• 29 اپریل, 2024

دعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعودؑ) (قسط 36)

دعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعودؑ)
قسط 36

دعا جیسی پاک صاف شرک سے خالی کوئی توجہ نہیں

یاد رکھو کہ دعا جیسی پاک صاف شرک سے خالی کوئی توجہ نہیں۔ دوسری قسم کی توجہوں میں انسان کا بھروسہ اشیاء پر ہوتا ہے۔ جب قبلہ حقیقی کی طرف توجہ نہ ہو تو پھر بے فائدہ ہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ366 ایڈیشن 1984ء)

اُرِیْدُ مَا تُرِیْدُوْنَ

… رات یہ وحی ہوئی۔ اُرِیْدُ مَا تُرِیْدُوْنَ۔ میں ارادہ کرتا ہوں جو تم ارادہ کرتے ہو۔ چونکہ ہمارے ارادے دوستوں کے واسطے مشترک ہیں جن کے لئے ہم دعائیں کرتے ہیں اس واسطے اس میں سب کے واسطے بشارت ہے۔ یہ وحی قبولیت دعا کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یعنی تمہارے ارادے کے موافق ہمارا ارادہ ہے۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے عرض کی کہ یہ قرآن شریف کی اس وحی کے مطابق ہے کہ اَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡہُ اللّٰہِ (البقرہ: 116)

… آپ بھی اس وقت دعا کیا کریں۔ ایک تو رات کے تین بجے تہجد کے واسطے خوب وقت ہوتا ہے۔ کوئی کیسا ہی ہو تین بجے اٹھنے میں اس کے لئے ہرج نہیں۔ اور پھر جب اچھی طرح سورج چمک اٹھے تو اس وقت ہم بیت الدعا میں بیٹھتے ہیں۔ یہ دونو وقت قبولیت کے ہیں۔ نماز میں تکلیف نہیں۔ سادگی کے ساتھ اپنی زبان میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا کرے۔

ایک مرتبہ میں نے خیال کیا کہ صلوٰۃ میں اور دعا میں کیا فرق ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اَلصَّلوٰۃُ ھِیَ الدُّعَآءُ۔ اَلصَّلوٰۃُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ یعنی نماز ہی دعا ہے۔ نماز عبادت کا مغز ہے۔ جب انسان کی دعا محض دنیوی امور کے لئے ہو تواس کا نام صلوٰۃ نہیں۔ لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اور اس کی رضاکو مد نظر رکھتا ہے اور ادب انکسار تواضع اور نہایت محویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہوکر اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے۔تب وہ صلوٰۃ میں ہوتا ہے۔ اصل حقیقت دعا کی وہ ہے جس کے ذریعہ سے خدا اور انسان کے درمیان رابطہ تعلق بڑھے یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے اور انسان کو نامعقول باتوں سے ہٹاتی ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ انسان رضائے الٰہی کو حاصل کرے۔ اس کے بعد روا ہے کہ انسان اپنی دنیوی ضروریات کے واسطے بھی دعا کرے۔ یہ اس واسطے روا رکھا گیا ہے کہ دنیوی مشکلات بعض دفعہ دینی معاملات میں حارج ہوجاتے ہیں۔ … خامی اور کج پنے کے زمانہ میں یہ امور ٹھوکر کا موجب بن جاتے ہیں۔ صلوٰۃ کا لفظ پر سوز معنے پر دلالت کرتا ہے جیسے آگ سے سوزش پیدا ہوتی ہے۔ ویسی ہی گدازش دعا میں پیدا ہونی چاہیئے جب ایسی حالت کو پہنچ جائے جیسے موت کی حالت ہوتی ہے تب اس کا نام صلوٰۃ ہوتا ہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ367-368 ایڈیشن 1984ء)

استجابت دعا کا ایک وقت ہوتا ہے

ادھر کی جاتی ہے اور ادھر جواب ملتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا راحت ہوسکتی ہے اور یہ مابہ الامتیاز امر ہوتا ہے جو مامورین اور دوسروں میں رکھ دیا جاتا ہے۔

…استجابت کا ایک وقت ہوتا ہے۔ انسان کو بعض وقت ایک ہی سمت مقصود ہوتی ہے مگر خدا تعالیٰ مومن کیلئے دنیا اور آخرت میں سنوار چاہتا ہے۔ اس لئے بعض وقت ابتلا آجاتے ہیں جو بالآخر بابرکت ہوتے ہیں۔ بعض انسانی کمزوریوں کا علاج یہ مصائب ہوتے ہیں۔ انسان میں بیشک بعض کمزوریاں ایسی ہوتی ہیں جن کو یہ سمجھ نہیں سکتا لیکن میری دعائیں ایسی ہوتی ہیں کہ محل قبولیت تک پہنچتی ہیں وقت شرط ہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ372 ایڈیشن 1984ء)

