• 27 اپریل, 2024

ابابیل کی حقیقت

سورۃ الفیل میں یمن کے گورنر ابرہہ کے لشکر کی ابابیل پرندوں کے ذریعہ تباہی کا ذکر ہے۔ گزشتہ تفاسیر میں یہ قصہ بہت مبالغہ آرائی کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ بعضوں نے ابابیل کے جسم کو ایک جناتی مخلوق کیطرح بیان کیا ہے کہ انکی چونچ اونٹ کیطرح اور پنجے شیر کے پنجوں کیطرح تھے۔ بعضوں نے ان پتھروں کوجو انہوں نے پھینکے ان کے متعلق لکھا ہے کہ وہ سر پر لگتے اور پاخانہ کے راستے نکلتے ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے نزدیک ابابیل سے مراد ابابیل پرندہ نہیں کیونکہ اسکو عربی میں خفاش کہتے ہیں۔ اسکا عربی میں مطلب جھنڈ در جھنڈ یا غول درغول ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ابرہہ کے لشکر میں چیچک کی بیماری پھیل گئی تھی اور اس بات کا ثبوت کہ ان میں چیچک کی بیماری پھیلی تھی یہ ہے کہ روایات میں ملتا ہے کہ اس کے لشکر کے لوگ اندھے ہوگئے تھے اور جسم گل گیا تھا اور یہ دونوں علامتیں چیچک کی بیماری کی ہیں۔چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں:
’’درمنثور میں ابن اسحاق جو ایک بہت بڑے مؤرخ گزرے ہیں حضرت عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں ۔۔۔ کہ آپؓ نے فرمایا میں نے خود مکہ میں اپنی آنکھوں سے دو آدمیوں کو دیکھا ہے جو بھیک مانگ رہے تھے اور آنکھوں سے اندھے تھے۔ میں نے کسی سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ تو اس نے بتایا کہ یہ ابرہہ کے ہاتھیوں کے مہاوت ہیں۔۔۔۔ پھر یہ بھی تاریخوں سے پتہ لگتا ہے کہ جس کو وہ پتھرلگتا اسکا گوشت جھڑنے لگ جاتا تھا یہ بھی چیچک کی ایک علامت ہے۔ جب چیچک بڑی کثرت اور شدت کیساتھ نکلتی ہے تو جسم کا گوشت گل سڑ کر جھڑنے لگتا ہے اور چمڑا بالکل گل جاتا ہے۔ اسکے علاوہ پتھروں کی جو شکل بتائی گئی ہے وہ بھی چیچک کے دانوں سے ملتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ وہ پتھر چنے سے چھوٹا اور مسور سے بڑا ہوتا ہے اور یہی چیچک کے دانوں کی کیفیت ہوتی ہے‘‘

(تفسیر کبیر جلد دہم ص50)

یمن اس وقت حبشہ(موجودہ ایتھوپیا اور اریٹریا ملک) کے ماتحت تھا اور حبشہ یعنی افریقہ کے علاقے کی خاص بیماری چیچک تھی۔ آپؓ فرماتے ہیں:
’’چیچک کی مرض حبشیوں کی مخصوص مرض ہے بعض امراض بعض ملکوں سے مخصوص ہوتی ہیں۔ چیچک اصل میں حبشہ سے آئی اوراسی ملک کی مخصوص بیماری ہے جس طرح آتشک اصل میں یورپ سے آئی اسی لئے عربی کتب میں آتشک کو داءالافرنج کہتے ہیں یعنی یورپین لوگوں کی بیماری‘‘

(تفسیر کبیر جلد دہم ص46)

