• 5 مئی, 2024

لاہور میں امارت کے نظام کا قیام اور اس کا استحکام

خلافت ثانیہ میں
لاہور میں امارت کے نظام کا قیام اور اس کا استحکام

تاریخ احمدیت میں لاہور شہر کو جو مقام اور اہمیت حاصل رہی وہ مسلمہ ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ خلفائے احمدیت، جیّد صحابہ کرامؓ ، بزرگان سلسلہ احمدیہ اور خاندان اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے افراد خانہ کا لاہور شہر سے گہرا تعلق رہا۔یہ نسبت مختلف پہلوؤں سے رہی، ان میں دنیاوی علم کا حصول، لاہور کے اہم رؤساء سے ملاقاتیں، تبلیغی نشستیں، علم و عرفان سے بھرپور مذاکرے اور مباحثے، جماعتی اجتماعات، مختلف موضوعات پر لیکچرز اور علاج و معالجہ و دیگر شامل ہیں۔ لاہور سے تعلق کے حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ سفروں میں ہم آتے جاتے تھے۔اس وقت عموماً جب آپ کو رستہ میں ٹھہرنا پڑتا تو لاہور یا امرتسر میں ہی ٹھہرتے۔‘‘

(جماعت احمدیہ لاہور سے خطاب، فرمودہ19فروری 1954ء رتن باغ لاہور
روزنامہ الفضل تیرہ دسمبر1961ء صفحہ2)

لاہور کی اہمیت یوں مزید دو چند ہو جاتی ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے لاہور کو اپنا دوسرا شہر قرار دیا ہوا تھا۔ 20؍فروری 1920ء کو حضورؓ نے قادیان واپس روانگی سے پہلے احباب جماعت لاہور (جن میں مرد،خواتین اور طالب علم شامل تھے) کے سامنے ایک معرکۃ الآراء خطاب ارشاد فرمایا تھا جو ’’جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان سے الفضل اور دیگر جماعتی کتب میں شائع شدہ موجود ہے۔اس خطاب کے شروع میں ایک جگہ پر لاہور کی حیثیت کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
’’میں لاہور میں تقریبا ًبیس سال سے آتا ہوں اور یہاں خدا تعالیٰ نے میراا یک خاص تعلق بھی پیدا کیا ہوا ہے یعنی یہیں وہ گھر ہے جس میں میرا بیاہ ہوا ہے۔ اس لحاظ سے قادیان کے بعد لاہور میرے گھر کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل یکم فروری 2019ء)

خلافت ثانیہ کے دور میں

1918ء میں لاہور میں امارت کے نظام کی ابتداء ہوئی تھی۔ آج ہم 2022ء میں رہ رہے ہیں یوں لاہور میں امارت کے نظام کے قیام کو 104 سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ یہ عرصہ جماعت احمدیہ لاہور اور سلسلہ احمدیہ کی آزمائشوں، جانی و مالی قربانیوں، کامیابیوں اور ترقیات کی شاندار اور روشن تاریخ ہے۔ اس عرصہ میں خلافت کے ساتھ والہانہ وابستگیوں، اطاعت اور خدمت دین کی ناقابل یقین لیکن سچی داستانیں رقم ہوئیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی نظروں میں لاہور کی اہمیت کیا تھی اس کا اندازہ اس امر سے لگتا ہے کہ جب لاہور کے پہلے دو امراء کے انتخاب ہوئے تو حضرت مصلح موعودؓ بنفس نفیس دونوں انتخابات کے مواقع پر لاہور میں تشریف فرما تھے۔ پہلی بار 1918ء میں لاہور کے پہلے امیر اور 1931ء میں دوسرے امیر لاہورکا انتخاب ہوا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ لاہور کے احمدیہ ہوسٹل میں تشریف فرما تھے اور منظوریاں عطا فرمائی تھیں، ان کی روداد اگلی سطور میں پڑھنے کو ملیں گی۔لاہور کی پہلی چار امارتوں نے براہ راست حضرت مصلح موعودؓ سے فیض پایا اور راہنمائی حاصل کی۔ ان سالوں میں حضرت مصلح موعودؓ نے مجموعی طور پر لاہور کے بے شمار دورے کیے اور ان دوروں میں معرکة الآراء خطاب ارشاد فرمائے۔ تبلیغی پروگراموں اور نشستوں میں علم و عرفان سے بھرپورلیکچر دیے اور دہلی دروازہ کی مسجد میں جمعہ کے خطبات ارشاد فرمائے۔ تقسیم ہندکے بعد رتن باغ لاہور میں حضور اور خاندان اقدس کا قیام، جلسہ سالانہ کا انعقاد، الفضل کی لاہور سے سات سال تک اشاعت، سیلاب کے بعد لاہور کے متاثرہ علاقوں کا دورہ سمیت دیگر بہت سے ایسے امور ہیں جو لاہور کے نصیب میں آئے تھے۔ ان کی فہرست بہت طویل ہے اور تاریخ کے اوراق میں سب محفوظ ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ذاتی نگرانی کے نتیجہ میں لاہور میں امارت کے نظام کو غیر معمولی استحکام حاصل ہوا۔

