• 5 مئی, 2024

واقعہ شہادت مہدی آباد برکینا فاسو

برکینا فاسو کے ریجن ڈوری کی ایک جماعت مہدی آباد میں 11؍جنوری کو نماز عشاء کے وقت 9 احمدی بزرگ افراد کو مسجد کے صحن میں باقی نمازیوں کے سامنے اسلام احمدیت سے انکار نہ کرنے کی بنا پر ایک ایک کو گولیا ں مار کر شہید کر دیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

11؍جنوری 2023ء کو نماز عشاء کے وقت چار موٹر سائیکلوں پر سوار آٹھ مسلح افراد احمدیہ مسجد میں آئے۔ یہ مسلح افراد احمدیہ مسجد میں آنے سے پہلے قریب واقع وہابیہ مسجد میں موجود تھے، جہاں انہوں نے مغرب سے عشاء تک کا وقت گزارا لیکن وہاں کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔

جب یہ دہشت گرد احمدیہ مسجدمیں آئے تو اس وقت مسجد میں عشاء کی اذان ہو رہی تھی اور شام 6 بج کر 45 منٹ کا وقت تھا۔ مسجد میں نما ز عشاء کا وقت 7 بجے تھا۔اس وقت تک کچھ نمازی مسجد میں آ چکے تھے اور باقی ابھی آرہے تھے۔اذان ختم ہونے کے بعد دہشت گردوں نے مؤذن سے اعلان کروایا کہ احباب جلد ی مسجد میں آجائیں کچھ لوگ آئے ہیں انہوں نے بات کرنی ہے۔

دہشت گردوں نے پوچھا کہ یہاں امام مسجد کون ہے؟ امام الحاج ابراہیم بی دیگا صاحب (Boureima Bidiga) نے بتایا کہ وہ امام مسجد ہیں۔ انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ ان کے بعد نائب امام کون ہے۔ آگ عمر ا ٓگ عبد الرحمن صاحب نے بتایا کہ وہ نائب امام ہیں۔ جب نماز کا وقت ہو گیا تو امام ابراہیم صاحب نے دہشت گروں سے کہا کہ ہمیں نماز پڑھ لینے دیں۔ لیکن انہوں نے نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی۔

مسلح افراد نے امام صاحب سے جماعت احمدیہ کے عقائد کے متعلق کافی سوالات کئے جن کے جوابات امام صاحب نے تسلی اور بہادری سے دیے۔ امام صاحب نے بتایا کہ ہم لوگ مسلمان ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والے ہیں۔انہوں نے پوچھا کہ آپ لوگوں کا تعلق کس فرقے سے ہے؟ امام صاحب نے بتایا کہ ہمارا تعلق احمدیہ مسلم جماعت سےہے۔ پھر پوچھا گیا کہ آپ کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسی ؑ زندہ ہیں کہ فوت ہو گئے ہیں؟ امام صاحب نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔ دہشت گردوں نے کہا کہ نہیں، عیسی ؑ زندہ آسمان پر موجود ہیں اور وہ واپس آکر دجال کو قتل کریں گے اور مسلمانوں کے مسائل حل کریں گے۔ پھر پوچھا کہ امام مہدی کون ہے؟ امام صاحب نے کہا کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام امام مہدی اور مسیح موعود کے طور پر آئے ہیں۔ آخر پر مسلح افراد نے کہا کہ احمدی مسلمان نہیں بلکہ پکے کافر ہیں۔

اس کے بعد وہ لوگ امام صاحب کو مسجد کے ساتھ ملحق احمدیہ سلائی سنٹر میں لے گئے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کرام کی تصاویر لگی ہوئی تھیں وہ تصاویر لے کر امام صاحب کے ساتھ واپس مسجد میں آگئے اور پھر ان تصاویر کے حوالے سے امام ابراہیم صاحب سےسوالات کئے۔ امام صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کرام کے نام بتائے اور ایک ایک تصویر کا تعارف کروایا اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بطور امام مہدی اور مسیح آئے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ مرزا غلام احمد (علیہ السلام) کا دعویٰ نبوت جھوٹا ہے اور وہ سچے نبی نہیں ہیں۔ نعوذ باللّٰہ

پھردہشت گردوں نے مسجد میں موجود نمازیوں میں سے بچوں، نوجوانوں اور بزرگوں کے الگ الگ گروپ بنائے۔ اس وقت مسجد بچوں، نوجوانوں بزرگوں اور خواتین سمیت ساٹھ سے ستر افراد موجود تھے۔ پردے کے دوسری طرف دس سے بارہ لجنہ اس وقت نماز کے لئے موجود تھیں۔

عمر کے لحاظ سے گروپس بنانے کے بعد دہشت گردوں نے بڑی عمر کے افراد سے کہا کہ وہ مسجد کے صحن میں آجائیں۔ اس وقت کل دس انصار مسجد میں موجود تھے جن میں سے ایک معذور بھی تھے۔ جب وہ معذور دوست بھی باقی انصار بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہو کر باہر جانے لگے تو انہیں یہ کہہ کر بٹھا دیا گیا تم کسی کام کے نہیں۔ بیٹھے رہو۔ باقی نو انصار کو مسجد کے صحن میں لے آئے۔

