• 24 جون, 2025

پیشگوئیوں کے اصول

تبرکات

(حضرت میر محمد اسحاقؓ)

حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت پر دلائل

(غیر احمدی مولویوں کے اعتراضات کے جواب دینے کے لئے 20 مارچ 1921ء کو جو جلسہ ہوا اس میں حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب نے پیشگوئیوں کے اصول کے متعلق حسب ذیل تقریر فرمائی)

میرا مضمون حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت پر ہے اور اس میں سے پیشگوئیوں کا حصہ زیادہ ہے۔ قبل اس کے کہ میں ان پیشگوئیوں کا تذکرہ کروں جو پوری ہو چکی ہیں یا وہ پیشگوئیاں جن پر مخالفین کو اعتراض ہے اور میں ان کا جواب دوں۔ پہلے میں پیشگوئیوں کے متعلق اصول اور فیصلہ کن باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں اور چونکہ ہمارے مخالفین قرآن اور حدیث کو مانتے ہیں اور ہم بھی مانتے ہیں اس لئے ہم قرآن و حدیث کو حَکم بنائیں گے اور جو وہ فیصلہ کرتے ہیں اس کے مطابق تصدیق یا تکذیب کریں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِِ (النساء:60) کہ اگر تم میں جھگڑا ہو تو اللہ و رسول کی طرف فیصلہ کیلئے رجوع کرو۔

پس ہم اگر حضرت مسیح موعودؑ کی تصدیق میں کھڑے ہوتے ہیں تو ہمیں قرآن کریم کے اصول کے مطابق تصدیق کرنی چاہئے اور اگر ہمارے مخالف حضرت اقدس کی کسی پیشگوئی پر اعتراض کرتے ہیں تو قرآن کریم کے پیش کردہ اصول کے مطابق اعتراض کرنے چاہئیں۔

پہلا اصل

اب ہم قرآن کریم سے پیشگوئیوں کے متعلق اصول دیکھتے ہیں۔ سب سے پہلی بات اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلاَ یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖۤ اَحَدًا۔ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ (الجن:27-28)۔ الغیب کا جاننے والا خدا ہے کسی کو اس پر غلبہ نہیں ملتا مگر اللہ کے رسول کو۔

وہ با ت جو انسانی قیاس و علم سے بالا ہے اور جس تک انسان کی پہنچ نہیں وہ خدا کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ اگر کسی انسان کی زبان سے تم ایسی بات سنتے ہو تو جان لو کہ وہ خدا کی طرف سے ہے۔ وہ باتیں جو قانون قدرت کے ماتحت ہیں مثلاً رمضان کب ہو گا۔ کل کیا دن ہے۔ دسمبر میں سردی ہوتی ہے۔ یہ غیب نہیں۔ غیب سے مراد وہ باتیں ہیں جو انسانی قیاس سے بالا ہوں۔

ایک اور اصل

اس پر سوال ہوتا ہے کہ کوئی شخص کتنی باتیں بتائے جو پوری ہوں تو وہ الغیب کی باتیں بتانے والا خدا کا رسول قرار پائے گا۔ اس کیلئے مَیں قرآن کریم سے ہی ایک اور اصل بتاتا ہوں۔

حضرت موسٰی ؑفرعون کے دربار میں جاتے ہیں۔ وہاں ایک مباحثہ ہوتا ہے آل فرعون ہی میں سے ایک شخص خفیہ مومن تھا وہ ایک اصل پیش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو بغیر تردید کے کلام مجید میں نقل کرتا ہے۔ وہ میں پڑھتا ہوں۔ فرمایا:۔
وَ اِنْ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیْہِ کَذِبُہ، وَاِنْ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبْکُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُکُمْ (المومن:29)۔ اگر یہ مدعی جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ اسی کو نقصان پہنچائے گا اور اگر یہ سچا ہے تو یُصِبْکُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُکُمْ ان میں سے بعض تم کو پہنچ جائیں گی جن کا یہ تم کو وعدہ دیتا ہے۔

