رَبِّ زِدۡنِیۡ عِلۡمًا
(طٰہٰ:115)
ترجمہ: اے میرے ربّ! مجھے علم میں بڑھا دے۔
یہ قرآنِ مجید میں مذکور علم میں ترقی حاصل کرنے کی دعا ہے، جو خدا تعالیٰ نے سید ومولیٰ پیارے رسول حضرت محمدﷺ کے ذریعہ امتِ مسلمہ کو سکھائی۔
قرآن وحدیث میں علم کی فرضیت اور اس کے حصول کی ترغیب جابجا بیان ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ نے تو یہ تک فرمایا ہے کہ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں۔
ہمارے پیارے آقا سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایَّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزعلم کے حصول کے لئے توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں
ایک حدیث میں آتا ہے کہ اُطْلُبُواالْعِلْمَ مِنَ الْمَھْدِ اِلَی اللَّحْدِ یعنی چھوٹی عمر سے لے کے، بچپنے سے لے کے آخری عمر تک جب تک قبر میں پہنچ جائے انسان علم حاصل کرتا رہے۔ تو یہ اہمیت ہے اسلام میں علم کی۔ پھر اس کی اہمیت کا اس سے بھی اندازہ لگا لیں کہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم یا دعا پر سب سے زیادہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا۔ اور آپؐ عمل کرتے تھے، اللہ تعالیٰ تو خود آپؐ کو علم سکھانے والا تھااور قرآن کریم جیسی عظیم الشان کتاب بھی آپ پر نازل فرمائی جس میں کائنات کے سربستہ اور چھپے ہوئے رازوں پر روشنی ڈالی جس کو اُس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی شاید سمجھ بھی نہ سکتا ہو۔ پھر گزشتہ تاریخ کا علم دیا، آئندہ کی پیش خبریوں سے اطلاع دی لیکن پھر بھی یہ دعا سکھائی کہ یہ دعا کرتے رہیں کہ رَبِّ زِدۡنِیۡ عِلۡمًا۔ بہرحال ہر انسان کی استعداد کے مطابق علم سیکھنے کا دائرہ ہے اور اس دعا کی قبولیت کا دائرہ ہے۔ وہ راز جو آج سے پندرہ سو سال پہلے قرآن کریم نے بتائے آج تحقیق کے بعد دنیا کے علم میں آ رہے ہیں۔ یہ باتیں جو آج انسان کے علم میں آ رہی ہیں اس محنت اور شوق اور تحقیق اور لگن کی وجہ سے آ رہی ہیں جو انسان نے کی۔
آج یہ ذمہ داری ہم احمدیوں پر سب سے زیادہ ہے کہ علم کے حصول کی خاطر زیادہ سے زیادہ محنت کریں، زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔
(خطبہ جمعہ 18؍ جون 2004ء)
(مرسلہ:مریم رحمٰن)