• 27 اپریل, 2024

بعض قابل غور، فکر انگیز اہم اقتباسات

معروف علمی شخصیت ڈاکٹر صفدرمحمود اپنے مضمون ’’کیا قائداعظم سیکولر تھے؟‘‘ (مطبوعہ نوائے وقت) کے آغاز میں تحریر کرتے ہیں:

’’قائداعظمؒ کے کردار کی عظمت پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور زمانہ گواہ ہے کہ وہ ایک سچے کھرے بااصول اور باوقار انسان تھے۔ انکے بدترین دشمن بھی ان کے کردار کی عظمت کے معترف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانان ہندو پاکستان ان پر جان چھڑکتے تھے اور ان پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ میرے نزدیک قائداعظمؒ کی راست گوئی اور عظمت کردار سیرت النبی کے گہرے مطالعے کا اعجاز تھی……ان کی تقریریں اور ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ ان کے باطن اور دل کی گہرائیوں کی عکاسی کرتے تھے اور انہوں نے کبھی عوام کو جذبات میں بہلانے بہکانے یا اپنے بارے میں غلط تاثر دینے کی کوشش نہیں کی۔‘‘

(کالم نمبر1)

صاحب مضمون آگے چل کر لکھتے ہیں:

’’انہوں نے مسلمانوں کے حقوق مسلمانوں اور اسلام کے مستقبل کے حوالے سے سینکڑوں تقریریں کیں اور ان میں بار بار کہا ……جمہوریت ہمیں اسلامی ورثے میں ملی ہے اسوہ حسنہ ہمارے لئے نمونہ ہے اور نبی کریم نے جس طرح یہودیوں اور دوسری اقلیتوں سے معاہدے کئے ہم انہی اصولوں سے روشنی حاصل کر کے اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیں گے۔ ظاہر ہے کہ قائداعظمؒ بار بار یہ باتیں صرف اس لئے کرتے رہے کہ یہ ان کی سوچ و فکر اور باطنی شخصیت کا پختہ حصہ تھیں۔‘‘

(کالم نمبر2)

ڈاکٹر صفدر محمود آگے چل کرایک کتاب کا حوالہ دیتے ہیں:

’’تعمیر پاکستان اور علمائے ربانی‘‘ کے مصنف منشی عبدالرحمن نے صفحہ نمبر 111 پر لکھا ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی کے خواہرزادے مولانا ظفر احمد عثمانی فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت تھانوی نے مجھے بلایا اور فرمایا میں خواب بہت کم دیکھتا ہوں مگر آج میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے۔ ایک بہت بڑا مجمع ہے گویا کہ میدان حشر معلوم ہو رہا ہے۔ اس مجمع میں اولیا علما اور صلحا کرسیوں پر بیٹھے ہیں اور مسٹر محمد علی جناح بھی عربی لباس پہنے ایک کرسی پر تشریف فرما ہیں۔ میرے دل میں خیال گزرا کہ یہ اس مجمع میں کیسے شامل ہو گئے تو مجھ سے کہا گیا کہ محمد علی جناح آج کل اسلام کی بڑی خدمت کر رہے ہیں اسی واسطے ان کو یہ درجہ دیا گیا ہے۔‘‘

یقیناً اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا اتنا صلہ تو ضرور ہو گا۔ انہی مولانا اشرف علی تھانوی نے 4؍جولائی 1943ء کو مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا ظفر احمد عثمانی کو طلب کیا اور فرمایا ’’1940ء کی قرارداد پاکستان کو کامیابی نصیب ہو گی۔ میرا وقت آخری ہے میں زندہ رہتا تو ضرور کام کرتا مشیت ایزدی یہی ہے کہ مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ وطن قائم ہو قیام پاکستان کیلئے جو کچھ ہو سکے کرنا اور اپنے مریدوں کو بھی کام کرنے پر ابھارنا۔‘‘

(کالم نمبر4 ،5)

(بحوالہ ’’قائداعظم کا مذہب اور عقیدہ‘‘ از منشی عبدالرحمٰن صفحہ نمبر249)

ڈاکٹر صفدر محمود اپنے مضمون کے آخر پر لکھتے ہیں:

