• 27 اپریل, 2024

تقوٰی شعار لوگوں کی جماعت کا قیام (قسط دوم)

تقوٰی شعار لوگوں کی جماعت کا قیام
تقویٰ اللہ کی برکات
قسط نمبر دوم و آخر

کسی بھی بات کو اس وقت تک اختیار کرنا مشکل ہوتا ہے جب تک اس کے فوائد وبرکات سے آگاہی نہ ہو۔ایک اچھے رہنما کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ کسی امر کا حکم دینے سے پہلے اس معاملہ کے حُسن وقبح سے اپنے متبعین کو اچھی طرح آگاہ کر دیتا ہے۔

متقی پر خدا کا ہاتھ

چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود نے بھی جب اپنے ماننے والوں کو تقوٰی کی تلقین کی اور تقوٰی شعار لوگوں کی جماعت قائم کرنی چاہی تو تقوٰی اختیار کرنے کی برکات اور تقوٰی اختیار نہ کرنے کے نقصانات کو خوب کھول کر اپنی جماعت کے سامنے رکھ دیا۔تا ہر ایک علیٰ وجہ البصیرت اس پر عمل کر سکے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’جو خدا کا متقی، اور اس کی نظر میں متقی بنتا ہے۔ اس کو خدا تعالیٰ ہر ایک قسم کی تنگی سے نکالتا اور ایسی طرز سے رزق دیتا ہے کہ اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ کہاں سے اور کیونکر آتا ہے۔خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ برحق ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کا پورا کرنے والا ہے، اور بڑا رحیم و کریم ہے۔ جو خدا تعالیٰ کا بنتا ہے وہ اسے ہر ذلت سے نجات دیتا اورخود اس کا حافظ و ناصر بن جاتا ہے۔ مگر وہ جو ایک طرف دعوٰی اتّقاء کرتے ہیں اور دوسری طرف شاکی ہوتے ہیں کہ ہمیں وہ برکات نہیں ملے۔۔۔ اصل یہ ہے کہ اُن کا تقوٰی یا ان کی اصلاح اس حد تک نہیں ہوتی کہ خدا تعالیٰ کی نظر میں قابلِ وقعت ہو یا وہ خدا کے متقی نہیں ہوتے۔ لوگوں کے متقی اور ریاء کار انسان ہوتے ہیں۔ سو ان پر بجائے رحمت اور برکت کے لعنت کی مار ہوتی ہے، جس سے سرگردان اور مشکلاتِ دنیا میں مبتلارہتے ہیں۔خدا تعالیٰ متقی کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ وہ اپنے وعدوں کا سچا اور پورا ہے۔

حضرت داؤد علیہ ا لسلام زبور میں فرماتے ہیں کہ میں بچہ تھا، جوان ہوا۔ جوانی سے اب تک بڑہاپاآیا مگر میں نے کبھی کسی متقی اور خدا ترس کو بھیک مانگتے نہ دیکھا۔ اور نہ اس کی اولاد کو در بدر دھکے کھاتا اور ٹکڑے مانگتے دیکھا۔ (زبور : باب 37آیت 25۔ ناقل) یہ بالکل سچ اور راست ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا اور ان کو دوسرے کے آگے ہاتھ پسارنے سے محفوط رکھتا ہے۔بھلا اتنے جو انبیاء ہوئے ہیں، اولیاء گزرے ہیں کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ بھیک مانگا کرتے تھے؟ یا ان کی اولاد پر یہ مصیبت پڑی ہو کہ وہ در بدر خاک بسر ٹکڑے کے واسطے پھرتے ہوں؟ ہر گز نہیں۔ میراتو اعتقاد ہے کہ اگر ایک آدمی با خدا اور سچا متقی ہو تو اس کی سات پشت تک بھی خدا رحمت اور برکت کا ہاتھ رکھتا اور ان کی خود حفاظت فرماتا ہے۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودجلد چہارم ص404)

متقی بچائے جاتے ہیں

’’اگر بار بار اللہ کریم کا رحم چاہتے ہو تو تقوٰی اختیار کرو اور وہ سب باتیں جو خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہیں، چھوڑدو۔ جب تک خوفِ الٰہی کی حالت نہ ہو تب تک حقیقی تقوٰی حاصل نہیں ہو سکتا۔ کوشش کرو کہ متقی بن جاؤ۔ جب وہ لوگ ہلاک ہونے لگتے ہیں جو تقوٰی اختیار نہیں کرتے تب وہ لوگ بچا لئے جاتے ہیں جو متقی ہوتے ہیں۔ایسے وقت ان کی نافرمانی انہیں ہلاک کر دیتی ہے اور ان کا تقوٰی انہیں بچا لیتا ہے۔ انسان اپنی چالاکیوں، شرارتوں اور غداریوں کے ساتھ اگر بچنا چاہے تو ہرگز نہیں بچ سکتا۔کوئی انسان بھی نہ اپنی جان کی حفاظت کر سکتا ہے نہ مال و اولاد کی حفاظت کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اور کامیابی حاصل کر سکتا ہے، جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو۔‘‘

(ملفوظات جلدپنجم ص280)