مسجد کے صحن میں کھڑا کر کے امام ابراہیم بی دیگا صاحب (Boureima Bidiga) صاحب سے کہا کہ اگر وہ احمدیت سے انکار کر دیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ امام صاحب نے جواب دیا کہ میرا سر قلم کر نا ہے تو کر دیں لیکن میں احمدیت نہیں چھوڑ سکتا۔ جس صداقت کو میں نے پا لیا ہے اس سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ ایمان کے مقابلہ میں جان کی کیاحیثیت ہے۔ دہشت گردوں نے امام صاحب کی گردن پر بڑا چاقو رکھا اور ان کو لٹا کر ذبح کرنا چاہا لیکن امام صاحب نے مزاحمت کی اور کہا میں لیٹ کرمرنے کی نسبت کھڑے رہتے ہوئے جان دینا پسند کروں گا۔ اس پر انہوں نے امام صاحب کو گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ سب سے پہلی شہادت اما م الحاج ابراہیم بی دیگا صاحب کی ہوئی۔

امام صاحب کو بےدردی کے ساتھ شہید کرنے کے بعد دہشت گردوں نے خیال کیا کہ باقی لوگ خوف زدہ ہو کر اپنے ایمان سے پھر جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نےاگلے احمدی بزرگ سے کہا کہ احمدیت سے انکار کرنا ہے یا تمہارا بھی وہی حشر کریں جو تمہارے امام کا کیا ہے۔اس بزرگ نے دلیری اور بہادری سے کہا کہ احمدیت سے انکار ممکن نہیں۔ جس راہ پر چل کر ہمارے امام نے جان دی ہے ہم بھی اسی راہ پر چلیں گے۔اس پر انہیں بھی سر میں گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔پیچھے رہ جانے والے افراد سے بھی فرداً فرداً یہی مطالبہ کیا گیا کہ امام مہدی کا انکار کر دیں اور احمدیت چھوڑ دیں تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا او رزندہ چھوڑ دیا جائے گا۔ سب احمدی بزرگوں نے پہاڑوں جیسی استقامت کا مظاہر ہ کرتے ہوئےجرأت اور بہادری سے شہادت کو گلے لگانا قبول کر لیا۔ کسی ایک نے بھی ذرا سی کمزوری دکھائی نہ ہی احمدیت سے انکار کیا۔ ایک کے بعد ایک شہید گرتا رہا لیکن کسی کا ایمان متزلزل نہیں ہوا سب نے ایک دوسرے سے بڑھ کر یقین محکم اور دلیری کا مظاہرہ کیااور ایمان کا عَلم بلند رکھتے ہوئے اللہ کے حضور اپنی جانیں پیش کر دیں۔ ہر شہید کو کم و بیش تین گولیاں ماری گئیں۔ ان (9)شہداء میں دو جڑواں بھائی بھی شامل ہیں۔

جب آٹھ افراد کو شہید کیا جا چکا تو آخر پر آگ عمر آگ عبد الرحمن صاحب (عمر چوالیس سال) رہ گئے۔ آپ عمر کے لحاظ سے سب شہداء سے چھوٹے تھے۔ دہشت گردوں نے ان سے پوچھا کہ تم جوان ہو۔ احمدیت سے انکار کر کےاپنی جان بچا سکتے ہو۔ تو انہوں نے شجاعت سے ہمیشہ باقی رہنے والا جواب دیا کہ جس راہ حق پر چل کر میرے بزرگوں نے قربانی دی ہے۔ میں بھی اپنے امام اور بزرگوں کے نقش قدم پر چل کر ایمان کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیارہوں۔اس پر انہیں بہت بے دردی سے شہید کر دیا گیا۔

دہشت گردوں کے مسجد میں آنے سے لے کر، سوال و جواب کرنے، عقائد پر تفصیلی بات کرنے اور ساری کارروائی کرکے مسجد سے نکلنے تک کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے کا وقت بنتا ہے۔ اس دوران میں بچے اور باقی افراد جس کرب اور تکلیف سے گزرے ہوں گے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مسجد سے نکل کر دہشت گرد فوری طور پر فرار نہیں ہوئے بلکہ کافی دیر مہدی آبا دمیں ہی رہے۔

مسلح افراد نے مسجد میں موجود باقی لوگوں کو بھی دھمکی دی کہ آپ سب کے لئے بہتر ہوگا کہ احمدیت چھوڑ دیں۔ ہم پھر آئیں گے اور اگر آپ لوگوں نے احمدیت ترک نہ کی یا کسی نے یہ مسجد دوبارہ کھولنے کی کوشش کی تو سب کو ختم کر دیا جائے گا۔

تدفین شہداء

دہشت گردوں نے مسجد میں ڈیڑھ گھنٹہ گزار کر اس قدر خوف کی فضا پید اکی تھی کہ جس مقام پر شہادتیں ہوئیں، شہداء کی لاشیں رات بھر اسی جگہ پڑی رہیں کیونکہ خدشہ تھا کہ دہشت گرد گاؤں سے باہر نہیں گئے اور اگر کوئی لاشیں اٹھانے گیا تو اسے بھی مار دیا جائے گا۔ قریبی آرمی کیمپ میں اس واقعہ کی اطلاع دی گئی لیکن وہاں سے کوئی بھی نہیں آیا۔ نہ ہی سیکورٹی اداروں کا کوئی فرد صبح تک موقع پر پہنچا۔ شہداء کی تدفین 12؍جنوری کو صبح 10 بجے مہدی آبا دمیں کر دی گئی۔

اللہ تعالیٰ تمام احمدیوں کی حفاظت فرمائے اور ہر شر سے محفوظ رکھے۔ ان قربانیوں کے غیرمعمولی ثمرات ظاہر ہوتے چلے جائیں اور افراد جماعت احمدیہ برکینا فاسو اپنے ان شہداء کی قربانیوں کی نیک یادوں کو قائم رکھنے والے اور جس مقصد کے لئے یہ قربانیاں ہوئی ہیں اس مقصد کو پانے والے بنیں۔ آمین

(مولانا محمود ناصر ثاقب۔ امیر جماعت برکینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

سیدنا مصلح موعودؓ

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی