• 11 جولائی, 2025

محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد گلشن احمد کا درخشندہ وجود

محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد جنہیں آج بھی مرحوم لکھتے ہوئے قلم رُک جاتا ہے اور دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔ ایسے وجوددنیا میںباربارنہیں آتےجن کےچلےجانےسےدُنیا میں اندھیرا چھا جاتا ہے اورروشنی مدھم ہوجاتی ہے۔آپ بڑے نیک رحم دل انسان تھے غریبوں اور کمزوروں کے لئے آپ کے دِل میں ایک خاص جگہ تھی۔ آپ پُروقار اور پُرخلوص شخصیت کے مالک تھے۔آپ کا معاشرہ پر،اردگرد ماحول پراس قدر رُعب و دبدبہ اورادب و احترام تھا کسی کی مجال نہیں تھی کہ کوئی کسی پر زیادتی کرے ۔ لیکن کبھی بھی آپ نے کسی کی بے جا حمایت نہیں کی۔ آپ دیکھتے تھے اس پر زیادتی ہوئی ہے اور اس کا حق مارا گیا ہے ۔ اس کی مدد ہونی چاہئے پھر آپ حضرت ابو بکر ؓکی طرح کھڑے ہو جاتے تھے کہ ’’تمہارا کمزور شخص میرے نزدیک قوی ہے جب تک میں اس کا حق نہ دلوادوں اور تمہارا قوی شخص میرے نزدیک کمزور ہے جب تک کہ اس کے ذمّہ جو حق ہے وہ اس سے لے نہ لوں‘‘۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے نظارتِ خدمت درویشان قادیان کے اہم منصب کی ذمہ داری آپ کے نازک کندھوں پر ڈالی۔ آپ کو ناظرخدمتِ درویشان مقرر فرمایا (قبل ازیں اس جلیل القدرعہدہ پرقمر الانبیا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرا حمد ؓ اور حضرت میر داؤد احمد مرحوم جیسی شخصیات مقرر تھیں) آپ کا درویشانِ قادیان کے ساتھ انتہائی والہانہ اور محبانہ سلوک رہا آج کوئی درویش حیات نہیں (تین سو تیرا میں الا ماشاءاللہ) جو آپ پر آنسو بہائے ۔ آپ سے وابستہ یادوں کی جُگالی کرے ۔اور آپ کے احسانوں کو یاد کر کے روئے لیکن محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد! درویشانِ قادیان کی روحیں یقینی طور پر جنت میں اپنے ہاتھوں میں پھولوں کی مالائیں لئے اھلاً و سھلاً و مرحبا کہتے ہوئے منتظرہی ہوں گی۔ آپ درویشانِ قادیان کے لئے ایک شفیق باپ کی حیثیت رکھتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے جس اعتماد اور اُمید پر آپ کو اس عہدہ پر مقرر فرمایا تھا آپ اُس پر کھرے اُ ترے ہم تابعین گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے اس کا حق ادا کیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے بھی اپنے ایک خطبہ جمعہ میں بہت اچھے پیرائے میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ بُزرگانِ قادیان اور درویشانِ قادیان کا احترام اور عزت آپ کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ آپ کے نصیحت کرنے کا انداز اس قدر پیارا اور نرالا تھا کہ ہر کوئی گرویدہ ہو جاتا۔ آپ اعلیٰ عہدہ پر تھے اہل قادیان کیلئے ہائی کمان کی حیثیت رکھتے تھے۔ ہماری غلطیوں، کمزوریوں پر مواخذا اور گرفت کر سکتے تھے۔ لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ اس لئے کہ آپ ’’ابنائے فارس‘‘ میں سے تھے جن کو یہ زیب نہیں دیتا۔ خاکسار مولوی فاضل کا امتحان پنجاب یونیورسٹی چنڈیگڑھ سے دیا تھا۔ رزلٹ آیا تو ایک پرچہ میں فیل قرار دیا گیا۔ مجھے بہت دُکھ ہوا۔ محترم حضرت صاحبزادہ مرزا خورشید احمد کو ربوہ لکھا اور ساتھ ہی مارکس شیٹ کی نقل بھی بھیج دی۔ آپ نے ربوہ سے تحریر فرمایا … ’’باقی تمام پرچوں میں آپ کے نمبر بہت اچھے ہیں اس پرچہ کی آپ دوبارہ جانچ کروائیں۔‘‘ آپ کی ہدایت پر اس پرچہ کی دوبارہ جانچ کروائی گئی ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور آپ کی رہنمائی و دعا سے یونیورسٹی نے اس پرچہ میں بھی پاس قرار دیا۔ الحمد للہ۔

