• 27 اپریل, 2024

موٹاپا، Obesity دورِحاضرکا ایک خطرناک چیلنج

قسط نمبر ۔1

غذا کے لحاظ سے ہماری یہ دُنیا دو انتہاؤں میں تقسیم نظرآتی ہے۔ ایک طرف آبادی کی اکثریت غربت کی وجہ سے ناکافی اور غیر صحت مندخوراک کے سبب کمزوری صحت اور مختلف بیماریوں سے دُکھی ہے تو دوسری طرف امیر وں کی اکثریت زیادہ غذا کھانے کے سبب موٹاپے اور اس سے پیدا شُدہ مختلف عوارض سے پریشان حال ہے۔غرباء کو لاحق امراض کے لئے درکار بنیادی ادویات تک میسر نہیں ہو پاتیں جبکہ امیر طبقہ اکثر و بیشترغیر ضروری طور پہ ادویات استعمال کر رہا ہوتاہے۔ گذشتہ کچھ سالوں سے موٹاپے کو پوری دُنیا بالخصوص ترقی یافتہ ممالک میں ایک بڑے چیلنج کے طور پہ لیا جانے لگا ہے کیونکہ اس وجہ سے ملکی معیشت بری طرح متاثرہوتی ہے۔ موٹاپے میں مبتلا لوگ حکومت پہ خاصا بڑا مالی بوجھ بنتے ہیں۔ ایسے لوگ بیشتر صورتوں میں غریب اور متوسط طبقہ سے ہوتے ہیں جو میڈیکل اور دیگر اخراجات کے لئے حکومت پہ انحصار کر رہے ہوتے ہیں۔ چونکہ موٹاپے میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لہٰذا طبی عملہ اور ہسپتالوں میں اضافہ ناگزیر ہو جاتا ہے جس کے لئے بیش بہاءمالی وسائل درکار ہوتے ہیں۔ تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ امیر اور متوسط طبقہ کے موٹاپے میں مبتلا کئی افراد (بالخصوص خواتین) دُبلا پتلا اور دلکش (slim smart & attractive) ہونے کے جنون میں گرفتار ہوکر مضر صحت دواؤں کے ذریعے اپنا وزن کم کرنے کی کوشش میں جُت جاتے ہیں، ایسے لوگ لاعلمی میں اپنی صحت کا بیڑا مزید غرق کرنے کے درپے ہو تے ہیں۔اگرچہ کسی چیز کے ضائع ہونے کو نقصان سمجھا جاتا ہے مگر وزن میں کمی کو کمال فخرسے بتایا جاتا ہے کہ میں نے اتنے پونڈ یااتنے کلوگرام ضائع (lose) کر لئے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی خوراک میں کمی اور ورزش سے نہ صرف موٹاپے سے متعلقہ مسائل حل کر سکتے ہیں بلکہ کی گئی بچت سے فاقوں کے شکار غربا کی بھوک مٹانے کے جہاد میں بھی خاطر خواہ حصہ لے سکتے ہیں جس سے دونوں طبقوں کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ایک حالیہ تحقیق کے مطابق صرف امریکہ میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ سے زائد افرادزیادہ اور غیر صحت مند غذا کھانے کے سبب موٹاپے کی وجہ سے موت کے منہ میں جارہے ہیں اورایک تہائی سے زائد امریکی موٹاپے کا شکارہیں۔دینِ فطرت اسلام کی تعلیمات جو زندگی کے ہر شعبہ میں درپیش تمام مسائل کے بہترین عملی حل پیش کرتی ہیں موٹاپے کے ضمن میں بھی بہترین لائحہ عمل مہیا کرتی ہیں کہ غربا ءاور حاجت مندوں کے لئے محبت و ایثار پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے کم خوری، کھانے میں سادگی اور فعّال طرزِ زندگی اختیارکیا جائے۔

