• 21 جون, 2025

دروازے کی حقیقت

ایک زمانہ تھا دروازے کا تصور نہ تھا کمروں میں صرف اتنا دروازہ ہوتا تھا کہ پردہ لٹکایا جا سکتا تھا۔ اور ایسے میں جب کوئی مہمان آتا تو دور سے ہی دکھائی دیتاتھا تو گھر والے پہلے ہی چارپائی بچھا دیتے اور کہتےکہ فلاں مہمان آرہا ہے چارپائی پر چادر ڈال دو۔ اس دورمیں نہ کوئی چوری ہوتی نہ چکاری۔ صرف آنکھوں کا پردہ تھا اورحیا کا۔ گلیوں میں چارپائیاں بچھی ہوتی تھی۔ محلے کے بابے حقے پی رہے ہوتے تھے۔ اور پُرانے بزرگوں کے واقعات بیان کر رہے ہوتے تھے ۔ قیمتی دروازے نہیں ہوتے تھے مگرلوگوں کی قدر و قیمت بہت تھی۔ دروازوں کا یہ بھی رواج تھا اور ہے کہ شادیوں میں،جلسوں میں بڑے بڑے گیٹ بنائے جانے لگے اور آنے والوں مہمانوں کو خوش آمدید کہا جانے لگا۔طلوع اسلام کے زمانے میں مکہ و مدینہ کے گھروں کے موجودہ زمانے کی طرح کے لکڑی کے بنے ہوئے دروازے نہیں تھے اور لوگ گھروں کو اغیار کی نظروں سے بچانے کے لئے پردے لگایا کرتے تھے۔ آج مسجد الحرام کے دروازوں کی کل تعداد 176 ہے جو تمام کے تمام عمدہ لکڑی سے تیار کیے گئے ہیں جبکہ ان پر پیتل کی پرت چڑھی ہوئی ہے۔ مسجد الحرام اسلامی دنیا کی عظیم الشان مسجد ہےجس کا گیٹ نمبر 100 دنیا میں سب سے بڑا دروازہ ہے۔بادشاہ اپنے شہروں کو دشمنوں سے بچانے کے لئے شہروں کے دروازے بناتے تھے تا کہ جو بھی شہر میں داخل ہو اس کی پہچان ہو۔ آج بھی بڑے بڑے شہروں میں جیسے لاہور ، ملتان، فیصل آباد ، سرگودھا وغیرہ میں شہر کے دروازوں کے نام مشہور ہیں ۔ اندرونِ لاہور جسے پُرانا لاہور بھی کہا جاتا ہے، میں مغلیہ دورِ حکومت کے دوران دشمن کے حملوں سے بچاؤ کے لیے فصیل یا دیوار تعمیر کی گئی تھی جس میں بارہ دورازے بنائے گئے تھے۔ برطانوی عہد میں لاہور کے کئی دروازوں کو دوبارہ تعمیر کیا گیا، تاہم لوہاری واحد دروازہ تھا۔ جو اپنی اصل شکل میں برقرار رہا۔مغلیہ دور میں بعض دروازوں کے نام صوفی بزرگوں کے نام پر رکھے گئے۔ پاکپتن میں بابا فرید گنج شکر کے مزار پر ’’باب الجنۃ‘‘ کے نام سے جو دروازہ ہے جسے عوام الناس “بہشتی دروازہ” کہتے ہیں ۔ عرس کے موقع پر ہزاروں لوگ اس دروازے سے گزرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ گویا انہوں نے جنت کا دروازہ عبور کر لیا ہے۔مگر اب گھروں میں چاردیواری کے علاوہ کمروں میں بہت مہنگے مہنگے دروازے لگائے جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک کمرے میں تین تین ،چار چار دروازے ہوتے تھے اورجب کوئی مہمان آتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ تمہار ا مہمان ہےتو میرا دروازہ بند کر دو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دروازے تو بہت قیمتی بن رہے ہیں مگر لوگوں کی قدر و قیمت کم ہو رہی ہے۔ ہمارے ہاں روزمرہ محاوروں میں دروازوں کا استعمال بہت ہو رہا ہے۔ جیسے چور دروازے، امن کے دروازے،کر کٹ کے دروازے بند ہو گئے۔ ملکوں کے دروازے، رزق کے دروازے، یورپ کے دروازے، تاریخی دروازے، آسمان کے دروازے، ضرورت مندوں کے لئے دروازے بند ہو گئے، داخلی دروازے ،خارجی دروازے اور روزگار کے دروازے بند ہو گئے۔ وغیرہ

اب صرف دروازے اتنی قسموں کے بننا شروع ہو گئے ہیں کہ ان کا شمار کرنا نا ممکن ہے۔ پہلے ٹین چادر کے دروازے تھے ۔ پھر عام لکڑی کے بننا شروع ہوئے پھر قیمتی لکڑے کے بنانا شروع کئے گئے اور ان پر نقش و نگار بننے لگے۔

پھر سٹیل کے دروازے بننا شروع ہوئے اور آجکل شیشہ کے دروازے اور سٹین لیس سٹیل کے دروازے تک بن رہے ہیں ۔

ایلومینیم کے دروازے۔ یہ بھی اچھے اور پائیدار مانے جاتے ہیں ۔

الیکٹرک دروازے۔ یہ دروازے بجلی سے کھلتے اور بند ہوتے ہیں ۔ دور بیٹھا بندہ دور سے ہی اسے کھول سکتا ہے۔

