آپ کے والد کا نام محرّم خان اور ماں کا نام دلہن بی بی ہے۔ آپ کی پیدائش 1941ء کو جماعت احمدیہ کیرنگ، ضلع خوردہ صوبہ اُڈیشہ میں ہوئی۔ آپ پیدائشی احمدی ہیں اور معزز دلبہرا وسردار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ خان کی کنیت سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ کا شجرۂ نسب پٹھان یا مغل خاندان سے جا ملتا ہے۔شجرئہ نسب خاندان جناب خان بہادر مصاحب خان صاحب مرحوم ڈپٹی مجسٹریٹ اور خاندان منشی عبد الحمید خان صاحب مرحوم یونین پریذیڈنٹ کیرنگ میں مؤرخہ 30نومبر1973ء کو مکرم قریشی محمد حنیف قمر صاحب مرحوم مبلغ اُڈیشہ وبنگال نے ہمارے جد امجد کے شجرئہ نسب میں لکھا ہے کہ مکرم شمس الحق خان صاحب بن مکرم محرم خان صاحب بن مکرم اسماعیل خان صاحب بن مکرم عبد الرحمن خان صاحب بن مکرم بشارت خان صاحب بن مکرم مصاحب خان صاحب بن مکرم بھیکن خان صاحب بن مکرم دولت خان صاحب بن مکرم شریف خان صاحب بن مکرم جعفر خان صاحب ہیں۔ زبانی روایات کے مطابق 1970ء میں احمدیت کا نفوذ کیرنگ میں ہوا تھا اور آپ کے دادا مکرم اسماعیل خان صاحب مرحوم کے ذریعہ آپ کے گھرانہ میں احمدیت آئی تھی۔
مکرم Muralidhar Pradhan ریٹائرڈہیڈماسٹر خوردہ ہائی اسکول و مورخ اُڈیشہ ومصنف کتاب ’›انّوے سَنا ‘›ANWEASANA PART- II جلد 2، صفحہ 97۔98 میں بیان کرتے ہیں کہ تقی خان نامی 1800ء کے اوائل میں ہندوستان کے شمالی علاقہ سے ایک مسلمان آیا تھا جو بہت بڑا جنگجو تھا اسکی قابلیت و مہارت کو دیکھ کر اس وقت کے خوردہ بادشاہ نے انہیں ’›دلبہرا›› لقب وعہدہ دے کر کیرنگ میں متعین کیا۔ یہیں سے ہی دلبہرا خاندان جو ایک معزز خاندان کہلاتا تھا، کے سلسلہ کیرنگ کاگاؤں میں آغاز ہوا۔ اگرچہ ان سے پہلے اس بستی میں مسلمان موجود تھے۔
آپ کا بچپن کیرنگ میں ہی گزرا اور نہایت باادب و باوقار و دینی ماحول میں تربیت پائی۔ آپ کا مکان جامع مسجد کے بالکل سامنے موجود ہے۔ آپ اس زمانہ میں پانچویں کلاس تک پڑھائی کی تھی۔ پھر رزق کی تلاش میں 1955ء کو چودوار اُڈیشہ ضلع کٹک کے ایک کپڑے کی فیکٹری OTM میں نوکری کی اور آپ نےیہاں پر 1955ء تا1972ء تک قیام کیا۔ اسی دوران 1961ء کو آپ کی شادی اسی گاؤں میں مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ بنت مکرم مصاحب خان صاحب محلہ دار الفضل کے ساتھ مبلغ/-500 پانچصد روپے حق مہر کےعوض عمل میں آئی۔ اللہ کی مشیت کے مطابق آپ شادی کے بعددس سال تک اولاد ِنرینہ سے محروم رہے۔ اور یہی وہ حالت تھی جو آپ کو خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کے قریب لے گئی اور عبادت، ریاضت اور دعاؤں کی طرف آپ کی ایک غیر معمولی رنگ میں توجہ پیدا ہوئی کہ اللہ کے حضور اس قدر رو رو کر گریاوزاری کرتے تھے، گویا کہ آپ دنیاداری سے لاپرواہ ہیں۔ یہی حالت ایک دن آپ کو دنیا داری سے الگ کرکے دینداری کی طرف لے گئی اور آپ چودوارکی نوکری کو چھوڑ کرخادمِ دین بننے 1972ء میں قادیان پہنچ گئے۔ خادن دین بننے میں آپ کو ایک خواب نے بہت متاثر کیا۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے جب آپ چودوار میں ہی تھے اور قادیان جانے کی بات چل رہی تھی، ایک دن آپ دعائے استخارہ کرکے سوگئے نماز تہجد سے قبل آپ ایک خواب میں دیکھتے ہیں کہ آپ قادیان گئے ہوئے ہیں جلسہ سالانہ کا موقعہ تھا، حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ تشریف لارہے ہیں آپ بلند آواز سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘ کہہ کر مصافہ کر رہے ہیں اور حضور نماز پڑھانے کے لئے آگے بڑھتے ہیں، حضور کے پیچھے مولوی صاحب تکبیر کہتے ہیں۔ جب مولوی صاحب کی نیند کھلی تو مولوی صاحب نےنیت کی حالت میں ہاتھ باندھے اپنے آپ کو پایا تو فوری طور پر لیٹے ہوئے حالت میں اسی نماز کو مکمل کیا، آپ نے خدا کے حضور رو روکر گڑگڑاکر جو دعائے استخارہ کئے تھے وہ دعا دگنا رنگ لائے۔ پہلی بات یہ ہے کہ آپ کی اہلیہ دس سالہ لمبے عرصہ کے بعد پہلی بار اُمید سے ہوئی۔ اور دوسری بات یہ کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مستقل جس کام کے لئے پیدا کیا تھا وہ صراطِ مستقیم آپ کو مل گیا۔اللہ تعالیٰ نے محترم مولوی قمرالحق خان فاضل و ساشتری جو اِن دنوں جامعہ احمدیہ کے نائب پرنسپل ہیں کو آپ کے گھر میں پیدا کیا۔