موٹاپا کیا ہے؟

غذا سے جسم کو توانائی ملتی ہے جبکہ روز مرہ معمولات پہ جسم توانائی صرف کرتا ہے۔ اگر غذا سے حاصل شدہ توانائی خرچ کی جانے والی توانائی سے غیر مناسب حد تک زائد رہے تو اس کے اثرات موٹاپے کی صورت میں بچوں میں گول مٹول جسم ،پھولے ہوئے گالوں، نوجوانوں میں موٹی رانوں، بڑھے ہوئے پیٹ، درمیانی عمر یعنی چالیس سال سے کچھ اوپر کے افراد میں بڑھے ہوئے پیٹ اور 60 سے اوپر یعنی بڑھاپے میں بڑھے ہوئے پیٹ کے علاوہ ڈھیلی لٹکتی جلد کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ بعض ایسے بیچارے لوگوں کا پیٹ زیادہ ہوا بھرے غبارے کی طرح پھولا ہوتا ہے اور یہ موٹاپا اُن کے لئے وبالِ جان بن چکا ہوتا ہے۔ طبی اصطلاح میں صحت مند معیار سے زیادہ وزن موٹاپا کہلاتا ہے۔

جسامت وزن کا اشاریہ (body mass index –BMI)

صحت مند معیار سے زیادہ وزن جانچنے کے لئے BMI پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے۔کلو گرام میں جسم کے وزن کوجسم کی میٹرز میں لمبائی کے مربعے پہ تقسیم کیا جاتا ہے یعنی weight in kg/height in m2۔ پونڈ میں وزن اور فٹ میں لمبائی سے بھی BMI معلوم کیاجاسکتا ہے۔جسم کا وزن پونڈوں میں اور لمبائی فٹوں میں شمار کرتے ہوئے قارئین کی سہولت کیلئے BMI کو ایک ٹیبل کی شکل میں دیا جارہا ہے۔ماہرین کے مطابق 18 سے کم BMI کو نارمل سے کم (غیر صحت مند کم وزن) جبکہ 18-25 کے درمیان BMI کو نارمل وزن شمار کیا جاتا ہے۔ 25 سے زیادہ BMI کو زیادہ وزن (over weight) اور 30 سے زیادہ کو موٹاپا (obesity) شمار کیا جاتا ہے۔ جسم کی بناوٹ (shape) کی بناء پہ بھی ایک تقسیم کی جاتی ہے۔

  1. بھاری بھرکم ،گول مٹول، پیٹ اور کولہے چربی سے بھرے جسم کو endomorph کہا جاتا ہے۔
  2. مضبوط اور نمایاں پٹھوں والے کسرتی جسم کو mesomorph کہا جاتا ہے۔
  3. پتلی جسامت اور جسم پہ زائد چربی نہ ہونے والے جسم کو ectomorph کہا جاتا ہے۔ غریب مُلکوں کی اکثریت کے جسم بوجہ غذائی قلت کے تیسری قسم کے ہوتے ہیں، کھلاڑیوں، باڈی بلڈرز اور اچھی غذا کیساتھ جسمانی مشقت کرنے والوں کے جسم دوسری قسم جبکہ بسیار خور مگرورزش سے پہلو تہی کرنے والوں کے جسم پہلی قسم کے ہوتے ہیں، پہلی قسم کو دو ذیلی قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

سیب اور ناشپاتی جیسی جسامت
(apple-shaped & pear-shaped body)

کمر کے سائز کو کولہوں کے سائز پہ تقسیم کرتے ہیں۔ (waist size/hip size) مردوں کے لئے 0.9 اور عورتوں کیلئے 0.8 یا کم تناسب ناشپاتی جبکہ اس سے زیادہ سیب جیسی شکل گردانا جاتا ہے، ریسرچ کے مطابق سیب جیسی جسامت والوں کو ناشپاتی سے مشابہہ کی نسبت مختلف انواع و اقسام کی بیماریاں لاحق ہونے کا احتمال کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔

موٹاپے کی چند اہم وجوہات
1:بسیار خوری (پیٹو پن)