اس اصول کے مطابق نبی اور رسول جس قدر پیشگوئیاں کرتے ہیں ان کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے اگر بعض بھی پوری ہوں تو وہ نبی سچا ہے اور جو انکار کرے وہ سخت غلطی پر اور بڑا مجرم ہے۔ یہ بات کہ ساری پیشگوئیاں پوری ہوں تب کوئی سچا ثابت ہوتا ہے قرآن کریم کی رُو سے درست نہیں۔ بلکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ بعض پوری ہوں تب بھی پیشگوئی کرنے والا سچا ہے۔ اس کے لئے ایک عقلی معیار بھی ہے جو میں پیش کرتا ہوں اور اس وقت جو ہمارے مخالف بیٹھے ہیں وہ نوٹ کر لیں کہ اگر یہی بات درست ہو کہ جب تک کہ کسی کی تمام کی تمام پیشگوئیاں پوری نہ ہوں اس وقت تک وہ نبی ثابت نہیں ہو سکتا تو کوئی نبی نہیں جس کی نبوت ثابت ہو۔

ہر ایک نبی نے وعدہ دیا ہے اور ہمارے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وعدہ فرمایا کہ مومنوں کو بہشت ملے گی اور اس میں حور اور قصور اور غلمان ہوں گے۔ اور اس اس قسم کی نعمتیں ملیں گی۔ اب اس اصول کے ماننے والے کہ سب پیشگوئیاں پوری ہوں تو مانیں قیامت تک انتظار کرتے رہیں گے اور پھر قیامت کے بعد بھی ان کے لئے موقع نہیں کیونکہ یہ پیشگوئی کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہاں رہنا ہو گا اس لئے چاہئے کہ کبھی بھی نہ مانیں۔ کیوں؟ اگر مان لیا اور پھر وہ ہمیشگی منقطع ہو گئی تو کیسے پیشگوئی سچی ہوئی۔ اس لئے کبھی بھی اس اصول کے ماننے والوں کے لئے کسی نبی کی صداقت ظاہر نہیں ہو سکتی۔

پھر حدیث میں دجال کے متعلق پیشگوئی ہے جو ان کے نزدیک اب تک پوری نہیں ہوئی۔ چاہئے کہ جب وہ پوری ہو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مانیں ورنہ اِس وقت ماننے کا ان کا اصول ان کو اجازت نہیں دیتا۔ پھر اگر سب پیشگوئیاں پوری ہوتی دیکھ کر ماننا ہی خوبی اور فضیلت ہے تو حضرت ابوبکرؓ کو اُمت محمدیہ میں کوئی فضیلت نہیں۔ نعوذ باللہ ابوجہل ابوبکرؓ صدیق سے افضل ٹھہرے گا کیونکہ اس نے آنحضرتؐ کو تسلیم نہیں کیا اس لئے کہ اس نے آپ کی سب پیشگوئیوں کو پورا ہوتے نہیں دیکھا۔

پس قرآن کریم نے کسی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے بعض پیشگوئیوں کا پورا ہونا لازمی ٹھہرایا ہے اور جب ہم بعض پوری ہوتی دیکھ لیں تو مان لیں اور اسی کے ہم مکلف ہیں۔ سب کے لئے ہم مکلف نہیں۔ مگر وہ چند باتیں ‘›الغیب›› والی ہونی چاہئیں۔

دوسرا اصل

دوسرا اصل قرآن نے یہ بیان فرمایا ہے کہ وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًاO (بنی اسرائیل:60)۔ ہم نشانیاں نہیں بھیجتے مگر خوف دلانے کے لئے۔ نشانیوں کی غرض ڈرانا ہے۔ اگر کسی نبی نے کسی کے مرنے کی پیشگوئی کی ہے لیکن وہ ڈر جاتا ہے اور اس طرح موت سے بچ جاتا ہے تو پیشگوئی پوری ہو گئی۔ کیونکہ وہ غرض پوری ہو گئی جس کے لئے پیشگوئی تھی اور جب توبہ یا رجوع ہو جائے تو سزا کی ضرورت نہیں رہتی۔