لاہور میں پہلی امارت کا قیام
(1918ءتا1931ء)

حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانؓ چھ فروری 1893ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ آپؓ کا آبائی گاؤں ڈسکہ تھا۔ آپ کے والد حضرت چوہدری نصراللہ خان صاحب پلیڈر اپنے وقت کی ایک معروف و مشہور شخصیت تھے اور ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ (متحدہ ہندوستان) بھی رہے تھے۔ چوہدری نصراللہ خان صاحب کے چار بیٹے تھے ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خانؓ، چوہدری شکراللہ خان صاحب، چوہدری عبد اللہ خان صاحب اور چوہدری اسد اللہ خان صاحب۔حضرت چوہدری نصراللہ خان صاحب کی اولادمیں سب سے بڑے اور سب سے چھوٹے بیٹے کو لاہور جماعت کا امیر بننے کی سعادت ملی۔ ان کے ایک پوتے (چوہدری حمید نصراللہ خان صاحب) بھی لاہور کے امیر رہے۔

حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خاںؓ سب سے بڑے بیٹے تھے، آپ نے وکالت کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اسے اپنا پیشہ بنایا اور کچھ عرصہ بعد لاہور شفٹ ہوگئے اور وکالت شروع کی۔1918ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ خلیفۃ المسیح الثانیؓ لاہور میں تشریف لائے ہوئے تھے اور ’’احمدیہ ہوسٹل‘‘ میں قیام فرما تھے اور لاہور کے مخلص احمدیوں کو احمدیہ ہوسٹل میں بلایا ہوا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس موقع پر حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خاںؓ کی لاہور جماعت کے امیر کی حیثیت سے احباب جماعت لاہور کی رائے لینے کے بعد نامزدگی فرمائی تھی اور آپ کوپہلا امیر لاہور نامزد فرمایا تھا۔ 1918ء وہ تاریخی سال ہے جب پہلی بار دو امارتیں قائم فرمائی تھیں ایک لاہور میں اور دوسری فیروز پور (بھارت) میں۔

اپنی تقرری کے حوالے سے حضرت چوہدری ظفر اللہ خانؓ صاحب ’’تحدیث نعمت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’خلافت ثانیہ کے ابتدائی سالوں میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بعض جماعتوں میں امارت کا نظام جاری فرمایا۔خان صاحب مولوی فرزند علی خان صاحب سب سے پہلے امیر فیروز پور مقرر ہوئے۔ تھوڑے عرصہ بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ لاہور تشریف لائے اور ایمپریس روڈ پر احمدیہ ہوسٹل میں قیام فرمایا۔والد صاحب بھی قادیان سے تشریف لائے اور ماموں صاحب داتا زید کا سے آئے۔ میں ان دنوں بازار جج محمد لطیف میں رہتا تھا۔ دونوں بزرگ وہیں قیام فرما تھے۔ ایک شام جب دونوں احمدیہ ہوسٹل حضورؓ کی خدمت میں حاضری کے لئے تشریف لے گئے تو میں غالبا ًدفتر کے کاموں کی مصروفیت کی وجہ سے ان کی ہمراہی سے اور حضرت خلیفۃ المسیحؓ کی خدمت میں حاضری سے محروم رہا۔ واپسی پر والد صاحب نے کسی قدر شکوے کے لہجے میں کہا کہ آج تم حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر نہیں تھے۔حضورؓ نے جماعت لاہور کے افراد سے مشورہ طلب کیا تھا کہ لاہور میں کسے امیر مقرر کیا جائے؟ ماموں صاحب نے جلدی سے کہا کہ مشورے کے بعد حضورؓ نے تمہیں امیر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے، مبارک ہو۔اس پر والد صاحب نے فورا ًفرمایا کہ تمہارے حق میں صرف ایک رائے تھی‘‘

(تحدیث نعمت صفحہ 211 – 212)

اسی طرح تاریخ احمدیت جلد چہارم فصل پنجم کے صفحہ213 پر حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی بطور امیر لاہور نامزدگی بارے لکھا موجود ہے۔ (مولف مکرم مولانا دوست محمد شاہد موٴرخ احمدیت)