اکثر و بیشترخوب پیٹ بھر کر کھانے کی عادت موٹاپے کی اصل اور بنیادی وجہ ہوا کرتی ہے۔ بچوں کووالدین کی کم علمی اور سستی سے بچپن میں یہ عادت پڑ جائے تو چھٹکارا مشکل ہوجاتا ہے۔ بچپن کے علاوہ جوانی اور بڑھاپے میں بھی اس خطرناک عادت میں مبتلا ہونے کا احتمال رہتا ہے لہٰذا شیرخواری سے بڑھاپے تک ہمیشہ اس پہلو سے محتاط رہنا چاہئیے ۔ صحت مندبچوں کی پیدائش کے لئے عورت مرد کاموٹاپے سے بچنا بھی ضروری ہے۔بسیار خوری کی ایک قسم جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے وہ پیٹ ٹھونس ٹھونس کر بھرنا ہے جبکہ دوسری قسم تقریباً ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے پیتے رہنے کی عادت ہے جس میں باقاعدہ کھانے کے علاوہ گاہے بگاہے کافی، چائے، بسکٹ، کیک، چپس، آئس کریم، سوڈا، جوس وغیرہ سے شوق فرماتے رہنایاٹافیاں وغیرہ کھاتے رہنا شامل ہے۔ اسلام بسیار خوری کی مذمت کرتا ہے ۔اپنے سامنے موجود خوراک کو کھاتے جانا حتیٰ کہ ختم ہوجائے جانوروں کی صفت ہے جیسا کہ قرآنِ کریم کفار کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ جانوروں کی طرح کھاتے ہیں۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ (محمد:13) وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا عارضی فائدہ اٹھا رہے ہیں اور وہ اس طرح کھاتے ہیں جیسے مویشی کھاتے ہیں۔

2 :زبان کاچسکا یا بطورِفیشن کھانا

لذیذفاسٹ فوڈز کھانوں کا موٹاپے میں بہت عمل دخل ہے۔ اِن غذاؤں کا تواتر سے استعمال بوجہ ان میں موجودمضر اجزأکے موٹاپے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ایسیجنک فوڈز جیسے برگر ’پیزا’ چپس، فرنچ فرائیز، کافی، ٹِم بٹس،مٹھائیوں سموسوں، پکوڑوں، ٹھنڈے پیک شدہ مشروب، پراسسڈ اشیاءاور سوڈا وغیرہ (tin-packed items) کا استعمال بوجہ ان کی لذّت کے، زبان کے چسکے، بطورِ فیشن یا عادتاًبہت زیادہ کیا جاتا ہے۔یہ چیزیں بآسانی میسر آ جاتی ہیں۔ اسی طرح بیکری کی اشیا بھی اسی ذیل میں آتی ہیں۔ ان جملہ اشیا میں کیلوریز اور نمک، چینی کی مقدار خطرناک حد تک زیادہ ہوتی ہے جبکہ مفید نمکیات اور وٹامنز نہ ہونے کے برابر۔کئی فاسٹ فوڈ سنٹرز میں کام کرنے والوں بتاتے ہیں کہ وہاںایک ہی تیل میں آلوچپس، چکن، بیف،سؤر وغیرہ تلے جاتے ہیں جبکہ تیاری کے دوران بھی کسی حد تک یہ چیزیں آپس میں مل جاتی ہیں، لہٰذا ایک مسلمان کو تو بہرحال ایسی جگہوں سے کھانے سے پرہیز کرنا چاہئیے۔ہفتے اتوا ر کو ہفتہ بھر کے لئے کھانے پینے کی جملہ اشیأ (grocery) کی خریداری کرنیوالوں میں موٹے افراد بالعموم ایسی اشیأ خریدتے نظر آتے ہیں جو لذّیذ مگر موٹاپا پیدا کرنیوالی ہوتی ہیں جبکہ دبلے پتلے لوگ ایسی اشیاء خریدتے ہیں جوکم مزہ مگر موٹاپے سے دور رکھنے والی ہوں۔