محترم مولوی قمرالحق خان ہی مکرم ومحترم مولوی شمس الحق خان کی قبولیت دعاؤں کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ اس موقع پر اس دعا کا مختصر واقعہ سنانا مناسب ہوگا۔ہر شخص جانتا ہے کہ شادی کے بعد ایک لمبے عرصے تک اگر کسی کے ہاں اولاد نہیں ہوتی تو میاں بیوی کو کن کن حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود محترم مولوی شمس الحق خان صاحب نے اپنے مالکِ حقیقی سے اپنا ایک خاص ذاتی تعلق قائم کیا ہوا تھا جو ایک مسلسل دعا اور صبر کے ساتھ کامل یقین کو چاہتاتھا سو آپ نے اپنے مولیٰ کریم سے وہ یقین وصبرکامادہ حاصل کیا ہوا تھا۔ آپ نےاپنے پیارے مولیٰ سے اس شرط کے ساتھ دعا مانگی تھی کہ اے خدا توجو بن مانگے دینے والا اور دعاؤں کو قبول کرنے والا ہےتو مجھے اولاد کی نعمت سے مالامال کر تو میں ضرور تیری نعمتوں کی قدر کروں گا اور اس کاحق اداکروں گا اور تو مجھے جتنی بھی اولاد دیگا میں اُن سب کو تیری راہ میں قربان کردوں گا۔یہ اس مادہ پرست زمانہ میں یہ کہنا اورخدا سے کئے ہوئے وعدہ کو بعینہ پورا کرنا نہایت مشکل امر ہے۔ لیکن محترم مولوی شمس الحق خان صاحب نے جو ایک الگ طبیعت کے مالک تھے اور خداکے احسانات کو جانتے تھے اور خداسے کئے ہوئے وعدہ کی تکمیل میںسرگرم عمل رہے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو شادی کے دس سال بعد پانچ فرزندان اور تین دخترانِ نیک اختر سے نوازا۔ دختران میں سے ایک دختر بچپن کی عمر میں جب آپ کی ڈیوٹی جماعت احمدیہ پنکال اُڈیشہ میں تھی وفات پاگئی تھیں۔ (اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ)
1972ء میں جب آپ کی اہلیہ زچگی کے لئے خوردہ سرکاری ہسپتال میں تھیں آپ اس وقت قادیان میں زیرتعلیم تھے،مکرم و محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ان دنوں کیرنگ کے دورے پر آئے ہوئے تھے، معلوم ہونے پر کہ محترم مولوی شمس الحق خان صاحب کے یہاں بڑے دنوں کے بعد اولاد ہوئی ہے، خوردہ ہسپتال جاکر عیادت کی اور دعا و مالی تعاون کا حق ادا کیا۔ (فَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلیٰ ذٰلِکَ) اور واپس قادیان جاکر مولو ی صا حب کو یہ خوش خبری سنائی۔ آپ نےاپنے مولیٰ حقیقی سے جو وعدہ کیا تھا کہ یا اللہ تو مجھے جتنی بھی اولاد دیگا میں انہیں تیری راہ میں قربان کردوں گا۔اس کوعملی جامہ پہناتے ہوئے آپ نے پہلے چار فرزندان کوزیرنمبر وقف اولاد فارم 2719-22/18-3-1989کو خلیفہء وقت کی خدمت اقدس میں بعد تکمیل فارم ارسال فرمایا اورمحترم وکیل الدیوان تحریک جدید ربوہ کی طرف سے زیر روانگی خط 2623-26/8964/4-5-1989 موصول ہوا جس میں مذکورہ چاروقف اولاد کی قبولیت اور ان کی صحیح تربیت کرنے کی طرف ہدایات دی گئی تھی۔ اسی طرح خلیفہ الرابع ؒکے زمانہ میں والدمحترم مولوی شمس الحق خان صاحب نے پانچواں اور آخری فرزندمکرم مولوی دبیر الحق خان صاحب کو وقف نو کی مبارک تحریک میں زیر وقف نو حوالہ نمبر 7498A شامل کیا۔ محترم مولانا بشیر احمد طاہر صاحب سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان اکثر اوقات واقفین زندگی کی مثال دیتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ہندوستان میں دو ایسے واقفین زندگی بزرگ ہیں، جنہوں نے خود اپنے آپ کو وقف کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی پوری اولادوں کو بھی واقفین زندگی بنایا، ان میں سے مکرم مولوی بشیر احمد خادم صاحب اور مکرم مولوی شمس الحق خان صاحب سرفہرست ہیں۔ آج آپ کے تمام فرزندان واقفین زندگی ہیں اور مرکز احمدیت کے کسی نہ کسی شعبہ میں خدمات دینیہ بجالارہے ہیں۔ سب سے پہلے مکرم مولوی قمر الحق خان صاحب ساشتری جو ان دنوں جامعہ احمدیہ قادیان کے نائب پرنسپل ہیں۔دوسرے فرزند خاکسار فضل حق خان مبلغ انچارج بھوبنیشورہیں، تیسرے فرزند مکرم مولوی حافظ تنویر الحق خان صاحب مبلغ سلسلہ ہیں جو ان دنوں مہاراسٹر میں خدمات دینیہ بجا لارہے ہیں، چوتھے فرزند مکرم مولوی نورالحق خان صاحب مبلغ سلسلہ ہیں جو ان دنوں صوبہ آندھرا کے ویشاکھا پٹنم میں سلسلہ کے کام سرانجام دے رہے ہیں۔