سلائڈنگ دروازے۔ یہ دروازے بھی صرف ایک سائید سے کھلتے ہیں اس کے زیادہ پلے نہیں ہوتے۔ یہ شیشے اور ایلومینیم میں پائے جاتے ہیں ۔

سیکیورٹی دروازے کا مکمل نام ’’انسداد چوری سیکورٹی دروازے‘‘ کہا جاتا ہے۔ سیکیورٹی دروازے مختلف مواد سے بنا سکتے ہیں، لیکن صرف دروازہ جو معیاری امتحان سے ملتا ہے اور سیکورٹی کی مصنوعات کے لئے پروڈکشن پرمٹ حاصل کرتا ہے اس کو سیکورٹی دروازے کہا جا سکتا ہے۔

دھاتی دروازوں کے لئے امریکہ کی مارکیٹ بہت مقبول ہیں۔ یہ رنگین ہو سکتے ہیں اور اچھے معیار قائم رکھ سکتے ہیں ۔ امریکہ SDI معیار سے مشابہ ہے۔ اگر آپ اعلیٰ معیار کے سٹیل آگ دروازے کو ترجیح دیتے ہیں، یہ آپ کے لئے بہترین چوائس ہے۔

اینٹی چوری دروازہ۔جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، وہ دروازے ہیں جو چوروں کو داخلے سے روکتے ہیں اور کسی بھی طرح کی چھیڑچھاڑ اور تباہی کے خلاف محفوظ اور قابل اعتماد ہیں ، جو قابل ذکر ہے۔ ترکمانستان میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جسے جہنم کا دروازہ کہا جاتا ہے۔ جبکہ تاریخ میں پہلی بار کسی انسان نے اس کے اندر قدم رکھا ہے۔230 فٹ چوڑا یہ گڑھا ترکمانستان کے ایک گاؤں درویز میں واقع ہے جس کو مقامی افراد ‘جہنم کا دروازہ’ کے نام سے پکارتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس میں سے نکلنے والے شعلے سرد ہونے کا نام نہیں لیتے۔ ادیس ابابا (نیوز ڈیسک) یوں تو ہر آتش فشاں ہی تباہی اور خوف کی علامت ہوتا ہے لیکن افریقی ممالک ایتھوپیا اور اریٹیریا کی سرحد پر ایک ایسا طاقتور آتش فشاں سرگرم ہے کہ جسے سائنسدان ’’جہنم کا دروازہ‘‘ کہتے ہیں۔ وہ دروازہ جسے زنجیروں سے باندھ کر سخت ترین سزا سنائی گئی، 180 سال سے بندھے اس پاکستانی دروازے نے یہ جرم کیا تھا کہ دشمنوں کو اندر آنے دیا تھا۔جو پاکستان کے صوبہ کے پی کے کے مشہور شہر شبقدر کے قلعہ میں ایک دروازہ کو سنائی گئی تھی۔پشاور سے پچیس کلومیٹر دور پتھروں سے بنے اس قلعہ کا یہ انہونا واقعہ ایک گہرے پس منظر کا گواہ ہے۔جس زمانے میں ٹی وی نیا نیا آیا تھا اور بہت کم تھے لوگ اپنے گھروں کے دروازے کھول کر رکھتے تھے کہ پڑوسی آکر ڈرامہ وغیر دیکھیں گے ۔اب سب کچھ بدل گیا۔ہم قدیم سے جدید ہوگئے۔

مگر کیا ہے ۔ اتنے مہنگے اور مضبوط دروازہےکس مقصد کے لئے۔ کیا پردہ کے لئے ۔ کیا چوروں کو روکنے کے لئے،کیا پردہ ہو گیا ، کیاحیا بڑھ گئی ، چوریاں رک گئیں ڈاکے ختم ہو گئے۔ یا یہ سب کچھ بڑھ گیا اور بڑھ رہا ہے ۔ قرآن میں 8 جنت کے ابواب کا ذکر ہے ، اور 7 جہنم کے ابواب ہیں ، ان کے نام اور تفسیر احادیث مبارکہ سے ملتی ہے۔ لیکن پاکستان میں اس قوم کے لئے جنت کا نوواں دروازہ بھی ہے۔ اس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ اس دروازے کا پوری ملتِ اسلامیہ کو علم ہے۔لیکن یہ خاص پاکستانیوں کے لئے ہے ، جس پر لکھا ہے ’’بہشتی دروازہ‘‘ جو اس میں سے گزر گیا وہ جنت میں گیا۔مگر آج کرونا کی وجہ سے مسجدیں بند ہو گئیں ہیں مزار بند ہو گئے ہیں ہمارے لئے تو مقامی طور جنت کے دروازے ہی بند نظر آتے ہیں۔ ہم شاید اسی فہم میں تھے کہ جہاں ہم بہشتی دروازہ سے آسانی سے گزر سکتے ہیں وہاں دوزخ کے دروازے تو کوئی مشکل نہیں۔

اب یہی دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں یوم حساب والے دوزخ کے دروازوں سے بچائے اور اپنی جناب سے ہمارے لئے جنت کے دروازے کھولے ۔ اللہ تعالیٰ تمام دنیا پر رحم کرے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے حقیقی جنت کے دروازوں سے گذرنے کی توفیق دے۔آمین

(تہمینہ مبارک)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ13۔مئی 2020ء