آپ کی امارت کا عرصہ تقریبا تیرہ سالہ پر محیط رہا۔اس عرصہ میں آپؓ نے سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی لاہور آمد سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور منعقدہ سوال و جواب کی محفلوں سمیت دیگر روحانی و علمی مجالس میں لاہور کے معززین اور پڑھے لکھے افراد کو مدعو کیا جاتا رہا جنہوں نے حضورؓ سے خوب علمی فیض پایا۔ لاہور میں امارت کے قیام کے اگلے سال1919ء میں لاہور میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ’’اسلام اور تعلقات بین الاقوام‘‘ کے موضوع پر بریڈ لاء ہال میں تقریر کی،جبکہ دوسری تقریر بعنوان ’’اسلام میں اختلافات کا آغاز‘‘ مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی اسلامیہ کالج لاہور کے زیر اہتمام حبیبیہ ہال میں ارشاد فرمائی۔

(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ455)

اسی طرح فروری 1920ء میں حضورؓ پھر لاہور تشریف لائے اور مکرم چوہدری صاحب امیر لاہور نے اس بار5 حضور کی تقاریر منعقد کرائیں جس میں اعلٰی تعلیم یافتہ افراد نے شرکت کی۔اگلے دو سالوں میں حضور نے مسلسل لاہور کے سفر اختیار کیے۔ فروری 1922ء میں حضورؓ جب لاہو ایک ہفتہ کے لئے تشریف لائے تو امیر صاحب لاہور حضرت چوہدری ظفراللہ خانؓ کی کوٹھی پر قیام فرمایا۔ اس سفر کے دوران حضور نے شہزادہ پرنس آف ویلز کے استقبال میں شرکت فرمائی۔

(تاریخ احمدیت لاہور)

اس طرح آپؓ کے دور میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی تبلیغ اور تعارف کے کام انتہائی اعلیٰ سطح پر ہوتے رہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے امیر لاہور کی حیثیت سے حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانؓ کے بارے میں مجلس مشاورت 1927ء میں فرمایا تھا ’’اس کا امیر بھی ایک ایسا شخص ہے جس سے مجھے تین وجہ سے محبت ہے۔ ایک تو ان کے والدکی وجہ سے جو نہایت مخلص احمدی تھے۔انہوں نے دین کی محبت میں اپنی نفسانیت اور ’’میں‘‘ کو بالکل ذبح کردیا تھا اور ان کا اپنا قطعا کچھ نہ رہا تھا۔ سوائے اس کہ خدا راضی ہو جائے۔ ایسے مخلص انسان کی اولاد سے مجھے خاص محبت ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے ان میں ذاتی طور پر اخلاص ہے اور آثار و قرائن سے ظاہر ہے کہ وہ اپنے آپ کو دین کی خاطر ہر وقت قربانی کے لئے تیار رکھتے ہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں علم، عقل اور ہوشیاری دی ہے اور وہ زیادہ ترقی کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں‘‘۔

(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ501)

آپؓ کی امارت کے دوران ہی لاہور میں لجنہ اماء اللہ لاہورکا قیام 1923ء میں عمل میں آیا۔ 1924ء میں آپؓ کی امارت میں دہلی دروازہ مسجد کی تعمیرشروع ہوئی جس نے بعد میں لاہور میں جماعت کے نظام کو مستحکم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانؓ کے دور امارت میں خدمات کی فہرست بہت طویل ہے یہاں اختصار کیساتھ سپرد قلم کی گئیں ہیں لیکن دیگر کتب اور مضامین میں مزید پڑھا جاسکتا ہے۔ آپؓ کی وفات یکم ستمبر 1985ء کو لاہور میں ہوئی تھی۔وفات کے وقت آپؓ کی عمر 93سال تھی۔ تین ستمبر کو ربوہ میں تدفین ہوئی۔ روزنامہ جنگ لاہور کی ایک نمایاں خبر کے مطابق سر ظفراللہ کو ربوہ کے بہشتی مقبرہ میں سپرد خاک کردیا گیا۔ قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا طاہر احمد کی لندن سے موصولہ ہدایت کے مطابق نماز جنازہ جماعت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کے ابتدائی رفیق مولوی محمد حسین نے پڑھائی۔ نماز جنازہ میں 80000 کے قریب افراد شریک ہوئے۔ ربوہ روانگی سے قبل پولو گراؤنڈ لاہور کینٹ میں نماز جنازہ ان کے داماد چوہدری حمید نصراللہ خان امیر جماعت لاہور نے پڑھائی۔

(روزنامہ جنگ لاہور 4 ستمبر 1985ء)