خاکسار سے آپ کا تعارف غائبانہ تھا ۔ہر مبلغ کی ماہانہ تبلیغی و تر بیتی کارگُزاری کی رپورٹ کا خلاصہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں آپ کی معرفت پیش ہوا کرتا تھا ۔ آپ ہر مربی کو ہمیشہ پیار بھرے انداز سے نصیحت فرماتے۔ اپنی ذمہ داریوں کو وفا کے ساتھ ادا کرنے کی تلقین کرتے۔ تبلیغی، تربیتی اور انتظامی اُمور میں مفید مشوروں سے رہنمائی فر ماتے اور توجہ دلاتے کہ خلیفہ وقت کی اعلیٰ توقعات کے مطابق اپنی ذمہّ داریوں کو بجا لائیں۔ مرکزی مبلغ اور سلسلہ کا ادنیٰ خادم ہونے کے ناطہ آپ سے ذاتی تعلق ہو گیا تھا۔جب کسی چیز کا مطالبہ کرتا، سلسلہ کی اہم کتب، گرم کوٹ، ٹوپی وغیرہ تو آپ محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد مرحوم ناظراعلیٰ قادیان کی معرفت خاکسار کو بھیج دیتے۔ اسی نسبت سے آپ سے ذاتی طور پر بھی ملاقات کرنے کی خواہش دل میں پنپتی رہی۔ پاکستان سے روحانی رشتہ تو تھا لیکن جسمانی رشتہ تو کوئی نہیں تھا۔ توکل علی اللہ پاکستان کا ویزہ حاصل کرنے کے لئے فارم بھرا۔ اِن دنوں حصولِ ویزہ کے لئے لازمی تھا کہ اہل پاکستان میں سے کوئی دو معزز آدمی ضمانت دیں۔ ویزہ فارم میں مَیں نے ایک نام محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد کا تحریر کیا اور دوسرا نام مکرم مختار احمد ہاشمی مرحوم جو آپ ہی کی نظارت میں بطور معاون ناظر کے کام کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ربوہ پاکستان کا ویزہ بڑی آسانی سے لگ گیا۔ خاکسار جنوبی ہند بھارت سے ربوہ پاکستان پہنچ گیا۔ آپ نے ضیافت کو مناسب قیام وطعام کے لئے تحریری ہدایت فرمائی۔ دورانِ قیام ربوہ خا کسار کو آپ نے ایک خدمت کا موقعہ بھی فراہم کیا آپ نے اپنے دو بیٹوں (ایک کا نام ثمر احمد دوسرے کا نام بھول رہا ہوں) کی دینی تعلیم کےلئے اپنے دفتر میں ہی ڈیوٹی لگا دی۔ روزانہ ہی دفتر میں حاضری ہوتی اور آپ سے ملاقات بھی ہوتی۔ خاکسار کو آپ نے معمولی خدمت کا معقول معاوضہ ذاتی طور پر اپنے جیب سے عطا فر مایا۔ خاکسار تو یقینی طور پر اس قابل نہیں تھا اور نہ اہل تھا کہ خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نو نہالوں کو تعلیم دوں لیکن آپ کی ذرہ نوازی کہ در پردہ آپ نے خاکسار کی مدد کرنے کا ایک بہانہ ڈھوند نکالا۔ جزاہ اللہ احسن الجزاء

میرے لئے سب سے اہم اور بڑی خواہش یہ تھی کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے ملاقات، شرفِ مُصافحہ و معانقہ کا حصول جو ان دنوں حالات کے پیشِ نظر تقریباً مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ ان دنوں اسلام آباد میں قیام فرما تھے۔ خاکسار کو بخوبی اندازہ تھا کہ ایسی خواہش ہے کہ بظاہر اس کا پورا ہونا محال ہے۔

خاکسار ایک دن دفتر میں محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد سے دبے الفاظ میں عرض کیا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی کوئی صورت ہو سکتی ہے۔ آپ نے کچھ لمحہ کے لئے توقف فرمایا سوچا ہوگا کہ حضورؒ پُر نور کا ایک خادم دل میں تڑپ اور آرزو لئے جنوبی ہند بھارت سے سرحد پار کر کے نہ جانے کن کن دشوارگزار گھاٹیوں اور خاردار جھاڑیوں کو پار کر کے ربوہ پاکستان آیا ہے اس کے لئے یہ سانحہ کس قدر جان لیوا اور تکلیف دہ ہوگا کہ وہ اپنی جان سے پیارے آ قا سے ملے بغیر واپس چلا جائے۔ آپ نے فرمایا ’’آپ دعا کریں کوئی صورت نکل آئے گی ان شاء اللہ‘‘… دل یقین سے بھر گیا چند ہی دنوں بعد حضور اقدس ربوہ تشریف لائے۔ محترم حضرت صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کی خصوصی اور ذاتی دلچسپی کے طفیل حضور پُر نور کا نہ صرف دیدار نصیب ہوا بلکہ شرفِ مُصافحہ، و مُعانقہ بھی نصیب ہوا اور بہت دیر حضورؒ سے باتیں ہوتی رہیں۔ گھنٹیوں پر گھنٹیاں بجتی رہیں لیکن باتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ حضورؒ نے درویشانِ قادیان کے بارے میں اور بعض بزرگان کے بارے میں استفسار فرمایا۔ پھر تیما پور میں مولانا عبدللہ صاحب تیماپوری جنہوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا ان کے خاندان اور ان کی جماعت کے بارے میں بھی دریافت فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک یادگار ملاقات رہی۔ الحمد للہ

وَما ذکرت جمیلاً مِن ذالک ۔۔۔۔۔

اور میں جب آپ کے احسانوں کو یاد کرتا ہوں تو رو پڑتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ محترم حضرت مرزا خورشید احمد کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے انہیں اعلیٰ علیین میں اپنے قرب کے ہر آن بڑھتے رہنے والے مقامات عطا فر مائے اور آپ کی خوبیوں کو اپنانے اور آپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فر مائے۔ آمین

(محمد عُمر تِما پوری۔ اِنڈیا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ13۔مئی 2020ء