3:دعوتوں پہ پُر تکلف کھانے

اکثر ایشین، رشین اور عرب خاندانوں میں ایک دوسر ے کے ہاں آنے جانے پہ کھانے پینے میں تکلّفات کی بھرمار کر دی جاتی ہے۔کھانوں میں پائے، حلیم، کباب اور قسم قسم کے لوازمات پیش کر کے تاکید و تکرار سے بسیارخوری کا تقاضا کیا جاتا ہے کہ یہ کھائیں، وہ کھائیں ،آپ نے تو کچھ کھایا ہی نہیں، اور کھائیں ۔کھانے کی دعوتوں کے علاوہ چائے وغیرہ کے نام پہ جلیبی، مٹھائی، سموسوں پکوڑوں، کیک، آئس کریم ، بسکٹ، کولا، جوس، لسّی، دہی بھلے ،سوڈا، کافی وغیرہ سے بھی صحت کا ستیا ناس کرنےمیں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی۔ایسے لوازمات میزبان پہ بیجا مالی بوجھ کے علاوہ شرکا ءکو موٹاپا گروپ میں شامل کرنے کا مربوط نظام ہوتے ہیں کیونکہ یہ سب مہمان ایک کے بعد دوسرا ،باری باری میزبان بنتے ہیں ۔کوئی اپنے مادری ملک جارہا ہو یا واپس آیا ہو تو دعوت، منگنی، شادی اورشادی کے بعد کی دعوتیں ،بچوں کی پیدائش، بچوں کے عقیقہ، آمین کی تقاریب الغرض یہ لا متناہی سلسلہ ہر موسم میں جاری و ساری رہتا ہے۔ہمارے اس تجزیہ کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم ایسی دعوتوں کے مخالف ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ سلسلہ بُرا نہیں ہے بشرطیکہ تکلّفات اورنمود و نمائش ختم کر دیں۔کھانے پینے کی ثانوی اہمیت ہو اور کم مقدار میں سادہ صحت بخش خوراک بُھوک رکھ کر کھائی جائے۔ بسااوقات نمک مرچ کے بغیرسادہ فروٹ چاٹ اور بغیر چینی کے قہوہ جو صحت کےلئے مفید ہے پہ گذارہ کیاجا سکتا ہے یا کسی قدر خشک میوہ جات پیش کئے جا سکتے ہیں۔کسی تقریب وغیرہ پہ موٹے افراد کی غذاکے جائزہ سے معلوم گا کہ بوجہ بسیار خوری اور نقصان دہ غذا کھانے کے وہ اپنی موجودہ خراب اور مستقبل کی خراب تر حالت کے خود ذمہ دار ہیں۔

4: آرام طلب اور سہل انگار طرزِ زندگی

کئی ممالک (خصوصاً عرب اور بعض ایشا ئی ممالک)میں نواب وڈیرے اور امیرطبقہ اپنے روز مرّہ گھریلو کام کاج خود نہیں کرتا بلکہ ملازم رکھتا ہے۔ اِسی طرح بعض ممالک میں فوجی افسران وغیرہ کو بھی حکومت کی طرف سے گھریلو کاموں کے لئے خادم مہیا ہوتے ہیں۔ گھریلو ملازمین کا کلچر اکثر صورتوں میں غلامی کی ایک تبدیل شُدہ شکل ہوتاہے۔ اِن ملازمین سے اکثر صورتوں میں ظالمانہ اور جانوروں سے بھی گھٹیا سلوک روا رکھا جاتا ہے ۔سب چھوٹے بڑے بلکہ بُرے کام تک اُن سے کئے اور کروائے جاتے ہیں ۔یوں ملازموں کا استحصال کرنے والے اخلاقی طور پہ حواس باختہ لوگ بوجہ جملہ جسمانی مشقت سے دور رہنے کے جلد یا بدیر موٹاپے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کئی ممالک کے کرپٹ پولیس اہلکار اور نکمے سرکاری ملازم بھی موٹاپے میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں البتہ استثناء بھی ہوتے ہیں بعض لوگ کسی معذوری یا مجبوری کی وجہ سے ملازم رکھنے پہ مجبور ہوتے ہیں اور ہر ممکن اُن سے مل کر کام کرتے اورمثالی حسنِ سلوک اُن سے روا رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں پہ ملازم رکھنے کا اثر موٹاپے کی صورت میں نہیں پڑتا۔ احادیث میں مذکور ہے کہ رسولِ کریم ﷺ کواپنے جملہ کام خود اپنے ہاتھ سے کرنا پسند تھا۔ یہ سنہری اصول اپنا کر سنت ِ مبارکہ پہ عمل کے ثواب کیساتھ موٹاپے سے بھی بچاجا سکتا ہے۔

