• 20 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کے مخلص صحابی حضرت چودھری محمد حسین باجوہ

محبت و عقیدت رکھنے والے حضرت مسیح موعودؑ کے مخلص صحابی حضرت چودھری محمد حسین باجوہ سیالکوٹ

حضرت چودھری محمد حسین صاحب رضی اللہ عنہ ولد مکرم چودھری صوبے خان صاحب قوم باجوہ تلونڈی عنایت خان ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے، آپؓ نے 1897ء میں قبول احمدیت کی توفیق پائی۔ آپ اپنے خاندان میں سب سے پہلے احمدیت قبول کرنے والے تھے۔ آپؓ احمدیت کے مجسم نمونہ، چلتے پھرتے فرشتہ، بڑے عبادت گذار اور رؤیا صادقہ سے مشرف تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے بے حد محبت و عقیدت رکھنے والے اور نہایت اخلاص کے ساتھ سلسلہ احمدیہ کی خدمت کرنے والے تھے۔ آپ کی مخلصانہ قربانیوں کا کچھ تذکرہ جماعتی لٹریچر میں محفوظ ہے۔ اخبار الحکم ایک جگہ ’’جزاک اللّٰہ احسن الجزاء‘‘ کے تحت خبر دیتے ہوئے لکھتا ہے:

’’سلسلہ عالیہ کی ضروریات پر جو چٹھی حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے الحکم میں شائع کی ہے وہ ان شاء اللہ بے اثر نہ رہے گی چنانچہ چودھری محمد حسین صاحب گرداور قانون گو چونڈہ نے تحریر کیا ہے کہ میری تنخواہ 20 ماہوار ہے مگر میں نے عزم اور عہد کر لیا ہے کہ (دس روپے) سلسلہ عالیہ کی ضروریات کے لیے الگ کرتا رہوں۔ جزاک اللہ احسن الجزاء‘‘

(الحکم 31مارچ 1901ء)

وقت کی قربانی کا بھی مثالی نمونہ پیش کیا، ایک مرتبہ آپ نے اپنی ملازمت سے چھ ماہ کی رخصت لے کر جماعتی کاموں میں حصہ لیا چنانچہ اخبار بدر آپ کے اس اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:

’’چودھری محمد حسین صاحب گرداور قانون گوئی سکنہ سیالکوٹ نے چھ ماہ کی رخصت حاصل کی ہوئی ہے۔ آپ کو حضرت اقدسؑ سے بڑا اخلاص ہے، یوں تو خدا کے فضل سے ضلع سیالکوٹ کی ساری جماعت دینی خدمات کی بجا آوری میں سبقت لے جانے میں مشہور ہے مگر منجملہ ان کے چودھری صاحب موصوف کو بھی اس بات کا بہت دلی جوش رہتا ہے کہ کوئی دینی خدمت ان سے ہو جائے چنانچہ آپ کی بڑی خواہش یہ تھی کہ یہ رخصت کے ایام ضائع نہ ہو جاویں، ان میں کوئی خدمت ہو جائے، اس وجہ سے انہوں نے اول تو ضلع سیالکوٹ میں بغرض فراہمی چندہ و تبلیغ سلسلہ عالیہ دورہ کیا اور باقی وقت کے لیے صدر انجمن احمدیہ نے ان کی دلی خواہش کے مطابق اجازت دی ہے کہ وہ دیگر اضلاع میں بھی بغرض تبلیغ و فراہمی چندہ دورہ کریںچنانچہ چودھری صاحب نے بمعہ ڈاکٹر احمد حسین صاحب ضلع لائل پور و سرگودھا کا دورہ شروع کیا ہے، اسی طرح وہ ان شاء اللہ تعالیٰ دیگر اضلاع کا دورہ بھی فرمائیں گے ….‘‘

(بدر 30 جولائی 1908ء)

فروری 1922ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مسجد برلن جرمنی کی تعمیر کے لیے خواتین کو مالی قربانی کی تحریک فرمائی۔ جس پر لبیک کہتے ہوئے جماعت احمدیہ کی مستورات نے حیرت انگیز اخلاص اور قربانی کا مظاہرہ کیا، حضورؓ نے یکم مارچ 1923ء کو الفضل میں ایک مضمون ’’مسجد برلن۔ مخلص بہنوں کے اخلاص کا نمونہ‘‘ میں احمدی خواتین کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے فرمایا:

’’….. دوسری مثال اسی قسم کے اخلاص کی چودھری محمد حسین صاحب صدر قانون گو سیالکوٹ کے خاندان کی ہے۔ ان کی بیوی، بھاوج، بہو نے اپنے زیورات قریبًا سب کے سب اس چندہ میں دے دیے جن کی قیمت اندازًا دو ہزار روپیہ تک پہنچتی ہے۔‘‘

(الفضل یکم مارچ 1923ء)

آپؓ نے بطور انسپکٹر وصایا ضلع سیالکوٹ بھی خدمت کی توفیق پائی، سیکرٹری مجلس مقبرہ بہشتی ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ضلع سیالکوٹ کا ایک وسیع علاقہ ہے، چوہدری محمد حسین پنشنر اس علاقہ میں بطور آنریری انسپکٹر وصایا کام کر رہے ہیں، باوجود ضعیف العمری کے کام نہایت مستعدی اور سرگرمی سے انجام دے رہے ہیں چنانچہ ماہ جون 1931ء میں انہوں نے مختلف دیہات کا دورہ کر کے 76 موصی صاحبان کی تصدیق حیات کی اور دوستوں میں تحریک کر کے 5نئے موصی بنائے، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے اور خدمت دین بجا لانے کی بیش از بیش توفیق بخشے۔‘‘

