• 28 جولائی, 2025

بنیادی مسائل کے جوابات (قسط نمبر 8)

’’بنیادی مسائل کے جوابات‘‘
قسط نمبر 8

سوال:۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ خاکسار کی ملاقات مؤرخہ 13 دسمبر 2020ء میں آنحضور ﷺ کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مختلف روایات پر غور و خوض فرمانے اور اس بارہ میں حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات ملاحظہ فرمانے کے بعد اس مسئلہ پر راہنمائی فرماتے ہوئے درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضورانور نے فرمایا:۔

جواب:۔ آنحضور ﷺ کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی کے وقت حضرت عائشہؓ کے عمر کے بارہ میں تاریخ و سیرت اور تفسیر و حدیث کی کتب میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ چنانچہ حضور ﷺ کے ساتھ نکاح کے وقت حضرت عائشہ ؓکی عمر 6 سال سے لیکر 16 سال اور رخصتی کے وقت9 سال سے 19 سال تک لکھی گئی ہے۔

اگرچہ صحاح ستہ کی روایات جن میں صحیح بخاری کی روایات بھی شامل ہیں، میں حضرت عائشہ ؓ کی عمر نکاح کے وقت چھ سال اور شادی کے وقت نو سال بیان ہوئی ہے۔ لیکن اگر ان روایات کو درایت و روایت کے اصولوں پر پرکھا جائے تو حضرت عائشہ ؓکی عمر کے بارہ میں مروی یہ روایات ثقاہت کے معیار سے نیچی ٹھہرتی ہیں۔

اس حوالہ سے صحاح ستہ میں بیان21 روایات میں سے 14 روایات ہشام بن عروہ سے مروی ہیں اور باقی روایات ابو عبیدہ، ابو سلمہ اور اسود سے مروی ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ تاریخ و سیرت کے اس نہایت مشہور اور اہم واقعہ کو کسی جلیل القدر صحابی نے بیان نہیں کیا۔

حضرت عائشہ ؓ کی کم عمری میں شادی سے متعلق روایت پہلی بار 185ہجری میں منظر عام پر آئی جبکہ اس مضمون کی اکثر روایات کے راوی ہشام اور عروہ کو وفات پائے ایک عرصہ گزر چکا تھا۔ مزید یہ کہ ہشام اور عروہ جن کی زندگی کا زیادہ عرصہ مدینہ میں گزرا، اور مدینہ کے نامور محدث، امام مالک ؒ ان (ہشام بن عروہ) کے ایک مایہ ناز شاگرد تھے، اس کے باوجود آپ کی تالیف کردہ کتاب موطا امام مالک میں اس روایت کا کوئی ذکر نہیں۔ اپنی عمر کے آخری حصہ میں ہشام بن عروہ جبکہ نابینا ہو چکے تھے، حافظہ کمزور ہو گیا تھا، (جرح و تعدیل کے ماہرین کے مطابق) انہیں وہم اور نسیان کے امراض لاحق ہو چکے تھے اس وقت جب وہ کوفہ چلے گئے تو وہاں انہوں نے پہلی مرتبہ یہ روایت بیان کی اور جس شخص سے روایت بیان کی اس نے بھی ان کی وفات کے بعد قریباً چالیس سال کا مزید انتظار کیا اور پھر اس روایت کو بیان کیا تا کہ کسی قسم کی تائید و تردید کا سوال ہی نہ اٹھ سکے۔

پس مدینہ میں رہتے ہوئے ہشام کا یہ روایت بیان نہ کرنا اور ان کی وفات کے کئی سال بعد تالیف ہونے والی کتاب میں اس کا بیان اس روایت کے بارہ میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ یہ امکان ہے کہ خاندان اہلبیت اور خصوصاً حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے کردار کو نشانہ بنانے کی خاطر یہ روایت گھڑی گئی ہو۔ تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ وہ زوجہ مطہرہ جس کے بارہ میں حضور ﷺ کا فرمان تھا کہ اس سے دین سیکھو، اس کی حضور ﷺ سے کم عمری میں شادی جبکہ وہ ابھی سہیلیوں اور گڑیوں سے کھیلتی تھی نیز ابھی وہ اپنے بچپن میں ہی تھی کہ حضور ﷺ کی وفات ہو گئی، اس سے کیا دین سیکھا جا سکتا ہے؟

