• 1 جولائی, 2025

اے بلالی روحوں کی دھرتی! سلام تجھ پر

ہرقوم ، مذہب، معاشرہ اور دین کی کوئی نہ کوئی پہچان ہوتی ہے۔ اسلام کی پہچان تو وہ دینی اطوار و اخلاق ہیں جن کا زیور ایک مسلمان پہن کر رکھتا ہے آپ کو حسین بناتا ہے اور دوسروں کو اچھا لگتا ہے آج کے مادی دور میں جماعت احمدیہ خلافت کے سایہ تلے اسی پیاری اورحسین تعلیم کو اپنانے کا بیڑہ اٹھا کر میدان میں آئی ہے۔ اور اس تعلیم سے آراستہ ایسی ایسی قومیں تیار ہو رہی ہیں جن کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ الہامی الفاظ ذہن میں گردش کرنے لگے ہیں۔ جن میں آپ نے پیشگوئی کے طور پر فرمایا کہ ’’نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہوگا‘‘

(تذکرہ صفحہ 244)

یہ نئی زمین اور یہ نیا آسمان ہمیں ایشیا میں بھی نظر آتا ہے۔ یورپ میں بھی دکھائی دیتا ہے اور امریکہ، آسٹریلیا اور افریقہ نے بھی اس سے خوب حصہ پایا اور روحانی اخلاقی جلوے دکھلائے۔

آج اس اداریہ میں افریقہ بالخصوص سیرالیون کےبارے میں تذکرہ ہوگا۔ جہاں خاکسار کو عرصہ 30 سال قبل خدمت دینیہ بجا لانے کی توفیق ملی۔ احمدیت تقریباً 100 سال قبل یہاں داخل ہوئی اور حضرت مولانا عبد الرحیم نیر غانا جاتے ہوئے بفضل اللہ تعالیٰ یہاں احمدیت کا پودا گاڑ گئے جو آج الحمد للّٰہ ثم الحمد للّٰہ ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ جس کی شاخیں تمام سیرالیون میں پھیلی اورسر سبز و شاداب ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر پھل بھی رہی ہیں۔ اورآج لاکھوں کی تعداد میں وفادار، وفا شعار دلوں میں اسلام اور احمدیت کی محبت لئے سرزمین سیرا لیون میں موجود ہیں۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ان احمدیوں کی پہچان اسلام اور اس کی ہرا یک تعلیم ہے۔

اس آرٹیکل میں خاکسار صرف ان پہچانوں میں سے ایک پہچان کا ذکر کرےگا اور وہ ہے خالق حقیقی اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید (Praising) اور اس کے پیارے رسول سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے محبت اور ان پر درود نیز اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن پاک سے محبت اور اس کی تلاوت اورخلافت احمدیہ حقہ اسلامیہ سے پیار و محبت اور اس کی خاطر قربانی اور اس پر قربانی و نثار ہونا۔

ان امور کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ درج کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ 100 سال قبل جو استاذ تعلیم دینے وہاں گئے تھے آج ان کے حسین اعمال سے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ شاگرد، استاد سے آگے نکلتے نظر آتے ہیں۔ کسی نے تو کہا تھا کہ شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت ہے۔ مگران بلالی روحوں میں معاملہ کچھ اور آگے ہے۔

اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کے ذکر سے بات کا آغاز کریں تو وہ ہر لمحہ، ہر آن تسبیح و تحمید کرتے نظر آتے ہیں۔ نمازوں کے پابند ہیں اور نمازوں کے بعد سنت رسولؐ کی تقلید میں 33 بار سبحان اللّٰہ، 33 بار الحمدللّٰہ اور 34 بار اللّٰہ اکبر کی تسبیحات کرنے کے پابند ہیں۔ نماز کے اختتام پر یعنی امام کے بائیں طرف السلام علیکم کہنے پر وہ اس وقت اُٹھ کر باہر نہیں جاتے جب تک امام السلام علیکم کہہ کر ان کو اجازت نہ دے۔

جلسہ سالانہ اور اجتماعات کے موقع پر جب کسی عیسائی کے اسلام احمدیت قبول کرنے یا کسی مسلمان کے احمدی ہونے کا ذکر ہو یا کسی جماعتی ترقی کا ذکر ہو تو فضا ’’اللّٰہ اکبر‘‘ کی صداؤں سے گونج اٹھتی ہے۔ عورتیں بھی تالی بجا نے کی بجائے اللہ اکبر کہتی ہیں۔