اسی طرح پانچویں فرزند مکرم مولوی دبیر الحق خان صاحب مبلغ سلسلہ ہیں جو ان دنوں یو پی سیتا پور ضلع میں خدمات دینیہ بجالارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان واقفین زندگی میںبھی ایسی قربانیوں کا جذبہ، برکت اور وسعت بخشی ہے کہ مکرم مولوی قمر الحق خان صاحب کی دو اولاد ہیں اور دونوں واقفین نو ہیں۔خاکسارکی تین اولاد ہیں جو واقفین نو تحریک میں شامل ہیں، مکر م مو لوی نورالحق خان صاحب کے دو فرزند ہیں جو تحریک وقف نو میں شامل ہیں۔اور مکرم مولوی حافظ تنویر الحق خان صاحب کا ایک فرزند ہے جو مبارک تحریک وقف نو میں شامل ہے۔اسی طرح محترم مولوی شمس الحق خان صاحب کے دو دختر نیک اختر ہیں، مکرمہ منصورہ بیگم صاحبہ جو جماعت احمدیہ سرلو نیاگاؤں اُڈیشہ میں مکرم سید شمیم احمد صاحب عقد میں آئی ہوئی ہیں،اور دوسری دختر مکرمہ شاہدہ بیگم صاحبہ جو اسی گاؤں کیرنگ کے مکرم منیرالدین خان صاحب جو محترم مولوی حسن خان صاحب پہلوان کے پوتے ہیں کے عقد میں آئی ہوئی ہیں۔
اس موقع پر محترم مولوی شمس الحق خان صاحب کے تعلیمی دور قادیان کے بارے میں مختصراََ بیان کرنا مناسب ہوگا۔ آپ اس زمانہ کی ضرورت کے پیشِ نظر صرف چھ ماہ تعلیم حاصل کرکے میدانِ عمل میں چلے گئے تھے۔ آپ کے ساتھ آپ کے چند ساتھی جو اکٹھے تعلیم حاصل کررہے تھے وہ مکرم اُنّیم کُٹّی صاحب (کیرلہ)، مکرم یوسف صاحب (کیرلہ) اور مکرم محمد علی صاحب (مدراس) ہیں۔ اس وقت معلمین کی کلاس مبلغین کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔اور اس وقت مبلغین کلاس کے ساتھی طلباء میں سے محترم مولانا حمید کوثرصاحب، محترم مولانا سلطان ظفر صاحب،محترم مولانا ظہیر احمد خادم صاحب، اور مولانا حمید الدین صاحب شمس تھے۔ اس وقت مکرم و محترم مولوی محمد حفیظ صاحب بقاپوری ہیڈماسٹر ہوا کرتے تھے اور استاد کے طور پر مکرم مولانا کریم الدین صاحب شاہد، مکرم مولانا انعام غوری صاحب اور محترم مولانا یوسف صاحب ہوا کرتے تھے۔ 2006ء میں جامعہ احمدیہ قادیان کے صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر جامعہ احمدیہ قادیان کی طرف سے ایک مجلہ کا اجراء کیا گیا تھا۔اُس مجلہ کے صفحہ نمبر59پر محترم مولانا محمد حمید کوثر صاحب سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان اپنے مرتب زیرِ عنوان مضمون›› جامعہ احمدیہ قادیان›› میں لکھتے ہیں :
‘›1972ء میں مدرسہ احمدیہ میں ہی ایک اضافی کلاس کا اجراء کیا گیاتھا۔ اس کلاس کا نصاب ایک سال کا تھا۔ اس کے متعلمین میں سے مولانا شمس الحق خان صاحب حال مقیم کیرنگ اڑیسہ بھی تھے۔ یہ معلمین تعلیمی و تربیتی لحاظ سے مفید ثابت ہوئے۔››
آپ کی تقرری سب سے پہلے صوبہ اُڈیشہ کے جماعت احمدیہ غنچہ پاڑہ میں ہوئی۔ جہاں آپ نے 1972ء تا 1974ء تک سلسلہ کے کام بخوبی سرانجام د یئے اور آج تک اس جماعت کے افراد آپ کی نہایت عزت و تکریم کرتے ہیں۔ اس جماعت میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے بہت سے دلچسپ اورسبق آموز واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اختصار کے ساتھ صرف ایک واقعہ قبولیت دعا و تربیت کے شوق وولولہ کے بارے میں ازدیادِ علم کے لئے پیش کیا جاتا ہے۔یہ امر چھپتا ہوا نہیں ہے کہ مولوی صاحب نےبیشمار بچے بچیوں، مرد و عورتوں، اسی طرح نوجوان و عمر رسیدہ کو قرآن مجید اور تراجم اور اردو سیکھایا ہے۔ آپ ہمیشہ تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان تعلیم حاصل کرنیوالوں کیلئے نیز جماعت کی ترقی، فلاح و بہبودی کیلئے دعائیں کرتے تھے۔ اسی دوران مجلس خدام الاحمدیہ و اطفال الاحمدیہ اُڈیشہ کا سالانہ اجتماع عمل میں آیا۔یہ جماعت چھوٹی ہونے کی وجہ سے کوئی خاص پوزیشن حاصل نہیں کرپائی تھی اور انعام کی مستحق بھی نہیں ہوپائی تھی۔ آخر میں سلو سائیکل ریس Slow Cycle Race کا مقابلہ رکھاگیا تھا۔ اس مقابلہ میں جماعت احمدیہ غنچہ پاڑہ کے ایک خادم نے حصہ لیا تھا۔ مقابلہ شروع ہونے لگا اور ادھر مولوی صاحب کی دعا بھی شروع ہوگئی، سائیکل کے پیچھے پیچھے ہاتھ اُٹھا کر رو تے جاتے دعا کرتے جاتے کہ اے اللہ یہ آخری مقابلہ ہے اور ہماری جماعت اب تک کوئی پوزیشن نہیں لے سکی۔ کوئی ایک بھی انعام کا حقدار ہوگیا تو جماعت کی عزت بچ جائے گی۔ اسی سوچ وولولہ کے ساتھ دعا کرتے جاتے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اس خادم نےاوّل پوزیشن حاصل کی۔ الحمدللّٰہ علی ذٰلک۔ جماعت میں متعین ہر خادم دین کی اپنی جماعت کی بہتری و ترقی کے لئے اسی قدرجوش و تڑپ ہونا چاہئے۔
