• 1 مئی, 2024

نہ اُن سے رُک سکے مقصد ہمارے

میں تھا غریب و بیکس و گم نام بے ہنر
کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر
لوگوں کی اِس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی
میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی

(روحانی خزائن جلد21 براہین احمدیہ حِصّہ پنجم صفحہ اوّل نصرۃ الحق صفحہ 20مطبوعہ 1908ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو 1880ء میں الہام ہؤا اِنّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ (تذکرہ صفحہ 27) اس وقت آپؑ زیادہ تر گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے تھے ۔کوئی ایسا مقام و مرتبہ نہ تھا جس کی اہانت ہو۔ دراصل یہ الہام آپؑ کی ماموریت کے زمانے کی طرف خدائی اشارہ تھا اور ایک پیش گوئی تھی کہ آپ کو بہت اعلی ٰمقام و مرتبہ پر فائز کیا جائے گا ۔آپؑ کی مخالفت ہوگی مگر جو کام آپؑ کے سپرد کیا جائے گا اس میں اللہ تبارک تعالی ٰکی تائید و نصرت آپؑ کے ہمراہ رہے گی ۔ہمت سے کام کیے جانا ہے۔ جس کسی نے اہانت کرنا تو کیا، اہانت کا ارادہ بھی کیا اُسے اللہ تعالیٰ اپنے قادرانہ تصرف سےناکام کردے گا ۔ حضرت اقدسؑ نے اس الہام کی خود وضاحت فرمائی ہے آپؑ کے مبارک الفاظ ہیں:
’’انی مھین من اراد اھانتک یعنی میں اس کی اہانت کروں گا جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا۔ یہ ایک نہایت پُر شوکت وحی اور پیشگوئی ہے جس کا ظہور مختلف پیرایوں اور مختلف قوموں میں ہوتا رہا ہے اور جس کسی نے اس سلسلہ کو ذلیل کرنے کی کوشش کی وہ خود ذلیل اور ناکام ہوا۔‘‘

(نزول المسیح ۔ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 567)

روز ازل سے چِشم فلک نے بارہا یہ نظارہ دیکھا کہ قادر وتوانا خدا نے جب بھی ہدایت کی کوئی شمع روشن کی تو ابلیسیت اپنے تکبر و غرور میں پاگل ہو کر تمامتر توا نائیوں کے ساتھ اس پر حملہ آور ہو گئی ۔مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو پھیلنے نہ دیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ۔ ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدىٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَى الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ

(الصف: 9-10)

ان آیات کا ترجمہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں حالانکہ اللہ ہر حال میں اپنا نور پورا کرنے والا ہے خواہ کافر ناپسند کریں۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسے دین کے ہر شعبے پر کلیۃً غالب کر دے خواہ مشرک برا منائیں۔

لیکن اللہ جو متقیوں کا نصیر ہوتا ہے اُن کی اِعانت خود پر فرض کر لیتا ہے ۔کیونکہ یہ اُس کا اٹل فیصلہ ہے

کَتَبَ ا للّٰہُ لَاَ غْلِبَنَّ اَ نَا وَرُ سُلِیْ (المجادلہ: 22) یعنی اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ ضرور مَیں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے ۔ آ نحضرت ﷺ کو بعثت کے ساتھ حفاظت کا وعدہ دیا اور فرمایا: وَ اللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ

(الما ئدہ: 68)

پھر اللہ تعالیٰ سورۃ المؤمن میں فرماتا ہے کہ اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا (المومن: 52) کہ ہم اپنے رسول کی مدد فرماتے ہیں۔