’’قائداعظمؒ سیاست میں مذہب کے عمل دخل کو پسند نہیں کرتے تھے اور شاید وہ سمجھتے تھے کہ مذہب اور سیاست کے ملاپ سے انتہا پسندی کے دروازے کھلیں گے جس سے مسلمانوں اور بعدازاں پاکستانی قوم کا اتحاد بری طرح متاثر ہو گا۔‘‘

(کالم نمبر5)

(نوائے وقت مورخہ 27۔اگست 2012ء۔ادارتی صفحہ)

قائداعظم کے دو زریں اصول

(i)(بحوالہ نوائے وقت 21-10-2019صفحہ آخر)

’’ہم مسلمان ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب پر یقین رکھتے ہیں۔ پس ہمارے لئے لازمی اور ناگزیر ہے کہ ہم ملت کی حیثیت سے بھی ایک ہوں۔‘‘

(قبائلی سرداروں سے خطاب، پشاور۔17۔اپریل 1948)

(ii)(بحوالہ نوائے وقت 14-7-2019صفحہ آخر)

’’حکومتیں بنتی ہیں حکومتیں گرتی ہیں لیکن آپ کے کاندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری آجاتی ہے۔ آپ کو اس لئے بھی تکلیف پہنچ سکتی ہے کہ آپ غلط کام کی بجائے صحیح کیوں کررہے ہیں۔ آپ کو قربانی دینی ہوگی اور میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ بڑھیں اور قربانی دیں خواہ آپ بلیک لسٹ ہو جائیں یا پریشانی اور تکلیف میں مبتلا کر دیئے جائیں۔ آپ کی انہی قربانیوں سے حالات بدلیں گے۔‘‘

(افسران حکومت سے خطاب، پشاور14۔اپریل 1948ء)

علامہ ڈاکٹر محمداقبال کے کچھ اہم اقوال

(الف)مشاہدے اور تجربے کی تلقین
( بحوالہ نوائے وقت 30-6-2019صفحہ آخر)

’’قرآن کریم کے ہر صفحے پر انسان کو مشاہدے اور تجربے کے ذریعے علم حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور منتہائے نظریہ بتایا گیاہے کہ قوائے فطرت کو مسخر کیا جائے۔ اگر وہ قوائے فطرت پرغلبہ حاصل کر لیں گے تو ستاروں سے بھی پرے پہنچنے کے قابل ہو جائیں گے۔‘‘

(اسلامیہ کالج لاہور میں خطاب سے اقتباس)

(ب)پندرھویں صدی عیسوی میں یورپ کی ترقی کا آغاز
(بحوالہ نوائے وقت 27-10-2019 صفحہ آخر)

’’میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اسلام مغربی تہذیب کے تمام عمدہ اصولوں کا سرچشمہ ہے۔ یورپ میں علم کا چرچا مسلمانوں کی ہی یونیورسٹیوں سے ہوا تھا۔ یورپ کے طلبہ آ کر تعلیم حاصل کرتے اور پھر اپنے اپنے حلقوں میں علوم و فنون کی اشاعت کرتے تھے۔‘‘

(ماخوذ از ’’فکر اقبال میں سائنس کا مقام‘‘)

(ج) ’’ہم روز بروز اسلام سے دور ہٹ رہے ہیںَ‘‘
(بحوالہ نوائے وقت 25-11-2019 صفحہ آخر)

(i) ’’میرے نزدیک اس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی ضرورت فقہ اسلامی کی تشکیل جدید ہے۔ بحالت موجود ہم روز بروز اسلام سے دور ہٹ رہے ہیں اور اس کی وجہ ہیں وہ سیاسی و اجتماعی مسائل جنہوں نے موجود زمانے میں ایک خاص شکل اختیار کرلی ہے۔ علماء ان مسائل کو سمجھیں اورحالات کو اسلامی شرائع کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔‘‘

(ماخوذ از ’’اقبالیات‘‘ مرتبہ عبداللہ شاہ ہاشمی)

(ii) ’’چونکہ ہمارے فقہاء کو ایک عرصہ دراز سے عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور عصر جدید کی داعیات سے بالکل بیگانہ ہیں لہٰذا اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم اس میں ازسرنو قوت پیدا کرنے کیلئے اس کی ترکیب و تعمیر کی طرف متوجہ ہوں۔‘‘