ماہنامہ خالد ربوہ خصوصی ضمیمہ کی رپورٹ کے مطابق حضرت مرزا طاہر احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کی لنڈن سے مرسلہ کی ہدایت کے مطابق ربوہ میں نماز جنازہ حضرت مولوی محمد حسین صاحب رفیق حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے پڑھائی۔ مقبرہ بہشتی میں تدفین مکمل ہونے پر محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ایڈیشنل ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ نے دعا کرائی۔

(ضمیمہ ماہنامہ خالد ستمبر 1985ء صفحہ نمبر 2۔یاد رہے کہ ان دنوں روزنامہ الفضل ربوہ حکومتی پابندیوں کی وجہ سے شائع نہیں ہوتا تھا)

لاہور میں دوسری امارت (1931ء تا1934ء)

حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانؓ کے بعد قاضی محمد اسلم صاحب ایم اے کو1931ء میں لاہور کے دوسرے امیر ہونے کی سعادت ملی تھی۔ آپ 2؍فروری 1900ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ آپ کی وفات 15 دسمبر 1981ء کو لاہور میں ہوئی۔وفات کے وقت آپ کی عمر تقریبا 82 سال تھی۔ 16 دسمبر کو مرحوم کا جسد خاکی ربوہ لے جایا گیا جہاں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے اپنے استاد محترم کی نماز جنازہ پڑھائی اور قبر تیار ہونے پر صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ) نے دعا کرائی۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 20 دسمبر 1981ء صفحہ اول)

قاضی محمد اسلم صاحب کے والد محترم کا نام ڈاکٹر کرم الٰہی تھا۔ قاضی محمد اسلم صاحب نے ابتدائی تعلیم امرتسر سے حاصل کی۔ اس کے بعد چندی گڑھ اور کیمبرج کی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور علم و تدریس کے شعبہ سے وابسطہ ہوگئے۔ ابتدائی سالوں میں چندی گڑھ یونیورسٹی میں پڑھایا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ نے خدمات دینیہ بجا لانے کے ساتھ ساتھ شعبہ تعلیم میں غیرمعمولی مقام اور اعلیٰ ماہر تعلیم کی حیثیت سے شہرت پائی۔لاہور کے گورنمنٹ کالج میں بطور لیکچرار ملازمت شروع کی تو پھر وہاں سے کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائرہوئے۔ اس دوران فلاسفی، سائیکالوجی سمیت کالج کے تمام اہم شعبہ جات کی سربراہی اور بطور ممبر کام کیا اور اپنی اہلیت اور قابلیت کا لوہا منوایا۔ ربوہ میں تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل بھی رہے۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد بلامبالغہ ہزاروں میں ہے۔ سر فہرست شاگردوں میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام شامل ہیں۔

آپ کی خدمات دینیہ کی فہرست بھی بہت طویل ہے اور کتب کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرنے میں آپ کی گرانقدر خدمات ہیں۔ روزنامہ الفضل ربوہ میں شائع رپورٹ کے مطابق آپ نے حضرت اقدس کی کتاب حقیقۃ الوحی کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا تھا، اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ کی تصنیف دعوت الامیر کا انگریزی ترجمعہ ’’انویٹیشن ٹو احمدیت‘‘ کے نام سے کیا۔ اس کے علاوہ بھی قلمی و علمی خدمات تھیں جن کو بجا لانے کی سعادت ملی۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 20 دسمبر 1981ء)

1918ء میں امارت کے نظام کے قیام کے بعد(لاہور کے پہلے منتخب امیر)اس بارے آپ لکھتے ہیں کہ:
’’میرا انتخاب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنی موجودگی میں احمدیہ ہوسٹل ایمپریس روڈ میں جماعت کے جلسہ میں کروایا اور وہیں منظوری دی۔‘‘

(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ503)