اور اگر آج کے دور میں مثال تلاش کریں تو ہم کہیں گے کہ کرونا چین کے علاقے سے شروع ہوا۔ حضرت خلیفہ ٔ ثانیؓ کے مطابق ابرہہ کے لشکر میں جس میں یقینا ًحبشی یعنی افریقی بھی ہونگے کیونکہ یمن اس وقت حبشہ کے ماتحت تھا۔ چیچک کی وبا پھیل گئی اور یہ وبا لشکر کے اندر سے ہی ان حبشی فوجیوں کے ذریعے پھیلی جن میں چیچک کے جراثیم تھے ۔ ہروبائی مرض کیطرح چیچک بھی اجتماع میں زیادہ پھیلتی ہے تو ابرہہ کا لشکر تتر بتر ہوکر وہاں سے بھاگا۔ بہت سا لشکر وہیں مرگیا اور ان نعشوں پر پھر گدھیں اور چیلیں جھنڈ درجھنڈ آئیں اور وہ انکے گوشت کو نکال کر پھر پتھریلی جگہ پر لے جاکر پتھر پرمارمار کر کھاتیں تھیں۔ اس علاقے کے پتھر مٹی ملے یعنی کنکر شکل کے ہوتے ہیں ۔حضرت خلیفۃ اولؓ فرماتے ہیں :
’’سجیل کے معنی سخت کنکر کے ہیں ۔۔۔۔ جس مقام پر یہ لشکر ہلاک ہوا وہ مزدلفہ اور منی کے درمیان کی جگہ ہے۔ اب بھی حاجی لوگ رمی جمار کیلئے اسی میدان سے کنکریاں چن کرساتھ لے جاتے ہیں‘‘

(حقائق الفرقان جلد چہارم ص463)

اور یہ نقشہ اس آیت کا ہے تَرۡمِیۡہِمۡ بِحِجَارَۃٍ مِّنۡ سِجِّیۡلٍ یعنی وہ پرندے یعنی گدھیں چیلیں انکو یعنی انکے گوشت کو مٹی ملے پتھروں پر مارتیں۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’تَرۡمِیۡہِمۡ بِحِجَارَۃٍ مِّنۡ سِجِّیۡلٍ کے معنٰے عام محاورہ کے مطابق تو یہ ہیں کہ ان پر سجیل مارتے تھے لیکن اس کے یہ معنٰے بھی ہوسکتے ہیں کہ ان کو سجیل پر مارتے تھے اور چونکہ مردار خوار پرندوں کا یہ عام قاعدہ ہے کہ وہ مردہ کا گوشت لیکر پتھر پر بیٹھ جاتے ہیں اور گوشت کو بار بار پتھر پرمارتے جاتےاورکھاتے جاتے ہیں نہ معلوم اسے نرم کرتے ہیں یا اسکی صفائی کرتے ہیں بہرحال چیلوں اور گدھوں کا یہ عام قاعدہ ہے‘‘۔

(تفسیر کبیر جلد دہم ص76)

اور جب چیلیں سارا گوشت کھا لیتی ہیں تو پیچھے ڈھانچہ یعنی خول بچ جاتا ہے اور یہ بالکل وہی شکل ہے جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے فَجَعَلَہُمۡ کَعَصۡفٍ مَّاۡکُوۡلٍ جب اناج اندر سے کوئی بیماری کھا جائے اور چھلکا،خول باقی رہے تو اسکو عصف کہتے ہیں۔ آپؓ فرماتے ہیں :
’’فَجَعَلَہُمۡ کَعَصۡفٍ مَّاۡکُوۡلٍ اس نے انہیں دانہ کھائے ہوئے سٹے کیطرح کردیا جس طرح اندر سے گندم کو کیڑا کھا جائے اور اوپر کا صرف چھلکا باقی رہ جائے اسی طرح انکی کیفیت ہوگئی۔ انکا گوشت سب گدھیں اور چیلیں اورکوے کھا گئے اور باقی صرف ہڈیاں رہ گئیں یا چمڑا اور سر کے بال رہ گئے‘‘

(تفسیر کبیر جلد دہم ص77)