(ماخوذ از “خطبات اقبال کا پس منظر”)
(بحوالہ نوائے وقت 30-11-2019 صفحہ آخر)

(د)عبادت گاہوں کی حفاظت کرنا فرض ہے۔
(بحوالہ نوائے وقت 1-9-2019صفحہ آخر)

’’جو مذہب دوسرے مذہبوں کیلئے بدخواہی کے جذبات رکھتا ہو وہ نیچ اور کینہ فطرت ہے۔ میں دوسرے مذہبوں کا احترام کرتا ہوں اور یہی نہیں بلکہ قرآنی تعلیمات کے مطابق ان کی عبادات گاہوں کی حفاظت کرنا میرا فرض ہے۔‘‘

(کتاب ’’افکاراقبال‘‘ مصنف ڈاکٹر جاوید اقبال فرزند اقبال)

(ر) فرقوں کی بھرمار
(بحوالہ نوائے وقت12-11-2019صفحہ آخر)

’’اور باتیں تو خیر ابھی تک ان (ملائوں کے) مذہبی نزاعوں کا ہی فیصلہ نہیں ہوا۔ آئے دن ایک نیا فرقہ پیدا ہوتا ہے جو اپنے آپ کو جنت کا وارث سمجھ کر باقی تمام نوع انسانی کو جہنم کا ایندھن قرار دیتا ہے۔ غرضیکہ ان فرقہ آرائیوں نے خیر الامم کی جمعیت کو کچھ ایسی بری طرح منتشر کر دیا ہے کہ اتحاد و یگانگت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔‘‘

(کتاب “افکار اقبال”مصنف ڈاکٹر جاوید اقبال فرزند علامہ محمد اقبال)

(س) ’’مسلمان کافروں‘‘ کی طویل فہرست
(بحوالہ نوائے وقت 14-11-2019صفحہ آخر)

’’مولوی صاحبان کی یہ حالت ہے کہ اگر کسی شہر میں دو جمع ہو جائیں تو حیات مسیح یا آیات ناسخ و منسوخ کیلئے باہمی نامہ و پیام ہوتے ہیں اور اگر بحث چھڑ جائے اور بالعموم بحث چھڑ جاتی ہے تو جوتیوں میں ایسی دال بٹتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ پرانا علم و فضل جو علمائے اسلام کا خاصہ تھا نام کو بھی نہیں۔ ہاں مسلمان کافروں کی ایک فہرست ہے کہ اپنے دست خاص سے اس میں روزبروز اضافہ کرتے رہتے ہیں۔‘‘

(’’افکار اقبال‘‘ مصنف ڈاکٹر جاوید اقبال)

آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس 1906ء تا 1943ء

مندرجہ بالا عنوان کے تحت نوائے وقت (30-12-1990) میں آل انڈیا مسلم لیگ کے مختلف شہروں میں ہونے والے اجلاسات کی تاریخ اور ان کے صدور کے نام درج کئے گئے ہیں ۔ دہلی میں ہونے والے اجلاسات کے تحت درج ہے:

’’27- 26 دسمبر1931ء سر ظفر اللہ خان‘‘

(نوائے وقت لاہور۔مورخہ 30دسمبر1990۔رنگین صفحہ)

اور روزنامہ ’’جنگ سنڈے میگزین‘‘ (7-2-2016) میں 1947ء سے لے کر 2011ء تک کے تمام وزرائے خارجہ پاکستان کے نام اور منصب کا دورانیہ شائع کیا گیا ہے۔

پہلے نمبر پر درج ہے (وزیر خارجہ) سر ظفر اللہ خان27؍ دسمبر 1947 تا 24؍اکتوبر 1954ء

(“جنگ سنڈے میگزین”مورخہ7۔فروری 2016ء صفحہ 4)

مندرجہ بالا کالم کے شروع میں نوٹ دیا گیا ہے جو ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے:

’’پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان تھے جنہوں نے 27؍دسمبر1947ء کو اس اہم منصب کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔‘‘