5: پریشانی، ذہنی دباؤ، بوریت

بڑے اور بچے عموماً مشکل صورتِ حال میں سکون وا طمینان حاصل کرنے کے لئے غذا کا سہار ا لیتے ہیں۔ ناخوش اور ناراض انسان بالعموم خوش اور مطمئن انسان کے مقابلے میں زیادہ غذاکھاتا ہے ۔اسی طرح پریشانی کی کیفیت میں بار بار کافی، چائے، بسکٹ ، آئس کریم،ٹافیاں، چپس وغیرہ کھانا بھی بسیار خوری پہ منتج ہوتا ہے ۔ایسے حالات میں غذا زیادہ کھائی جاتی ہے مگر جسمانی مشقّت اور ورزش نہیں کی جا تی اس وجہ سے موٹاپے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ کسی بھی وجہ سے احساسِ کمتری یا مایوسی وغیرہ کے احساسات میں گھرے رہنا بھی بالآخر موٹاپے پہ منتج ہوتا ہے۔ایک تحقیق میں9 سے 10 سال کے1520بچوں کا چار سال تک مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ احساسِ کمتری والے19 فیصد موٹے بچے غمگین 48 فیصد بوریت کا شکار اور21 فیصد نروس رہتے ہیں جبکہ نارمل بچوں میں یہ شرح نہایت کم تھی۔

6: کھیل کود اور ورزش سے دور رہنا

کئی لوگ اپنی ملازمت اور دیگر ضروری اُمور تو احسن طور پہ انجام دے لیتے ہیں مگرجو باقی وقت بچے اُسے ٹی وی ، انٹر نیٹ ، تاش کھیلنے اور دیگر ایسی سرگرمیوں میں گزار دیتے ہیں۔ بعض لوگ تو اِن دیگرجملہ اُمور میں ا س قدر محو ہو تے ہیں کہ اپنی روزانہ کی 7،8 گھنٹے کی معمول کی نیند بھی پوری نہیں کرپاتے، ایسے لوگ بوجہ کم نیند لینے اور جسمانی ورزش نہ کرنے کے موٹاپے کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔ہمارے جسم کونارمل نیندکے علاوہ روزانہ ورزش کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔جو والدین بچوں کوخود وقت دینے اورمثبت تفریحات، کھیلوں وغیرہ (outdoor physical activities) کی بجائے اُنہیں انٹرنیٹ، ٹی وی ،ویڈیو کھیلوں میں محو رہنے دیتے ہیں اُن کے بچے موٹاپے کا شکارہوجاتے ہیں تحقیق کے مطابق روزانہ دو گھنٹے سے زائد ٹی دیکھنا موٹاپے کا باعث بن سکتا ہے ، ٹی وی پہ غیر صحت مند کھانوں کی اشتہار بازی کی مہم بھی منفی کردار ادا کرتی ہے۔

7:مصروفیت کی بناءپہ موٹاپاپیدا کرنیوالی غذا کھانا

بعض میاں بیوی دونوں ایسی ملازمتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ اُن کے پاس غذا خریدنے اور کھاناتیار کرنے کا وقت بہت کم بچتا ہے۔ اسی طرح بعض غیر شادی شدہ لوگ ہفتے میں ساتوں دن روزانہ 12 گھنٹے یا اس سے بھی زائدکام کرتے ہیں، ایسے لوگ عموماً ملازمت پہ جاتے آتے یا دورانِ ملازمت کھانے کےلئے فاسٹ فوڈ سنٹر وغیرہ سے برگر اور سوڈا وغیرہ خرید کرگزارہ کر لیتے ہیں اور بوجہ ایسی غذاؤں کے کھانے کے بالآخر موٹاپے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

8:موٹاپے میں مبتلاافراد کی صحبت

موٹاپے میں مبتلا لوگوں کی صحبت میں رہنے سے بھی موٹاپا لاحق ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے اہم وجوہات میں نہ چاہتے ہوئے بھی اُن کی طرح کی موٹاپا پیدا کرنیوالی خوراک کھانا،ورزش نہ کرنا اورتن آسانی و سہل انگاری کی عادات پیدا ہوجانا شامل ہیں ۔ایسے لوگوں کی صحبت میں رہنے سے موٹاپے کومضر سمجھنے اور اس کے خلاف جہاد کرنے کی بجائے موٹاپے سے سمجھوتہ کر لیا جاتاہے۔ موٹے والدین کے بچوں کا موٹاپے کا شکار ہونے کا احتمال نارمل والدین کے بچوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے ۔ بعض تن آسان ماؤں کا بچہ خواہ کسی بھی وجہ سے رو رہا ہو وہ کچھ کھلا پلا کر خاموش کرانے کا کُلیہ اپناکر اُسے موٹاپے میں مبتلا کردیتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ایسے والدین جو کھانے پینے میں نرم اور لچکدار رویہ اپناتے ہیں اُن کے بچوں کا دوسرے والدین کے بچوں سے موٹاپے میں مبتلا ہونے کا امکان 60 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

