• 3 مئی, 2024

’’یاد دہانی‘‘

’’یاد دہانی‘‘
یوم آزادی کی شب ایک محفل رقص و سرود دیکھ کر

مسرتوں کے ساتھیو
تمازتوں کے دوستو
ہجومِ درد چھٹ گیا
الم کا رنگ کٹ گیا
ہے کائنات نغمہ زن
ہَوا ہوئے غم و محن
بکھر گئی نئی پھبن
جبل جبل دمن دمن
ہے اک نرالہ بانکپن
روش روش چمن چمن
قدم بڑھاؤ جام لو
عنان زیست تھام لو
شفق کا رنگ چھا گیا
پیام شام آ گیا
سنبھل رہی ہے تیرگی
مچل رہی ہے چاندنی
یہ حسن و سحر دلبری
بہک چلی ہے زندگی
یہ شب فسونِ بے خطا
یہ نکہتوں کا سلسلا
جوان دودھیا فضا
یہ زمزموں کا رت جگا
انہیں جو دیکھ پائے گا
نہ کیوں پیے پلائے گا
لو مے بہ جام آگئی
وہ لالہ فام آ گئی
جنوں پیام آ گئی
برائےعام آ گئی
ابھی تو عام ہے پیو
خرد غلام ہے پیو
وہ بے حساب عصمتیں
وہ بے مثال برکتیں
جو دن دہاڑے لٹ گئیں
تمہیں جو یاد تک نہیں
یہ ان کا خون ہے پیو
پیو پلاؤ اور جیو
خدا نہ دے وہ بے ضمیر
کہ جن سے قوم ہو حقیر
فقط امیر بن امیر
سرود و رقص کے اسیر
مگر یہ تابہ کے چلن
رہو گے کب تلک مگن
ہمیں وہ شیر چاہئیں
عدو پہ جو جھپٹ سکیں
ہجوم غم میں مسکرائیں
اجل پہ قہقہے لگائیں
یہ فاقہ مست و خستہ حال
نحیف برق کی مثال
نہ ان کے فقر کو جھنجھوڑ
نہ یوں کلائیاں مروڑ
امڈ پڑیں جو آندھیاں
کڑک اٹھی جو بجلیاں
اگر یہ آگ ابل پڑی
اگر یہ بھوک جاگ اٹھی
تو زلزلہ سا آئے گا
تو عرش کانپ جائے گا
تو پھر یہ جنگ زر گری
یہ مکر و فن کی رہبری
یہ اہتمام مے کشی
یہ تاجرانہ دوستی
یہ سب بنیں گی ساقیا
نہنگ وقت کی غذا

(ثاقب زیروی مرحوم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اگست 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