’’نقل کفر کفر نباشد‘‘

پاکستان اور قائد اعظم کے ایک شدید مخالف مولوی نے اپنے تعصب اور بغض کی وجہ سے جو شرمناک الفاظ استعمال کئے وہ ہمیشہ انصاف پسند سامعین اورقارئین نے دکھ بھرے دل سے سنے اور پڑھے ہیںاور اس واقعہ کو حال ہی میں نوائے وقت کے سینئرصحافی اسد اللہ غالب نے اپنے کالم ’’اندازِ جہاں‘‘ (6-5-2019) میں پھر سے بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’قائد اعظم کو کافر اعظم کہا گیا۔ اس سے بڑی گالی قائد محترم کو کیا دی جا سکتی تھی مگر قائد اعظم اس پر بر افروختہ نہیں ہوئے اور بات آئی گئی ہو گئی۔ مگر کافرا عظم کہنے والے شخص پر پاکستان بننے کے بعد مقدمہ چلا اور وہ بھی سپریم کورٹ میں۔ اس کی پوری تفصیل سمیع الحق کی کتاب ’’خطبات مشاہیر‘‘ میں درج ہے اور پوری لذت کے ساتھ۔ اس کتاب میں مقدمے کی کاروائی کے اقتباسات ہیں۔ جج صاحبان نے ملزم سے پوچھا کہ کیا آپ نے قائد اعظم کو کافر اعظم کہا۔ ملزم کا جواب اثبات میں تھا، ججوں نے سوال کیا کہ کیا یہ گالی ہمارے سامنے دہرا سکتے ہو تو ملزم نے کھلکھلا کر جواب دیا کہ جو الفاظ میں لاکھوں کے مجمع کے سامنے کہہ سکتا ہوں، انہیں آپ سات افراد کے سامنے دہرانے میں مجھے کیا عار ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس نے یہ الفاظ پھر دہرا دیئے۔‘‘

(’’اندازِ جہاں‘‘ مطبوعہ نوائے وقت مورخہ 6مئی 2019ء صفحہ4 کالم نمبر1)

معروف قلمکار فاروق عالم انصاری اپنے طنزیہ مضمون ’’بےحرص فقیر‘‘ میں تحریر کرتے ہیں۔

(کالم نمبر2)

’’ایک احراری لیڈر کہا کرتے تھے۔ ہم ہندو تھوڑی ہیں جو آنے ٹکے پائیوں کا حساب رکھتے پھریں۔ ہمیں صرف وہ چندہ دیں جنہیں ہم پر اعتبار ہے۔دوسرے بیشک یہ زحمت نہ فرمائیں۔‘‘

(از مضمون مطبوعہ نوائے وقت مورخہ 2؍دسمبر2019ء)

بھٹو صاحب کے سیاسی کرتب

سینئر صحافی اثر چوہان اپنے کالم ’’سیاست نامہ‘‘ (نوائے وقت 21-7-2016) میں تحریر کرتے ہیں:

’’صدر سکندر مرزا نے 7۔اکتوبر 1958ء کو مارشل لاء نافذ کر کے اپنی کابینہ میں جنابِ بھٹو کو شامل کیا تو چند ہی روز بعد بھٹو صاحب نے اپنی سیاسی سائنس کا مظاہرہ کرتے ہُوئے صدر سکندر مرزا کے نام اپنے خط میں لِکھا تھا کہ ’’جنابِ صدر! آپ قائداعظمؒ سے بھی بڑے لیڈر ہیں۔‘‘ 20 دن بعد جنرل محمد ایوب خان نے صدر سکندر مرزا کو برطرف کر کے خود اقتدار سنبھالا تو بھٹو صاحب نے اُنہیں ’’Daddy‘‘ (بابا سائیں)کہنا شروع کردِیا اور یہ بھٹو صاحب کی ’’سیاسی سائنس‘‘ کا ہی کمال تھا کہ اُنہوں نے صدر جنرل محمد ایوب خان کو ’’غازی صلاح الدّین ایوبی ثانی‘‘ اور ’’ایشیا کا ڈیگال‘‘ مشہور کردِیا۔‘‘

(نوائے وقت مورخہ21؍جولائی 2016ء صفحہ 3کالم نمبر1)

’’جس روز شیزان ریستوران جلایا گیا‘‘

سینئر صحافی فارق عالم انصاری اپنے کالم ’’خامہ بستی‘‘ مطبوعہ نوائے وقت میں بڑے درد سے تحریر کرتے ہیں۔