پھر صحیح بخاری جس میں یہ روایات بیان ہوئی ہیں، خود اس کے اندر حضرت عائشہ ؓ کے نکاح کے بارہ میں روایات میں تضاد پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کے تین سال بعد حضورﷺ نے مجھ سے شادی کی۔ جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ حضورﷺ کے مدینہ جانے سے تین سال پہلے فوت ہوئیں۔ پھر حضورﷺ دو برس یا اس کے قریب قریب ٹھہرے اور پھر حضرت عائشہ سے نکاح کیا۔

پس باوجود اس کے کہ احادیث جمع کرنے والوں نے نہایت احتیاط کے ساتھ اس کام کو سر انجام دیا ہے لیکن پھر بھی اس میں غلطی اور ظن کا پہلو بہرحال موجود ہے کیونکہ یہ کام حضورﷺ کی وفات کے قریباً ڈیڑھ دو سو سال بعد شروع ہوا جبکہ مسلمانوں کے کئی فرقے بن چکے تھے اور کئی قسم کے اختلافات ان میں پیدا ہو چکے تھے۔ چنانچہ اس زمانہ کے حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیگر معاملات کی اصلاح کی طرح اس مسئلہ کا بھی نہایت احسن انداز میں حل فرمایا۔ حضور فرماتے ہیں:۔
’’گو ہم نظر تہذیب سے احادیث کو دیکھتے ہیں لیکن جو حدیث قرآن کریم کے بر خلاف، آنحضرت ﷺ کی عصمت کے برخلاف ہو اس کو ہم کب مان سکتے ہیں۔ اُس وقت احادیث جمع کرنے کا وقت تھا۔ گو انہوں نے سوچ سمجھ کر احادیث کو درج کیا تھا مگر پوری احتیاط سے کام نہیں لے سکے۔ وہ جمع کرنے کا وقت تھا لیکن اب نظر اور غور کرنے کا وقت ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 9 صفحہ 472،471ایڈیشن 1984ء)

حضرت عائشہ ؓ کی عمر کے مسئلہ کا جب ہم ایک دوسرے زاویہ سے جائزہ لیتے ہیں تو تاریخ و سیرت کی کتب میں ہمیں یہ بات بھی پتہ چلتی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓکی چاروں اولاد (حضرت عبداللہ ، حضرت اسماء، حضرت عبدالرحمٰن اور حضرت عائشہ) حضور ﷺ کی بعثت سے قبل پیدا ہو چکے تھے اور سیرت نگاروں کی مرتب کردہ ابتدائی مسلمانوں کی فہرست میں حضرت عائشہ کا نام بھی شامل ہے، اگر حضرت عائشہ کی پیدائش نبوت کے پانچویں سال میں ہوئی تھی تو آپ کا نام ابتدائی مسلمانوں کی فہرست میں کیسے شامل ہو گیا؟

مؤرخین نے لکھا ہے کہ حضرت اسماء حضرت عائشہ سے دس سال بڑی تھیں اور ہجرت کے وقت حضرت اسماء کی عمر 27 سال تھی۔ اس حساب سے بھی حضرت عائشہ ؓ کا سن پیدائش 4 قبل نبوت بنتا ہے۔ اور اگر آپ کا نکاح ہجرت سے تین سال قبل ہوا تھا تو اس وقت آپ کی عمر 14 سال بنتی ہے۔

غزوہ احد جو کہ 2 ہجری میں ہوئی اس کے بارہ میں صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عائشہ بنت ابی بکر ؓ اور حضرت ام سلیم ؓ پانی کی مشکیں اپنی پیٹھوں پر لاد کر لا تیں اور لوگوں کو پانی پلاتی تھیں۔ اگر حضرت عائشہؓ کی عمر اتنی ہی چھوٹی تھی کہ وہ ایک کم سن بچی تھیں تو وہ اپنی پیٹھ پر پانی سے بھری مشکیں لاد کر کس طرح دوڑ، دوڑ کر میدان جنگ میں زخمیوں کو پانی پلانے کی ڈیوٹی سرانجام دے سکتی ہیں۔ پس اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ 2 ہجری میں آپ کی عمر اتنی بہرحال تھی کہ آپ میدان جنگ میں اس قسم کا بھاری کام کر سکتی تھیں۔

