• 1 مئی, 2024

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ10۔اپریل 2020ء کا خلاصہ

خلاصہ خطبہ جمعہ

ہمیں نہیں پتا کہ یہ وباء خاص طور پر کوئی نشان ہے یا نہیں۔ اس کو حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانے کے طاعون کے ساتھ ملانا اور پھر اس قسم کی باتیں کرنا کہ نعوذ باللہ جو احمدی اس بیماری میں مبتلا ہیں یا اس سے وفات پا گئے ہیں ان کا ایمان کمزور ہے یا تھا، یہ کسی کو کہنے کا حق نہیں ہے

طاعون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ایک نشان کے طور پر ظاہر ہوئی۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاص طور پر فرمایا تھا۔ اس طاعون کی جو آپؑ کے زمانے میں آئی ایک علیحدہ حیثیت تھی

آپؑ فرماتے ہیں: ایسا ہی طاعون ہماری صداقت کے واسطے ایک نشان ہے اور ممکن ہے کہ اس میں ہماری جماعت کے بعض آدمی بھی شہید ہوں

جن کے سپرد مدد کے کام ہیں، وہ تمام احتیاطوں اور دُعاؤں کے ساتھ اس مدد کے فریضے کو سرانجام دیں اور بے احتیاطیوں سے بچیں۔ بلاوجہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالیں۔ یہ کوئی بہادری نہیں ہے یہ جہالت کہلاتی ہے

ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے لئے دُعاؤں کا راستہ کھلا ہے۔ہمیں اس یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے دُعاؤں کا راستہ کھولا ہے
اور خدا تعالیٰ دُعائیں سنتا ہے۔ اگر خالص ہو کر اُس کے آگے جھکا جائے تو وہ قبول کرتا ہے، کس رنگ میں قبول کرتا ہے یہ وہ بہتر جانتا ہے

جو احمدی کسی کاروبار میں ہیں وہ ان دنوں میں اپنی چیزوں پر غیر ضروری منافع بنانے کی کوشش نہ کریں اور غیر ضروری منافع بنانے کی بجائے خاص طور پر کھانے پینے کی چیزوں میں اور ضروری لازمی اشیاء میں کم سے کم منافع پر بیچیں۔ یہی انسانیت کی خدمت کے دن ہیں

ہمیں ان دنوں میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور بہت جھکنا چاہئے اور اس کا رحم اور فضل مانگنا چاہئے

جماعت کےدیرینہ خادم ،انتہائی مخلص کارکن اور نصف صدی تک خدمت بجا لانے والے مکرم ناصر احمد سعیدممبرعملہ حفاظت کی وفات پر مرحوم کا ذکر خیراور جماعتی خدمات کا تذکرہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے خطبہ جمعہ10۔اپریل 2020ء کا خلاصہ بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح ا لخامس ایدہ ا للہ تعالیٰ نےمورخہ10۔ اپریل 2020ء کو مسجد مبارک ، اسلام آباد ٹلفورڈ یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو کہ مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ ایم ٹی اےانٹر نیشنل پر براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا گیا ۔ حضورانور نے آغاز میں فرمایا: آج کل کرونا کی وبا کی وجہ سے جو دُنیا کے حالات ہیں اس نے اپنوں اور غیروں سب کو پریشان کیا ہوا ہے۔ لوگ اپنے پیاروں کی بیماریوں کی وجہ سے پریشان ہیں۔ احمدیوں میں سے بھی کچھ کو اس بیماری کا حملہ ہوا ہے ۔ بہرحال ایک پریشانی نے دُنیا کو گھیرا ہوا ہے۔ ایک مربی صاحب نے مجھے لکھا کہ سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ کچھ پتا نہیں لگ رہا کہ کیا ہو رہا ہے دُنیا کو۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آج کل کے زمانے کے حالات کے مطابق کہ وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَالَھَا۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے فروری 1920ء میں آج سے سو سال پہلے وباؤں، قحط، ابتلا ءاور طوفانوں کا ذکر کرتے ہوئے اس آیت کی مختصر وضاحت فرمائی تھی کہ پہلے ایک آدھی وباء یا ابتلاء آتے تھے لیکن اب یہ زمانہ ایسا ہے کہ اس میں ابتلاؤں کے دروازے کھل گئے ہیں۔ مَیں بھی گزشتہ کئی سالوں سے یہ کہہ رہا ہوں کہ حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے بعد اور جب سے کہ آپؑ نے دُنیا کو خاص طور پر آفات اور آسمانی بلاؤں سے ہوشیار کیا ہے دُنیا میں طوفانوں، زلزلوں، وباؤں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اور انسان کو عمومی طور پر یہ وبائیں اور آفات ہوشیار کرنے کے لئے آ رہی ہیں کہ تم اپنے پیدا کرنے والے اور اس کی مخلوق کے حق ادا کرو۔ پس ان حالات میں ہم نے خود بھی اللہ تعالیٰ کی طرف پہلے سے زیادہ جھکنا ہے اور دُنیا کو بھی ہوشیار کرنا ہے۔