انسان کی دعائیں ایک حرارت ایمانی پیدا کرتی ہیں

جس طرح بہت دھوپ کے ساتھ آسمان پر بادل جمع ہوجاتے ہیں اور بارش کا وقت آجاتا ہے۔ ایسا ہی انسان کی دعائیں ایک حرارت ایمانی پیدا کرتی ہیں اور پھر کام بن جاتا ہے۔ نماز وہ ہے جس میں سوزش اور گدازش کے ساتھ اور آداب کے ساتھ انسان خدا تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہوتا ہے۔ جب انسان بندہ ہو کر لاپرواہی کرتا ہے تو خدا کی ذات بھی غنی ہے۔ ہر ایک امت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس میں توجہ الی اللہ قائم رہتی ہے۔ ایمان کی جڑ بھی نماز ہے۔ بعض بیوقوف کہتے ہیں کہ خدا کو ہماری نمازوں کی کیا حاجت ہے۔ اے نادانو۔ خدا کو حاجت نہیں مگر تم کو تو حاجت ہے کہ خدا تعالیٰ تمہاری طرف توجہ کرے۔ خدا کی توجہ سے بگڑے ہوئے کام سب درست ہوجاتے ہیں۔ نماز ہزاروں خطاؤں کو دور کردیتی ہے اور ذریعہ حصول قرب الٰہی ہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ378 ایڈیشن 1984ء)

روحانی گدازش

روزہ اور نماز ہر دو عبادتیں ہیں۔ روزے کا زور جسم پر ہے اور نماز کا زور روح پر ہے نماز سے ایک سوزوگداز پیدا ہوتا ہے۔ اس واسطے وہ افضل ہے۔ روزے سے کشوف پیدا ہوتے ہیں مگر یہ کیفیت بعض دفعہ جوگیوں میں بھی پیدا ہوسکتی ہے لیکن روحانی گدازش جو دعاؤں سے پیدا ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شامل نہیں۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ379 ایڈیشن 1984ء)

ہمارا ہتھیار صرف دعا ہے

عمدہ انسان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق چلے۔ ایسا انسان ایک بھی ہو تو اس کی خاطر ضرورت پڑنے پر خدا تعالیٰ ساری دنیا کو بھی غرق کردیتا ہے لیکن اگر ظاہر کچھ اَورہو اور باطن کچھ اَور تو ایسا انسان منافق ہے اور منافق کافر سے بدتر ہے سب سے پہلے دلوں کی تطہیر کرو۔ مجھے سب سے زیادہ اس بات کا خوف ہے۔ ہم نہ تلوار سے جیت سکتے ہیں اور نہ کسی اَور قوت سے۔ ہمارا ہتھیار صرف دعا ہے اور دلوں کی پاکیزگی۔ اگر ہم اپنے آپ کو درست نہ کریں گے تو ہم سب سے پہلے ہلاک ہوں گے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ386 ایڈیشن 1984ء)

قبولیت دعا حق ہے

قبولیت دعا حق ہے لیکن دعا نےکبھی سلسلہ موت فوت کو بند نہیں کردیا۔ تمام انبیاء کے زمانہ میں یہی حال ہوتا رہا ہے۔ وہ لوگ بڑے نادان ہیں جو اپنے ایمان کو اس شرط سے مشروط کرتے ہیں کہ ہماری دعا قبول ہو اور ہماری خواہش پوری ہو۔ ایسے لوگوں کے متعلق قرآن شریف میں آیا ہے وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّعۡبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرۡفٍ ۚ فَاِنۡ اَصَابَہٗ خَیۡرُ ۨ اطۡمَاَنَّ بِہٖ ۚ وَاِنۡ اَصَابَتۡہُ فِتۡنَۃُ ۨ انۡقَلَبَ عَلٰی وَجۡہِہٖ ۟ۚ خَسِرَ الدُّنۡیَا وَالۡاٰخِرَۃَ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡخُسۡرَانُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۲﴾ (الحج: 12) بعض لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ایک کنارے پر کھڑے ہوکر کرتے ہیں۔ اگر اس کو بھلائی پہنچے تو اس کو اطمینان ہوجاتا ہے اور اگر کوئی فتنہ پہنچے تو منہ پھیر لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کو دنیا اور آخرت کا نقصان ہے اوریہ نقصان ظاہر ہے۔

صحابہ بھی بیوی بچوں والے تھے اور سلسلہ بیماری اور موت فوت کا بھی ان کے درمیان جاری تھا۔ لیکن ان میں ہم کوئی ایسی شکایت نہیں سنتے جیسے کہ اس زمانہ کے بعض نادان شکایت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ دنیا کی محبت کو طلاق دے چکے تھے۔ وہ ہر وقت مرنے کے لئے تیار تھے تو پھر بیوی بچوں کی ان کو کیا پروا تھی۔ وہ ایسے امور کے واسطے کبھی دعائیں نہ کرواتے تھے اور اسی واسطے ان میں کبھی ایسی شکائتیں بھی نہ پیدا ہوتی تھیں۔ وہ دین کی راہ میں اپنے آپ کو قربان کرچکے ہوئے تھے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ390 ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

قابل رشک انسان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جولائی 2022