حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نصیحت فرمائی:۔
اپنی بیٹی کو یہ بھی بتایا کہ اصل چیز یہ سادگی ہی ہے
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اور ام المومنین حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم حضرت فاطمہؓ کو تیار کریں اور ان کو حضرت علی ؓ کے پاس لے جائیں۔ اس سے پہلے انہوں نے اپنے کمرے کی تیاری کی جس کا نقشہ کھینچا کہ ہم نے کمرے میں مٹی سے لپائی کی پھر دو تکئے تیار کئے جن میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ پھر ہم نے لوگوں کو کھجور اور انگور کھلائے اور انہیں میٹھا پانی پلایا اور ہم نے ایک لکڑی لی جس کو ہم نے کمرے کے ایک طرف لگا دیا تاکہ اس کو کوئی کپڑا لٹکانے اور مشکیزہ لٹکانے کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ پس ہم نے حضرت فاطمہ ؓ کی شادی سے زیادہ اچھی شادی اور کوئی نہیں دیکھی۔
(سنن ابی ماجہ کتاب ا لنکاح باب الولیمہ)
یہ نقشہ تو صرف کھینچا ہے انہوں نے شادی کا۔ اس وقت کے لحاظ سے جو سادگی تھی آپؐ نے اس کے اعلیٰ معیار قائم کئے اور اپنی بیٹی کو یہ بھی بتایا کہ اصل چیز یہ سادگی ہی ہے اور خدا کی رضا ہے جس کو حاصل کرنے کی ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے۔ بعد میں بھی ایک موقعہ پر جب انہوں نے غلام کی درخواست کی کہ ہاتھ میں چھالے پڑ گئے ہیں تو آپؐ نے یہی فرمایا تھا کہ خود ہاتھ سے کام کرو اور بہت سارے مسلمان ہیں جن کو تمہارے سے زیادہ ضرورت ہے۔ تو بہرحال اپنے گھر سے ہی انہوں نے سادگی کی تعلیم دی اور تلقین کی۔مَیں یہ نہیں کہتا کہ اس طریقے کے مطابق دو تکئے دینے چاہئیں لیکن ایک مثال ہے سادگی کی سادہ رہنا چاہئے اور بلاوجہ بوجھ ڈال کر اپنی گردنوں پر قرضوں کے طوق نہیں ڈالنے چاہئیں۔ سادگی اور وسائل کے اندر رہتے ہوئے جو میسر ہو،جو رسم و رواج ہیں اس وقت کے اس کے مطابق یہ فرض پورا کرنا چاہئے۔ شادی کا بھی حق ادا کرنا چاہئے اور مہمانوں کی مہمان نوازی کا بھی حق ادا کرنا چاہئے لیکن اپنے وسائل کے اندر رہ کے۔
نظام سلسلہ سے ناجائز مطالبہ نہ کریں
اس ضمن میں یہ ذکر کر دوں کہ اللہ کے فضل سے مریم شادی فنڈ سے بہت سی بچیوں کی شادیاں کی جاتی ہیں لیکن بعض دفعہ جن کی مدد کی جاتی ہے ان کا یہ بار بار مطالبہ بھی ہوتا ہے کہ ہمیں فلاں چیز بھی بنا کر دی جائے اور فلاں چیز بھی بنا کے دی جائے یا اتنی رقم ضرور دی جائے، اس سے کم نہیں۔ تو جو چند ایک تنگ کرنے والے ہیں بعض دفعہ ضد کرنے والے، ان لوگوں کو مَیں یہ کہتا ہوں کہ اپنے آپ کو معاشرے کے رسم و رواج کے بوجھ تلے نہ لائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو آپ کو آزاد کروانے آئے تھے اور آپ کو ان چیزوں سے آزاد کیا اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی جماعت میں شامل ہو کر آپ اس عہد کو مزید پختہ کرنے والے ہیں۔ جیسا کہ چھٹی شرط بیعت میں ہے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے لکھا ہے کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا وہوس سے باز آ جائے گا۔ یعنی کوشش ہو گی کہ رسموں سے بھی باز رہوں گا اور ہوا و ہوس سے بھی باز رہوں گا۔ تو قناعت اور شکر پر زور دی۔ یہ شرط ہر احمدی کے لئے ہے چاہے وہ امیر ہو یا غریب ہو۔ اپنے اپنے وسائل کے لحاظ سے اس کو ہمیشہ ہر احمدی کو اپنے مدنظر رکھنا چاہئے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر2005ء) (الفضل انٹرنیشنل 16 تا 22دسمبر 2005ء)