تاریخ کی کتب میں یہ حقیقت بھی موجود ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی آنحضور ﷺ سے شادی سے پہلے جبیر بن مطعم سے منگنی ہوئی تھی۔ اس وقت میں آپ کی منگنی کا ہونا بتاتا ہے کہ آپ کی عمر چھ سال نہیں تھی، خصوصاً اس لئے بھی کہ جب حضورﷺ کی طرف سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو حضرت عائشہ کیلئے رشتہ کا پیغام ملا تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جبیر بن مطعم سے حضرت عائشہ ؓ کی رخصتی لینے کے بارہ میں دریافت کیا۔ اس طرف سے انکار پر وہ رشتہ ختم ہو گیا اور پھر حضور ﷺ سے حضرت عائشہؓ کا نکاح عمل میں آیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا جبیر بن مطعم سے رخصتی کا کہنا ثابت کرتا ہے کہ حضرت عائشہ کی عمر اس وقت چھ سال ہر گز نہیں تھی بلکہ آپ اس وقت بھی شادی کی عمر کو پہنچ چکی تھیں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنے محققانہ انداز کے مطابق حضرت عائشہ ؓ کی عمر کے بارہ میں مروی روایات کا بنظر غور جائزہ لینے کے بعد جو نتیجہ نکالا ہے اس کے مطابق آپ نے شادی کے وقت حضرت عائشہ ؓ کی عمر تیرہ چودہ سال قرار دی ہے اور یہی درست عمر ہے۔ اس لحاظ سے آنحضور ﷺ کی وفات کے وقت حضرت عائشہ ؓ کی عمر اکیس بائیس سال بنتی ہے جو دینی علم کے حصول کی تکمیل اور آگے لوگوں کو تعلیم دینے کی بہترین عمر بنتی ہے۔

اس زمانہ کے حکم و عدل سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عائشہ کی آنحضور ﷺ کے ساتھ شادی کے وقت آپ کی نو برس عمر کے متعلق روایات کو کلیۃً ردّ فرما یا ہے۔ چنانچہ ایک معانداسلام پادری فتح مسیح کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’آپ نے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کر کے نو برس کی رسم شادی کا ذکر لکھا ہے۔ اول تو نو برس کا ذکر آنحضرت ﷺ کی زبان سے ثابت نہیں اور نہ اس میں کوئی وحی ہوئی اور نہ اخبار متواترہ سے ثابت ہوا کہ ضرور نو برس ہی تھے۔ صرف ایک راوی سے منقول ہے۔‘‘

(نور القرآن نمبر2، روحانی خزائن جلد9 صفحہ377)

اسی طرح ایک اور جگہ حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’حضرت عائشہ ؓ کا نو سالہ ہونا تو صرف بے سرو پا اقوال میں آیا ہے۔ کسی حدیث یا قرآن سے ثابت نہیں۔‘‘

(آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 64)

پس خلاصہ کلام یہ کہ ایسی تمام روایات جن میں شادی کے وقت حضرت عائشہ ؓ کی عمر نو سال بیان ہوئی ہے محل نظر ہیں۔ ان روایات میں یا تو راویوں کو سہو ہوا ہے یا بعد میں آنے والے رایوں نے اپنی طرف سے ان میں اضافہ کر دیا ہے۔ تاریخ و سیرت کی کتب پر غور کرنے سے بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی شادی کے وقت ایک معقول عمر تھی، جس عمر میں قریش عموماً اپنی بچیوں کی شادیاں کیا کرتے تھے۔ یہ شادی اس وقت عرب کے ماحول میں نہ تو کوئی خاص قابل ذکر استثناء لئے ہوئے تھی اور نہ ہی ایسی قابل اعتراض کیفیت اس میں تھی کہ منافقین و کفار اس پر اعتراض یا طعن و تشنیع یا حیرت و استعجاب کی انگلی اٹھاتے۔

سوال:۔اسی طرح ایک اور مسئلہ کہ» اگر امام کسی مجبوری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدیوں کو کس طرح نماز پڑھنی چاہئیے؟» کے بارہ میں بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے رہنمائی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:۔

