• 7 مئی, 2024

کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہم نے حتی الوسع ہر احمدی کو ضائع ہونے سے بچانا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
کچھ دن ہوئے، دینی تربیتی امور کا ایک جائزہ اتفاق سے ایک عہدیدار کے ساتھ باتوں باتوں میں میرے سامنے آیا۔ اُس کے بعد پھر مَیں نے اُن سے تحریری رپورٹ بھی منگوائی۔ اس کو دیکھ کر مجھے خیال ہوا کہ بعض امور ایسے ہیں جن پر مجھے کچھ کہنا چاہئے۔ جماعت کا ایک طبقہ جو ہے، اُس کو اس کی ضرورت ہے اور اسی طرح کچھ ایسی باتیں ہیں جن کی عہدیداروں کو بھی ضرورت ہے۔ یہ امور جس طرح یہاں کی جماعت کے لئے اہم ہیں اسی طرح دنیا کی دوسری جماعتوں کے لئے بھی اہم ہیں۔ یا نئی نسل اور اُن افراد کے لئے بھی ان کا جاننا ضروری ہے جو زیادہ ایکٹو (active) نہیں ہیں، زیادہ تر جماعتی کاموں میں involve نہیں ہیں۔ یہ ایسے امور ہیں کہ جن کو عموماً کھول کر بیان نہیں کیا جاتا۔ یا مربیان اور عہدیداران افرادِ جماعت کے سامنے اس طرح احسن رنگ میں ذکر نہیں کرتے جس طرح ہونا چاہئے۔ جس کی وجہ سے بعض ذہنوں میں، خاص طور پر نوجوانوں میں سوال اُٹھتے ہیں لیکن وہ سوال کرتے نہیں۔ اس لئے کہ جماعتی ماحول یا اُن کا عزیز رشتے دار یا والدین ان سوالوں کو برا سمجھیں گے یا وہ کسی مشکل میں پڑ جائیں گے۔ حالانکہ چاہئے تو یہ کہ مربیان اور مبلغین سے سوال کر کے یا عہدیداروں سے جو علم رکھتے ہیں اُن سے سوال کر کے، یا اپنی ذیلی تنظیموں کے عہدیداروں سے سوال کر کے پوچھیں۔ خدام الاحمدیہ اور لجنہ سے تعلق رکھنے والوں اور تعلق رکھنے والیوں کا اپنی اپنی متعلقہ ذیلی تنظیموں سے اس طرح تعلق ہونا چاہئے کہ آسانی سے سوال کر سکیں تا کہ معلومات میں بھی اضافہ کریں اور کوئی شکوک و شبہات ہیں تو وہ بھی دُور کریں یا مجھے بھی لکھ سکتے ہیں۔ بعض لوگ مجھے دوسرے ملکوں سے بھی اور بعض دفعہ یہاں سے بھی لکھتے ہیں اور انتہائی ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے لکھتے ہیں تو اُن کے سوالوں کے جواب دئیے بھی جاتے ہیں۔ بہر حال یہ بات بھی سامنے آئی کہ بعض عہدیدار بھی اپنے فرائض اور دائرہ کار کے بارے میں تفصیل نہیں جانتے اور اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا نہیں کرتے۔

جو باتیں مَیں بیان کرنے لگا ہوں اس میں ایک پہلو تو عقیدے اور اُس کے بارے میں علم سے تعلق رکھتا ہے۔ کیونکہ ہمیں علم ہونا چاہئے کہ ہم کیوں کسی عقیدے پر قائم ہیں اور اسی طرح بعض باتیں جو ہمیں کرنے کے لئے کہا جاتا ہے، جن کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، اُن کے بارے میں بھی علم ہو کہ کیوں ہمیں کہا جاتا ہے اور کیوں یہ ایک احمدی مسلمان کے لئے ضروری ہے؟ اس میں مالی قربانی ہے، اس بارے میں لوگ تفصیل جاننا چاہتے ہیں۔ دوسرے اس تعلق میں عہدیداران کی بعض انتظامی ذمہ داریاں ہیں اُن کو کس طرح نبھانا ہے اور کس حد تک اختیارات ہیں۔ بہرحال اس تعلق میں ان دوباتوں کی طرف مَیں مختصراً توجہ دلاؤں گا۔

پہلی بات تو یہ ہے جو عقیدے سے تعلق رکھتی ہے اور ایک احمدی کے لئے اس کا جاننا ضروری ہے۔ عموماً اس کا بیان تو ہوتا بھی رہتا ہے لیکن اُس توجہ سے نہیں ہوتا یا اس بات کو مدّنظر رکھتے ہوئے نہیں ہوتا کہ ہمارے اپنے لوگوں کی بھی تربیت کی ضرورت ہے۔ عام طور پر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ایک پیدائشی احمدی ہے، اُسے علم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی غرض کیا ہے اور آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے؟ نئے آنے والوں کو تو اس کا اچھی طرح علم ہوتا ہے۔ پڑھ کر تحقیق کر کے آتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہاجو اتنے زیادہ ایکٹو (active) نہیں ہیں، اجتماعات پر نہیں آتے، بعض جلسوں پر بھی نہیں آتے اور ہر ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں، چاہے تھوڑی تعداد ہو، ایک تعداد ہے جس کی طرف ہمیں فکر سے توجہ دینی چاہئے اور اس کے لئے خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کی تنظیموں کو بھی اپنے پروگرام بنا کر اس پر کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ اسی طرح جماعتی نظام بھی ایسے لوگوں کو دھتکارنے کے بجائے یا یہ کہنے کے بجائے کہ ان کی اصلاح نہیں ہو سکتی اُنہیں قریب لانے کی کوشش کرے۔ سوائے اُن کے جو کھل کر کہہ دیتے ہیں کہ میرا تمہارے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کے بارے میں بھی جو جماعت کا main جماعتی نظام، main stream ہے، اُس کو چاہئے کہ ذیلی تنظیموں کو ان لوگوں کی معلومات دے دیں، کیونکہ بعض بڑی عمر کے عہدیداران کے سخت رویے کی وجہ سے بھی لوگ ایسے جواب دے دیتے ہیں۔ ذیلی تنظیمیں ان کے ہم عمر یا کچھ حد تک ہم مزاج لوگوں کے ذریعہ سے اُن کی اصلاح کی طرف توجہ دے سکتی ہیں۔ اور جہاں یہ طریق اپنایا گیا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیابی بھی ہوئی ہے۔ بعض جگہ بعض سیکرٹریانِ تربیت ایسے بھی ہیں جنہوں نے تربیت کے لئے ایسے لوگوں کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے پروگرام بنائے اور اس کا اچھا اور بڑا خاطر خواہ اثر ہوا۔ بڑی اچھی response ان لوگوں سے ملی۔ بہرحال کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہم نے حتی الوسع ہر احمدی کو ضائع ہونے سے بچانا ہے۔ یہ ہر عہدیدار کی ذمہ داری ہے، ہر مربی کی ذمہ داری ہے اور ہر سطح پر ذیلی تنظیموں اور جماعتی نظام کی ذمہ داری ہے۔

(خطبہ جمعہ 16؍اگست 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

قابل رشک انسان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جولائی 2022