• 20 اپریل, 2024

بلو وہیل

بلو وہیل
دنیا کا سب سے بڑا جانور

بلووہیل کا شمار دنیا کے سب سے بڑے جانور میں ہوتا ہے۔ اس کی لمبائی تین اسکول بسوں اور اس کا وزن پندرہ اسکول بسوں کے برابر ہوتا ہے۔ یہ اب تک ملنے والے سب سے بڑے ڈائنوسار Triceratops کے فاسل سے بھی تین گنا بڑی ہے۔ اس کی جسامت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ یہ بوئنگ 737 جہاز سے بھی بڑی ہوتی ہیں۔اور اس کا وزن 150 ٹن تک ہو سکتا ہے۔ غیر معمولی جسامت کی بدولت آج تک کسی بھی زندہ بلیو وہیل کا وزن کرنا ممکن نہیں ہوسکا۔ اس کا جبڑا 90 ڈگری تک کھل سکتا ہے اور اتنا بڑا ہوتا ہے کہ 100 افراد اس میں بیٹھ کر آسانی سے میٹنگ کر سکتے ہیں۔ یہ 31 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے تیر سکتی ہیں۔ بلو وہیل اکیلے سفر کرنا پسند کرتی ہیں اور دوسرے ممالیہ جانوروں کی نسبت گروپ کی شکل میں نہیں رہتیں۔ یہ اکھٹی صرف بریڈن سیزن میں جوڑے کی صورت میں ہوتی ہیں یا صرف ماں اور بچہ ساتھ میں رہتے ہیں۔ یہ بریڈنگ سیزن کے لیے ٹھنڈے پانی سے گرم پانیوں کی طرف ہجرت کرتی ہیں اور ہجرت کے دوران یہ ایک دوسرے سے کئی کئی کلومیٹر کے فاصلہ پر رہ کر سفر کرتی ہیں۔ Leaner Month یعنی ایسے مہینے جن میں خوراک ناکافی یا بالکل نہ ہو بلیو وہیل پہلے سے حاصل شدہ خوراک جو چربی کی صورت میں محفوظ ہوتی ہے استعمال کرتی ہیں۔ اس حالت میں یہ چھ ماہ تک بغیر کچھ کھائے رہ سکتی ہیں۔

بلیو وہیل کے کان نہیں ہوتے ہیں لیکن ان میں سننے کا شاندار نظام موجود ہے۔ یہ اپنے اندرونی کان اور اس میں موجود آواز کے ارتعاش کو محسوس کرنے والی حساس ہڈیوں کی بدولت سنتی ہیں۔

بلیو وہیل کی آواز دنیا میں پائے جانے والےکسی بھی جانور سے زیادہ بلند ہے۔ اس کی آواز کو 188 ڈیسیبل تک ریکارڈ کیا گیا ہے جو جیٹ انجن کی آواز سے بھی زیادہ ہے۔شیر 118 ڈیسیبل، ہاتھی 103 ڈیسیبل تک بلند آواز پیدا کر سکتے ہیں۔

اپنی اس طاقتور اور بلند آواز کو بلو وہیل ایک دوسرے سے رابطہ کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ بیلو وہیل آواز کی جو فریکوئنسی پیدا کرتی ہے اسے پانچ سو میل دور تک سنا جا سکتا ہے۔ محققین کا ماننا ہے کہ بلیو وہیل اپنی زبان میں ایک دوسرے سے باتیں کرتی ہیں۔اپنی آواز کو تاریک سمندر میں یہ بطور سونار نیویگیشن (آواز کی لہروں کی مدد سے راستہ تلاش کرنا) کے طور بھی استعمال کرتی ہیں۔

بلیو وہیل کی عمر کا اندازہ اس کے کان میں موجود میل Earwax سے لگایا جاتا ہے، ہر چھے ماہ بعد اس میل پر ایک نئی تہ چڑھ جاتی ہے۔ بلیو وہیل کی اوسط عمر 80 سے 90 سال کے درمیان ہوتی ہے۔یہ دوسرے ممالیہ جانوروں کی نسبت زیادہ عرصہ جیتی ہیں۔ اب تک سب سے بڑی عمر 110 سال ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ عمر اس کے کان میں موجود میل سے ہی معلوم کی گئی تھی۔اپنے عظیم جثہ کو توانا رکھنے کے لیے بلیو وہیل کوروزانہ چار ٹن خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔

یعنی ایک افریقی ہاتھی کے وزن سے بھی زیادہ، حیرت انگیز طور پر دنیا کے سب سے بڑے جانور کی خوراک سمندر کی بہت ہی چھوٹی سی مخلوق کرل Krill ہیں۔ایک دن میں یہ چالیس ملین کرل کھا جاتی ہے۔ اتنے کرل ایک ساتھ نگل لینے کی وجہ سے بعض اوقات انہیں ہضم کرنے میں مشکل ہوتی ہے اور یہ اسے اگل دیتی ہیں۔ یہ مواد جسے Embergris کہا جاتا ہے سطح آب پر تیرتا رہتا ہے جسے لوگ جمع کر لیتے ہیں۔ شروع میں یہ مواد نرم ہوتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ سخت ہوجاتا ہے اور اس میں خوشبو پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ خوشبودار مواد کئی مہنگے پرفیوم بنانے میں استعمال ہوتا ہے، نیز اس سے ادویات بھی بنائی جاتی ہیں۔ اس مواد کے صرف سات گرام کی قیمت 50000 امریکی ڈالر تک ہوتی ہے۔

یہ اپنا ٹرنک جیسا منہ کھول کر کرل کے غول کے غول ایک وقت میں اپنے منہ کے اندر بھر لیتی ہے۔ کرل کے ساتھ بہت سا پانی بھی بلیو وہیل کے منہ میں چلا جاتا ہے جسے اپنے جبڑے کے اوپری حصہ جسے Baleen Bristles کہا جاتا ہے سے نکال دیتی ہے۔ یہ برسل اتنے باریک ہوتے ہیں کہ ان میں سے پانی گزر جاتا ہے اور کرل منہ کے اندر رہ جاتے ہیں۔ یعنی یہ برسل ایک طرح سے چھلنی کا کام کرتے ہیں۔ ایک سیکنڈ میں 3000 لیٹر پانی اس کے اندر سے فلٹر ہو کر باہر نکل جاتا ہے۔

Baleen Bristles بیلین برسل 19 ویں صدی میں خواتین کے ملبوسات میں بطور فیشن کے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

بلیو وہیل کے جسم پر لکیریں ہوتی ہیں جو ہر وہیل کی دوسری وہیل سے مختلف ہوتی ہیں۔ جس طرح انسانوں کے ہاتھ کی لکیریں دوسرے انسان سے نہیں ملتی اسی طرح ایک بلیو وہیل کی یہ لکیریں دوسری وہیل سے منفرد ہوتی ہیں۔

پیدائش کے وقت بچے کی لمبائی 23 فٹ تک ہوتی ہے اور اس کا وزن بوقت پیدائش 7000 پائونڈ تک ہوتا ہے۔ دنیا میں موجود اور کسی بھی جانور کا بچہ بوقت پیدائش اتنا بڑا اور وزنی نہیں ہوتا۔ پیدائش کے بعد بچے کے وزن میں روزانہ 200 پاؤنڈ کا اضافہ ہونے لگتا ہے۔ بڑھنے کی یہ رفتا دنیا میں کسی بھی جاندار سے زیادہ ہے۔ بچہ ایک دن میں اپنی ماں کا 500 لیٹر دودھ پی جاتا ہے۔

وہیل کا تیل 19 ویں صدی میں بہت اہمیت کا حامل تھا جس کے حصول کے لیے وہیل کا شکار بڑے پیمانہ پر کیا جاتا تھا۔ ایک اندازہ کے مطابق ساٹھ سالوں کے دوران 360 ملین بلیو وہیلز کا شکار کیا گیا۔

غیر معمولی جسامت کی بدولت بلیو وہیل کا شکار تقریبا ناممکن تھا۔ ایک نارویجین شخص اسٹیفن فائن نے Harpoon (ایک ایسا ہتھیار جسے میزائل کی طرح فائر کیا جاتا تھا) نامی ہتھیار ایجاد کیا جس کی بدولت وہیل کا شکار کرنا نہایت آسان ہوگیا۔

ڈولفن کی طرح بلیو وہیل بھی اپنے آدھے دماغ کے ساتھ سوتی ہے۔

اس کے شکار پر پابندی اور افزائش کے حوالہ سے مؤثر اقدامات کے باعث بلیو وہیل کی تعداد میں کافی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

(مدثر ظفر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اگست 2021