپنی بڑائی ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اور اس یہودی کو یہ بھی یقین تھا کہ میرا دل رکھنے کے لئے اپنے مرید کو یہی کہیں گے کہ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو۔ یہ یقین اس لئے قائم تھا کہ آپ کی زندگی جو زندگی اس یہودی کے سامنے تھی اس سے یہی ثابت ہو اتھا اور آپ کا یہ حسن خلق اس کو پتہ تھا اور یہ حسنِ خلق آپ میں اس لئے تھا کہ وہ شرعی کتاب جو آپ پر اتری یعنی قرآن کریم اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جو میں نے آیت پڑھی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو جواباً کہتے ہیں سلام۔ یعنی جھگڑے کو بڑھاتے نہیں بلکہ وہیں معاملہ نپٹا کر ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی جھگڑا کرنے کی کوشش بھی کرے تو اس کو آگے نہیں بڑھنے دیتے۔ جاہلوں کی طرح ذرا ذرا سی بات پر سالوں جنگیں لڑنے کی ان کو عادت نہیں ہے۔ تو یہ ہے وہ حسن خلق جو آنحضرتﷺ میں تھا اور جو آپ اپنی امت میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔

اس بارہ میں علامہ رازی آیت قرآنی اَلَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ھَوْن سے مراد نرمی اور ملائمت ہے۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ چال میں نرمی ہو چال میں نرمی ہوتی ہے، سکینت ہوتی ہے، وقار اور تواضع ہوتی ہے اور تکبر اور نخوت سے اپنے پاؤں زمین پر نہیں مارتے اور متکبر لوگوں کی طرح اکڑ کر نہیں چلتے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَاتَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا۔ یعنی وہ زمین پر اکڑ کر نہیں چلتے۔ لکھتے ہیں کہ زید بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے ھَوْنَ کی تفسیر تلاش کی تو مجھے نہ ملی تو خواب میں مجھے بتایا گیا کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو زمین میں فساد نہیں چاہتے۔

پھر ایک روایت ہے، حضرت عیاض بن حمار سے مروی ہے کہ آنحضورﷺ نے ہم سے خطاب فرمایا اور فرمایا ’’کہ اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے کہ انکساری اختیار کرو اس حد تک کہ تم میں سے کوئی کسی پر فخر نہ کرے۔

اب امت کو تو یہ حکم ہے کہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے لیکن کیا ہمارے عمل اس کے مطابق ہیں۔ کسی کو اپنی قوم کا فخر ہے، خاندان کا فخر ہے، تو کسی کو دولت کا فخر ہے، کسی کو دوستوں کا فخر ہے، کسی کو اولاد کا فخر ہے اور جس طرف بھی نظر ڈالیں آپ کوئی نہ کوئی فخر کا راستہ یا کوئی نہ کوئی فخر کی سوچ ہر ایک میں نظر آجاتی ہے۔ پھر اور تو اور بعض دفعہ بعض لوگ اچھے سوٹ سلوالیں یا کپڑے پہن لیں تو اسی پر فخر ہونے لگ جاتا ہے۔ اس تعلیم پر نظر نہیں۔ اگر ہر ایک کی اس تعلیم پر نظر ہو جو ہمیں آنحضرتﷺ نے دی تو فخر کے بجائے ہم میں سے ہر ایک میں ہر وقت عاجزی ہی عاجزی نظر آنی چاہئے۔

پھر دیکھیں روایت میں ہے جس میں آپ نے اپنے زبردست مقام کے بارے میں اعلان فرمایا ہے کہ اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ اٰدَمَ وَلَا فَخْرَ۔ یعنی پہلی بات تو یہ اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ اٰدَمَ۔ اور پھر ساتھ ہی عاجزی کا بھی ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا ہے کہ پھر فرما رہے ہیں وَلَا فَخْرَ۔ کہ میں تمام بنی آدم کا سردار ہوں اور یہ بہت بڑا اعلان ہے لیکن عاجزی کی انتہا کہ مگر کوئی فخر نہیں کرتا۔ اس میں مجھے کوئی فخر نہیں ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ ۲ مطبوعہ بیروت)

پھر آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے لئے اس طرح تواضع اختیار کی۔ یہ فرماتے ہوئے آنحضرتﷺ نے اپنی ہتھیلی کوزمین کے ساتھ لگا دیا۔ اس کو میں اس طرح بلند کروں گا اور یہ فرماتے ہوئے آپ نے اپنی ہتھیلی کو آسمان کی طرف اونچا کرنا شروع کیا اور بہت بلند کر دیا یعنی جو عاجزی اختیار کرے اور زمین کے ساتھ لگ جائے اس کو خدا تعالیٰ خود بلند کرتا ہے۔

(مسند احمد بن حنبل مسند العشر المبشرین بالجنۃ جلد۱ صفحہ۴۴ مطبوعہ بیروت)

اب ایسے لوگ جن کو اپنی بڑائی بیان کر کے اپنے مقام کا اظہار کرنے کا بڑا شوق ہو تا ہے ان کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ بلند مقام عاجزی سے ہی ملتا ہے۔ اچھا باغبان یا مالک ہو باغ کا وہ ہمیشہ درخت کی اُس شاخ کی قدر کرتا ہے۔ جو پھلوں سے لدی ہو اور زمین کے ساتھ لگی ہو۔ اسی طرح مالک ارض و سما ءاس سر کی قدر کرتا ہے جو زمین کی طرف جھکتا ہے۔ عاجزی کے مقابلے پہ فخر، غرور اور تکبّر ہی ہے یعنی اس کا الٹ، تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام فرماتے ہیں کہ شرک کے بعد تکبّر جیسی کوئی بَلا نہیں۔ اگر غور کریں تو تکبّر ہی آہستہ آہستہ شرک کی طرف بھی لے کر جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہمیشہ عاجزانہ راہوں پر چلائے۔

(خطبہ جمعہ 2؍ جنوری 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