یہ وعدہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے روحانی فرزند، ظل، شاگرد اور آپؐ کے عاشق صادق حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی کئی دفعہ اور کئی طرح دیا گیا اور اللہ پاک کی فعلی شہادت نے ثابت کیا کہ اس پودے کو باد صرصر سے بچانے میں پھیلنے پھولنے اور پھلنے میں آسمانی ہاتھ کارفرما ہے زمینی طاقتیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ خدا ئے ذوالجلال اپنے مرسل کو کس قدر عزیز رکھتا ہے؟۔ اسی گمنامی کے دور کا الہام ہے:
’’اَنْتَ منّی بمنزلۃ تو حیدی و تفریدی۔ فحان ان تعان وتعرف بین الناس یعنی تو مجھ سے بمنزلہ میری توحید و تفرید کے ہے۔ پس وہ وقت آگیا ہے کی تجھے ہر ایک قسم کی مدد دی جائے گی۔ اور دنیا میں تو عزت کے ساتھ شہرت دیا جائے گا ۔اور شہرت دینے کے وعدہ کو توحید اور تفرید کے ساتھ ذکر کرنا اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ جلال اور عزّت کے ساتھ شہرت پانا اصل حق خدائے واحد لا شریک کا ہے۔ پھر جس پر خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہو وہ اپنی نہایت محویت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی توحید کے قائم مقام ہوجاتا ہے اور رنگِ دُوئی اس سے جاتا رہتا ہے تب خدا تعالیٰ اسی طرح اس کو عزّت اور جلال اور عظمت کے ساتھ شہرت دیتا ہے جیسا کہ وہ اپنےتئیں شہرت دیتا ہے کیونکہ توحید اور تفرید یہ حق پیدا کرتی ہے کہ وہ ایسی ہی عزت حاصل کرے۔‘‘

(روحا نی خزائن جلد 22 حقیقۃ الوحی حاشیہ صفحہ 170 )

نیز فرمایا
’’اے ابراہیم تجھ پر سلام ۔ ہم نے تجھے خالص دوستی کے ساتھ چُن لیا …خدا تیرے سب کام درست کردے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا تو مجھ سے ایسا ہے جیسی میری توحید اور تفرید۔ خدا ایسا نہیں جو تجھے چھوڑ دے … میں تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دوں گا اور تیرا ذکر بلند کروں گا اور تیری محبت دلوں میں ڈال دوں گا۔‘‘

(تذکرہ صفحہ 148۔149)

بدخواہوں کے دشمن ہاتھوں کا اپنے پیارے کی طرف اُٹھنا اُس قادرو توانا کی غیرت کو للکارتا ہے اور وہ انہیں توڑ دیتا ہے ۔ شریروں کے شرارے ان پر الٹ دیتا ہے ۔ وہ خود اپنے پیارے کی ڈھال بن جاتا ہے اس کی سنت ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے بچاتا اور نمرود کو اُس میں بھسم کر دیتا ہے۔ وہ حضرت موسیٰؑ کو سمندر کے پار پہنچاتا ہے اور فر عون کو اُس میں غرق کر دیتا ہے ۔وہ آ نحضرت ﷺ کو فاتح عالم بناتا ہے اور ابو جہل اور اس کے ساتھیوں کو ذلیل انجام کے گڑھے میں دفن کر دیتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’جو کام اللہ تعالیٰ کے جلال اور اس کے رسولؐ کی برکات کے اظہار اور ثبوت کے لئے ہوں ۔اور خود اللہ تعالیٰ کے اپنے ہی ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہو۔ پھر اس کی حفاظت تو خود فرشتے کرتے ہیں۔ کون ہے جو اس کو تلف کرسکے؟ یاد رکھو میرا سلسلہ اگر نری دکانداری ہے تو اس کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ لیکن اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور یقیناً اسی کی طرف سے ہے تو ساری دنیا اس کی مخالفت کرے۔ یہ بڑھے گا اور پھیلے گا اور فرشتے اس کی حفاظت کریں گے۔ اگر ایک شخص بھی میرے ساتھ نہ ہو اور کوئی بھی مددنہ دے تب بھی میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ سلسلہ کامیاب ہو گا۔‘‘

(ملفوظات جلد8 صفحہ148۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تو ہین کرنے والوں اور اس کا ارادہ کرنے والوں پر خدا تعالیٰ کی مار کے احوال بیان کر نے کے لئے کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ اَن گنت بے شمار مثالیں ہیں۔ جن کو بڑے بڑے تین عنوانوں کے تحت جمع کیا جاسکتا ہے