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ و حضرت خلیفۂ ثانیؓ نے ابابیل کےترجمہ جھنڈ درجھنڈ،غول درغول کو زیادہ اپنایا ہے اور سابقہ مفسرین کے اس قول کو بھی درج کیا ہے جو ابابیل سے مراد ابابیل پرندہ ہی لیتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بھی ابابیل کا ترجمہ غول در غول (پرندے) کے کیے ہیں لیکن آپؒ کے مطابق چیچک کی بیماری لشکر کے اندر سے نہیں بلکہ ابابیل پرندوں کے ذریعہ پھیلی تھی۔ آپؒ سورۃ الفیل کے تعارف میں فرماتے ہیں:
’’وہ اصحاب الفیل یعنی بڑے بڑے ہاتھیوں والے تھے لیکن پیشتر اس سے کہ وہ ان بڑے بڑے ہاتھیوں پر مکہ تک پہنچتے ان پر ابابیل نے جو سمندری چٹانوں کی کھوہوں میں گھر بناتی ہیں ایسے کنکر برسائے جن میں چیچک کے جراثیم تھے اور ساری فوج میں وہ خطرناک بیماری پھیل گئی اور آنا ًفانا ًوہ ایسی لاشوں کے ڈھیر ہوگئے جیسے کھایا ہوا بھوسا ہو۔ انکے جسموں کو مردارخورپرندے پٹک پٹک کر زمین پر مارتے تھے‘‘۔

(ترجمۃ القرآن از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ص1212)

ابابیل پرندے کے متعلق کچھ حقائق کی بنیاد پر واقعہ اصحاب الفیل کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سارے معاملے کو عقلی بنیادوں پر اس لئے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بنائے ہوئے قوانین کو موقع محل پر استعمال کر کے ہی معجزات دکھاتا ہے ۔بعض جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا جادو کی طرح اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کو توڑ کر معجزہ دکھاتا ہے تو وہ معجزے کے متعلق غلط تصور قائم کرکے بیٹھے ہیں ۔یہ تو خدا پر الٹا اعتراض پڑتا ہے کہ اس نے خود ہی قوانین بنا کر اور پھریہ وعدہ بھی کرکے کہ میں اپنی سنت یعنی قانون کو نہیں توڑتا خود ہی اپنا قانون توڑ دیا۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے فرعون کے غرق ہونے کا واقعہ بہترین مثال ہے کہ حضرت موسیؑ اور ان کی قوم کو اللہ تعالیٰ اپنی کمال حکمت سے اس وقت سمندر پار کرانے کے لئے لایا کہ جب جزر کا وقت تھا اور سمندر اپنے ساحل سے کافی پیچھے ہٹا ہوا تھا اور جب فرعون اپنے لشکر کیساتھ پیچھا کرتے ہوئے ساحل پر پہنچا تو جب وہ ساحل عبور کررہا تھا تو اس وقت مد کا وقت شروع ہوگیا کہ جب سمندر کا پانی ساحل کیطرف بڑھتا ہے اور کافی دور تک چلا جاتا ہے۔

ابابیل پرندے کو انگلش میں سویلواور مارٹن بھی کہتے ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹینیکا، وکی پیڈیا، آل ابؤٹ برڈز، لونگ وِد برڈز ویب سائٹس پر اس پرندے کی مندرجہ ذیل نمایاں خصوصیات بیان ہیں:

1۔ یہ ایک ہجرت کرنے والا پرندہ ہے اور دنیا کے تمام براعظموں میں پایا جاتا اورہر پرندے کیطرح اسکی کئی قسمیں ہیں۔

2۔ ابابیل کی تمام قسمیں ہجرت کرتی ہیں۔ یہ گرم موسم کوپسند کرتا ہے کیونکہ سردی اسکے موافق نہیں نیز اسکی ہجرت کی اصل بڑی وجہ یہ ہے کہ اسکی خوراک کا انحصارفضائی وزمینی کیڑے مکوڑوں و حشرات پر ہے جو زیادہ تر گرمیوں یا معتدل موسم میں نکلتے ہیں تو جب کسی علاقے میں موسمی تبدیلی کیوجہ سے حشرات کم ہونے لگتے ہیں تو یہ وہاں سے ایسے علاقے میں ہجرت کرتے ہیں جہاں حشرات وغیرہ نکلنے کا موسم شروع ہو۔ دنیا میں پائی جانے والی ابابیلیں مخصوص علاقے سے مخصوص علاقے کی طرف ہی ہجرت کرتی ہیں لیکن غالباً سب سے بڑی ،طویل اور مشہور ہجرت افریقہ میں پائی جانے والی ابابیلوں کی ہے وہ مارچ اپریل میں ہجرت کر کے یورپ کی طرف جاتی ہیں جہاں موسم معتدل یا قدرے گرم ہونا شروع ہوجاتا ہے اور اگست کے لگ بھگ جب یورپ میں سردی شروع ہوتی ہے تو یہ واپس افریقہ آجاتی ہیں۔