قاضی محمد اسلم صاحب ایم اے کا دور امارت1934ء تک رہا تھا۔آپ ایک ماہر تعلیم تھے، گورنمنٹ کالج لاہور کو لیکچرار کے طور پر جوائن کیا تھا اور اس کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے۔ آپ کی امارت میں بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے لاہور کے دوروں کے دوران تین اہم ترین موضوعات پر لیکچر ارشاد فرمائے تھے ان میں ایک لیکچر ’’سیرت النبیﷺ‘‘ پر، دوسرا ’’مذہب اور سائنس‘‘ کے عنوان پر اور تیسرے لیکچر کا موضوع ’’ام الالسنۃ‘‘ تھا، یہ لیکچرز بریڈ لے ہال، میونسپل ہال اور وائی ایم سی اے ہال میں منعقد ہوئے تھے۔آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی کتب کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرنے کی سعادت ملی تھی (بحوالہ صد سالہ جوبلی مجلہ لاہور)۔ دہلی دروازہ کی مسجد کے ایک حصہ پر چھت ڈالی گئی اور مبلغ سلسلہ کی رہائش کا انتظام ہوا۔آپ کی امارت کا دور تقریبا چار سال تک رہا۔آپ کی وفات کا تذکرہ شروع میں ہو چکا ہے،اس موقع پر ان دنوں کے الفضل ربوہ کے شماروں میں ان کے شاگردوں اور ہم عصر ساتھیوں کی جانب سے متعدد مضامین شائع ہوئے جن میں قاضی محمد اسلم کی خدمات اور اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے۔تعلیم الا سلام کالج ربوہ کے فزکس شعبہ کے اساتذہ و طلباء کی جانب سے تعزیتی قرار داد پاس کی گئی اور اس میں ان کی دینی و تعلیمی خدمات کو سراہا گیا۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 24 جنوری 1982ء)

آپ کی طرح، آپ کی اولاد بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی۔ ان میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ ایک بیٹے قاضی منصور احمد صاحب جنیوا (سوئزرلینڈ) میں اقوام متحدہ کے مشن میں پاکستان کے سفیر اور مستقل نمائندے کی حیثیت سے خدمات بجا لاتے رہے،جبکہ دوسرے بیٹے قاضی شاہد احمد لندن کے بنک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل میں سینئر اکانومسٹ کے عہدہ پر فائز رہے۔

لاہور میں تیسری امارت (1934ء تا1954ء)

جسٹس (ر) شیخ بشیر احمد صاحب لاہور جماعت کے تیسرے امیر تھے اور آپ کا انتخاب1934ء میں ہوا تھا اور 1954ء تک لاہور کے امیر رہے تھے۔

(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ506)

آپ کا لاہور کے ممتاز قانون دانوں میں شمار ہوتا تھا لاہور ہائیکورٹ کے جج رہے۔ان کی صاحبزادی مکرمہ نعیمہ جمیل کے ایک مضمون کے مطابق آپ 23 اپریل 1902ء کو پیدا ہوئے دوران تعلیم احمدیہ ہوسٹل لاہور میں مقیم رہے۔ بی اے کے بعد وکالت کی تعلیم حاصل کی دیوانی مقدمات میں شہرت پائی۔ 1960ء میں سیرالیون میں ہونے والی ایک کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی اور واپسی پر حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 11 مئی 2002ء)

آپ کے دور امارت میں لاہور کی وسعت کو دیکھتے ہوئے شہر کو متعدد حلقوں میں تقسیم کرکے صدر حلقہ و دیگر عہدیداران کی تقرری کی گئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی راہنمائی میں متعدد اہم امور سر انجام دینے کی توفیق ملی، جبکہ متعدد ایسے مواقع بھی آئے جب لاہور میں خلیفہ وقت کی موجودگی میں اہم ذمہ داریاں نبھائی گئیں۔ کچھ قابل ذکراہم واقعات میں حضرت سیدہ ام طاہرہؓ کی بیماری اور وفات کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا ایک ہفتہ لاہور میں قیام اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’مصلح موعود‘‘ کے ہونے کی اطلاع کا ملنا،جو لاہور کے امیر شیخ بشیر احمد صاحب کی رہائش گاہ 13ٹیمپل روڈ لاہور میں قیام کے دوران ملی تھی۔ لاہور کی تاریخ احمدیت کے مطابق 1944ء میں جب حضورؓ، حضرت سیدہ ام طاہرہؓ کی بیماری کے ایام میں لاہور میں محترم بشیر احمد صاحب ایڈوکیٹ کے مکان پرقیام فرما تھے تب حضورؓ کو پانچ اور چھ جنوری1944ء کی درمیانی رات کو بذریعہ رؤیا بتایا گیا کہ ’’مصلح موعود‘‘ آپ ہی ہیں۔ چنانچہ 28 جنوری 1944ء کو قادیان میں حضورؓ نے جو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اس میں پہلی مرتبہ اس کا اعلان فرمایا۔

(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ523)

مکرم شیخ بشیر احمد صاحب کو کشمیر کمیٹی کے حوالے سے بھی بہت خدمت کرنے کی توفیق ملتی رہی۔آپ کے دور میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے لاہور میں کمیونزم کے خلاف ایک پرمغز خطاب ارشاد فرمایا۔دہلی دروازہ میں مبلغ لاہور کے لئے رہائش گاہ کی تعمیر کی تکمیل ہوئی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور میں رتن باغ کے مقام پر قادیان کے مہاجرین کی رہائش گاہوں کا انتظام، جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کا اہتمام، اور دیگر معاملات کو آپ نے اپنی بصیرت اور احباب جماعت کے تعاون سے احسن طریق سے نبھایا الحمد للہ۔شیخ بشیر احمد صاحب امیر لاہور کی رہائش گاہ دہائیوں تک مرکزی دفتر کے طور پر بھی استعمال ہوتی رہی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بھی آپ کے ہاں قیام فرمایا کرتے تھے۔