متقی کو کوئی تباہ نہیں کر سکتا

سیدنا حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ بڑے درد، محبت اور تکرار کے ساتھ اور مثالیں دے کراپنے متبعین کو تقوٰی کی طرف دعوت دیتے رہے تا وہ بلاءِ دنیا سے مولیٰ کریم کی حفاظت میں آجائیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’اے عزیزو! تم تھوڑے دنوں کے لئے دنیا میں آئے ہو اور وہ بھی بہت کچھ گزر چکی۔ سو اپنے مولیٰ کو ناراض مت کروایک انسانی گورنمنٹ جو تم سے زبردست ہو، اگر تم سے ناراض ہو تو وہ تمہیں تباہ کر سکتی ہے۔ پس تم سوچ لو کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے کیونکرتم بچ سکتے ہو۔ اگر تم خدا کی آنکھوں کے آگے متقی ٹھہرجاؤ تو تمہیں کوئی بھی تباہ نہیں کر سکتا۔ اور وہ خود تمہاری حفاظت کرے گا اور دشمن جو تمہاری جان کے درپے ہے تم پر قابو نہیں پائے گا، ورنہ تمہاری جان کا کوئی حافظ نہیں۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 ص71)

اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے حضرت مسیح موعود کے ہاتھوں آج سے ایک سو بتیس(132) سال قبل شروع ہونے والی تقوٰی شعار لوگوں کی جماعت ہرقسم کی رکاوٹوں اور مخالفتوں،دھمکیوں اور حملوں کے باوجود، اب دنیا کے دو سو بارہ (212) ملکوں میں مضبوطی کے ساتھ قائم ہو چکی ہے۔ہر ملک اور ہر قوم کی پیاسی روحیں فوج در فوج اورکھچا کھچ اپنی سیری اور سیرابی کے لئے اس میں داخل ہو رہی ہیں۔گویا شدید آندھیوں اور طوفانوں کو چیرتے ہوئے یہ جماعت آگے ہی آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔جس کی مستقل اور مسلسل خدماتِ دینیہ کی دوسری مذہبی جماعتوں میں مثال نہیں ملتی۔ اخوت وبھائی چارے کا ایک بینظیر عالمی معاشرہ قائم ہو چکا ہے۔دینی سیرت کے ٹھیٹھ نمونے اس جماعت میں وافر اور ہر سونظر آتے ہیں۔الٰہی جماعتوں کی صداقت کا یہ بھی ایک بیّن ثبوت ہے۔

؎اے ہوش وعقل والو! یہ عبرت کا ہے مقام
چالاکیاں تو ہیچ ہیں، تقوٰی سے ہوویں کام

اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے موافق حضرت اقدس مسیح موعود کواس مقصد میں بھی کامیاب فرمایاجس کی گواہیاں اور زندہ نمونے دنیا کے دوسو ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔لیکن اس وقت خاکسار صرف ان لوگوں کی گواہی کو درج کرے گاجنہیں احمدیت سے باہر رہ کراس حقیقت کا برملا اعتراف کرنا پڑا۔

٭ چنانچہ علامہ سر ڈاکٹر محمد اقبال صاحب نے اقرار کیا:
’’پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اُس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے جسے فرقۂ قادیانی کہتے ہیں۔‘‘

(ملتِ بیضاء پر ایک عمرانی نظر ص18)

٭ نیز علامہ نیاز فتحپوری صاحب مشہور شاعر،ادیب اور ایڈیٹر فرماتے ہیں:
’’اس میں کلام نہیں کہ انہوں (حضرت بانی سلسلہ احمدیہ) نے یقینا اخلاقِ اسلامی کو دوبارہ زندہ کیا اور ایک ایسی جماعت پیدا کر کے دکھا دی جس کی زندگی کو ہم یقینا اسوۂ نبویؐ کا پرتو کہہ سکتے ہیں۔‘‘

(رسالہ نگار لکھنؤ، ماہ ِنومبر1959)

نیز ایک سال بعد پھر لکھا کہ ’’اگر میں احمدی جماعت کو پسند کرتا ہوں تو صرف اس لئے کہ اس نے اپنی منزل پا لی ہے۔ اور یہ منزل وہی ہے جس کی بانیٔ اسلام نے نشاندہی کی تھی ۔۔۔ یہی وہ جماعت ہے جس نے محض اخلاق سے ہزاروں دشمنوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔اور ان سے بھی قادیان کو ’’دارالامان‘‘ تسلیم کرا لیا۔‘‘

(رسالہ نگار لکھنؤ، ماہ ِستمبر1960)

٭ اب ایک بالکل غیر جانب دارقلمکار جناب دیوان سنگھ مفتون صاحب ایڈیٹر ’’ریاست‘‘ دہلی کی گواہی سنیئے:
’’ہم کہہ سکتے ہیں کہ جہاں تک(دینی) شعار کا تعلق ہے،ایک معمولی احمدی کا دوسرے مسلمانوں کا بڑے سے بڑا مذہبی لیڈر بھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ احمدی ہونے کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ نماز، روزہ، زکٰوۃ اور دوسرے (دینی) احکام کا عملی طور پر پابند ہو۔چنانچہ ایڈیٹر ’’ریاست‘‘ کو اپنی زندگی میں سینکڑوں احمدیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا، اور ان سینکڑوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں دیکھا جو کہ (دینی) شعار کا پابند اور دیانتدار نہ ہو۔ اور ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ایک احمدی کے لئے بددیانت ہونا ممکن ہی نہیں کیونکہ یہ لوگ خدا سے ڈرتے ہی نہیں بلکہ خدا سے بدکتے ہیں۔‘‘

(ریاست دہلی 31۔ نومبر1952)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت اقدس مسیح موعود کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے نتیجہ میں وہ مقصد بھی عطا فرما دے جس کے قیام کے لئے آپ مبعوث فرمائے گئے تھے، یعنی تقوٰی و پارسائی ہمارے ہر قول و فعل سے چھلکے۔ ہم خدا کے ہاتھ اور اس کی گود میں پرورش پا رہے ہوں اور اسی کی رضا ہمارے ہر قول و فعل کا مبتداء ومنتہا ہو۔ اٰمین

(ازابن الشریف)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 فروری 2021