اول اللہ تبارک تعالیٰ نے کبھی مخالفین کو لمبی مہلت دی تا کہ وہ اپنی آنکھوں سے جماعت کی رو ز اَفزاں ترقی دیکھیں اور اندر ہی اندر حیرت، حسد اور حسرت کی آگ میں جلیں اور اپنی بے بسی پر واویلا کرکے زبان حال سے صداقتِ مسیح موعودؑ کا اعلان کریں ۔

دوسرے بعض مخالفین کئی قسم کی زمینی اور آ سمانی آ فتوں میں جکڑےگئے اور اپنے انجام سے عبرت کا نشان بن کر صداقتِ مسیح موعودؑ کا اعلان بنے۔

تیسرے بعض شدید مخالفین کی نسلوں نے احمدیت کی آغوش میں پناہ لے کر ببانگ دہل صداقتِ مسیحؑ کا اعلان کیا۔

اہانت کرنے والوں کو پے در پے شکستوں کے سوا کچھ نہ ملا۔ کچھ متکبرین نے آپؑ کے الہامات پر، پیشگوئیوں پر، تحریرات پر اور ذات پر اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی۔ اللہ تعالیٰ نے دلائل و براہین اور واقعاتی شہادتوں سے اُن کے منہ بند کئے اور تضحیک، تمسخر، استہزاء اور حقارت کا رُخ خود اُن کی طرف موڑ دیا ۔

؎خدا رسوا کرے گا تم کو میں اعزاز پاؤں گا
سنو اے منکرو! اب یہ کرامت آنے والی ہے

لیکھرام عبرت کا ایسا نشان بنا۔اُس کو چاہنے والے بھی اس کو بھول چکے ہیں۔ کسرِ صلیب کی کاوشوں میں جن عیسائی پادریوں سے مقابلے ہوئے حسرت ناک ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے منٹوں میں تحقیق کرکے ہر متلاشیٔ حق کو تاریخی دستاویزات کے ساتھ مقابل پر آنےوالے ہر ایک مخالف کی ہز یمت کے ثبوت مل جاتے ہیں اور جماعت کی طرف سے ایم ٹی اے اور جرائد سے ثبوت دکھائے جاتے ہیں وہ عبداللہ آتھم ہو، ہنری مارٹن کلارک ہو یا ڈاکٹر ایگز ینڈر ڈوئی اُس خدا کے شیر کے آگے کوئی نہ ٹھہر سکا۔ ڈاکٹر ڈوئی نے آپؑ کو مکھی مچھر جیسا کم حیثیت کہا تھا توحضرت اقدس ؑنے فرمایا؎

جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبۂ زارو نزار
ہے سرِ رہ پر مرے وہ خود کھڑا مولیٰ کریم
پس نہ بیٹھو میری رہ میں اَے شریرانِ دیار

ارض کابل پر جماعت کی مخالفانہ کارروائی میں احمدی خون بہا۔ حضرت اقدس فرماتے ہیں:
’’اے کابل کی زمین تو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا۔ اے بدقسمت زمین تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تو اس ظلم عظیم کی جگہ ہے‘‘۔

(تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ74)

