اس زمانہ میں اسلام کے اکثر امراء کا حال سب سے بدتر ہے وہ گویا یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ صرف کھانے پینے اور فسق و فجور کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ دین سے وہ بالکل بے خبر اور تقویٰ سے خالی اور تکبر اور غرور سے بھرے ہوتے ہیں اگر ایک غریب ان کو السّلام علیکم کہے تو اُس کے جواب میں وعلیکم السلام کہنا اپنے لئے عار سمجھتے ہیں۔ بلکہ غریب کے منہ سے اس کلمہ کو ایک گستاخی کا کلمہ اور بیباکی کی حرکت خیال کرتے ہیں۔ حالانکہ پہلے زمانہ کے اسلام کے بڑے بڑے بادشاہ السلام علیکم میں کوئی اپنی کسر شان نہیں سمجھتے تھے مگر یہ لوگ تو بادشاہ بھی نہیں ہیں۔ پھر بھی بیجا تکبر نے اُن کی نظر میں ایسا پیارا کلمہ جو السلام علیکم ہے جو سلامت رہنے کے لئے ایک دُعا ہے حقیر کرکے دکھایا ہے۔ پس دیکھنا چاہئے کہ زمانہ کس قدر بدل گیا ہے کہ ہر ایک شعار اسلام کا تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23 صفحہ327)
حضرت مرزا بشیر احمدؓ صاحب بیان کرتے ہیں کہ :
’’حضرت مسیح موعود ؑکا یہ دستور تھا کہ آپ اپنے تمام خطوط میں بسم اللّٰہ اور السلام علیکم لکھتے تھے۔اور خط کے نیچے دستخط کر کے تاریخ بھی ڈالتے تھے۔ میں نے کو ئی خط آپ کا بغیر بسم اللّٰہ اور سلام اور تاریخ کے نہیں دیکھا۔ اور آپ کو سلام لکھنے کی اتنی عادت تھی کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ آپ ایک دفعہ کسی ہندو مخالف کو خط لکھنے لگے تو خود بخود السلام علیکم لکھا گیا۔ جسے آپ نے کا ٹ دیا۔ لیکن پھر لکھنے لگے تو پھر سلام لکھا گیا چنانچہ آپ نے دوسری دفعہ اُسے پھر کاٹا لیکن جب آپ تیسری دفعہ لکھنے لگے تو پھر ہاتھ اسی طرح چل گیا۔ آخر آپ نے ایک اور کاغذ لے کر ٹھہر ٹھہر کر خط لکھا۔‘‘
(سیرت المہدی، جلد اول صفحہ 270، روایت نمبر 299)