ایک بار مجلس عاملہ لاہور اور عہدیداران لاہور کے اجلاس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے شرکت فرمائی اور قیمتی نصائح سے نوازا۔ یونیورسٹی ہال میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے یکے بعد دیگرے چھ لیکچرز مختلف موضوعات پر یہاں صاحب علم افراد کے سامنے ارشاد فرمائے تھے۔آپ کی امارت کے آخری سال 1953ء میں جماعت مخالف خوفناک فسادات ہوئے جس میں جماعت احمدیہ نے مالی اور جانی قربانیاں دیں اور گرفتاریاں بھی ہوئیں،آپ بھی گرفتار ہوئے۔ گرفتار ہونے والوں میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدؓ اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد (خلیفۃ المسیح الثالثؒ) بھی شامل تھے۔ ان فسادات کی روئیداد ’’رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے فسادات پنجاب1953ء‘‘ کے نام سے شائع شدہ موجود ہے۔ مکرم شیخ بشیر احمد صاحب نے بطور وکیل بھی اس کیس میں جماعت کی نمائندگی کی لیکن ایک پیسہ بھی وصول نہ کیا جبکہ ان کی فیس کی مالیت اس وقت پچاس ہزار روپے سے زائد بنتی تھی۔ یہ مالی قربانی کی بہترین مثال تھی۔ آپ کی وفات یکم اپریل1973ء کو لاہور میں ہوئی، ربوہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں ممتاز قانون دانوں، پنجاب اسمبلی کے اسپیکر، ہائی کورٹ کے جج اور دیگر معززین لاہور نے شرکت کی۔ اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے وفات پر تعزیتی پیغام میں مرحوم کی پیشہ سے متعلق غیر معمولی خوبیوں کا ذکر کیا اور سراہا تھا۔

لاہو ر میں چوتھی امارت (1954ء تا1975ء)

1954ء میں انتخاب کے ذریعے چوہدری اسد اللہ خان صاحب بار۱یٹ لاء لاہور کے چوتھے امیر منتخب ہوئے تھے۔ آپ کی امارت کا سلسلہ 1975ءتک جاری رہا تھا۔ چوہدری اسد اللہ خان صاحب کا تعلق سیالکوٹ کے ایک نامور مشہور و معروف خاندان سے تھا جس کا جماعت احمدیہ اور خلافت سے تعلق غیر معمولی تھا۔آپ کے بڑے بھائی حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانؓ کو لاہور جماعت کا پہلا امیر ہونے کی سعادت ملی تھی۔چوہدری اسد اللہ خان صاحب کے دور میں جماعت احمدیہ لاہور کا مرکزی دفتر شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر ہی میں رہا جب تک دارالذکر مسجد کی تعمیر مکمل نہیں ہو گئی۔ غالبا 1970ءکی دہائی کے شروع میں دفتر دارالذکر شفٹ ہوا تھا۔

چوہدری اسد اللہ خان صاحب کی امارت کے دور میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی وفات ہوئی لیکن اس وقت تک حضورکے ہاتھوں لاہور میں ’’امارت‘‘ کا لگایا ہوا پودا ایک ایسے قد آور گھنے درخت میں ڈھل چکا تھا جس کی چھاؤں تلے احباب جماعت لاہور روحانی و دینی سکون پارہے تھے نیز خلافت کے ساتھ ایک مضبوط رشتے سے جڑ چکے تھے۔ چوہدری اسد اللہ خان صاحب امیر بننے سے پہلے بطور وکیل بہت کامیاب شہرت رکھتے تھے اور جماعت کے کاموں میں صف اول کے مخلصین میں شامل تھے۔ آپ اپنی ذات سے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کا ایک ’’قبولیت دعا‘‘ کا واقعہ بیان کرتے تھے۔

’’تقسیم ملک سے چند سال پہلے میں شدید بیمار ہوگیا اور پیشاب کی جگہ خون کے اخراج سے اس قدر کمزوری ہوگئی کہ پہلو بدلنا بھی ممکن نہ رہا۔ ایک دن حضرت مصلح موعودؓ عیادت کے لئے تشریف لائے اور باتوں باتوں میں فرمایا:
’’آپ کا جلسہ پر جانے کو تو جی چاہتا ہوگا۔‘‘