3۔ مختلف علاقوں میں رہنے والی ابابیل اپنے علاقے کے لحاظ سے پانی کے پاس گھونسلے بناتی ہے مثلا ًدریا سمندر نہر وغیرہ کے پاس رہنے والی ابابیل اپنا گھر دریا یا سمندر کنارے کھوہوں میں بناتی ہے اور انکے گھر مٹی ملے پتھروں یعنی کنکروں سے بنے ہوتےہیں یا وہ جگہیں جس میں یہ کھوہیں بناتی ہیں کنکروں کی طرح کے پتھروں سے بنی ہوتی ہیں اور جو ابابیلیں خشکی پر رہتی ہیں وہ اپنا گھونسلہ گھاس اور تنکوں وغیرہ سے بناتی ہیں۔

4۔ ابابیل کی یہ خاص خصوصیت ہے کہ یہ اڑتے ہوئے ہی اپنی خوراک کا انتظام کرلیتی ہے ہوا میں اڑنے والے کیڑوں کو کھالیتی ہیں۔

اب خدا تعالی کی قدرت نے اپنے خاص ارادے سے یہ کیا کہ ابرہہ کا لشکر اس وقت مکہ کی طرف حملہ کرنے کیلئے گیا جب افریقہ کی ابابیلیوں نے ہجرت کرکے یورپ جانا تھا اس بات کا ثبوت کہ وہ ابابیلوں کی ہجرت کا وقت تھا یہ ہے کہ مقاتل بن سلیمان کی ایک روایت ہے کہ جو گرجا ابرہہ نے مکہ کے مقابلہ پربنایا تھا اسکو آگ لگ گئی تھی اور یہ آگ اسطرح لگی کہ عرب کہ کچھ نوجوانوں نے آگ جلائی اور اتفاقا ًاس دن ہوا تیز چلی اور اس آگ کی چنگاریوں سے گرجا کو آگ لگ گئی۔ نوجوانوں کے آگ جلانے سے یہ قرینہ نکلتا ہے کہ وہ سردیوں کا موسم تھا اور عرب میں سخت سردی جنوری کے مہینے میں ہوتی ہے۔ اور تاریخی اعتبار سےایک زبردست ثبوت اسکا سیرت خاتم النبیین صفحہ 93 میں یوں درج ہے ’’چنانچہ واقعہ اصحاب الفیل کے پچیس روز بعد 12 ربیع الاول مطابق 29 اگست 571ء کو یا ایک جدید اور غالبا صحیح تحقیق کی رو سے 9 ربیع الاول مطابق 20اپریل 571ء بروز پیر بوقت صبح آنحضرتؐ کی ولادت ہوئی‘‘ 20 اپریل سے 25 دن نکالیں تو مارچ کا آخر بنتا ہے اور بالکل یہی وقت ابابیل کی ہجرت کا ہے اور گرجا کو آگ لگنے کے واقعہ کے بعد ابرہہ کا مکہ پر حملہ کا ارادہ کرنا، لشکر تیار کرنا اور مکہ تک کی مسافت طے کرنا اور اس مسافت کے دوران پہلے یمن کے لوگوں اور پھر راستے میں خشعم کے مقام پر بھی بعض عرب قبائل کا ابرہہ سے باقاعدہ لڑائی کرنا کہ وہ مکہ پر حملہ نہ کرے اس ساری صورت حال میں ایک سے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ لازما ًلگ جاتا ہے اور گرجا کو آگ لگنے کا واقعہ اگر جنوری یا اسکے آس پاس کا ہو تو یہ مارچ یا اپریل کے شروع کے لگ بھگ مکہ کے قریب پہنچا ہوگا اور مارچ اپریل میں ہی افریقہ کے مشرقی ساحل یعنی بحراحمر اور جنوبی ساحل یعنی بحرہند پر رہنے والی ابابیلیں اور افریقہ کے میدانی علاقے والی ابابیلیں ہجرت کرتی ہیں یہ ابابیلیں جب ابرہہ کے 60 ہزار کے بڑے لشکر پر سے گزریں (تاریخی کتب میں لشکر کی تعداد مختلف بیان ہوئی ہیں) تو اتنے بڑے اجتماع کو دیکھنا پرندوں کیلئے یقیناً اچنبھا واقعہ ہوگا اور پرندے کی یہ فطرت ہے کہ جب اسکے نیچے کوئی آدمی کھڑا ہوتا ہے تو یہ اس پر کوئی چیز پھینکتا ہے وہ بیشک اس پر اپنا فضلہ پھینکے یا منہ یا پنجے میں پکڑی ہوئی کوئی چیز۔اور اس بات کا تجربہ ہم میں سے اکثریت کو ہوا ہوگا کہ درخت یا بجلی کی تاروں پر بیٹھے ہوئے پرندے جب کوئی انکے عین نیچے کھڑا ہوتا ہے تو اس پراپنا فضلہ یا منہ یا پنجوں میں پکڑی ہوئی چیز پھینک دیتے ہیں ابابیلوں نے جب نیچے اتنے بڑے لشکر کو دیکھا تو اس نے اپنی اسی فطرت کے مطابق ردعمل دیا اور اس لشکر پر جو بھی انکے منہ یا پاؤں میں تھا پھینکا جس میں چیچک کے جراثیم تھے کیونکہ وہ افریقہ کے علاقے سے آرہی تھیں جہاں کی یہ بیماری ہے۔