(کالم نمبر2)

’’جس روز مال روڈ کا شیزان ریستوران جلایا گیا، اس روز لاہور بیچارہ خود بھی روپڑا۔ کالم نگار کی شعیب بن عزیز سے پہلی ملاقات اسی شیزان میں ہوئی تھی۔ یہ 1990ء کے ابتدائی مہینوں کی بات ہے جب شیزان کی بالائی منزل میں والد محترم علامہ عزیز انصاری مرحوم و مغفور نے کالم نگار کا تعارف ان گھنی مونچھوں اور تیز شریر آنکھوں والے شعیب بن عزیز سے کروایا۔ اب وہ کون ہے جس نے ‘اب اداس پھرتے ہو گرمیوں کی شاموں میں اور اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں’ والا شعر پڑھا سنا نہیں؟ ان کے اس شعر کی اتنی دھوم تھی کہ کبھی کبھی تو ایسا بھی گمان گزرتا کہ جیسے انہوں نے صرف یہی ایک اکیلا شعر کہا ہو۔ کالم نگار نے چھوٹتے ہی پوچھا: ’’آپ اپنا دوسرا شعر کب کہہ رہے ہیں؟‘‘ شعیب نے اپنے اس شعر سے اردو زبان کو اک نیا محاورہ بخشا ہے۔‘‘

(از مضمون مطبوعہ نوائے وقت مورخہ 5۔اگست2019ء)

ایڈیشنل جج ہائیکورٹ شیخ بشیر احمد صاحب کی اعلیٰ ظرفی کی مثال سابق امیر جماعت احمدیہ لاہور محترم شیخ بشیر احمد صاحب ایک اعلیٰ پائے کے وکیل تھے جنہیں صدر ایوب خان کے دور میں ایڈیشنل جج ہائیکورٹ (لاہور) مقرر کیا گیا۔ جناب ارشاد حسن خان (سابق چیف جسٹس پاکستان) اپنے مضمون ’’ججوں کا ضابطہ اخلاق اور ریفرنسز‘‘ (مطبوعہ نوائے وقت 1-7-2019) کے کالم نمبر 2 میں تحریر کرتے ہیں:

’’دوسرا ریفرنس جسٹس اخلاق حسین کیخلاف تھا۔ انہوں نے اس کا سامنا کیا۔ وہ قابل ججوں میں شمار ہوتے تھے، ان کے رویوں میں جارحانہ پن تھا، وکلاء پر برہم ہوتے ان کو خوب ڈانٹتے۔ انکے ٹیکس ریٹرن میں کچھ سقم پائے گئے۔ وہ خود کونسل میں پیش ہوئے۔ کونسل کوجسٹس کارنیلیئس ہیڈ کر رہے تھے۔ سماعت کے دوران گرمی سردی ہوئی۔ کورٹ کا ماحول کشیدہ رہا، فیصلہ ان کیخلاف آیا۔ کورٹ میں جو کچھ ہوا ان کو گرفتاری کا خدشہ تھا، سو انہوں نے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دی جو ایڈیشل جج شیخ بشیر احمد کے سامنے لگی۔ یہ سول لاء کے ماہر تھے۔ یہ کئی بار بطور وکیل اخلاق حسین کی عدالت میں پیش ہونے پر جھاڑیں کھا چکے تھے۔ اخلاق صاحب ضمانت کیلئے پیش ہوئے، میں اس وقت عدالت میں موجود تھا، اس موقع پر اخلاق حسین پریشان تھے مگر ان کی بات سنے بغیر شیخ بشیر احمد نے ان کو شخصی ضمانت دینے کا حکم صادر کر دیا۔‘‘

(از مضمون مطبوعہ نوائے وقت مورخہ یکم جولائی 2019ء۔ ادارتی صفحہ)

مختلف کیسز کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان

جناب آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس

(اخباری سرخیاں)

(الف)(نوائے وقت مورخہ 11؍مئی 2019ء صفحہ1)
ملک میں سب سے بڑا مسئلہ جھوٹ اور دھوکہ۔
پرھے لکھے لوگ دھوکہ دیں گے تو ان پڑھ کیا کریں گے۔

