حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
مسلمانوں کے جو بڑے بڑے علماء ہیں، سردار بنے پھرتے ہیں ان کو مخاطب کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اے مسلمانوں کے شیوخ اور رہنماؤ گواہ رہو کہ میں تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی جناب میں اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے اس سے تمہارے لئے ہدایت طلب کرتا ہوں۔ اے میرے رب! اے میرے رب! میری قوم کے بارہ میں میری دعا اور میرے بھائیوں کے بارہ میں میرے تضرعات کو سن۔ میں تیرے نبی خاتم النبییّن و شفیع المذنبین (صلی اللہ علیہ وسلم) کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں۔ اے میرے رب! انہیں ظلمات سے اپنے نور کی طرف نکال اور دوریوں کے صحراء سے اپنے حضور میں لے آ۔ اے میرے رب! ان لوگوں پر رحم کر جو مجھ پر لعنت ڈالتے ہیں اور اپنی ہلاکت سے اس قوم کو بچا جو میرے دونوں ہاتھ کاٹنا چاہتے ہیں۔ ان کے دلوں کی جڑوں میں ہدایت داخل فرما۔ ان کی خطاؤں اور گناہوں سے درگزر فرما۔ انہیں بخش دے اور انہیں معاف فرما۔ ان سے صلح فرما۔ انہیں پاک و صاف کر اور انہیں ایسی آنکھیں دے جن سے وہ دیکھ سکیں اور ایسے کان دے جن سے وہ سن سکیں اور ایسے دل دے جن سے وہ سمجھ سکیں اور ایسے انوار عطا فرما جن سے وہ پہچان سکیں۔ اور ان پر رحم فرما اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اس سے درگزر فرما کیونکہ یہ ایسی قوم ہیں جو جانتے نہیں۔ اے میرے رب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ اور ان کے بلند درجات اور راتوں کے اوقات میں قیام کرنے والے مومنین اور دوپہر کی روشنی میں غزوات میں شریک ہونے والے نمازیوں اور جنگوں میں تیری خاطر سوار ہونے والے مجاہدین اور ام القریٰ مکہ مکرمہ کی طرف سفر کرنے والے قافلوں کا واسطہ! تو ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان صلح کروا۔ تو ان کی آنکھیں کھول دے اور ان کے دلوں کو منور فرما۔ انہیں وہ کچھ سمجھا جو تو نے مجھے سمجھایا ہے اور ان کو تقویٰ کی ر اہوں کا علم عطا کر۔ جو کچھ گزر چکا وہ معاف فرما۔ اور آخر میں ہماری دعا یہ ہے کہ تمام تعریفیں بلند آسمانوں کے پروردگار کے لئے ہی ہیں۔‘‘
(ترجمہ از عربی عبارت۔ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 23,22)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اتنی دعائیں کی ہیں، اتنے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن ان لوگوں کو سمجھ نہیں آتی، پھر بھی یہ قوم کو برائیوں اور بگاڑ کی طرف لیتے چلے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد تو اللہ تعالیٰ جو تقدیر چلاتا ہے اور جو اس کا منطقی نتیجہ نکلنا چاہئے وہ نکلے گا ان شاء اللہ۔ لیکن ہمیں بہرحال دعا کرنی چاہئے، اگر ان کے لئے اصلاح مقدر ہے تو اللہ تعالیٰ جلد ان کی اصلاح فرمائے تاکہ یہ مزید گناہوں سے بچ جائیں اور قوم مزید بگڑنے سے محفوظ رہے۔ ورنہ ایسے لوگ جو سردار ہیں، جنہوں نے قوم میں تفرقہ پیدا کیا ہوا ہے ان کو پھر اللہ تعالیٰ خو د نپٹے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دعاؤں کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے جس طرح ابتداء میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے زیر کیا تھا اسی طرح اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلط عطا کرے گا نہ تلوار سے۔ ہر ایک امر کے لئے کچھ آثار ہوتے ہیں اور اس سے پہلے تمہیدیں ہوتی ہیں۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ بھلا اگر ان کے خیال کے موافق یہ زمانہ ان کے دن پلٹنے کا ہی تھا اور مسیح نے آکر ان کو سلطنت دلانی تھی تو چاہئے تھا کہ ظاہری طاقت ان میں جمع ہونے لگتی، ہتھیار ان کے پاس زیادہ رہتے، فتوحات کا سلسلہ ان کے واسطے کھولا جاتا۔ مگر یہاں تو بالکل ہی برعکس نظر آتا ہے۔ ہتھیار ان کے ایجاد نہیں، ملک و دولت ہے تو اور وں کے ہاتھ ہے، ہمت و مردانگی ہے تو اور وں میں۔ یہ ہتھیاروں کے واسطے بھی دوسروں کے محتاج۔ دن بدن ذلت اور ادباران کے گرد ہے۔ جہاں دیکھو، جس میدان میں سنو انہیں کو شکست ہے۔ بھلا کیا یہی آثار ہوا کرتے ہیں اقبال کے؟ ہرگز نہیں۔ یہ بھولے ہوئے ہیں۔ زمینی تلوار اور ہتھیاروں سے ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ابھی تو ان کی خود اپنی حالت ایسی ہے اور بے دینی اور لامذہبی کا رنگ ایسا ہے کہ قابل عذاب اور مورد قہر ہیں۔ پھر ایسوں کو کبھی تلوار ملی ہے؟ ہرگز نہیں۔ ان کی ترقی کی وہی سچی راہ ہے کہ اپنے آپ کو قرآن کی تعلیم کے مطابق بناویں اور دعا میں لگ جاویں۔ ان کو اب اگر مدد آوے گی تو آسمانی تلوار سے اور آسمانی حربہ سے، نہ اپنی کوششوں سے۔ اور دعا ہی سے ان کی فتح ہے، نہ قوت بازو سے۔ یہ اس لئے ہے کہ جس طرح ابتداء تھی انتہا بھی اسی طرح ہو۔ آدم اول کو فتح دعا ہی سے ہوئی تھی… اور آدم ثانی کو بھی جو آخری زمانہ میں شیطان سے آخری جنگ کرنا ہے اسی طرح دعا ہی کے ذریعہ فتح ہو گی۔‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 191,190 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ ہمیں دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس آدم ثانی کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں حتی المقدور اپنی کوششیں کرنے والے بن سکیں۔
(خطبہ جمعہ 13؍ اکتوبر 2006ء)
حضرت مسیح موعود ؑکی غیرت رسولﷺ کا نمونہ
اس ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور احترام اور آپؑ کا اس بارے میں معیار کیا تھا اور ردّ عمل کس طرح ہوتا تھا اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ لیکھرام کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ لاہور یا امرتسر کے سٹیشن پر تھے کہ پنڈت لیکھرام بھی وہاں آیا اور اس نے آپ کو آ کر سلام کیا۔ چونکہ پنڈت لیکھرام آریہ سماج میں بہت بڑی حیثیت رکھتے تھے اس لئے جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تھے وہ بہت خوش ہوئے کہ لیکھرام آپ کو سلام کرنے آیا ہے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی طرف ذرا بھی توجہ نہ کی۔ اور جب یہ سمجھ کر کہ شاید آپ نے دیکھا نہیں کہ پنڈت لیکھرام صاحب سلام کر رہے ہیں آپ کو اس طرف توجہ دلائی گئی تو آپ نے بڑے جوش سے فرمایا کہ اسے شرم نہیں آتی کہ میرے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور مجھے آ کر سلام کرتا ہے۔ گویا آپ نے اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہ کی کہ لیکھرام آیا ہے۔ لیکن عام لوگوں کے نزدیک یہی بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے کہ کسی بڑے رئیس یا لیڈر سے ان کو ملنے کا اتفاق ہوجائے۔ چنانچہ جب کوئی ایسا شخص ان کے پاس آتا ہے وہ بڑی توجہ سے اس سے ملتے ہیں لیکن اگر کوئی غریب آ جائے تو پرواہ بھی نہیں کرتے۔‘‘
(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد8 صفحہ161)
اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ آپ نے اس طرح بھی فرمایا کہ آریوں میں لیکھرام کی جو عزت تھی اس کی وجہ سے بڑے بڑے لوگ ان سے ملنا اپنی عزت سمجھتے تھے۔ لیکن حضرت مرزا صاحب کی غیرت دیکھئے کہ پنڈت صاحب خود ملنے کے لئے آتے ہیں مگر آپ فرماتے ہیں کہ میرے آقا کو گالیاں دینا چھوڑ دے تب ملوں گا۔‘‘
(ماخوذ از تقریر سیالکوٹ۔ انوار العلوم جلد5 صفحہ114)
یہاں اس واقعہ میں جہاں غیرت رسول کا پتا چلتا ہے وہاں یہ بھی سبق ہے کہ صرف بڑے لوگوں کو اس وجہ سے سلام کر دینا کہ وہ بڑے ہیں اور ہماری عزت قائم ہو گی کافی نہیں بلکہ غریب کی عزت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اور اصل چیز غیرت دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر بڑا آدمی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غلط الفاظ میں کچھ کہتا ہے تو چاہے وہ کتنا بڑا ہو اس کو اہمیت دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
(خطبہ جمعہ 23؍ جنوری 2015ء)