آپ نے 1974ء تا 1977ء تک جماعت احمدیہ رانچی سمیلیا میں خدماتِ دینیہ بجا لانے کی توفیق پائی۔ اسی طرح1977ء تا 1984ء تک آپ نےجماعت احمدیہ موسیٰ بنی مائنس میں ایک لمبا عرصہ خدمات سرانجام دی۔ اس دوران وہاں مکرم شیخ ابراہیم صاحب صدر جماعت ہوا کرتے تھے۔ پھر 1984ء تا 1987ء تک جماعت احمدیہ کرڈاپلی میں سلسلہ کی خدمات سرانجام دیں۔ اُس وقت مکرم محمد صدیق صاحب صدر جماعت ہوا کرتے تھے۔ اسی طرح 1987ء تا 1990ء تک جماعت احمدیہ پنکال میں خدمات سرانجام دیئے۔ اس دوران پہلے مکرم ابراہیم خان صاحب اور پھر جمعہ خان صاحب صدر جماعت رہے۔ پھر 1990ء تا 1993ء جماعت احمدیہ کرڈاپلی میں دوبارہ تقرری ہوئی۔ اسی طرح 1993ء تا 1995ء تک جماعت احمدیہ نیالی کھجوریہ پاڑہ میںسلسلہ کے کام سرانجام دیئے۔ نیالی علاقہ میں خدمات سرانجام دیتے وقت غیر احمدیوں اورہندوئوںمیں مولوی صاحب بہت تبلیغ کیا کرتے تھے۔ اسی دوران مکرم سید نیر احمد صاحب آف بھوبنیشور نیالی میں تحصیلدار تھے، وہ کہتے ہیں مکرم مولوی صاحب جماعتی تربیت وتبلیغ کے کاموں میں انتھک محنت کرتے تھے۔ ساتھ کے ساتھ ان لوگوں کیلئے بہت دعائیں کرتے تھے نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ آپ کے اخلاص وبزرگی اور دعا کی وجہ سے بہت سے لوگ بیعت کرکے احمدیت کی آغوش میں آتے تھے۔ اسی طرح 1995ء تا 1997ء تک جماعت احمدیہ کیندرا پاڑہ میں خدمات سرانجام دیں۔پھر 1997ء تا 1998ء جماعت احمدیہ بھدرک میں خدمات سرانجام دیں۔ پھر آپ نے1998ء میں ہی جماعت احمدیہ کیندرا پاڑہ میں دوسری مرتبہ خدمت کا موقع پایا۔ آخر آپکی 1998ء میں ہی ریٹائر منٹ ہو ئی۔ لیکن اللہ کے فضل سے آپ کی اچھی صحت کی وجہ سے 2016ء تک ری ایمپلائمنٹ کے ذریعہ سلسلہ کی خدمات بخوبی سرانجام دیتے رہے۔
مولوی صاحب اُڈئیہ زبان کے ماہر مقرر اور اُڈئیہ زبان میں کتابچہ اور تربیتی امور پر کتاب بھی لکھنے والے، ہفت روزہ اخبار بدر اُڈئیہ کے کاموں میں بہتر مشورے اور تعاون دینے والے،صوم و صلوٰۃ کے پابنداور باقاعدہ تہجد گزار، غریب پرور، ملنسار، عاجز انکسار، دعاگو انسان تھے۔تبلیغ کا کوئی موقعہ میسرہوتاتو اسے آپ ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ سفر کے دوران ساتھی مسافروں کے ساتھ کوئی نہ کوئی تبلیغی گفتگو ضرور چھیڑ دیتے اور اسلام کا پیغام ان تک دل کش انداز میں پہنچاتے۔ ہومیوپیتھی کے ذریعہ علاج کو بھی آپ نے تبلیغ وتربیت کا وسیلہ بنایا ہوا تھا۔ آپ کے پاس جو لوگ دوائی لینے آتے تھے آپ ان کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کے لئے دعا بھی کرتے اور دوائی لینے والا احمدی ہوتا تو تربیت کی کوئی بات اس کو سمجھاتے اور اگر غیر مذہب کا ہوتا تو دوائی دینے کے ساتھ ساتھ اس کو تبلیغ بھی کر لیتے۔ جب نماز کا وقت ہوتا آپ مسجد کے لئے نکلتے راستہ میں سائلین آپ کے انتظار میں ہوتے۔ آپ جیب میں ہاتھ ڈالتے اور ہر ایک کو کچھ نہ کچھ دیتے جاتے۔ ہر ایک کی خوشی غمی میں شامل ہوتے۔ خلیفۂ وقت سے بے پناہ محبت کرتے اور ہر وقت دعا کے لئے خط لکھتے۔ ایم ٹی اے پر حضور انور کے لائیوخطبہ جمعہ کا بے صبری سے انتظار کرتے اور سب گھروالوں کو حضور انور کا خطبہ سننے کی تاکید کرتے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ ارشاد فرمانے سے پہلے جب السلام علیکم کہتے تو اسے سن کر آپ کی آنکھیں پرنم ہوجائیں اور نہایت اخلاص کے ساتھ جواباََ وعلیکم السلام کہتے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی منظوری سے 2011ء میں جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقعہ پر لندن جانے کی سعادت پائی۔
مولوی صاحب موصوف موصی بھی تھے، جنکی وصیت نمبر 14038/11-2-1975 ہے۔ مولوی صاحب اپنی عرصہ خدمات میں سینکڑوں کی تعداد میں بیعت کروائے ہیں۔ اور سینکڑوں کی تعداد میں غریب احمدی بچیوں کی رشتہ کروائے ہیں۔اسی طرح مولوی صاحب کے زیر تربیت صوبہ جھار کھنڈ و اُڈیشہ کی متعدد جماعتوں کے مبلغین کرام و معلمین کرام نے تعلیم حاصل کرکے کامیابی سےمیدان عمل میں خدماتِ دینیہ بجا لارہے ہیں۔مولوی صاحب ہر سال جلسہ سالانہ قادیان پر جانے کے شوقین تھے۔ جلسہ سالانہ قادیان کے شعبہ نظامت تربیت کی طرف سے مولوی صاحب کی ڈیوٹی کسی نہ کسی مسجد میں تہجد پڑھانے پرلگادی جاتی تھی۔ آپ نہایت شوق سے اس کام کو باوجود سخت سردی کے وقت پر اُٹھ کر مسجد میں حاضر ہوجاتے۔ ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ نماز پڑھاتے وقت مولوی صاحب کی آواز میں ایک کشش ہوتی۔ایک درد بھری آواز ہوتی جس سے پیچھے نماز پڑھنے والوں کی نماز میں ایک رقت، خشوع وخضوع پیدا ہوتا۔ نماز ختم ہوتے ہی بہت سےاحباب مولوی صاحب سے مصافہ کرتے اور دعا کی درخواست کرتے۔ باوجود طبیعت ناساز رہنے کی بھی ہر جلسہ اجلاس، جنازہ اور دعائیہ تقریبات میں شمولیت اختیار کرتے۔مولوی صاحب کے والدین بھی موصی ہیں۔مولوی صاحب کے ایک چھوٹے بھائی مکرم رحمٰن خان صاحب ہیں جنہوں نے ایک لمبے عرصہ تک چودوار OTM فیکٹری میں نوکری کی۔ اب کیرنگ جماعت کے حلقہ دار السلام میں زعیم انصار ہیں۔مولوی صاحب کی ایک بہن مکرمہ حنیفہ بی بی صاحبہ ہیں جو اسی گاؤں کے مکرم شیخ رفیق صاحب کے عقد میں آئی ہوئی ہیں۔
مولوی صاحب کو ضعیف العمری کی وجہ سے خدمات سے معذرت کر دی گئی۔ مولوی صاحب کی طبیعت دن بدن کمزور ہوتی گئی۔ مولوی صاحب اپنی زندگی کی آخری جلسہ سالانہ قادیان میں جب گئے تھے۔ جلسہ کے بعد بڑے فرزند مکرم مو لوی قمر الحق خان صاحب کے پاس قیام کیا۔ ایک روز دل کا دورا پڑا اور جالندھر میڈیکل میں جاکرایک اسٹنٹ ڈلوانا پڑا۔ واپس اُڈیشہ آنے کے بعدصحت میں کمزوری بڑھتی گئی۔پھر آپ کو آخر ایام میں کثرت پیشاب کا شکایت رہی، جس وجہ سے آپ کافی پریشان رہے۔ گھر میں کوئی بیٹا یا مرد نہ ہونے کی وجہ سے مجبوراََ ان کو آخر ایام میں ماہ رمضان المبارک سے چند روز قبل خاکسار کے پاس بھوبنیشور میں قیام کرناپڑا۔ 27ویں رمضان کے بعد آپ کی ضعیف العمری اور کثرت پیشاب کی شکایت نے پریشانی بہت بڑھادی۔ اور پھر کیرنگ آگئے۔ مورخہ 12مئی صبح 10:00بجے ماہ رمضان کے آخر ی عشرہ میں مولیٰ حقیقی سے جاملے۔۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ
بھوبنیشور میں قیام کے دوران روزانہ بستر میں لیٹے لیٹے فیملی کے ساتھ تربیتی اجلاس مقررکرتے۔اس میں خودکبھی تلاوت کرتے تو کبھی نظم اردو پڑھتے تو کبھی اُڈئیہ نظم بھی پڑھتے پھر آخر میں چند نصیحت کرتے اور دعا کرواتے تھے۔آپ کو شروع سے ہی تبلیغ کرنا، تربیت کرنا اور جلسہ واجلاسات میں شامل ہو کر تقریر کرنا بہت پسند تھا۔ آپ کی تقریر وتربیت بہت ہی بااثر تھی اور دلوں میں گھر کرجاتی تھی۔ آپ کی بزرگی اور دعاہر جماعت میں مقبول ومشہور ہے۔لوگ آپ کی بڑی عزت کرتے تھے۔آپ ایک مجسم دعا تھے۔آپ ابولعلماء تھے۔
2005ء جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تشریف آوری پر جب قادیان میں فیملی ملاقات ہوئی اُس وقت مولوی صاحب اپنی پوری فیملی کاحضور انور کی خدمت اقدس میں تعارف کروارہے تھے، حضور انور نے اس فیملی میں اس قدر واقفین کی تعداد سنکر مولوی صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’مَاشَآءَ اللّٰہُ ایسا لگ رہا ہے کہ پورا جامعہ آپ کے کندھوںپرہے۔‘‘ (اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلیٰ ذٰلِکَ) آپ اپنے بچوں کو بہت پیار کرتے تھے۔ اُن کی کامیابی کیلئے بہت دعائیں کرتے تھے۔ بے شک کثیر العیال تھے۔ لیکن اللہ کے اوپر کامل توکّل ویقین رکھتے تھے کہ وہی خدا ان سب بچوں کو ضرور کامیاب کرے گا۔ لوگ، رشتہ دار تعجب سے کہا کرتے تھے کہ ہم لوگ اچھی اچھی نوکری کرنے ہیں۔ بہت بڑی بڑی تنخواہ پاتے ہیں لیکن ہم ہمیشہ پریشان رہتے اور سکون واطمنان قلب نہیں۔ آپ کثیر العیال ہیں۔ معلم سلسلہ کی تنخواہ بھی بہت کم ہے۔آپ نےکس طرح سارے بچوں کو کامیاب کیا اور شادیاں کروائی ہیں۔ آپ کہتے تھے کہ سلسلہ کی خدمات کے نتیجہ میں جو رقم ملتی ہے، بے شک وہ کم ہے۔لیکن اسی میں اللہ تعالیٰ بہت برکت دیتا ہے۔ آپ سب اس کاعملی ثبوت دیکھ رہے ہیں۔آپ نے تمام بچوں کی بچپن سے ہی بہترین تربیت کی۔ ہمارے اسکولوں میں کبھی کبھی استاد جی ہر بچوں سے باری باری پوچھا کرتے تھے کہ بتائو آپ بڑے ہو کر کیا بنوگے۔ہر بچہ اپنا مستقبل خواہش کا اظہار کرتا تھا۔ جب ہماری باری آتی تھی، ہم بولنے سے پہلے ہی ساتھ والا بچہ کہ دیتا تھا کہ استاد جی یہ خادم دین مبلغ بنے گا۔ گویا معاشرہ وگائوں میں بھی ہر ایک کو پتہ ہوتا تھا کہ مولوی صاحب کے بچے خادم دین بنیں گے۔ ہم بھائیوں میں سے کئی بھائی دنیا وی پڑھائی میں بہت تیزاور اچھے تھے۔اور لمبے قد کے بھی تھے، لوگ اور رشتہ دار کہتے تھے کہ آپ کومیٹرک کے بعد اچھی نوکری مل جائے گی۔ لیکن اسماعیلی تربیت یافتہ بچے اپنے بزرگ ابراہیمی استادصفت والدین کی نیک خواہش کو پوراکیا اور نیک والدین نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بچپن سے جو وعدہ کیا تھا کہ میں ساری اولاوں کو دین کی راہ میں وقف کروں گا، اسے پورا کر دکھایا۔
آپ کا نماز جنازہ خاکسار نے جماعت احمدیہ کیرنگ کے جنت الفردوس قبرستان کی جنازہ گاہ میں پڑھایا۔ اور بعد نماز عصر تدفین عمل میں آئی۔ مولوی صاحب کی وفات کے بعد پورے ہندوستان کی مختلف جماعتوں سے، مرکزی ناظران ونائب ناظران کی طرف سے، مبلغین ومعلمین وواقفین اور احباب جماعت کی طرف سے تعزیتی الفاظ ومولوی صاحب کی تعریفی کلمات آتے رہے۔ اسی طرح بہت سارے زیر تبلیغ غیر احمدی وہندو احباب کی طرف سے بھی تعزیتی کلمات موصول ہوئے۔
اُڈیشہ کے ایک مشہور اُڈئیہ اخبار ‘›NITIDIN›› Odia Daily کے مدیر جناب منوج کمار مہاپاتر (Manoj Kumar Mahapatra) صاحب نے مکرم مولوی صاحب کی وفات کی خبر سن کر اُن کے بارے میںایک واقعہ بذریعہ واٹس آپ تحریر بھیجا۔›› لکھا کہ 1993ء کی بات ہے۔ ماہ اپریل میں کیرنگ میں احمدیہ مسلم جماعت کا سالانہ جلسہ پیشوایان مذاہب منعقد ہورہا تھا۔ مجھے ہندودھرم کی طرف سے نمائندہ کے طورر پر مدعو کیا گیا تھا۔ مسجد کے وسیع عریض صحن میں اُڈیشہ کے وزیر اعلیٰ عزت مآب جناب بیجو پٹنائک اوروزیر عزت مآب جناب ڈاکٹر پرسن کمار پاٹسانی کے بعد میری تقریر تھی۔ قیام امن کے بارے میں وید ساشتروں سے تقریر پیش کی۔ میری تقریر لوگوں پر بہت اثر ہوا۔ تقریر کے بعد ملاقات کے دوران مولوی شمس الحق خان صاحب نے مجھے بہت ساری دینی کتابیں تحفۃً پیش کیں۔ اور کہا کہ تھوڑی دیر کیلئے مسجد کے اندرونی حصہ میں دینی گفتگو کریں گے۔ مجھ سے کہا کہ یہاں پر29سال سے جلسہ ہوتا آرہا ہے۔ بہت سارے ہندو عالم یہاں آتے ہیں۔ لیکن ایک سوال کا تسلی بخش جواب کسی سے نہیں پایا۔ آج آپ کی تقریر سے مجھے ایسا معلوم ہوا کہ آپ اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شری کرشن جی کے بارے میں بیان ہوتا ہے کہ وہ برندابن میں گوپیوں کے ساتھ مستی کرتے تھے۔ اس بارے میں بہت ساری بے حیائی کی باتیں بھی کہی جاتی ہیں۔ اگر اس طرح کی باتیں ہم اس زمانہ میں کرنے لگیں تو کیا معاشرہ اسے قبول کریگا۔ اس سوال کا جواب اگر چہ کہ میں اس وقت جانتا نہیں تھا۔ لیکن اس بھری مجلس میں ایک مسلمانوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ اور میری بڑی عزت کرتے ہیں۔میں اپنی عزت کو بھی گرا نہیں سکتا تھا۔ یہ سوال سن کر مجھے ایک بجلی کا جھٹکا سا لگا۔ میں اس وقت خاموش ہو گیا کچھ دیر بعد میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی۔ میں سمجھایا کہ سوچیں آپ کے گائوں کا ایک بیس سالہ نوجوان اور سولہ سالہ ایک لڑکی اکیلے میں کسی جگہ میں بار بار جاتے ہوں تو لوگوں کو اس بات کا علم ہونے پر ضرور بکھیڑا کھڑا ہو جائے گا۔ اگر وہ لڑکی ایک آٹھ سال کی عمرکے لڑکے کے ساتھ اس جگہ پر جائے تو کوئی اس بارے میں غلط نہیں سمجھے گا۔ میں نے کہا شری کرشن جی اسی عمرمیں برندابن میں مستیاں کرتے تھے۔ متھورا گئے تھے۔ انہیں ہر ادب کے نظم ونثر میں کشور کہا گیا ہے۔زندگی میں عمر کے پانچ ادوار آتے ہیں۔ طفلیت، کشور، نوجوانی،ادھیڑ اور بُڑھاپا۔ کشور عمر5-15کی ہوتی ہے۔اور اسی عمر میں شری کرشن جی نے اُن گوپیوں کے ساتھ مستیاں کرتے تھے جس کو معاشرہ میں غلط نظرسے نہیں دیکھا جاتا۔ مولوی صاحب جواب سُن کر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ آج مجھے اس سوال کا جواب مل گیا۔اکثر لوگ بھی مجھے یہ سوال کیا کرتے تھے۔ مجھے مولوی صاحب کے اس سوال کا جواب دینا اگر چہ کہ بہت مشکل امر تھا لیکن جو اب دینے میں اشور نے میری مدد کی اور میرا دل ودماغ جس علاقہ میں گھوم رہا تھا، اس علاقہ میں آج مولوی صاحب داخل ہو چکے تو میں دل کی گہرائیوں سے موصوف مولوی صاحب کی مغفرت کی دعاکرتا ہوں۔‘‘
اسی طرح محترم مولوی شیخ مجاہد احمد صاحب شاستری قادیان مکرم مولوی شمس الحق خان صاحب مرحوم ومغفور کے بارے لکھتے ہیں کہ محترم شمس الحق خان صاحب مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے 5بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ آپ نے اپنی ساری نرینہ اولاد وقف زندگی کردی اور اُنہیں مبلغ بنا کر جماعت کی خدمت کے لئے پیش کیا۔ خاکسار کو آپ کے تین بیٹوں مکرم قمرالحق خان صاحب نائب پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان۔ مکرم فضل حق خان صاحب مبلغ سلسلہ بھوبنیشور اور مکرم تنویر الحق خان صاحب مبلغ سلسلہ کے ساتھ خاص رابطہ کا موقعہ ملا۔
1993ء میں خاکسار نے جامعہ احمدیہ قادیان میں داخلہ لیا تو اُس وقت مکرم فضل حق خان صاحب میرے ہم جماعت اور کلاس فیلو تھے۔ 2000ء میں جب خاکسار بنارس تخصّص کے لئے گیا تو وہاں مکرم قمرالحق خان صاحب سنسکرت میں آخری سال تخصّص کررہے تھے۔آپ کے ساتھ ایک کمرہ میں ایک سال سے زائد عرصہ رہنے کا موقع ملا۔ 2007ء میں جامعہ احمدیہ قادیان میں مکرم تنویر الحق خان صاحب کو پڑھانے کا موقعہ ملا۔
خاکسار اس بات پر گواہ ہے کہ محترم شمس الحق خان صاحب نے اپنے تمام بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ اور اُنہیں اس بات پر باربار تاکید کی کہ ہر حالت میں جماعت کی خدمت کو مقدم رکھنا ہے۔
2001ء میں خاکسار کو مکرم قمرالحق خان صاحب کی شادی کے موقع پر کیرنگ جانے کا موقعہ ملا اور مکرم شمس الحق خان صاحب مرحوم کے گھر میں قیام کا موقعہ ملا۔ آپ انتہائی مہماننواز، ملنسار، اور محبت کرنے والا شخصیت کے مالک تھے۔ اپنے عزیز بچوں کی طرح خاکسار سے محبت کرتے اور معمولی باتوں کا بھی بہت دھیان رکھتے تھے۔ 2001ء سے جو آپ سے تعارف پیدا ہوا وہ آخری وقت تک قائم رہا۔ ہر سال جب آپ کو جلسہ سالانہ قادیان میں آنے کا موقعہ ملتا تو خاکسار سے ضرور ملتے اور میری خیروعافیت ضرور دریافت کرتے۔
آپ نماز باجماعت کے بہت پابند تھے۔ جلسہ سالانہ قادیان کے دنوں میں ایک بار آپ کو مسجد دار لانوار میں نماز تہجد پڑھانے کا موقعہ ملا۔ اس پر آپ کی خوشی کی کوئی انتہاء نہ تھی کہ اکثر کہاکرتے تھے کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کا اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں موقع عنایت فرمایاہے۔ اللہ تعالیٰ اس خدمت کو قبول فرمائے۔
آپ کو تبلیغ کا انتہائی شوق تھا۔ خصوصاََ اُڑیہ زبان میں بہت لگن سے تبلیغ کرتے۔خاکسار نے بنارس ہندو یونیورسٹی سے ہندومذہب پر تخصص کیا اس لحاظ سے کئی بار مجھ سے ہندو مذہب کے حوالے سے کئی باتیں دریافت کرتے اور کئی باتیں بیان کرتے تھے۔جماعت احمدیہ کیرنگ اُڈیشہ نے 2014ء میں اپنا 51واں جلسہ سالانہ منعقد کیا۔ اس موقعہ پر خاکسار کو مرکزی نمائندہ کی حیثیت سے جانے کا موقعہ ملا۔ اُڈیشہ کے جماعتوں کا یہ طریق کار ہے،ایک وہ مرکزی نمائندہ کی آمد سے بھرپور فائدہ حاصل کرنے کے لئے ایک کے مسلسل جماعتوں میں جلسہ سالانہ کرتے ہیں۔ تاجو لوگ کسی دوسری جماعت کے جلسہ میں کسی وجہ سے شامل نہ ہوسکے وہ اپنی جماعت کے جلسہ میں شامل ہو سکیں۔
2014ء جلسہ سالانہ کے بعدآپ کی طبیعت ضعیفی کی وجہ سے علیل تھی۔ لیکن اس کے باوجود جلسہ سالانہ کیرنگ کے تینوں دن کے پروگرام میں شامل ہوئے۔ سارے اُڈیشہ میں احباب جماعت آپ سے خاص محبت اور عزت کرتے تھے۔
اس موقع پر محترم محمد نورالدین امین صاحب ضلعی امیر خوردہ ونیاگڑھ مکرم مولوی شمس الحق خان صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جماعت نےایک بزرگ اورتجربہ کار مقرر کو کھول دیا ہے۔ ایک دفعہ بھوبنیشور کے آچارجیہ بہار کے ایک مذہبی ادارے کی طرف منعقدہ جلسہ پیشوایان مذاہب میں مدعو کئے گئے تھے۔ مولوی صاحب صرف احمدیوں میں مشہور ومعروف نہیںتھے بلکہ غیروں میں بھی مقبول تھے۔جماعت نےواقعی ایک ہردل عزیز وعالم کو کھودیا۔ چودوار سے جب جامعہ میں پڑھنے کے لئے گئے وہ واپس دنیا داری کی طرف کبھی مڑکر نہ دیکھا۔جماعت کیلئے ایک جرنیل کی طرح انہوں نے کا م کیا۔ انہوں نے اپنی ساری اولاد کو واقفین بنایا ہے۔ مولوی صاحب میرے لئے بھی ایک نمونہ تھے۔ میں نے ایک دفعہ ان سے پوچھا کہ آپ نےکس طرح اپنے سارے بچوں کو وقف کردیا۔ آپ نے کہا میں اس بارے میں کہنا ایک تکبر ہوا آپ ان سب کے لئے دعا کریں۔ ایک نایاب وقیمتی وجود تھے۔ ہم نے ان سے سمجھا کہ وقف کرنا کس کو کہتے ہیں۔ مولوی صاحب ایسے جرنیل تھے جنہوں نے اپنی جان، مال، وقت اور عزت اور سب کچھ دین کے لئے قربان کیا۔