قریبا ًسوا سو سال سے پھر اس زمین نے خیر کا منہ نہیں دیکھا۔

الٰہی وعدے صرف آپ ؑکی ذات سے وابستہ نہیں ہیں بلکہ قیامت تک آپؑ اور آپؑ کے سچے متعبین کے ساتھ اس کا تسلسل قائم رہے گا۔ ہماری آنکھوں کے سامنے کی بات ہے نوّے سالہ قادیانی مسئلے کا حل پیش کرنے والا نہ صرف خود پھانسی کے پھندے میں جھولتا نظر آتا ہے بلکہ اُس کی اولاد اور خاندان کا حشر بھی عبرت ناک ہوتا ہے۔ ایسی بات کرنا اچھا تو نہیں لگتا لیکن خدا تعا لیٰ نے اُس کو ایسی رسوائی سے دو چار کیا کہ مرنے کے بعد بھی نہیں چھوڑااور کئی طرح مزید رسوائی کے سامان ہو رہے ہیں ۔ ایک وہ جو امیر المؤمنین کہلانے کا شوقین تھا۔ زمانہ اس کا نام سننا گوارا نہیں کرتا۔ بہت سے متبادل ذلیل نام اس کو دئے گئے ہیں۔ مطالبہ ہو رہا ہے کہ آئین پاکستان سے اس کا نام اور شاہ فیصل مسجد کے صحن سے اُس کا جبڑا نکال دیا جائے ۔اس کا انجام دیکھیں کہ آسمان وزمین کا مالک بد خواہوں کی گستاخیاں پسند نہیں فرماتا ۔حق بین آنکھ دیکھ سکتی ہے کہ حق کی تائید کس کے ساتھ ہے ۔ خدا تعالیٰ کا غضب کبھی زلازل کی صورت میں ،کبھی سیلِ آب کی شکل میں ،کبھی ظالم انداز حکمرانی کے روپ میں انسان کو جگا رہا ہے کہ مخالفت سے باز آ جاؤ۔خدا سے کب تک جھگڑا کرو گے۔ اُس کے فر ستادہ کے دامن میں آ کر اس کی کشتی میں بیٹھ کر عافیت کے حصار میں پناہ لو ۔ اہانت سے باز آ ؤ۔خدا کے شیر سے دشمنی کا نتیجہ نا کامی و نامرادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔

حضرت اقدس ؑفرماتے ہیں : ؎

سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں
اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار
سنّت اللہ ہے کہ وہ خود فرق کو دکھلائے ہے
تا عیاں ہو کون پاک اور کون ہے مُردار خوار
مجھ کو پَردے میں نظر آتا ہے اِک میرا مُعین
تیغ کو کھینچے ہوئے اُس پر جو کرتا ہے وہ وار

ہر زمانے میں کچھ طالع آزما اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے لگائے ہوئے پودے کو جڑ سے اکھاڑنے کی ناکام کوشش میں ہیں ۔ جتنے ہتھکنڈے ممکن ہیں وہ استعمال ہورہے ہیں۔ زمانے میں بدنامی بھی ہورہی ہے مگر مخالفت نے اندھا، بہرااور گونگا بنا دیا ہے ۔ دوسروں کا انجام دیکھ کر بھی عبرت نہیں پکڑتے ۔کہاں ہیں احمدیت کو سرطان کہنے والے ؟کہاں ہیں احمدیوں کو کشکول پکڑانے والے ؟کہاں ہیں صرف پاکستان سے نہیں دنیا سےاحمدیت کا ملیا میٹ کرنے والے؟ کلیدی آسامیوں سے ہٹانے والے؟ مساجد مسمار کرنے والے؟ کتب و رسائل اور پریس پر پہرے بٹھانے والے؟ کیا انجام ہؤا احمدیوں کو شہید کرنے والوں کا؟ قیدو بند میں ڈالنے والوں کا؟ قبریں اکھاڑنے والوں کا؟ کیا قانونی ،معاشرتی اور معاشی پابندیوں میں جکڑنے والے خود در بدر نہیں ہو رہے ؟ اہانت کرنے والوں کی عزتوں کے جنازے گلی گلی سے اُٹھ رہے ہیں ۔ قرآن کا پیغام سمجھنے کی صلاحیت باقی ہے نہ حدیثوں کی پیش گوئیاں یاد ہیں ۔مسلسل ناکامیوں نے جھنجھلاہٹ میں ایسے قوانین بنوائے ہیں جن کا مذاق بن رہا ہے ۔

