• 5 مئی, 2024

’’انسان کو دقائق تقویٰ کی رعایت رکھنی چاہئے‘‘

’’انسان کو دقائق تقویٰ کی رعایت رکھنی چاہئے‘‘
(حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اس لئے فرمایا کہ حق کے ساتھ، سچائی کے ساتھ حکمت بھی مدّنظر رہنی چاہئے۔ اگر حکمت ہو گی تو تبھی قولِ سدید بھی ہو گا۔ اور حکمت یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح اور امن کا قیام ہر سطح پر ہو، یہ مقصود ہو نہ کہ فساد۔

پس اس حکمت کو مدّنظر رکھتے ہوئے جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے، موقع اور محل کی مناسبت سے بات ہونی چاہئے۔ یعنی ہر سچی بات حکمت کے بغیر اور موقع اور محل کو سامنے رکھے بغیر کرنا قولِ سدیدنہیں ہے۔ یہ پھر لغویات اور فضولیات میں شمار ہو جائے گا۔ اور یہ صورتِ حال بجائے ایک انسان کو خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنا سکتی ہے۔ پس ایک مومن کو تقویٰ پر چلتے ہوئے قولِ سدید کی باریکیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ تقویٰ کی باریکیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر باریکی سے اس بات پر نظر ہو گی تو اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پھر ایسے انسان پر پڑتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’انسان کو دقائق تقویٰ کی رعایت رکھنی چاہئے۔‘‘ یعنی جو باریکیاں ہیں تقویٰ کی اُن کو سامنے رکھنا چاہئے۔ ’’سلامتی اسی میں ہے کہ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں کی پروا نہ کرے تو پھر ایک دن وہی چھوٹی چھوٹی باتیں کبائر کا مرتکب بنا دیں گی اور طبیعت میں کسل اور لاپروائی پیدا ہوکر‘‘ پھر ایسا انسان ’’ہلاک ہو جائے گا‘‘۔ فرمایا: ’’تم اپنے زیرِ نظر تقویٰ کے اعلیٰ مدارج کو حاصل کرنا رکھو اور اس کے لئے دقائقِ تقویٰ کی رعایت ضروری ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ442 ایڈیشن 2003ء)

پھر ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ: ’’سچی خوشحالی اور راحت تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ اور تقویٰ پر قائم ہونا گویا زہر کا پیالہ پینا ہے‘‘ بہت مشکل کام ہے۔ تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے بعض دفعہ سچی بات کہنا بھی انسان کو مشکل میں ڈال دیتا ہے۔ فرمایا کہ: ’’متقی کے لئے خدا تعالیٰ ساری راحتوں کے سامان مہیا کر دیتا ہے۔ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا۔ وَّیَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ (الطلاق: 3-4) پس خوشحالی کا اصول تقویٰ ہے۔ لیکن حصولِ تقویٰ کے لئے نہیں چاہئے کہ ہم شرطیں باندھتے پھریں۔ تقویٰ اختیار کرنے سے جو مانگو گے، ملے گا۔ خدا تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔ تقویٰ اختیار کرو، جو چاہو گے وہ دے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ90 ایڈیشن 2003ء)

بہر حال تقویٰ مدّنظر ہو تو پھر آگے ہر کام انسان کا چلتا ہے، چاہے وہ سچائی ہے یا دوسرے اعمال ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ اور یہ قولِ سدید کا حکم تو ایسا ہے کہ اس پر معاشرے کے امن کی بنیاد ہے۔ معاشرے کی اصلاح کی بنیاد اس پر ہے۔ تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح جو مرد اور عورت کے بندھن کا اسلامی اعلان ہے اور آئندہ نسل کے جاری ہونے کا ایک سلسلہ ہے، اس میں ان آیات کو شامل فرمایا ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب خطبۃ النکاح حدیث1892)۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا، اس کا دائرہ صرف گھر تک محدودنہیں ہے بلکہ پورے معاشرے میں پھیلا ہوا ہے۔ اس سے معاشرے میں فساد بھی پیدا کیا جا سکتا ہے اور امن اور سلامتی بھی پیدا کی جا سکتی ہے۔ پس اس پر جس طرح خدا تعالیٰ چاہتا ہے اُس طرح عمل کرنا انتہائی ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ پھر اگلی آیت میں فرماتا ہے کہ تمہاری تقویٰ کی باریک راہوں کی تلاش کی کوشش، اور قولِ سدید کی جزئیات پر قائم رہنے کی کوشش تمہیں خدا تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنائے گی۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی اصلاح کرے گا۔ سچائی کے اختیار کرنے سے تمہارے سے پھر نیک اعمال ہی سرزد ہوں گے۔

(خطبہ جمعہ 21؍جون 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

صحابہ کرامؓ کے پاکیزہ نمونے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جون 2022