(ب)(نوائے وقت مورخہ 29؍جون 2019ءصفحہ1کالم نمبر1 تا 3)
سچ بولنے کی ہمت نہیں تو انصاف بھی نہ مانگیں۔
سچ کے بغیر انصاف نہیں ہوسکتا، اللہ کا حکم ہے سچی گواہی دو۔

(ج)(نوائے وقت مورخہ 28-8-2019صفحہ1کالم نمبر4)
جہاں بھی سچ کو جھوٹ سے ملائیں گے سب برباد ہوجائے گا۔
اللہ کا حکم ہے سچ کو غلط نہ کرو۔

(د)(نوائے وقت مورخہ2؍دسمبر2019ء صفحہ1 کالم نمبر1 تا 5)
ہمارا آئین اور مختلف قوانین عورتوں کو خاص حقوق دیتے ہیں۔
آئین میں اقلیتوں سمیت ہر شہری کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔
قانون کی نظر میں کوئی بھی حقیر یا بالا تر نہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں انصاف کرنے اور امانتوں کو خیانت کے بغیر لوٹانے کا حکم دیتا ہے۔

(کتاب ’’شہیدان وطن‘‘ تحریرو تحقیق ایم ۔آر۔شاہد ناشر الفیصل۔ غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور)

(احمدی سپوت کے نمایاں کارنامے)

’’سکواڈرن لیڈر منیر الدین احمد شہید نے 4؍ستمبر 1965ء کو چھمب کے محاذ پر پاک فوج کی مدد کی اور دشمن کے متعدد ٹینک اور گاڑیاں تباہ کردیں۔ یہ ان کا پہلا مشن تھا جو انتہائی کامیاب تھا۔ اس کے بعد 11؍ستمبر تک متعدد کامیاب حملے کئے۔ ہر مشن کیلئے رضاکارانہ طور پر آگے بڑھے اور شہادت کی تمنا لے کر دشمن پر تابڑ توڑ حملے کرتے رہے۔ ایک مہم میں آپ نے دشمن کے نیٹ طیاروں سے مڈبھیڑ میں دشمن کا طیارہ تباہ کیا اور محفوظ رہے۔ مگر آپ کی دلی خواہش امرتسر کے ریڈار کی تباہی تھی۔ اس ریڈار سٹیشن کی تباہی بہت ضروری تھی۔ اس کی حفاظت کے لئے بھارت نے زبردست حفاظتی انتظامات کئے ہوئے تھے اور جدید اسلحے سے لیس فوج اس کی حفاظت پر مامور تھی۔ منیر بار بار ریڈار تباہ کرنے جاتے مردانہ وار جان سے بے نیاز آگ اور گرج کے طوفان میں کافی دیر تک بمباری کرتے۔ 11؍ستمبر کو انہوں نے آخری بھرپور اور کامیاب حملہ کیا اور ریڈار سٹیشن کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ آپ کا مشن پورا ہوگیا تھا۔ دشمن کی طیارہ شکن توپیں لگاتار آپ کے جہاز پر آگ برسارہی تھیں کہ چند گولے آپ کے جہاز کو لگے اور آپ جام شہادت نوش کر گئے۔ ان کی شجاعت کی عظیم داستانیں غازیوں کا خون گرماتی رہیں گی۔‘‘

(صفحہ161)

(کتاب ’’شہیدانِ وطن‘‘ ازایم آر شاہد)

’’حکومت پاکستان نے انہیں ستارۂ جرأت سے نوازا‘‘۔

(’’جنگ سنڈے میگزین‘‘ 6-9-2015 صفحہ12 کالم نمبر4)

اور متذکرہ میگزین کے صفحہ 28 پر وطن عزیز کے جانباز سپوت کو یوں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے:

’’ان کے طیارے کا ملبہ امرتسر شہر کے مشرقی مضافات میں گرا اور اس جری بہادر جنگ جُو نے پاک فضائیہ کی زریں روایات کو برقرار رکھتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔‘‘

(’’جنگ سنڈے میگزین‘‘ مورخہ6؍ستمبر 2015ء صفحہ28 کالم نمبر3)

شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں
زندگی ہوش میں ہے جوش ہے ایمانوں میں

(پروفیسر راجا نصراللہ خان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مارچ 2020