حضور انور نے فرمایا: بعض بیماریاں اور وبائیں یا طوفان ایسے ہیں کہ جب دُنیا میں آئیں تو قدرتی طور پر اس کا اثر ہر ایک پر پڑتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ الٰہی جماعتوں کو اُن سے بالکل محفوظ رکھا جائے۔ کیونکہ یہ خدا کی مصلحتوں کے خلاف ہوتا ہے لیکن مؤمن ان مشکلات سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس کا شکرگزار بندہ بنتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ پس ہمیں ان دنوں میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور بہت جھکنا چاہئے اور اس کا رحم اور فضل مانگنا چاہئے۔ بعض لوگ تبصرے کر دیتے ہیں کہ یہ نشان کے طور پر وباء ہے اور کوئی ضرورت نہیں احتیاط کی۔ فرمایا: ہمیں نہیں پتا کہ یہ خاص طور پر کوئی نشان ہے یا نہیں ۔ عمومی طور پر تو بیشک کہا جا سکتا ہے لیکن اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کے طاعون کے ساتھ ملانا اور پھر اس قسم کی باتیں کرنا کہ نعوذ باللہ جو احمدی اس بیماری میں مبتلا ہیں یا اس سے وفات پا گئے ہیں ان کا ایمان کمزور ہے یا تھا، یہ کسی کو کہنے کا حق نہیں ہے۔ طاعون حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ایک نشان کے طور پر ظاہر ہوا گو کہ آنحضرت ﷺ نے اس بیماری سے فوت ہونے والے کو شہید قرار دیا ہے لیکن بہرحال یہ کیونکہ طاعون کی بیماری نشان کے طور پر ظاہر ہوئی تھی اور اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاص طور پر فرمایا تھا، اس بارے میں آپؑ نے اعلان بھی فرمایا تھا کہ یہ نشان ہے۔ اس لئے اس طاعون کی جو آپ کے زمانے میں آیا ایک علیحدہ حیثیت تھی لیکن ساتھ ہی اس وقت بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےیہ جماعت کو فرمایا بلکہ مفتی صاحب کو کہا اس کا اعلان کر دیں اخباروں میں کہ مَیں اپنی جماعت کے لئے بہت دُعا کرتا ہوں کہ وہ اس کو بچائے رکھے مگر قرآن کریم سے یہ ثابت ہے کہ جب قہر الٰہی نازل ہوتا ہے تو پھر بَدوں کے ساتھ نیک بھی لپیٹے جاتے ہیں اور پھر اُن کا حشر اپنے اپنے اعمال کے مطابق ہو گا۔آپؑ فرماتے ہیں کہ جہاد میں جو فتوحات ہوئیں ، آنحضرت ﷺ کے ساتھ صحابہؓ جہاد میں شامل ہوئے، اس کے بعد خلفائے راشدین کے زمانہ میں بھی جہاد ہوئے اُن میں بعض جگہ شکستیں بھی ہوئیں لیکن عمومی طور پر فتوحات ہوئیں۔ یہ سب اسلام کی صداقت کے واسطے نشان تھیں۔ لیکن ہر ایک میں کفارکے ساتھ مسلمان بھی مارے گئے۔ یہ نہیں ہوا کہ صرف کافر مارے گئے گو نشان کے طور پر تھا جہاد۔ فرمایا کہ مسلمان جو مارا گیا وہ شہید کہلایا۔ آپؑ فرماتے ہیں: ایسا ہی طاعون ہماری صداقت کے واسطے ایک نشان ہے اور ممکن ہے کہ اس میں ہماری جماعت کے بعض آدمی بھی شہید ہوں۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ سب سے اول حقوق اللہ کو ادا کرو، اپنے نفس کو جذبات سے پاک رکھو۔ اس کے بعد حقوق العباد کو ادا کرو۔فرمایا: خداتعالیٰ پر سچا ایمان لاؤ اور تضرّع کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور میں دُعا کرتے رہو اور کوئی دن ایسا نہ ہو جس دن تم نے خدا تعالیٰ کے حضور رو کردُعا نہ کی ہو۔ اس کے بعد اسباب ظاہری کی رعایت رکھو یعنی تمام جو ظاہری احتیاطیں ہیں وہ بجا لاؤ وہ پوری کرو۔ پھر فرمایا : جو تم میں سے بتقدیر الہٰی طاعون میں مبتلا ہو جاوے اس کے ساتھ اور اس کے لواحقین کے ساتھ پوری ہمدردی کرو اور ہر طرح سے اُن کی مدد کرو اور اُس کے علاج معالجہ میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھو، ہر قسم کی کوشش کرو۔ فرمایا: لیکن یاد رہے کہ ہمدردی کے یہ معنی نہیں کہ اُس کے زہریلے سانس یا کپڑوں سے متاثر ہو جاؤ۔ ہمدردی بیشک کرو لیکن احتیاطی تدابیر بھی ضروری ہیں اُن سے بچنا بھی ضروری ہے۔ بلکہ اس اثر سے بچو۔