اس حل تک پہنچنے کے بعد یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ آخر وہ کیا تھا جو ابابیلوں نے ان پر پھینکا۔ اگر تَرۡمِیۡہِمۡ بِحِجَارَۃٍ مِّنۡ سِجِّیۡلٍ کا فعل ابابیلوں کیطرف منسوب کریں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ابابیلوں نے ان پر مٹی ملے پتھر یعنی کنکر یا ریزے پھینکے وہ کنکر\ریزے ابابیلیں کیسے اور کیوں ساتھ لیکر آئیں؟ اسکا ایک یہ جواب ہوسکتا ہے جو زیادہ قوی ہے کہ ان پرندوں کے پنجے کنکروں سے لتھڑے ہوں کیونکہ وہ سمندری ساحل پررہنے کیوجہ سے اور افریقہ میں بارشی موسم شروع ہونے کیوجہ سے انکی کھوہوں اور کھوہوں کے اردگرد اور میدانی علاقوں میں کیچڑ یا بہت نمی ہوگئی ہو اور وہ کیچڑانکے پنجوں وچونچ کے ساتھ لگا ہو اور جب وہ لشکر کے اوپر سے گزرے اور تب تک پرواز کیوجہ سے وہ کیچڑ خشک ہوگیا ہو تو انہوں نے اپنے پنجے جھاڑے ہوں اور اگر چونچ کو بھی کیچڑ لگا ہو تو اسکو بھی جھاڑا ہو۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے نے سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 90 میں یہی امکان بیان کیا ہے آپؓ فرماتے ہیں ’’تو اس وقت خدائی تصرف کے ماتحت ان کے اوپر سے ایسے پرندوں کے غول گزرے جنکے پنجوں میں ایسی زہر آلود مٹی کے ریزے لگے ہوئے تھے کہ جس جس کے اوپر یہ ریزے گرتے تھےوہ چیچک جیسی مہلک اور متعدی بیماری میں مبتلا ہوجاتا تھا‘‘ دوسرا یہ بھی امکان ہے کہ ہجرت کے وقت منہ میں کنکروغیرہ لیکر جانا اسکی خصلت میں ہو جسے وائلڈ لائف والے ابھی تک دریافت نہ کرسکے ہوں ایک یہ امکان بھی ہے کہ ہجرت کے وقت انہوں نے اپنے منہ میں اپنی زائدخوراک رکھی ہوکیونکہ یہ پرندہ دوران پرواز خوراک کھانے کی خاص خصوصیت رکھتا ہے تو لشکر کے اوپر سے گزرتے ہوئے انہوں نے وہ خوراک پھینکی ہو یا ان پر فضلہ کیا ہو اور تَرۡمِیۡہِمۡ بِحِجَارَۃٍ مِّنۡ سِجِّیۡل کا ٹکڑہ گدھوں اور چیلوں سے تعلق رکھتا ہو کہ وہ لشکر ابابیلوں کے ذریعہ چیچک سے ہلاک ہوگیا اور پھر چیلوں گدھوں نے انکا گوشت نوچ کر پتھروں پر مار مار کر کھایا۔ اور اسطرح اس آیت وَّ اَرۡسَلَ عَلَیۡہِمۡ طَیۡرًا اَبَابِیۡلَ کا ترجمہ یوں بنے گا اور ہم نے انکی ہلاکت کیلئے (مختلف) پرندے بھیجے جن میں ابابیل کا خاص ذکر کردیا کیونکہ ہلاکت میں اصل کرداراسی کا تھا۔اگر ابابیل سے مراد جھنڈ کی بجائے ابابیل پرندہ ہی لیں تو یہ پہلو بھی درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ ابابیل خود ایک پرندہ ہے پھر اس سے پہلے طیرا ًیعنی پرندے کا لفظ لانے کی کیا ضرورت تھی اسکا مطلب یہی ہے کہ انکے عبرت ناک انجام میں اور پرندوں یعنی چیل گدھوں کوؤں وغیرہ نے بھی حصہ لیا ہے اور ابابیل کا ذکر اس لئے کردیا کہ اسکا کردار زیادہ نمایاں تھا یعنی ابابیل نے بیماری پھیلا کر ہلاک کیا اور چیل گدھوں وغیرہ نے گوشت نوچ کر عبرت ناک صورت حال پیدا کی۔ اس طرح کا اسلوب قرآن کریم نے اور جگہ بھی استعمال کیا ہے مثلاً قرآن کریم میں جنت کے پھلوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے فِیۡہِمَا فَاکِہَۃٌ وَّ نَخۡلٌ وَّ رُمَّانٌ (سورۃ الرحمٰن 69) یعنی ان دونوں میں پھل ہیں اور کھجور اور انار ہیں حالانکہ کھجوراورانار بھی پھل ہی ہیں باقی پھلوں سے انکی نمایاں خصوصیت کیوجہ سے انکو الگ بیان کیا ہے اور اسطرح سے ایک اور عقدہ بھی حل ہوجاتا ہے کہ اگر ابابیل ے مراد ابابیل ہی ہے اور تَرۡمِیۡہِمۡ بِحِجَارَۃٍ مِّنۡ سِجِّیۡلٍ والا کام چیلوں گدھوں نے کیا تو تَرۡمِیۡہِمۡ غائب ضمیر سے شروع ہوا ہے اور غائب ضمیر تبھی آسکتی ہے جب اسکا پہلے فاعل آچکا ہو۔ تو اسکا فاعل کہاں ہے تو اگر طیرًا اور ابابیل کو الگ الگ کردیں تو طیرًا اسکا فاعل مل جاتا ہے

اور ایک ترجمہ اسطرح سے بھی ہوسکتا ہے جو سارے واقعے کوسمیٹ لیتا ہے کہ اللہ تعالی کے کلام کا اعجاز ہے کہ اسکا ایک جملہ کئی مفاہیم اداکردیتا ہے کہ تَرۡمِیۡہِمۡ بِحِجَارَۃٍ مِّنۡ سِجِّیۡلٍ کا فاعل ابابیل بھی ہوں اور طیرا یعنی چیل گدھیں بھی اور دونوں کے فعل کے مطابق دو ترجمے کیے جائیں یعنی ابابیل نے ان پر کنکر پھینکے اور چیل ، گدھوں نے انکو پتھروں پر مارا یعنی انکے گوشت کو۔

واللّٰہ اعلم بالصواب۔

(ع ۔ا۔ ورک)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اپریل 2021