جواب:۔ احادیث میں اس بارہ میں بڑی وضاحت کے ساتھ حضور ﷺ کے اسوہ کا پتہ چلتا ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ اور حضرت انس ؓسے مروی احادیث میں ذکر ہے کہ حضور ﷺ اپنے اوائل زمانہ میں ایک مرتبہ گھوڑے سے گر گئے اور حضور ﷺ نے نماز بیٹھ کر پڑھائی، صحابہ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے تو آپ ﷺ نے انہیں اشارہ سے بیٹھ جانے کا ارشاد فرمایا اور نماز کے بعد انہیں فرمایا کہ امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے پس جس طرح وہ نماز پڑھے اسی طرح تم نماز پڑھو۔

لیکن حضور ﷺ کی آخری بیماری میں جس میں آپ کا وصال ہوا، آپ نے حضرت ابو بکر ؓ کو نماز کی امامت کا ارشاد فرمایا اور پھر جب حضور ﷺ کی طبیعت کچھ سنبھل گئی تو آپ نماز کیلئے تشریف لے گئے اور حضرت ابوبکر ؓ کے بائیں جانب بیٹھ کر نماز ادا فرمائی۔

حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ اس وقت حضرت ابو بکر ؓ اس نماز میں حضور ﷺ کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ حضرت ابو بکرؓ کی اقتداء کر رہے تھے۔

دراصل لوگ بھی حضور ﷺ کی ہی اقتداء کر رہے تھے۔لیکن علالت کی وجہ سے حضور ﷺ چونکہ بلند آواز میں تکبیر وغیرہ نہیں کہہ پا رہے تھے، اس لئے حضرت ابوبکرؓ مکبر کے طور پر حضور ﷺ کی آواز آگے لوگوں تک پہنچا رہے تھے۔

یہاں یہ بات بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ حضور ﷺ کا حضرت ابو بکر ؓ کے بائیں طرف بیٹھنا بتاتا ہے کہ حضور ﷺ اس نماز میں امام تھے، کیونکہ امام بائیں طرف ہوتا ہے اور مقتدی دائیں طرف ۔ چنانچہ اس بارہ میں بھی ہمیں حضور ﷺ کی سنت ملتی ہے کہ ایک موقعہ پر جب کہ حضور ﷺ تہجد کی نماز ادا کر رہے تھے تو حضرت ابن عباسؓ بعد میں نماز میں شامل ہو کر آپ ﷺ کی بائیں طرف کھڑے ہو گئے تو حضور ﷺ نے انہیں سر سے پکڑ کر اپنی دائیں طرف کر لیا۔

حضرت امام بخاری نے اپنے استاد حمیدی کا اس بارہ میں قول درج کیا ہے کہ حضورﷺ کا پہلا ارشاد یہی تھا کہ اگر امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی بھی بیٹھ کر ہی نماز پڑھیں ۔ لیکن بعد میں حضور ﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھی اور آپ کی اقتداء میں صحابہ نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی اور آپ نے انہیں بیٹھنے کا ارشاد نہیں فرمایا ۔ اور چونکہ حضور ﷺ کے آخری فعل سے سند لی جاتی ہے اور حضور ﷺ کا آخری فعل یہی ہے کہ اگر امام اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارہ میں فرماتے ہیں:۔
’’چونکہ مجھے نقرس کا دورہ ہے۔ اس لئے میں خطبہ جمعہ کھڑے ہو کر نہیں پڑھا سکتا ۔اسی طرح نماز بھی کھڑے ہو کر نہیں پڑھا سکتا۔رسول کریم ﷺکا ابتداء میں یہ حکم تھا کہ جب امام کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھا سکے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھا کریں لیکن بعد میں خدا تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت آپ نے اس حکم کو بدل دیا اور فرمایا کہ اگر امام کسی معذوری کی وجہ سے بیٹھ کر نما زپڑھائے تو مقتدی نہ بیٹھیں بلکہ وہ کھڑے ہو کر ہی نماز ادا کریں ۔پس چونکہ میں کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھا سکتا اس لئے میں بیٹھ کر نماز پڑھاؤں گا اور دوست کھڑے ہو کر نماز ادا کریں۔‘‘

(روز نامہ الفضل لاہور 03 جولائی 1951ء صفحہ3)