مخالفین کی انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر اور حکومتی سطح پر ہر کوشش کو اللہ پاک نے ناکام بنایا ۔کبھی کبھی ان کو ایسی کامیابی نصیب ہوتی ہے کہ کسی احمدی کو شہید کردیا، کوئی مسجد جلادی، کہیں کتابوں پر پابندی لگا دی، کوئی گھر لوٹ لیا۔ اسی کو یہ کم فہم کامیابی سمجھتے ہیں۔ مگر یہ اسلام احمدیت کے اعلیٰ مقاصد کو نہیں روک سکے۔ اس کو مولیٰ کریم کامیابی قرار دیتا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ احمدی اپنی آنکھوں سے تائیدو نصرت کے نشان نہ دیکھتے ہوں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ سالانہ 2020ء کے خطاب میں جماعت کی سالانہ ترقی کا جائزہ پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
دنیا بھر میں پاکستان کے علاوہ 288 نئی جماعتوں کا قیام۔ 1040 مقامات پر پہلی مرتبہ احمدیت کانفوذ۔ 217 نئی مساجد کی تعمیر جبکہ 93 بنی بنائی مساجد جماعت کو عطا ہوئیں۔ 97 مشن ہاؤسز اور تبلیغی سنٹرز کا اضافہ۔ 114 ممالک میں 41,111 وقارِ عمل کیے گئے جن سے 52 لاکھ 12 ہزار ڈالرز کی بچت ہوئی۔ مرکزی نمائندگان کے دورہ جات۔ رقیم پریس کے تحت آٹھ ممالک میں کام کرنے والے چھاپہ خانوں کی کارکردگی۔ لاکھوں کی تعداد میں کتب، پمفلٹس اور لیف لیٹس وغیرہ کی اشاعت۔

یسّرنا القرآن کی طرز پر خطِ منظور سے تیار کیے جانے والے خوبصورت قرآنِ کریم کی طباعت۔ 42 زبانوں میں 407 مختلف کتب، پمفلٹس وغیرہ کی 42لاکھ 56ہزار 659 کی تعداد میں طباعت۔ 29 زبانوں میں 94 تعلیمی و تربیتی اخبارات و رسائل کی کامیاب اشاعت۔ 24 زبانوں میں دو لاکھ کے قریب کتب کی دنیا کے مختلف ممالک کو ترسیل۔ مختلف ممالک میں 709 مختلف عناوین پر مشتمل کتب، فولڈرز اور پمفلٹس کی 63 لاکھ 87ہزار کی تعداد میں مفت تقسیم۔ قرآنِ کریم کے اطالوی زبان میں ترجمے کی نظرِ ثانی کی تکمیل۔ صحیح بخاری کی گیارہ جلدوں پر مبنی ترجمہ وشرح کی اشاعت۔ متعدد کتب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا انگریزی میں ترجمہ۔ 36 ممالک اور 8 ڈیسکس کی جانب سے 33 زبانوں میں 154کتب و فولڈرز کی تیاری۔

(ماخوذ از خطبہ جمعہ 7؍ اگست 2020ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 28اگست2020ء)

کامیابی تو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے اسلام احمدیت کے نام لکھ دی گئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’صادق تو ابتلاؤں کے وقت بھی ثابت قدم رہتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ آخر خدا ہمارا ہی حامی ہوگا ۔اور یہ عاجز اگرچہ ایسے کامل دوستوں کے وجود سے خداتعالیٰ کا شکر کرتا ہے لیکن باوجود اس کے یہ بھی ایمان ہے کہ اگرچہ ایک فرد بھی ساتھ نہ رہے اور سب چھوڑ چھاڑ کر اپنا اپنا راہ لیں تب بھی مجھے کچھ خوف نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ خداتعالیٰ میرے ساتھ ہے اگر میں پیسا جاؤں اور کچلا جاؤں اور ایک ذرّے سے بھی حقیر تر ہو جاؤں اور ہر ایک طرف سے ایذا اور گالی اور لعنت دیکھوں ۔تب بھی میں آخر فتح یاب ہوں گا۔ مجھ کو کوئی نہیں جانتا مگر وہ جو میرے ساتھ ہے میں ہرگز ضائع نہیں ہوسکتا دشمنوں کی کوششیں عبث ہیں اور حاسدوں کے منصوبے لاحاصل ہیں۔