حضور انور نے فرمایا:پس اس بات سے ہمیں یہ سبق لینا چاہئے کہ جو بھی یہ مدد کرنے والے ہیں اُن کو جو ضروری احتیاطیں ہیں مثلاً آج کل یہ کہا جاتا ہے کہ ماسک پہنو اور دوسری احتیاطیں ہیں اُن کو سامنے رکھنا چاہئے، اسی طرح سے بلا وجہ لوگوں کے گھروں میں آنے جانے سے بھی بچنا چاہئے ۔ حکومت نے بھی منع کیا ہے اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔ فرمایا: جن کے سپرد مدد کے کام ہیں، وہ تمام احتیاطوں اور دُعاؤں کے ساتھ اس مدد کے فریضے کو سرانجام دیں اور بے احتیاطیوں سے بچیں۔ بلاوجہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالیں۔ یہ کوئی بہادری نہیں ہے یہ جہالت کہلاتی ہے، پس بہت احتیاط کریں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: جو خدا نخواستہ اس بیماری سے مر جائے وہ شہید ہے اس کے واسطے ضرورت غسل کی نہیں اور نیا کفن پہنانے کی ضرورت نہیں، اس سے پھر شہید والا سلوک کیا جاتا ہے۔ یہاں تو حکومت نے کچھ حد تک اجازت دی ہوئی ہے غسل بھی کر سکتے ہیں اور کفن بھی پہنا دیتے ہیں، اُس وقت جو طاعون کے زمانے میں جو شدید حالات تھے اُس وقت آپؑ نے یہ فرمایا تھا کہ ضرورت نہیں۔ پھر تاکیداً آپ نے یہ بھی فرمایا کہ گھروں کی صفائی بہت زیادہ کرو۔ گھروں کی صفائی کے ساتھ اپنے کپڑے بھی صاف رکھو اور نالیاں بھی صاف کراتے رہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس بات کو خاص طور پر فرمایا کہ سب سے مقدم یہ ہے کہ اپنے دلوں کو بھی صاف کرو اور خدا تعالیٰ کے ساتھ پوری صُلح کر لو ۔ حضور انور نے فرمایا: پس ہمیں بھی ان حالات میں جو آج کل اس وباء کی وجہ سے ہیں اور ہر ایک اس سے متاثر ہے، ان باتوں کی طرف خاص توجہ رکھنی چاہئے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے لئے دُعاؤں کا راستہ کھلا ہے۔ہمیں اس یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے دُعاؤں کا راستہ کھولا ہے اور خدا تعالیٰ دُعائیں سنتا ہے۔ اگر خالص ہو کر اُس کے آگے جھکا جائے تو وہ قبول کرتا ہے، کس رنگ میں قبول کرتا ہے یہ وہ بہتر جانتا ہے۔ عمومی طور پر اپنے لئے اپنے پیاروں کے لئے اپنے عزیزوں کے لئے جماعت کے لئے اور عمومی طور پر انسانیت کے لئے دُعائیں کرنی چاہئیں۔