یہ بات عقلاً بھی سوچنی چاہئے کہ اگر کوئی نبی اپنے کسی مکذب کی موت کی پیشگوئی کرتا ہے لیکن وہ توبہ کرتا ہے۔ اب باوجود توبہ کرنے کے وہ مر جائے تو ایمان بے فائدہ ٹھہرتا ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ ایک طبیب کسی کے لئے کوئی نسخہ تجویز کرتا ہے اور وہ شخص بغیر نسخہ کے استعمال کئے ہی اچھا ہو جاتا ہے۔ اب کیا وہ طبیب اس مریض پر خفا ہو گا کہ تم نے میرا نسخہ ضائع کر دیا۔ جب لکھوایا تھا تو کیوں نہ استعمال کیا۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ وہ خوش ہو گا کہ جو غرض تھی وہ پوری ہو گئی۔ اس لئے نسخہ کی ضرورت ہی نہ رہی۔ پس جب ایک انسان توبہ و رجوع کرتا ہے تو خدا اس کو کیوں ہلاک کرے۔

تیسرا اصل

پیشگوئیوں کے لئے ایک اور اصول اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے وَ اِذَا بَدَّلْنَآ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍلا وَّاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْۤا اِنَّمَآ اَنْتَ مُفْتَرٍ ط (النحل:102) اور جب ہم ایک آیت کی بجائے دوسری آیت بدل دیتے ہیں۔ اور اللہ اس چیز کو جو وہ اُتارے خوب جانتا ہے۔ تو مخالفین کہتے ہیں کہ یہ تو مفتری ہے۔ نبی ایک پیشگوئی کرتا ہے اور جو وہ کہتا ہے وہ ایک بڑا نشان ہوتی ہے اس لئے اس کو آیت کہا گیا۔ مگر خدا اس کی بجائے ایک دوسرا نشان ظاہر کر دیتا ہے کیونکہ پیشگوئی تو اصل خدا کی طرف سے ہوتی ہے۔ وہ اس کے مطلب کو خوب جانتا ہے۔ جو وہ نازل کرتا ہے اور اسی کے مطابق پیشگوئی ظہور پذیر ہوتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو قَالُوْۤا اِنَّمَآ اَنْتَ مُفْتَرٍ ۔ مخالف کہتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہے۔

یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعض پیشگوئیوں کا ہے۔ آپ نے کچھ اور سمجھا اور مخالفین کچھ اور سمجھے۔ مگر خداتعالیٰ جس کا کلام تھا وہ اصل حقیقت و مطلب سے واقف تھا اس نے جب اس کے مطابق کیا تو مخالفین نے جھٹ آپ پر فتویٰ افترا لگا دیا۔ حالانکہ پیشگوئی حضرت مرزا صاحب کا اپنا قول نہ تھا خدا کا قول تھا۔ اگر حضرت مرزا صاحب اس سے کچھ اور مطلب سمجھے تو پیشگوئی میں کوئی نقص نہیں آ سکتا۔ کیونکہ کلام ان کا نہیں خدا کا ہے۔ اور خدا جو اس کا صحیح مطلب جانتا ہے اس نے اس کی حقیقت کے مطابق اِسے پورا کر دیا۔ اس پر جہلاء نے کہہ دیا کہ یہ جھوٹا ہے۔

اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ بخاری میں ایک حدیث آتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی بیویوں نے پوچھا کہ جب آپ فوت ہو جائیں گے تو سب سے پہلے کونسی بیوی آپ سے ملے گی۔ حضور نے فرمایا اَسْرَعُکُنَّ لُحُوْقًا بِیْ اَطْوَلُ کُنَّ یَدًا (بخاری کتاب الزکاۃ) تم میں سب سے پہلے مجھ سے وہ ملے گی جس کے سب سے لمبے ہاتھ ہیں۔ حضور کی بیویوں نے سرکنڈے کا ٹکڑا منگوایا اور ناپنے لگیں۔ تو حضرت سودہؓ کے ہاتھ سب بیویوں سے لمبے نکلے۔ رسول کریمؐ کے سامنے ہاتھ ناپے گئے اور آپؐ خاموش دیکھتے رہے۔ لیکن جب آپؐ کا انتقال ہوا تو آپؐ کے بعد بجائے سودہؓ کے حضرت زینبؓ کا انتقال سب بیویوں سے پہلے ہوا۔ اس وقت فیصلہ کیا گیا کہ لمبے ہاتھ سے مراد ظاہری ہاتھوں کی لمبائی نہیں بلکہ اس سے مراد سخاوت ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ جو کچھ پہلے سمجھا گیا وہ نہ ہوا بلکہ جو کچھ خدا کے نزدیک تھا وہ ہوا۔

اسی طرح محمدی بیگم کے متعلق جو اعتراض ہیں وہ فضول ہیں۔ کیونکہ خدا نے جس نے وہ کلام نازل کیا تھا۔ جس طرح درست تھا اس طرح کیا۔ اس لئے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔

پھر ایک اور مثال ہے۔ حضرت نوحؑ کو الہام ہوتا ہے کہ اب تمہاری قوم میں سے اور لوگ ایمان نہیں لائیں گے ان پر غم مت کرو۔ ہاں ایک کشتی بناؤ اور ظالموں کے بارے میں ہم سے مت خطاب کرو۔ انہوں نے کشتی تیار کی۔ خدا کے وعدے کے مطابق پانی کا طوفان اٹھا اور نوح نبی کو حکم ہوا کہ اپنے اہل و عیال اور ساتھیوں وغیرہ کے ساتھ اس پر سوار ہو جاؤ۔ وہ سوار ہو گئے۔ آخر طوفان تھم گیا۔ ہلاک ہونے والے ہلاک ہو گئے۔ جن میں حضرت نوحؑ کا بیٹا بھی ہلاک ہو گیا۔ اس وقت حضرت نوحؑ نے جو کچھ کہا اور اس کے متعلق جو خداتعالیٰ فرماتا ہے یہ ہے۔

نَادٰی نُوْحٌ رَّبَّہ، فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَھْلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَاَنْتَ اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ قَالَ ٰینُوْحُ اِنَّہ، لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ اِنَّہ، عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ فَلاَ تَسْئَلْنِ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنِّیْۤ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ

(ھود:47-46)

اس وقت کسی اور نے نہیں خود حضرت نوحؑ نے ادب سے پوچھا اور عرض کیا کہ اے خدا! تیرا وعدہ تھا کہ میرے اہل بچائے جائیں گے اور میرا بیٹا میرے اہل میں سے تھا وہ نہیں بچا۔ آپ کا وعدہ تو سچا ہے اور آپ بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں۔ لیکن یہ بات کیا ہوئی۔ اللہ تعالیٰ حضرت نوحؑ کو جواب دیتا ہے کہ اے نوح! بیشک ہمارا وعدہ تھا کہ تیرے اہل کو بچائیں گے مگر تیرا بیٹا تیرا اہل نہ تھا۔ کیوں اہل نہ تھا۔ اس لئے کہ وہ تیرے خلاف تھا اور اس کے اعمال غیر صالح تھے۔ پھر فرمایا۔ مت پوچھ مجھ سے وہ بات جس کا تجھے علم نہیں۔ میں تجھے وعظ کرتا ہوں کہ تو جاہلوں سے مت ہو۔

اب دیکھو حضرت نوحؑ سے وعد ہ تھا کہ ان کے اہل بچائے جائیں گے۔ وہ اس سے ظاہری اہل سمجھے اسی لئے اپنے بیٹے کے ہلاک ہونے پر خدا کو اس کا وعدہ یاد دلاتے ہیں۔ مگر خدا جس نے نوح کو وعدہ دیا تھا وہ جانتا تھا کہ اس سے کیا مراد ہے۔ جب اپنی سمجھی ہوئی بات کے مطابق حضرت نوحؑ نے پوچھا تو خدا نے بتایا کہ ہم نے کب کہا تھا کہ تیرے ظاہری اہل بچائے جائیں گے۔ وہ تیرا بیٹا ظاہری اہل تھا ہمارا اس کی حفاظت کا وعدہ نہ تھا اس لئے وہ ہلاک ہوا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو جہلاء کا طریق ہے کہ بَدَّلْنَآ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ کی حقیقت کو نہ سمجھیں۔ آپ نبی ہیں آپ کو یہ اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔

چوتھا اصل

ایک اور بات پیشگوئیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَآ اَوْ مِثْلِھَا (البقرہ:107)۔ ہم کسی نشان کو منسوخ نہیں کرتے۔ مگر لاتے ہیں اس سے بہتر یا اس جیسا کوئی اور۔ پیشگوئیوں میں ایسا بھی ہوتا ہے۔ اس کی مثال ویسی ہی ہے کہ ہم کسی کو دس روپے دینے کا وعدہ کریں اور دس کی بجائے پندرہ دے دیں تو وہ جھوٹا نہیں کہا گیا بلکہ بڑھ کر پورا کیا گیا۔ اس کی مثال قرآن کریم میں یوں آتی ہے۔ وَوٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّ اَتْمَمْنٰھَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖۤ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ج (الاعراف:143)

وعدہ کیا ہم نے موسیٰ سے تیس رات کا اور پورا کیا ہم نے اس کو ساتھ دس کے۔ پس خدا کا وعدہ چالیس رات میں پورا ہوا۔ کیا اس میں کوئی خدا پر نعوذ باللہ جھوٹ کا الزام لگا سکتا ہے کہ تیس رات کا وعدہ چالیس میں پورا کیا۔ کوئی نہیں اس لئے کہ خدا کی ملاقات کے لئے اگر تیس کی بجائے چالیس راتیں صرف ہوں تو یہ عین خوشی کی بات ہے۔

پانچواں اصل

مَا کَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابٌ۔ یَمْحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ ۔ وَعِنْدَہ،ۤ اُمُّ الْکِتٰبِ۔

(الرعد:40-39)

کوئی رسول نہیں جو بغیر اللہ کے اِذن کے کوئی نشان لائے۔ ہر ایک وعدے کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔ اللہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اصل کتاب اس کے پاس ہے۔

خداتعالیٰ کے نبی خدا کی وحی سے پیشگوئی کرتے ہیں اپنے پاس سے نہیں کرتے۔ اور ہر ایک وعدہ کے لئے خدا کے ہاں وقت مقرر ہے۔ اور ان وعدوں میں سے اللہ تعالیٰ جن کو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور جن کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے کیونکہ اصل علم اسی کے پاس ہے۔

اس کی مثالیں یہ ہیں۔ حضرت موسٰیؑ کی قوم سے وعدہ تھا اور پختہ وعدہ تھا۔ چنانچہ حضرت موسٰیؑ کے الفاظ قرآن کریم میں یہ ہیں کہ یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ (المائدہ:22)

اے قوم! ارضِ مقدسہ میں داخل ہو جاؤ۔ یہ خدا نے تمہارے لئے لکھ دی ہے۔ مگر باوجود اس حتمی وعدے کے جب قوم نے اپنے آپ کو اہل ثابت نہ کیا اور کہہ دیا کہ فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ (المائدہ:25)۔ تو وہی ارض مقدسہ جو ان کیلئے لکھ دی گئی تھی اس کے متعلق صاف لفظوں میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً یَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ (المائدہ:27) کہ وہی ارض مقدسہ جو بنی اسرائیل کے لئے لکھ دی گئی تھی ان کیلئے حرام کر دی گئی ہے۔ چالیس سال تک جنگلوں میں بھٹکتے پھریں۔ دیکھو ادھر تو فرمایا کہ وہ تمہارے نام لکھ دی۔ جاؤ اور قابض ہو جاؤ۔ اور اُدھر کہہ دیا گیا کہ حرام کر دی گئی۔