اے نادانو اور اندھو مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا جو میں ضائع ہو جاؤں گا ۔کس سچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا۔ یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ ہیچ ہیں۔ میں کسی کی پرواہ نہیں رکھتا۔ میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا کبھی نہیں چھوڑے گا کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا کبھی نہیں ضائع کرے گا۔ دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا۔ میں اُس کے ساتھ وہ میرے ساتھ ہے کوئی چیز ہمارا پیوند توڑ نہیں سکتی اور مجھے اُس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اس کے دین کی عظمت ظاہر ہو اس کا جلال چمکے اور اس کا بول بالا ہو۔ کسی ابتلا سے اس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگرچہ ایک ابتلا نہیں کروڑ ابتلا ہو۔ ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے۔‘‘

(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد9 صفحہ23)

دیکھو خدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا
گمنام پا کے شُہرۂ عالَم بنا دیا
جو کچھ مری مراد تھی سب کچھ دِکھا دیا
میں اِک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا
دنیا کی نعمتوں سے کوئی بھی نہیں رہی
جو اُس نے مجھ کو اپنی عنایات سے نہ دی

(روحانی خزائن جلد21 براہین احمدیہ حِصّہ پنجم صفحہ اوّل نصرۃ الحق مطبوعہ 1908ء)

دعا ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحیح مقام و مرتبہ کو پہچانیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس نعمت کی نا شکری سے ہماری کوئی غفلت اہانت کے زمرے میں آ جائے۔ اے اللہ! ہمیں تو فیق دے کہ ہم جیسا کہ حق ہے تیرے مہدی و مسیحؑ سے محبت کریں، اطاعت کریں، تیری رضا اور مغفرت حاصل کر لیں۔ کیونکہ اس تصویر کا دوسرا رُخ ہے۔ وَ اِنِّی مُعِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِعَانَتَکَ۔ (مواھب الرحمان۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۳۴۷) یعنی میں اس کی اعانت کروں گا جو تیری اعانت کا ارادہ کرےگا۔ ہم احمد زماںؑ کے ہاتھ مضبوط کرنے والے بنیں۔ سلسلہ کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ اپنے ذاتی نمونے سے مجسم تبلیغ بن جائیں اور سب سے بڑھ کر دعا کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کی تا ئید و نصرت ہمارے شاملِ حال رہے ۔ اور دنیا اسلام کی آغوش میں آجائے آ مین ۔

حضرت اقدس علیہ السلام نے ہم سے ارشاد فرمایا ہے:
’’ہماری جماعت کو ایسا ہونا چاہیئے کہ نری لفّاظی پر نہ رہے بلکہ بیعت کے سچے منشاکو پُورا کرنے والی ہو۔ اندرونی تبدیلی کرنی چاہیئے۔ صرف مسائل سے تم خدا تعالےٰ کو خوش نہیں کر سکتے۔ اگر اندرونی تبدیلی نہیں تو تم میں اور تمہارے غیر میں کچھ فرق نہیں۔ اگر تم میں مکر، فریب، کسل اور سُستی پائی جائے تو تم دوسروں سے پہلے ہلاک کئے جاؤگے … اپنے نفس کی تبدیلی کے واسطے سعی کرو۔ نماز میں دعائیں مانگو۔ صدقات خیرات سے اور دوسرے ہر طرح کے حیلے سے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا (العنکبوت: 70)۔ میں شامل ہو جاؤ۔‘‘

(ملفوظات جلد8 صفحہ188۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

وہ جو احمدیت کو مٹانے کے لئے اپنی توانائیاں خرچ کر رہے ہیں آگاہ ہوں کہ سارے احمدی اپنی توانائیاں آپ کو راہِ حق پرلانے پر صرف کرتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ اَللّٰھُمَّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْن۔

(الشفاء لقاضی عیاض جلد اول صفحہ 73)

مخالفین کی ہزیمت سے بھی احمدیوں کے دل دکھتے ہیں کیونکہ امت رسول ؐ ہیں ۔ کاش حق کی تائیدو نصرت دیکھ کرہی یہ اُس طرف آجائیں جہاں زندہ خدا کی زندہ تجلیات نظر آرہی ہیں ۔ آمین اللّٰھم آمین

٭…٭…٭

(مرسلہ: امۃ الباری ناصر)

پچھلا پڑھیں

مالی قربانی اور وقف جدید

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 دسمبر 2020