حضور انورنے فرمایا: دُنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں اور اُن میں احمدی بھی ہوں گے جن کے پاس احتیاط کے سامان میسر نہیں ،جن کو علاج کی سہولتیں نہیں ہیں،کھانے پینے کی سہولتیں نہیں ہیں ،اللہ تعالیٰ اُن پر بھی اور ہم سب پر بھی رحم فرمائے۔ ہم جماعتی طور پر کوشش کرتے ہیں کہ ان حالات میں خوراک یا علاج کی سہولتیں وغیرہ ہر احمدی تک پہنچائیں لیکن پھر بھی ہو سکتا ہے کمی رہ جاتی ہو ۔بلکہ ہم تو یہاں تک کوشش کرتے ہیں کہ غیروں تک بھی یہ سب سہولتیں جہاں ضرورت ہے پہنچیں اور بے غرض ہو کر یہ خدمت خالصتاً ہمدردی کے جذبے سے ہم کرتے ہیں۔ پھر مَیں کہوں گا کہ آج کل دُعاؤں دُعاؤں اور دُعاؤں پر بہت زور دیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فرد کو ہر لحاظ سے اور مجموعی طور پر جماعت کو بھی ہر لحاظ سے اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی دُعائیں کرنے اور دُعاؤں کی قبولیت سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

حضور انور نے فرمایا: جو احمدی کسی کاروبار میں ہیں وہ ان دنوں میں اپنی چیزوں پر غیر ضروری منافع بنانے کی کوشش نہ کریں اور غیر ضروری منافع بنانے کی بجائے خاص طور پر کھانے پینے کی چیزوں میں اور ضروری لازمی اشیاء میں کم سے کم منافع پر بیچیں۔ یہی انسانیت کی خدمت کے دن ہیں جس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تلقین فرمائی ہے کہ ہمدردی کا جذبہ پیدا کرو۔ حقوق العباد کی ادائیگی کے یہی دن ہیں اور اس ذریعہ سے یہ خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے بھی دن ہیں۔

حضور انور نے آخر پر جماعت کے ایک انتہائی مخلص کارکن اور خادم سلسلہ مکرم ناصر احمد سعید کے 5۔اپریل کو بقضائے الٰہی وفات پا جانے پر مرحوم کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا: 1973ء میں نظارت امور عامہ کے تحت بطور کارکن حفاظت خاص ان کا تقرر ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے ربوہ سے ہجرت کرنے کے بعد 1985ء میں ربوہ سے لندن ان کا تبادلہ ہو گیا اور خدمت سرانجام دیتے رہے۔ عمر کے لحاظ سے اکتوبر 2010ء میں انہیں ریٹائر کر دیا گیا تھا لیکن انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنا کام جاری رکھا، ڈیوٹی کے فرائض سرانجام دیتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت ثالثہ سے لے کر اب تک میرے وقت تک ان کو ڈیوٹی کی سعادت ملی۔فرمایا: ناصر سعید صاحب بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ بڑی ایمانداری اور مستعدی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے تھے۔ ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ کلثوم بیگم صاحبہ، ایک بیٹا ہے خالد سعید اور ان کے بچے ہیں۔ مرحوم اپنے سب عزیزواقارب سے نہایت پرخلوص محبت کا سلوک رکھتے تھے اور بہت سے ضرورتمند اقرباء کی خاموشی سے امداد بھی کرتے رہتے تھے۔ خلافت کے وفادار اور اطاعت شعار تھے۔ ان کی روح کا محور صرف اور صرف خلافت احمدیہ تھا ۔ڈیوٹی کے معاملے میں ہمیشہ بڑے ایماندار تھے ،ہمیشہ اپنی ڈیوٹی کے لئے وقت سے پہلے آ جایا کرتے تھے اور بصیغہ راز کوئی پیغام ہوتا تھا تو ہمیشہ اس کو راز رکھتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی یہی تلقین کرتے کہ بصیغہ راز رکھنا چاہئے اور اپنے کسی ساتھی کو کبھی بھی اس کا ذکر نہیں کرتے تھے۔ دُنیاوی آلائشوں سے مبرّا تھے۔ خدمت دین ہی اُن کا نصب العین تھا ۔ دلی خواہش رکھتے تھے کہ خلافت کے دَر پر جان نکلے اور اسی کو انہوں نے سچ کر دکھایا۔ مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ تھے، ہر بڑے چھوٹے کی عزت کا خیال رکھتے تھے، اپنے سے سینئر کی بیحد عزت کرتے تھے ،کبھی زبان پر گلہ شکوہ نہیں لائے اور ہمیشہ ہر حکم کی تعمیل کو اپنا فرض جانا۔ گو وہ کسی بڑے اعلیٰ عہدے پر فائز نہیں تھے جماعت کے لیکن معمولی خدمت گزار ہونے کے باوجود ہر دلعزیز تھے جس سے ملتے اس کا دل موہ لیتے تھے۔