خوردہ و نیاگڑھ کے سابق ضلعی امیرمحترم سید خالد احمد صاحب مولوی صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مولوی صاحب مرحوم ایک جید عالم تھے۔ ہمارے درمیان اب وہ نہیں رہے۔ ساری فیملی کے ساتھ بہت لگائو تھا۔ بہت دعاگو نیک طبیعت کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ انکی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور پسمندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
مولوی صاحب کی وفات کی خبر صوبہ اُڈیشہ کے 12اخبارات (SAMBAD, DHARITRI, SAKAL, PRAGATIVADI, ODISHA BHASKAR, AMRUTA DUNIA, NAXETRA JYOTI, PRASANT, ODIARA SANMAN, AJIKALI, SEITHU ARAMBHA, JUBA MORCHA
میں شائع ہوئے۔ اخبار SAMBAD نے مولوی صاحب موصوف کے بارے میں لکھا کہ مولوی صاحب اردو، عربی اور فارسی میں علم حاصل کرکے خدمت دین کیلئے اپنے آپ کو وقف کردیا۔ اپنی پوری زندگی میں پیغام حق پہنچانے کیلئے وہ اپنے صوبہ اور صوبہ کے باہر بھی جاکر کام کیا۔ صلح و پیغام امن پہنچانے کے ساتھ ساتھ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کا تعلیم بھی دیتے رہے۔ اخبار DHARITRI نے لکھا کہ مولوی صاحب مرحوم ایک بہترین خادم دین، غریب پرور، سماج میں پیار ومحبت پھیلانے والے، وید، پُران اور قرآنی علم کے ساتھ ساتھ مختلف مذاہب کے بارے میں بہت علم رکھنے والے شخص تھے۔ اسی طرح اخبار I PRAGATIVAD اور ODISHA BHASKAR نے مولوی صاحب کے بارے میں لکھا کہ ایک بہترین عالم، فاضل، نیک، متقی، دعا گو، ملنسار، مہمان نواز، خوش اخلاق اور ہمدرد شخص تھے۔
آپ ہندو دھرم کے بارے میں گہرا علم رکھنے والے،ساشتر کی بہت ساری باتیں اصل عبارت کے ساتھ سنسکرت میں یاد رکھے ہوئے تھے۔ جس کو پیش کرکے ہندئووں میں خوب تبلیغ کیاکرتے تھے۔ ہندئووں میں بہت مشہور ومعروف شخص تھے۔ کئی پیشوایان مذاہب کے جلسوں میں مولوی صاحب کو خصوصی دعوت نامہ آتا تھا۔ اور وہ اس محفل کی رونق ہوا کرتے تھے۔ تقریر وجلسہ ختم ہوتے ہی غیر مسلم احباب آکر ملاقات کرتے اور تعجب کا اظہار کرتے کہ ہم لوگ ہندو ہونے کے باوجود ساشتروں کی صحیح تفسیر ہمیں معلوم نہیں، آپ کی تفسیر نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ بہت سارے اداروں کی طرف سے بھی مولوی صاحب کی عزت افزائی کی جاتی تھی۔
مورخہ 2جون 2021ء کو 12بجے دوپہر اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دفتر سے باہر تشریف لاکر مکرمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم محمد علی صاحب اسلام آباد یوکے کی نماز جنازہ حاضر اور 30مرحومین کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔جس میں خاکسار کے والد مکرم مولوی شمس الحق خان صاحب واقفین زندگی کا جنازہ غائب بھی شامل تھا۔ الفضل انٹرنیشنل 11جون2021ء کے صفحہ نمبر14کالم نمبر4-5 میں والد صاحب کی کوائف اس طرح سے درج ہیں کہ ’›مکرم شمس الحق خان صاحب معلم سلسلہ (پنشنر۔جماعت احمدیہ کیرنگ صوبہ اُڈیشہ۔ انڈیا 12 مئی 2021ء کو وفات پاگئے تھے۔ صوبہ اُڈیشہ اور صوبہ بہار کی جماعتوں میں تعلیم وتربیت اور تبلیغ کا فریضہ نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے رہے۔علمی ذوق رکھنے والے خادم سلسلہ تھے۔ آپ نے اپنے پانچوں بیٹوں کو وقف کیا جو بطور مبلغین بھارت کے مختلف صوبوں میں خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔ ایک بیٹے مکرم قمر الحق خان صاحب نائب پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان ہیں۔ مرحوم موصی تھے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب بھائیوں کو اپنے والد محترم کی نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے نیک نمونوں کو زندہ رکھنے والا بنائے، ان کی دعائوں کا وارث بنائے اورخلیفہ وقت کی توقعات پر پورا اتر نے والا بنائے۔ اپنی آئندہ نسل درنسلوں کو بھی نیک خادم دین بنا ئے۔ آمین
(مولوی فضل حق خان۔ مبلغ انچارج بھوبنیشور،اُڈیشہ)