لَا اِلٰہَ اِلّا اللّٰہ تو مسحور کن آوازوں میں سنائی دیتا ہے۔

تسبیح و تحمید میں عبادات بھی آتی ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی Praising کا ایک مجموعہ ہے۔ راتوں کو دو بجے اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور رونے، بلبلانے دعائیں کرنے کا عام رجحان ہے۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر نماز تہجد میں پنڈال پوری طرح بھرا ہوتا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے سارا شہر نماز تہجد امڈ آیا ہے۔ التحیات میں تشہد کی انگلی تو اَشۡہَدُ اَنۡ لَّا اِلٰہَ پر کھڑی جاتی ہے مگر ان افریقن بلالی بھائیوں کا اللہ سے محبت اور اس سے خوف اور اس کی توحید کے اقرا کا یہ عالم ہے کہ بعض نمازی التحیات پر بیٹھتے ہی تشہد کی انگلی کھڑی کر لیتے ہیں اور بعض اَشۡہَدُ اَنۡ لَا اِلٰہَ پر جب کھڑی کرتے ہیں تو سلام تک کھڑی رکھتے ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ سے محبت کاا یک رنگ ہے۔

جہاں تک پیارے اور مقبول رسول محمد مصطفیٰ ﷺ پر درود بھیجنے کا تعلق ہے۔ اپنی ہر بات کا آغاز بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ کہہ کر کرتے ہیں۔ اور مبارک رسم ورواج اس قدر ہوگیا ہے کہ عیسائی بھی بعض اوقات اپنی بات کا آغاز اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ کہہ کرتے ہیں۔

آذان اور تکبیر میں جہاں بھی محمد کا نام آتا ہے تو مسجد میں بیٹھے نمازیوں کی صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم آواز سے گونج اٹھتی ہے۔

قرآن کریم کو پڑھنے، پرھانے اور سیکھنے و سکھلانے کا رواج عام ہے۔ قرآن کریم سے محبت کا یہ عالم ہے کہ جماعت احمدیہ ایسے دیہاتوں میں جماعت نہیں بچوں کو قرآن پڑھانا شروع کرتی ہے اور جب بچے قرآن کریم ناظرہ اور ترجمہ سے سدھ بُدھ اختیار کر لیتے ہیں تو جماعت احمدیہ کا تعارف آگے بڑھتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو قرآن کریم اور اس کی تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے مسجد کے پہلے جگہ دیتے ہیں۔ بعد میں مالی قربانی سے خوبصورت مسجد بھی تعمیر ہو جاتی ہے۔

مجھے بتایا گیا کہ ایک 80 سالہ بڑھیا ڈنڈے کے سہارے ان روحانی دینی درس گاہوں میں آتی رہی اور قرآن کریم ناظرہ ختم کیا۔

خلافت اور خلیفۃ المسیح سے پیار بھی دیدنی ہے۔ تقاریر میں جب حضرت خلیفۃ المسیح کا ذکر آجائے تو مقرر فوراً حضور کی صحت و سلامتی کے لئے سامعین کو دعاکی درخواست بھی کر دیتا ہے اور سامعین کی طرف سے آمین کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔

آج میں جب یہ اداریہ لکھ رہا ہوں، 20 فروری ہے۔ 20 فروری کی مناسبت سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔

افریقین حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے بہت پیار سے پیش آتے ہیں اور ان کے ذکر آنکھیں آنسوسے تر اور نم دار ہوجاتی ہیں۔ اور یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ان عظیم شخص نے ہمیں انسانیت سکھلائی۔ ہمیں اسلامی تعلیمات سے آراستہ کیا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء سے محبت اور فریفتگی کا یہ عالم ہے کہ ایک مخلص ڈاکٹر ادریس بنگورا (جو موصی تھے اور کچھ عرصہ قبل وفات پاکر قطعہ موصیان مائل شاقہ میں دفن ہوئے) جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بے انتہا پیار کرتے آپ کی کتب کو کئی کئی بار پڑھ رکھا تھا۔ فون پر اگر کوئی مریض دوائی پوچھتا تو وہ حروف تہجی کا تعارف مبارک مقامات یا حضرت مسیح موعودؑ کی کتب سے کرواتے۔ جیسے مکرم سعید الرحمٰن امیر جماعت احمدیہ سیرا لیون نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ میں نے دوائی پوچھی مجھے فون پر آواز صحیح طرح سنائی نہ دے رہی تھی تو آپ نے دوائی کے حروف کو مبارک مقامات یاکتب حضرت مسیح موعودؑ کے نام سے یا کسی اور چیز کے نام سے واضح کرنا شروع کر دیا۔ جیسے paracetamol کی وضاحت یوں کی

P for Pakistan
A for Aqsa Masjid
R for Rabwah
A for Anjam e Aatham
C for Coffee
E for England
T for Tohfa Qaiseriya
A for Aaina Kamalat e Islam
M for Mecca
O for Olive
L for Ludhiyana

اللہ اللہ! ایسے عشاق اللہ نے بلالی دھرتی میں عطا کر رکھے ہیں جو دنیا کی آنکھوں میں ٹھکرائی ہوئی ہے۔ مگر خدا ئے عزو جل کی محبوب اور پیاری دھرتی ہے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مارچ 2020