ہم اپنا انتخاب نظر دیکھتے رہے
روح روان قلب و جگر دیکھتے رہے
لوگ آسماں پہ چاند اگر دیکھتے رہے
ہم بھی تو اپنا، رشک قمر دیکھتے رہے
وہ آئے اور پھول بکھیرے، چلے گئے
سب پیار کی نظر سے ادھر دیکھتے رہے
ہم سب رہے ہیں مہر بلب شوق دید میں
جب تک وہ بار بار ادھر دیکھتے رہے
رعب جمال و حسن سے ہم ان کی بزم میں
کچھ کر سکے نہ بات مگر دیکھتے رہے
ہم تو رواں ہیں منزل مقصود کی طرف
کچھ لوگ دور گرد سفر دیکھتے رہے
باطل کے لشکروں کے مقابل پہ آج تک
دین خدا کی فتح و ظفر دیکھتے رہے
انجام ہر عنيد کا ہر سو ہے آشکار
ہم ہر عدوّ کو خاک بسر دیکھتے رہے
مقبول و مستجاب ہوا دل کا اضطرار
ہر لحظہ ہم دعا کا اثر دیکھتے رہے
سر پر مدام یورش آفات دہر میں
تائید ایزدی کی سپر دیکھتے رہے
ان کا خطاب موجب تسکین جاں ہوا
برسا خدا کا نور جدھر دیکھتے رہے
گزری ہے شاد عمر مری انتظار میں
ہم راہ ان کی شام و سحر دیکھتے رہے
(محمد ابراہیم شاد)