میں نے آبدیدہ ہوکر عرض کیا ’’وہ کون احمدی ہے جو جلسہ پر جانا نہ چاہئے‘‘۔ اس پر حضورؓ نے اپنی مبارک آنکھیں اٹھا کر میری طرف دیکھا اور حضورؓ کی گردن سے نہایت خوبصورت سرخی چہرہ کی طرف بڑھنی شروع ہوئی کہ حضورؓ کا چہرہ، گردن، پیشانی اور کان سرخ خوبصورت اور چمکدار ہو گئے۔ حضورؓ نے شہادت کی انگلی سے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔
’’آپ ان شاء اللہ ضرور جلسہ پر آئیں گے۔‘‘

تھوڑی دیر بعد حضورؓ  تشریف لے گئے تو مجھے پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی۔ پیشاب کیا تو اس میں ذرہ بھر خون کی آلائش نہیں تھی۔ اس کے بعد میں تیزی سے روبہ صحت ہوا اور جلسہ سے تین چار روز قبل ہی قادیان میں حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔

(الفضل انٹرنیشنل 24 مئی 2002ء)

آپ کے دور امارت میں بھی امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی لاہور آمد کا سلسلہ جاری رہا تھا اور احمدی اور غیر احمدی سبھی حضورؓ سے فیض پاتے رہے۔ آپ کی امارت کے دوران حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ علاج کی غرض سے لاہور میں تین ماہ قیام پذیر رہے اور اکتوبر1954ء میں واپس ربوہ تشریف لے گئے۔ انہی دنوں لاہور میں بدترین سیلاب آیا ہوا تھا اور مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کو غیر معمولی خدمت خلق کی توفیق ملی۔ انہی خبروں کی روشنی میں حضورؓ نے نومبر1954ء میں ناساز طبیعت کے باوجود لاہور کے متاثرہ علاقوں کا دو گھنٹے کا دورہ فرمایا۔ مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب امیر لاہور بھی ہمراہ تھے۔ اپریل 1956ء میں حضورؓ لاہور میں تشریف فرما تھے اور قیام کے دوران حضورؓ نے دو اپریل کو حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانؓ کی صاحبزادی کے رخصتانہ میں شرکت فرمائی اور دعا کی۔

(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ586)

ربوہ کی یادگاری مسجد کی تعمیر کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے جماعت احمدیہ لاہور کی طرف سے دو دنوں میں 1500 روپیہ اکھٹا کرکے ربوہ بھجوایا۔

(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ590)

دہلی دروازہ کی مسجد تنگ ہو جانے کی وجہ سے حضرت مصلح موعودؓ نے لاہور کی جماعت کو نئی بڑی مسجد کی تعمیر کی بار بار تحریک کی تھی۔ انہی تحریکوں کے نتیجہ میں آپ کے دور میں آج کل کی مشہور مرکزی مسجد ’’دارالذکر‘‘ کی تعمیر کی ابتداء اور تکمیل آپ کے دور امارت کی شاندار خدمت ہے۔جس کا سنگ بنیاد بھی حضرت مصلح موعودؓ نے رکھا تھا اور دعا کرائی تھی۔ کشمیر کمیٹی کے مقدمہ کے لئے جن احمدی وکلاء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے منتخب فرمایا تھا ان میں چوہدری اسد اللہ خان صاحب بھی شامل تھے۔ آپ نے بطور امیر لاہور، جماعتی چندوں میں اضافہ کیلئے بہت کوششیں کی، اور ابتدائی سالوں میں چندہ دوگنا کردیا تھا۔ 1956ء میں لاہور میں ’’فتنہ منافقین و مخرجین‘‘ کی نشاندہی اور ان کا قلع قمع کرنا آپ کی بصیرت اور دور اندیشی کے نتیجہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں بھجوائی گئی جماعت احمدیہ لاہور کی سفارشات کو صدر انجمن احمدیہ نے منظور کیا اس طرح اس فتنہ کا بروقت خاتمہ ہوا۔

(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ588)

’’تاریخ احمدیت لاہور‘‘ (از شیخ عبد القادر مبلغ سابق سوداگرمل) لاہور کی تدوین اور اشاعت آپ کے دور کی ایک تاریخی قلمی علمی کاوش تھی جس کے سبب آج کی نسل اپنے پرانے صحابہ کرامؓ، مخلصین لاہور اور تاریخ احمدیت لاہور کے بارے میں آگاہی حاصل کرتی ہے۔ اس حوالے سے تاریخ احمدیت لاہور کے ابتدائی صفحات پر لکھے ’’عرض حال‘‘ کے مطابق لاہور کی تاریخ احمدیت لکھنے کا خیال محترم جناب چوہدری محمد اسد اللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور سے گزشتہ سال رمضان المبارک میں ایک موقعہ پر گفتگو کے دوران پیدا ہوا‘‘

