• 20 اپریل, 2024

ارشاداتِ نور (قسط 14 آخر)

ارشاداتِ نور
قسط 14 آخر

عبرت حاصل کرو

فرمایا۔ میں نے بہت سے شہروں میں سفر کیا۔ مگر وہاں کے علماء خاک میں مل گئے۔ لاہور کی شاہی سنہری مسجد مسلمانوں کی جاہ و جلال و عظمت کا پتہ دیتی ہے۔ مگراب کچھ نہیں خاک ہے۔ پری محل، رنگ محل، مبارک محل عبرت کے نمونے ہیں۔ بڑے بڑے شاہوں کے مقابر عبرت کے نشان ہیں۔

دہلی میں سینکڑوں کھنڈرات ہیں۔ بادشاہوں بیگموں کے مزار ہیں۔ ایسے ایسے امراء بھی ہیں جنہوں نے خاک بھی بادشاہ کی پرواہ نہیں کی۔ مگر دیکھئے اب ان کے نشان کہاں۔ خدا سے ڈرو دنیا چند روزہ ہے انسان کس بات پر گھمنڈ اور غرور کرتا ہے۔ دنیادار احمق ہوتے ہیں کچھ پرواہ نہیں کرتے۔ بغراخاں، خضر خاں کے واقعات دیکھو خدا نے جو کرنا تھا کر کے دکھا ہی دیا۔ بہت نشان لوگوں کے لیے ہوتے ہیں مگر لوگ اندھوں کی طرح ہو جاتے ہیں۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ393-394)

فضیلت علم پر عقلی دلیل

یہ تو اللہ تعالیٰ کی اپنی دی ہوئی دلائل فضیلت علم پر ہیں۔ ان کے سوا ایک عقلی دلیل میری سمجھ آئی اور پھر سچ پوچھو تو یہ عقلی دلیل بھی اسی کے فضل کا عطیہ ہے اور ان علوم سے پیدا ہوئی جو اس نے اپنے محض فضل سے عطا کئے۔ بہرحال وہ یہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ دنیا میں جس قدر چھوٹے چھوٹے کام ہیں جب ان کے ساتھ علمی رنگ آتا ہے اور علم کے تعلق سے ان کو کیا جاتا ہے تو وہ عظیم الشان ہو جاتے ہیں۔ مثلا چکّی پیسنا، کپڑا بُننا، دھونا، سینا، کپڑا کاٹنا، رنگ بنانا، حجامت کرنا، لوہاری کام، چمڑہ رنگنا، گاڑی چلانا، جوتا بنانا وغیرہ۔ ان میں سے ایک ایک کام پر نظر کرو جب یہ اپنی عام حالت میں کئے جاتے ہیں تو عام لوگ اس کو کوئی بڑا کام یا عزت کا کام نہیں سمجھتے۔ مثلا چکّی پیسنا یہ معمولی کام ہے لیکن جب اس کو انجن کے ذریعہ کیا جاوے اور علمی طاقت اس کے ساتھ ہو تو وہی چکّی پیسنے کا فعل جو معمولی اور ادنیٰ سمجھا جاتا تھا عظیم الشان سمجھا جاتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ فلاں صاحب بڑے معزز اور مقتدر ہیں۔ ان کے ہاں فلور مل چلتی ہے۔ گویا وہی آٹے پیسنے کی کَل موجب فخر ہو گئی۔ اسی طرح پر کپڑے بننے کا کام ایک ادنیٰ درجہ کا کام سمجھا گیا تھا لیکن جب علم نے اس کی سر پرستی کی اور مشینوں کے ذریعہ کپڑا تیار ہونے لگا تو یہی لوگ معزز و صاحب ثروت ہوگئے۔ اسی طرح کپڑے دھونے، سینے، اور کاٹنے کے کام ہیں۔ میں نے ایک آدمی کو دیکھا یا سنا کہ وہ صرف کپڑے کاٹتا تھا اور چھ سو روپیہ ماہوار تنخواہ پاتا تھا۔ کھٹیک کا کام نہایت حقیر سمجھا جاتا تھا لیکن آج دباغت کا فن اور موچی کا کام عجیب کام ہے اور چمڑے کی فیکڑیوں کے مالک بڑے آدمی ہیں۔ اسی طرح پر لوہے کا کام، ڈرائیوری وغیرہ۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ422-423)

علم کے لئے سفر ضروری ہے

پھر علم کے حصول کے لیے یہ ضروری امر ہے کہ سفر کیا جاوے۔ میں اس پر بھی قرآن مجید ہی سے استدلال کرتا ہوں۔ چنانچہ فرمایا۔ فَلَوۡ لَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ مِّنۡہُمۡ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ وَ لِیُنۡذِرُوۡا قَوۡمَہُمۡ اِذَا رَجَعُوۡۤا (التوبه: 122) یعنی ہر جماعت میں سے کیوں چند لوگ سفر کے لیے نہیں نکلتے تا کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آ کر اپنی قوم کو بیدار کریں۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ423)

جمع حدیث کے لیے امام بخاری کا سفر

امام بخاری نے تو حد ہی کر دی ہے۔ یہ بخارا کے رہنے والے تھے۔ جن دقتوں اور مشکلات میں انہوں نے جمع احادیث کے لیے سفر کئے ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہ کس فضل کے آدمی تھے۔ آج بخارا میں ہیں تو کل موصل، پرسوں مصر، اترسوں شام، بصرہ، کوفہ، مکہ، مدینہ۔ غرض اس وقت کی اسلامی دنیا کے تمام ان مرکزوں میں پھر نکلے ہیں جہاں وہ اپنے گوہر مقصود کا نشان پاتے تھے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میں گن نہیں سکتا کہ وہ کتنی مرتبہ مدینہ میں آئے۔ غرض علم کی تحصیل کے لیے سفر کی بڑی ضرورت ہے۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ424)

مہاجر

وہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی نواہی کو چھوڑ دے۔

لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّى یُحِبُّ لِأَخِیهِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِه ِ کوئی تم میں سے اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جب تک جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لیے پسند نہ کرے۔

جس طرح تم چاہتے ہو کہ تمہارے نوکر تمہارا کام کریں اسی طرح تم اپنے آقا کا کام کرو۔ جس طرح تم چاہتے ہو کہ تمہارے آقا تم کو مزدوری دیں اسی طرح تم اپنے ملازموں کو مزدوری دو۔ جس طرح تم چاہتے ہو کہ تمہاری لڑکی کے ساتھ اس کے سسرال سلوک کریں ایسا ہی سلوک تم اپنی بی بی اور بہو سے کرو۔ غرض ہر امر میں اپنے دل سے فتویٰ لو۔ جو سلوک تم چاہتے ہو کہ تمہارے ساتھ کیا جائے ویسا ہی سلوک تم ان کے ساتھ کرو۔

انصارسے محبت کرنا ایمان کی نشانی ہے۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ453)

فائدہ

نیک لوگوں کی مجلس میں چلے جانا بہرحال فائدہ مند ہے۔ کوئی بات سننے یا کرنے کا موقع ملے یا نہ ملے ان کی مجلس میں جا بیٹھنا بھی فوائد کا موجب ہوتا ہے۔

(ارشاداتِ نور جلد سوم صفحہ468)

(مرسلہ: فائقہ بُشریٰ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 مئی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