• 27 اپریل, 2024

ارکانِ نماز کی حقیقت

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’ارکانِ نماز دراصل روحانی نشست وبرخاست کے دو حصے ہیں۔ انسان کو خداتعالیٰ کے رُوبرو کھڑا ہونا پڑتا ہے اور قیام بھی آداب خدمت گاراں میں سے ہے۔ رکوع جو دوسرا حصہ ہے بتلاتا ہے کہ گویا تیاری ہے کہ وہ تعمیل حکم کو کس قدر گردن جھکاتا ہے اور سجدہ کمالِ آداب اور کمالِ تذلل اور نیستی کو جو عبادت کا مقصود ہے ظاہر کرتا ہے۔ یہ آداب اور طُرق ہیں جو خداتعالیٰ نے طور یادداشت کے مقرر کردیئے ہیں اورجسم کو باطنی طریق سے حصہ دینے کی خاطر ان کو مقررکیا ہے۔ علاوہ ازیں باطنی طریق کے اثبات کی خاطر ایک ظاہری طریق بھی رکھ دیا ہے۔ اب اگر ظاہری طریق میں (جو اندرونی اورباطنی طریق کا ایک عکس ہے) صرف نقال کی طرح نقلیں اتاری جاویں اور اسے ایک بارِگراں سمجھ کراُتارپھینکنے کی کوشش کی جاوے۔ تو تم ہی بتلاؤ۔ اس میں کیا لذت اور حظ آسکتا ہے؟ اور جب تک لذت اور سُرور نہ آئے۔ اُس کی حقیقت کیونکرمتحقق ہوگی اور یہ اُس وقت ہوگا جب کہ روح بھی ہمہ نیستی اور تذلل تام ہوکر آستانۂ الوُہیت پر گرے اور جو زبان بولتی ہے، رُوح بھی بولے۔ اُس وقت ایک سُرور اور نور اور تسکین حاصل ہوجاتی ہے۔ میں اس کو اور کھول کر لکھنا چاہتا ہوں کہ انسان جس قدرمراتب طے کرکے انسان ہوتا ہے۔ یعنی کہاں نطفہ۔ بلکہ اس سے بھی پہلے نطفہ کے اجزاء یعنی مختلف قسم کی اغذیہ اور اُن کی ساخت اور بناوٹ۔ پھر نُطفہ کے بعد مختلف مدارج کے بعد بچہ۔ پھر جوان، بُوڑھا۔ غرض ان تمام عالموں میں جو اُس پر مختلف اوقات میں گزرے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا معترف ہو اور وہ نقشہ ہر آن اس کے ذہن میں کھنچا رہے۔ تو بھی وُہ اس قابل ہوسکتا ہے کہ ربوبیت کے مدِمقابل میں اپنی عبودیت کو ڈال دے۔ غرض مدعایہ ہے کہ نماز میں لذت اور سُرور بھی عبودیت اور ربوبیت کے ایک تعلق سے پیداہوتا ہے۔ جب تک اپنے آپ کو عدمِ محض یا مشابہ بالعدم قراردے کر جو ربوبیت کا ذاتی تقاضہ ہے نہ ڈال دے۔ اُس کافیضان اور پَرتو اس پر نہیں پڑتا اور اگر ایسا ہوتو پھر اعلیٰ درجہ کی لذت حاصل ہوتی ہے۔ جس سے بڑھ کر کوئی حظ نہیں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلداوّل صفحہ143)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مارچ 2020