• 25 اپریل, 2024

نماز جمعہ کی اہمیت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’پس جو لوگ جمعوں میں شمولیت کو سرسری لیتے ہیں ان کے لئے بڑا انذار ہے۔ دل پر مہر کر دینے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ان کو پھر نہ نیکیوں کی توفیق ملتی ہے نہ وہ اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے والے بنتے ہیں۔ پس ہر حدیث سے بڑا واضح ہے کہ ہر جمعہ ہی اہم ہے اور ہمیں اپنی پوری کوشش کر کے جمعہ میں شامل ہونا چاہئے۔ لیکن بعض مجبور ہیں جو نہیں آ سکتے۔ بعضوں کو خود اللہ تعالیٰ نے چھوٹ دی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں۔ وہ لوگ جو جمعوں سے مستثنیٰ ہیں ان کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غلام اور عورت اور بچہ اور مریض یہ سب مجبوری کے زُمرہ میں آتے ہیں۔

(سنن ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ باب الجمعۃ للمملوک والمرأۃ حدیث 1067)

ان پر ضروری نہیں کہ یہ جمعہ پڑھیں۔ ان کی استثناء ہے۔ ان کے لئے ضروری نہیں کہ جمعہ پہ آئیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت ہو گئی جو بعض عورتیں پوچھتی ہیں، مجھے خط بھی لکھتی ہیں، بلکہ شکایت کرتی ہیں کہ ہمیں بعض دفعہ انتظامیہ یہ کہتی ہے کہ جمعہ پر بچوں کا شور ہوتا ہے اس لئے بچوں والی عورتیں نہ آیا کریں۔ ان عورتوں اور بچوں کو تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ جہاں بچوں کو علیحدہ بٹھانے کا انتظام نہیں ہے وہاں بچوں والی عورتیں نہ آئیں۔ ویسے بھی عورتوں پر فرض نہیں ہے لیکن مردوں پر بہرحال واجب ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ سے بھی ایک دفعہ عورتوں کے جمعہ پڑھنے کے بارے میں مسئلہ پوچھا گیا تو آپؑ نے فرمایا کہ جو امر سنّت اور حدیث سے ثابت ہے اس سے زیادہ ہم اس کی تفصیل کیا کر سکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو جب مستثنیٰ کر دیا تو پھر یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہی رہا۔ (یعنی جمعہ کا)

(البدر 11 ستمبر 1903ء صفحہ366 جلد 2 نمبر 34)

پس مردوں پر تو بہرحال واجب ہے کہ اگر وہ مریض نہیں اور کوئی جائز مجبوری نہیں تو بہرحال جمعہ پر آنا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ نے جمعہ کی اہمیت کے بارے میں بتایا اور اسی اہمیت کے پیش نظر آپؑ نے اپنے زمانے میں 1895-96ء میں گورنمنٹ میں ایک تحریک کرنی چاہی کہ ہندوستان میں جمعہ ادا کرنے کے لئے سرکاری دفتروں میں دو گھنٹے کی رخصت ہوا کرے اور مسلمانوں سے دستخط لینے شروع کر دئیے۔ لیکن اس وقت مولوی محمد حسین صاحب نے ایک اشتہار دیا کہ یہ کام تو اچھا ہے لیکن مرزا صاحب کے ہاتھ سے یہ کام نہیں ہونا چاہئے، ہم خود اس کو سرانجام دیں گے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ ہمیں تو کوئی نام و نمود کا شوق نہیں ہے۔ آپ خود کر لیں۔ اور پھر آپ نے کارروائی بند کر دی۔ لیکن پھر نہ مولوی محمد حسین صاحب کو، نہ کسی دوسرے مسلمان عالم کو یہ توفیق ہوئی کہ اس پر کارروائی ہو اور وہ کارروائی آگے نہیں چلی۔

پس ہم جو حضرت مسیح موعودؑ کو ماننے کا دعویٰ کرنے والے ہیں ہمارے ہر عمل اور قول سے اسلام کی تعلیم کی حقیقت ظاہر ہونی چاہئے۔ ہمیں یہ عہد کرنا چاہئے کہ یہ رمضان جن برکات کو لے کر آیا تھا اور جو برکات چھوڑ کر جا رہا ہے اسے ہم نے اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہے۔ ان شاء اللہ۔ ہم نے اسلام کی عملی تصویر صرف ایک مہینہ کے لئے نہیں بننا بلکہ زمانے کے امام سے کئے ہوئے عہد کو مستقل پورا کرنا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ مورخہ یکم جولائی 2016ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