(الفضل 28جولائی 1931ء)

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

’’چودھری صاحب موصوف بڑے اخلاص اور تن دہی سے سلسلہ کے کام سر انجام دے رہے ہیں، اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے، آمین۔‘‘

(الفضل 4اکتوبر 1931ء)

آپؓ ابتدائی موصیان میں سے تھے، وصیت نمبر 7 تھا اور 1/3 حصہ کی وصیت کی توفیق پائی۔ آپ نے یکم مارچ 1933ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ اخبار الفضل نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا:

’’نہایت ہی رنج اور افسوس کے ساتھ لکھا جاتا ہے کہ جناب چودھری محمد حسین صاحب امیر جماعت احمدیہ سیالکوٹ والد چودھری محمد لطیف صاحب سب جج جھجر جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیمی اور مخلص صحابہ میں سے تھے، ایک طویل علالت کے بعد یکم مارچ منٹگمری میں وفات پاگئے۔ نعش بذریعہ لاری قادیان لائی گئی، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک بڑے مجمع کے ساتھ جنازہ پڑھایا اور مرحوم مقبرہ بہشتی میں دفن کیے گئے۔ احباب دعائے مغفرت کریں۔ ہمیں اس صدمہ میں جناب چودھری صاحب مرحوم کے تمام خاندان سے دلی ہمدردی ہے۔‘‘

(الفضل 5مارچ 1933ء)

آپ کی وفات پر جماعت احمدیہ سیالکوٹ نے تعزیتی قرارداد میں لکھا:

’’….. چودھری صاحب موصوف نے اپنی بے نظیر کی قربانیوں اور اپنے تقویٰ طہارت اور پاکیزہ اخلاق کی جو یادگار جماعت احمدیہ سیالکوٹ میں چھوڑی ہے، وہ ایسی ہے کہ ان شاء اللہ العزیز موجودہ جماعت اور آنے والی نسلیں ہمیشہ اس سے فائدہ اٹھایا کریں گی…..‘‘

(الفضل 14مارچ 1933ء صفحہ)

مکرم ناظر صاحب دعوت و تبلیغ قادیان نے لکھا:
’’مرحوم کی بار بار تحریکوں کا ہی نتیجہ ہے کہ نظارت دعوت و تبلیغ دو ورقہ تبلیغی شائع کرنے کے قابل ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ ان کی اس مبارک تحریک کو ابدالآباد تک زندہ رکھے، انہوں نے ندائے ایمان کی تحریک میں یکصد روپیہ بطور اعانت اپنی وفات سے پہلے بھیجا اور جبکہ بستر سے اٹھنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے، اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ سے نظام تبلیغی کو مضبوط کرنے کے لیے نہایت کار آمد تجاویز لکھیں اور مجھے چودھری محمد شریف صاحب بی اے ایل ایل بی منٹگمری نے جو ان کے بھتیجے ہیں، بتلایا کہ ایک ایک منٹ کے بعد بوجہ کمزوری ٹھہر ٹھہر کر انھوں نے وہ خط مکمل کیا ۔‘‘

(الفضل 19 اکتوبر 1933ء)

آپ کی اہلیہ محترمہ کا نام حضرت سردار بیگم تھا۔ وہ بھی صحابیہ تھیں اور آپ ہی کی طرح سلسلہ احمدیہ سے نہایت اخلاص و وفا کا تعلق رکھنے والی تھیں۔ ان کی بیان کردہ روایات رجسٹر روایات صحابہؓ نمبر 10 صفحہ 207-214 پر موجود ہیں۔ انہوں نے 21 ستمبر 1970ء کو تقریبًا 95 سال کی عمر میں وفات پائی اور بوجہ موصیہ (وصیت نمبر 86) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔ آپ کی اولاد:

(1) محترم محمد لطیف باجوہ صاحب (2) محترم چودھری محمد عظیم باجوہ صاحب (وفات 25 نومبر 1999ء بہشتی مقبرہ ربوہ) (3) محترم چودھری عزیز احمد باجوہ صاحب (وفات 11جولائی 1993ء بہشتی مقبرہ ربوہ) (4) محترم محمد عبد اللہ صاحب (5) محترم محمد رحمت اللہ باجوہ صاحب کراچی (وفات 24 مئی 2004ء بہشتی مقبرہ ربوہ) (6) محترمہ رسول بی بی زوجہ چوہدری عبدالحمید صاحب لویری والا ضلع گوجرانوالہ (7) محترمہ رشیدہ بیگم زوجہ چوہدری بشیر احمد باجوہ موضع کھیوہ باجوہ ضلع سیالکوٹ

(حضرت نواب محمد الدین صاحب جنہوں نے ربوہ کی زمین کی خریداری میں نہایت قابل قدر خدمات سر انجام دیں، آپ کے حقیقی بھائی تھے۔)


(غلام مصباح بلوچ۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 فروری 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