(عرض حال صفحہ13 تاریخ احمدیت لاہور)

حضرت چوہدری اسد اللہ خان صاحب کی امارت اور طویل دینی خدمات کا اختتام 1975ء میں ہوا۔ آپ کی وفات 18ستمبر 1985ء کو ہوئی تھی۔ ان کی وفات سے سترہ دن پہلے ان کے سب سے بڑے بھائی حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانؓ کی وفات یکم ستمبر1985ء کو ہوئی تھی،یوں دونوں بھائی ایک ہی ماہ میں اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔ آپ کے ایک بیٹے چوہدری اعجاز نصراللہ خان صاحب لاہور جماعت کے نائب امیر رہے اور 28 مئی 2010ء کو دہشت گردی کے حملہ کے نتیجہ میں دارالذکر لاہور میں شہید ہو گئے تھے۔

لاہور میں پانچویں امارت
(1975ء تا 2009ء)

1975ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے مکرم چوہدری حمید نصراللہ خان صاحب کی بطور امیر لاہور نامزدگی فرمائی۔

آپ کے والد کا نام چوہدری عبد اللہ خان تھا جو حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خانؓ کے چھوٹے بھائی تھے۔ آپ کی تین دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط امارت کا اختتام2009ء میں ہوا، آپ لاہور کے پانچویں امیر تھے۔آپ کے دور کی خدمات اور اہم کاموں کی تفصیلات شائع ہو چکی ہیں ملاحظہ کریں۔

(روزنامہ الفضل آن لائن 17دسمبر 2021ء)

لاہور میں چھٹی امارت (2009ء تا 2010ء)

2009ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مکرم منیر احمد شیخ صاحب شہید کو لاہور کا چھٹا امیر نامزد فرمایا تھا۔ امیر بننے کے چند ماہ بعد 28مئی 2010ء کو دارالذکر پر دہشت گردوں کے حملہ کے نتیجہ میں آپ کی شہادت ہوئی اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ آپ کے مختصر دور امارت کی خدمات کی تفصیلات شائع ہو چکی ہیں ملاحظہ کریں۔

(روزنامہ الفضل آن لائن 17 دسمبر 2021ء)

لاہور میں ساتویں امارت
(2010ء تا 2022ء جاری)

طاہر احمد ملک صاحب نے 2010ء میں لاہور کے ساتویں امیر ہونے کا شرف حاصل کیا اور تاحال ان کی امارت کا سلسلہ جاری ہے۔ 28مئی 2010ء کو دارالذکر پر دہشت گردوں کے حملہ کے نتیجہ میں امیر صاحب لاہور کی شہادت کے بعد آپ کو جب لاہور امارت کی ذمہ داری ملی تو اس وقت دارالذکر، ماڈل ٹاؤن میں حملوں کے بعد شہادتوں اور زخمیوں کے ہسپتالوں میں معاملات، حکومت وقت کے ساتھ روابط، ملکی و عالمی میڈیا، ذرائع ابلاغ سمیت اہم امور کی نگرانی کی اور جماعت لاہور کی راہنمائی کی توفیق پائی۔ تعزیت کے لئے آنے والوں کا بھی تانتا بندھا رہا، سبھی کو احسن طریق سے نبھانے کی توفیق پائی۔ عمومی خطرناک حالات کی وجہ سے کئی ماہ کا عرصہ سخت سیکورٹی کے ساتھ گزرا۔

آپ کے دور امارت میں دیگر قابل ذکر کام روزنامہ الفضل ربوہ کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر سیمینار کا انعقاد، الفضل کی توسیع اور عمومی حالات میں احباب جماعت کی راہنمائی قابل ذکر ہے۔ طاہر احمد ملک صاحب ہی کے دور امارت میں جولائی2016ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کی منظوری سے لاہور میں لوکل امارتوں کے نظام کی ابتداء ہوئی اور لاہور میں نئی8 لوکل امارتوں کا قیام عمل میں آیا تھا جواب اپنی اپنی حیثیت میں جماعتی نظام کے تحت اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ موجودہ امیر صاحب لاہور کی نگرانی میں آج کل تاریخ احمدیت لاہور کی اگلی (دوسری) جلد کی تدوین پر کام جاری ہے۔

اس طرح لاہور کی امارت کے 104سالہ سفر میں 7 مخلصین لاہور جماعت کو یہ اہم دینی ذمہ داری نبھانے کی توفیق ملی۔

(منور علی شاہد – جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