9:نیند اور کھانے پینے میں بے قاعدگی

کئی لوگ رات دیر سے سوتے اور صبح دیر سے جاگتے ہیں۔اُن کا صبح جلد نہ اُٹھ سکنا نہ صرف اُنہیں صبح کی سیر اور ورزش سے محروم رکھتا ہے بلکہ اُن کے کھانے کے اوقات بھی بے قاعدہ رہتے ہیں۔ ایک انسان اگر رات گئے تک ٹی وی، انٹرنیٹ، دوستوں کےساتھ تاش کھیلنے یا گپ شپ کی وجہ سے جاگتا رہے تو اس دوران گاہے بگاہے کھانے پینے کا سلسلہ بھی جاری رہے گاجو آ بیل مجھے مار کے مصداق موٹاپے کو دعوت دینے والی حرکت ہو گی ۔ صبح دیر سے اُٹھنے سے صحت کے متاثر ہونے کے علاوہ دُنیوی معاملات پہ منفی اثر پڑتا ہے۔ ان نقصانات کے علاوہ نمازِ فجر کی بروقت ادائیگی سے محرومی ، تلاوتِ قرآنِ کریم اور صبح کی سیرکی توفیق نہ ملنا ناقابلِ تلافی نقصانات ہیں۔

مندرجہ بالا وجوہات کے علاوہ استثنائی صورتوں میں موٹاپا کسی جسمانی عارضہ کی وجہ سے بھی لاحق ہو سکتا ہے مثلاً اگر جسم کے بعض گلینڈ (hypothroidis) نارمل کام نہ کر رہے ہوں تو غذا کا بیشتر حصہ جسم کی روز مرّہ ضروریات پہ کماحقہ صرف ہونے کی بجائے جمع ہو کر موٹاپے کی صورت اختیار کرسکتاہے اس عمل (slow metabolism) یا کسی اور بیماری میں بعض دواؤں کے منفی اثر کے وجہ سے بھی موٹاپا لاحق ہو سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ڈاکٹر کی راہنمائی سے غذامیں کمی،دوا میں بھرپور احتیاط اور ممکنہ ورزش کرنی چاہئیے۔موٹاپا سراسر نقصان ہی نقصان ہے، زبان کے وقتی چسکے، سُستی اور کاہلی یا مصروفیات کے سبب مستقل طور پہ موٹاپے میں مبتلا ہوجانا اِس زندگی کی جملہ مشکلات کے علاوہ اُخروی لحاظ سے بھی سراسر گھاٹے کا سوداہے، موٹے افراد کما حقہ عبادات بجا لانہیں پاتے ،خدمتِ خلق اور رفاہِ عامہ کے کام جو دین کی روح و جان ہیں اُن میں فعّال حصہ لینا مشکل ہو جاتاہے، دوسرں کی مدد کرنا کجا اُن کی مدد کا محتاج بن کرزندگی کی بہاروں سے لطف اندوز ہونے کی بجائے روز مرہ امور کی انجام دہی وبالِ جان بن جاتی ہے۔موٹاپے سے پیدا شُدہ مسائل، بیماریوں اور علاج کے بارہ میں ان شاء اللہ تعالیٰ اس مضمون کی اگلی اقساط میں ذکر ہوگا۔ خاکسار اس مضمون میں غلطیوں کی اصلاح اور اہم ترامیم کے مشوروں پہ محترم ڈاکٹر ہارون اختر صاحب اور محترم ڈاکٹر ظفراللہ صاحب کا تہہ دل سے مشکور ہے۔

رائے، تبصرے یا سوال کیلئے ای میل
zafarwaqark@gmail.com

(ڈاکٹر محمد وقار ظفر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ13۔مئی 2020ء