• 26 اپریل, 2024

’’میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نورہوں‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔
’’وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہ کیا۔ مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں۔ اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔ بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔

دوسرا ذریعہ ہدایت کا جومسلمانوں کو دیا گیا ہے سنّت ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی کارروائیاں جو آپ نے قرآن شریف کے احکام کی تشریح کے لئے کر کے دکھلائیں مثلاً قرآن شریف میں بظاہر نظر پنجگانہ نمازوں کی رکعات معلوم نہیں ہوتیں کہ صبح کس قدر اور دوسرے وقتوں میں کس کس تعداد پر لیکن سنّت نے سب کچھ کھول دیا ہے یہ دھوکہ نہ لگے کہ سنّت اور حدیث ایک چیز ہے کیونکہ حدیث تو سو ڈیڑھ سَو برس کے بعد جمع کی گئی مگر سنّت کا قرآن شریف کے ساتھ ہی وجود تھامسلمانوں پر قرآن شریف کے بعد بڑا احسان سنّت کا ہے خدا اور رسول کی ذمہ داری کا فرض صرف دو امر تھے اوروہ یہ کہ خدا نے قرآن کو نازل کر کے مخلوقات کو بذریعہ اپنے قول کے اپنے منشاء سے اطلاع دی یہ تو خدا کے قانون کا فرض تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرض تھا کہ خدا کی کلام کو عملی طور پر دکھلا کر بخوبی لوگوں کو سمجھا دیں پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گفتنی باتیں کردنی کے پیرایہ میں دکھلا دیں اور اپنی سنّت یعنی عملی کارروائی سے معضلات اور مشکلات مسائل کو حل کر دیا یہ کہنا بے جا ہے کہ یہ حل کرنا حدیث پر موقوف تھا کیونکہ حدیث کے وجود سے پہلےاسلام زمین پر قائم ہو چکا تھا کیا جب تک حدیثیں جمع نہ ہوئی تھیں لوگ نمازنہ پڑھتے تھے یا زکوٰۃ نہ دیتے تھے یا حج نہ کرتے تھے یا حلال و حرام سے واقف نہ تھے۔ ہاں تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے کیونکہ بہت سےاسلام کے تاریخی اور اخلاقی اور فقہ کے امور کو حدیثیں کھول کر بیان کرتی ہیں اور نیز بڑا فائدہ حدیث کا یہ ہے کہ وہ قرآن کی خادم اور سنّت کی خادم ہے جن لوگوں کو ادب قرآن نہیں دیا گیا وہ اس موقع پر حدیث کو قاضی قرآن کہتے ہیں جیسا کہ یہودیوں نے اپنی حدیثوں کی نسبت کہا مگر ہم حدیث کو خادم قرآن اور خادم سنّت قرار دیتے ہیں اور ظاہر ہے کہ آقا کی شوکت خادموں کے ہونے سے بڑھتی ہے قرآن خدا کا قول ہے اور سنّت رسول اللہ کا فعل اور حدیث سنّت کے لئے ایک تائیدی گواہ ہے۔ نعوذ باللّٰہ یہ کہنا غلط ہے کہ حدیث قرآن پر قاضی ہے اگر قرآن پر کوئی قاضی ہے تو وہ خود قرآن ہے۔ حدیث جو ایک ظنی مرتبہ پر ہے قرآن کی ہرگز قاضی نہیں ہو سکتی صرف ثبوت مؤیّد کے رنگ میں ہے قرآن اور سنّت نے اصل کام سب کر دکھایا ہے اور حدیث صرف تائیدی گواہ ہے۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19ص 62 ،61)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