پس اگر امام اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھیں گے۔

سوال:۔ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ؓ نے صحیح بخاری کی شرح میں عورتوں کے بھی مردوں کی طرح نماز باجماعت کیلئے مسجد میں ا ٓنے کو فرض قرار دیا ہے۔ حضور بھی خواتین کو اس طرف توجہ دلائیں۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 26 نومبر 2018ء میں درج ذیل جواب عطاء فرمایا:۔

جواب:۔حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے اپنی اس شرح میں سورۃ الاحزاب کی آیت وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ سے عورتوں کیلئے مسجد میں آکر نماز باجماعت ادا کرنے کا جو استدلال کیا ہے وہ ان کی ذوقی تشریح ہے جو اسلام کے چودہ سو سالہ تعامل، احادیث نبویہﷺ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کی تشریحات کے خلاف ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قیام نماز کی مختلف تشریحات بیان فرمائی ہیں جن میں مسجد میں پانچ وقت حاضر ہو کر نماز باجماعت ادا کرنا بھی شامل ہے لیکن یہ تشریح صرف مردوں کیلئے ہے۔ عورتوں کیلئے قیام نماز کا مطلب اپنے گھروں میں وقت مقررہ پر پانچ نمازوں کو کامل شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے۔ لیکن اگر کوئی خاتون مسجد میں آ کر ان نمازوں کی ادائیگی کرنا چاہے تو اسلام نے اسے منع بھی نہیں کیا جیسا کہ عہد نبوی ﷺ میں خواتین مساجد میں آکر نمازیں ادا کیا کرتی تھیں۔ لیکن حضور ﷺ نے خواتین کیلئے زیادہ یہی پسند فرمایا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ان نمازوں کی ادائیگی کریں۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا :۔

صَلَاةُ الْمَرْأَةِ فِي بَيْتِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي حُجْرَتِهَا وَصَلَاتُهَا فِي مَخْدَعِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي بَيْتِهَا۔

(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ)

یعنی عورت کی نماز اپنے کمرہ میں اپنے گھر سے بہتر ہے اور اپنی کوٹھڑی میں اس کی نماز اپنے کمرہ میں نماز سے بہتر ہے ۔

اسی طرح ایک اور روایت میں ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے:۔

لَوْ أَدْرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ۔

(صحیح بخاری کتاب الاذان)

یعنی اگر نبی کریم ﷺ کے سامنے یہ صورتحال ہوتی جو عورتوں نےاب نئی پیدا کرلی ہے تو آپؐ ان کو مسجد آنے سے ضرور روک دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔

پس احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کیلئے گھروں میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر اور افضل ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ گھروں میں بھی صحن یا کھلی جگہ جہاں پر لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے وہاں وہ نماز نہ پڑھے۔ گویا صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے حجرے میں نماز پڑھے۔ کجایہ کہ اسے یہ کہا جائے کہ مسجد میں جاکے نماز پڑھو۔ اس لئے عورت کیلئے گھر میں نماز پڑھنا بہر حال بہتر ہےاور اس کیلئے مسجد میں جانا ضروری نہیں ہے۔

اُس زمانہ میں چونکہ عورتیں مردوں کے پیچھے نماز پڑھتی تھیں۔ مرد آگے ہوتے تھے۔ اور ان کیلئے آجکل کی طرح باقاعدہ کوئی Enclosure تو ہوتا نہیں تھا اس لئے ہوسکتا ہے کہ مرد آتے جاتے عورتوں کو دیکھ لیتے ہوں تو اس وجہ سے بھی انہیں گھروں میں نماز پڑھنے کی تلقین کی گئی۔ اس صورت میں ایسی احادیث اگر چہ اُس زمانہ کے لحاظ سے تھیں لیکن آجکل بھی عورتوں کیلئے بہتر یہی ہے کہ وہ مسجدوں میں جانے کی بجائے اپنے گھروں میں نماز پڑھیں۔کیونکہ پہلے بیان کردہ دو احادیث واضح طور پر اس کی تائید کرتی ہیں کہ عورتیں گھروں میں نماز پڑھیں۔

(مرتبہ:۔ ظہیر احمد خان۔انچارج شعبہ ریکارڈدفتر پی ایس لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مارچ 2021