حضرت مسیح موعود ؑکا دعائیہ اشتہار

حضرت مسیح موعودؑ نے دعائیہ اشتہار مولوی ثناء اللہ کے متعلق شائع کیا۔ مولوی ثناء اللہ نے اس طریق فیصلہ کے ماننے سے انکار کیا۔ اس پر مولوی ثناء اللہ کہا کرتے ہیں کہ میرے انکار سے کیا ہوتا تھا۔ خدا کو چاہئے تھا کہ اپنے نبی کی دعا سنتا۔ میں خواہ اس طریق فیصلہ کو نہ مانتا تب بھی مجھے مرزا صاحب سے پہلے مرنا چاہئے تھا۔ لیکن یہ ان کی بات غلط ہے اور قرآن کریم کے خلاف ہے۔ کیونکہ اگر کسی کے انکار کا کچھ اثر نہیں پڑنا چاہئے تو ضرور قومِ موسیٰ کو ارضِ مقدسہ ملنی چاہئے تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ قومِ موسیٰ کے انکار سے چالیس سال تک کے لئے ان پر حرام کر دی گئی۔ غرض انکار کا اثر ضروری ہے۔ ایک مثال احادیث میں بھی ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ مجھے قیصر و کسریٰ کے خزائن کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ حضورؐ کو یہ کنجیاں نہیں ملیں بلکہ حضرت عمرؓ کو ملیں۔ اس لئے ہو سکتا ہے کہ نبی کے ساتھ جو وعدہ ہو اس کا ایفاء نبی کے متبعین میں سے کسی کے ساتھ کیا جائے۔

حضرت مسیح موعودؑ کی عمر پر اعتراض

حضرت مسیح موعودؑ کی عمر پر اعتراض کیا گیا ہے۔ مگر تعجب ہے کہ یہاں تو مولوی ثناء اللہ مخالف اعتراض کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر حضرت عمرؓ کو اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ آپ کی وفات بے وقت ہوئی ہے۔ بخاری میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت تلوار کھینچ لی اور کہا کہ جو کہے گا کہ آپؐ مر گئے ہیں میں اس کو مار دوں گا۔ کیونکہ ابھی تو آپ نے منافقوں کے ناک کان کاٹنے ہیں۔ اس وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان کو سمجھایا تب انہوں نے اپنی تلوار نیام میں کی۔ (بخاری باب فضل ابی بکر)

اسی طرح یہاں بھی اعتراض ہوتا ہے جیسا کہ خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ مَا یُقَالُ لَکَ اِلَّامَا قَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِکَ (حٰم السجدہ:44)۔

پس مسیح موعود پر کوئی ایسا اعتراض نہیں کیا جا رہا جو پہلوں پر نہ کیا گیا ہو۔

صلح حدیبیہ کی مثال

اسی طرح ایک اور مثال ہے۔ صلح حدیبیہ کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے ساز و سامان کے ساتھ ایک خواب کی بناء پر کئی ہزار فوج لے کر مکہ کی طرف کوچ کیا۔ لیکن کفار نے روک دیا اور تمام لوگوں کو ابتلاء آ گیا اور حضرت عمرؓ کو سخت ابتلاء آیا۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر کہا۔ کیا آپ خدا کے رسول نہیں اور کیا ہم حق پر نہیں؟ آپ نے فرمایا۔ میں خدا کا رسول بھی ہوں اور ہم حق پر بھی ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ کیا آپ ہمیں نہیں کہا کرتے تھے کہ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ (الفتح:28)۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ اس سال ایسا ہو گا ہاں ہو گا۔ پھر آپ ابوبکر صدیقؓ کے پاس گئے۔ انہوں نے سمجھایا تب مطمئن ہوئے۔ پھر رسول کریمؐ کو مقام ہجرت دکھایا گیا مگر آپ نے جو سمجھا وہ نہ نکلا بلکہ اور نکلا۔

یہ ہیں اصول پیشگوئیوں کے دیکھنے کے۔

(اس تقریر کا باقی حصہ 21 مارچ 1921ء کو جناب میر صاحب نے حسب ذیل بیان کیا) (باقی آئندہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اگست 2020