پھر ان کی ایک نمایاں خوبی اکرام ضیف تھی خاص طور پر جلسہ کے دنوں میں یہ صفت ان کی اپنے عروج پر ہوتی تھی۔ گفتگو کا انداز بڑا شفقت والا اور نرم تھا ۔ ہر وقت ڈیوٹی کے لئے کمربستہ رہتے تھے۔ شدید بیماری میں بھی اس وقت ڈیوٹی کی فکر تھی۔بڑی جانفشانی ، محنت اور لگن کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھاتے تھے۔ اطہراحمد صاحب کارکن حفاظت خاص کے، یہ لکھتے ہیں کہ مَیں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اڑتالیس سال تین خلافتوں کے ساتھ ڈیوٹی کی ہے۔ مجھے کوئی نصیحت کریں تا کہ میں بھی آپ کی طرح ڈیوٹی کر سکوں تو انہوں نے کہا کہ یہاں اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنا اور زبان بند رکھنا اور اس کے ساتھ دُعا کرتے رہنا۔ فرمایا: یہ نصیحت جو ہے یہ عمومی طور پر ہر واقف زندگی کے لئے ضروری ہے۔ اس پر عمل کرنا ہر کارکن اور عہدیدار کے لئے ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت کا سلوک فرمائے ان کے درجات بلند کرے۔ ان کی اہلیہ کو بھی صحت والی زندگی عطا فرمائے اور صبر اور حوصلہ بھی عطا فرمائے۔ ان کے بیٹے کو بھی وفا کے ساتھ خلافت اور جماعت سے جوڑے رکھے بلکہ ان کی نسل کو بھی۔

حضور انور نےفرمایا: مَیں ان کو اس وقت سے جانتا ہوں جب یہ جماعت کی خدمت کے لئے آئے تھے ربوہ میں۔ یقیناً بڑے بے لوث ہو کر خدمت کرنے اور کامل اطاعت کرنے والے تھے۔ ان کی وفات ایسے حالات میں ہوئی ہے جب جنازے میں زیادہ لوگ شامل نہیں ہو سکتے۔ کچھ عرصہ سےیہ دل کے مریض تھے ۔ انہیں شدید دل کا حملہ ہوا ۔ پھر بعد میں کرونا وائرس کا بھی حملہ ہو گیا ۔ چند دن ہسپتال میں زیر علاج رہے اور وہیں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ یہاں جو قانونی پابندیاں ہیں اس وجہ سے جنازہ بھی یہاں نہیں لایا جا سکتا اور چند قریبی افراد کے علاوہ جنازہ میں جمع بھی نہیں ہو سکتے اور پھر جنازے کے لئے بھی شرط ہے کہ وہی جو funeral home ہے ان کا یا قبرستان اسی میں ہی جنازہ ہو گا اس لئے بہرحال آج کل جو حالات ہیں اس وجہ سے مَیں بھی ان کا جنازہ غائب کسی وقت پڑھاؤں گا بعد میں۔ بہرحال جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اپنی خدمت کو اپنے عہد کو وفا سے نبھاتے ہوئے یہ اس دُنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ہر عہد جو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا اس کو پورا کیا، اُن کی زندگی میں یہی نظر آتا ہے ہمیں۔ اس لحاظ سے یہ ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑنے فرمایا کہ یہ شہید ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اُن میں شامل فرمائے اور جن احمدیوں کی اس بیماری کی وجہ سے وفات ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ اُن سے بھی رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے ۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