• 6 مئی, 2024

دعا کے آداب

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ

(المؤمن 61)

اور تمہارے رب نے کہہ دیا ہے کہ مجھے پکارو میں دعائیں قبول کروں گا۔

اللہ تعالیٰ کو یہ بات بہت پسند ہے کہ اس سے مانگا جائے، ہر چیز کیلئے امید اسی سے لگائی جائے، بلکہ جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوتا ہے، اسی لئے اس نے اپنے بندوں کو مانگنے کی ترغیب بھی دلائی ہے۔ اللہ سے دعا مانگنے کا دین میں بہت بلند مقام ہے، حتٰی کہ آپ ﷺ نے یہاں تک فرمادیا کہ

الدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ

(سنن الترمذی کتاب الدعوات باب ماجاء فی فضل الدعاء)

یعنی دعا نماز کا مغز ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: دعا اپنے اندر ایک ایسا مقناطیس اثر رکھتی ہے کہ ایک طرف تو بندے کو اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیتی ہے اور دوسری طرف اس کے لئے ایسی آسانیاں بہم پہنچا دیتی ہے کہ جن سے وہ گناہوں سے محفوظ رہ سکے۔ جب ہماری استدعا ؤں اور التجاؤں کو والدین اور حکام دنیا قبول کرتے ہیں تو کیونکر خیال کیا جائے کہ خدائے تعا لیٰ جو سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے اپنے بندوں کی دعاؤں کو رد کر دے گا۔ پس نما ز کیا ہے دعاؤں کا ایک مجموعہ ہے جس سے ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی ہے اور دوسری طرف دعائیں قبولیت حاصل کر کے انسان کی ہدایت اور ترقی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔

(انوار العلوم جلد 1 صفحہ 640)

دعا کی اہمیت وفضیلت کے پیشِ نظر اس کے آداب کا جاننا اور دَورانِ دعا انہیں بجالانا ضروری ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کو دنیوی بادشاہ یا کسی عہدہ دار وغیرہ سے کوئی غرض یا حاجت ہو تو انتہائی ادب واحترام اور توجہ کے ساتھ اس کو اپنی درخواست پیش کرتا ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ اگر لاپرواہی اور غفلت سے کام لیا تو بات نہیں بنے گی۔ غور تو کیجئے جب دنیاوی بادشاہوں، ان کے درباروں کے پاس جانے کے آداب بجا لانے کا یہ عالم ہے تو اللہ پاک جو بادشاہوں کا بھی بادشاہ ہے، اس کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرنے میں کس قدر اہتمام ہونا چاہئے۔ لہٰذا جب بھی دعا مانگیں تو انتہائی توجہ اور یکسوئی کے ساتھ دعا کے آداب بجالاتے ہوئے مانگئے تاکہ دعا قبول ہو۔

دعا کرتے ہوئے مندرجہ ذیل باتیں سامنے رکھنے کی ضرورت ہے:

دعا کے لئے اخلاص اور یقین کا ہونا ضروری ہے

دعا گہرے اخلاص اور پاکیزہ نیت کے ساتھ مانگی جائے، اپنی دعاؤں کو نمود ونمائش، ریاکاری اور شرک سے بے آمیز اور پاک رکھا جائے، اور پورے یقین اور وثوق کے ساتھ دعا مانگی جائے کہ وہ ہمارے حالات سے پورا واقف اور انتہائی مہربان ہے، وہ اپنے بندوں کی پکار کو سنتا ہے اور ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔ سورۃ بقرہ میں ہے

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ

(البقرة 187)

یعنی جب میرا بندہ تجھ سے میرے متعلق پوچھے تو تُو کہہ دے کہ میں قریب ہوں، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا کو قبول کرتاہوں۔

خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَلْيُؤْمِنُوا بِي

(البقرة 187)

کہ دعا کرنے والے کو چاہئے کہ وہ مجھ پر ایمان بھی لائے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: یہاں خدا تعالیٰ پر ایمان لانے سے اس کی شریعت پر ایمان لانا مراد نہیں ہے بلکہ دعا کے قبول ہونے کا ایک اور گر بتایا ہے جس کے نہ سمجھنے سے بہت سے لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے اور ان کی دعائیں ردّ کی گئی ہیں۔ وہ گُر یہ ہے کہ انسان شریعت کے تمام احکام پر عمل کرے اور دعائیں مانگے مگر ساتھ ہی اس بات پر ایمان بھی رکھے کہ خدا تعالیٰ دعائیں قبول کرتا ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ شریعت کے احکام پر بری پابندی سے عمل کرتے ہیں۔ ان کے دلوں میں خشیت اللہ بھی ہوتی ہے۔ بڑے خشوع وخضوع سے دعائیں بھی کرتے ہیں مگر پھر یہ کہتے ہیں کہ فلاں اتنا بڑا کام ہے اس کے متعلق دعا کہاں سنی جاسکتی ہے یا یہ کہتے ہیں کہ ہم گنہگار ہیں ہماری دعا خدا کہاں سنتا ہے۔ اس قسم کا کوئی نہ کوئی خیال شیطان ان کے دل میں ڈال دیتا ہے جس سے ان کی دعا میں قبولیت نہیں رہتی۔ اس نقص سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اس بات پر بھی ایمان رکھو کہ جب تم ہمارے احکام پر اچھی طرح چلو گے تو میں تمہاری دعائیں قبول کرلوں گا۔ جب یہ یقین ہو تو پھر دعا قبول ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی زبان سے دعا تو کرتا ہے لیکن اسے یقین نہیں کہ خدا اس کی دعا کو قبول کرے گا تو کبھی اس کی دعا قبول نہ ہوسکے گی کیونکہ خداتعالیٰ بندہ کے یقین پر دعا قبول کرتا ہے۔ اگر کسی کو یقین ہی نہ ہو تو لاکھ ماتھا رگڑے کیونکہ جس کو خدا پر امید نہیں ہوتی اس کی دعا وہ نہیں سنتا۔

خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔

لَا تَيْئَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ

(يوسف 88)

اللہ کی رحمت سے کبھی ناامید نہ ہو۔

اللہ کی رحمت سے کوئی ناشکرا انسان ہی ناامید ہوتا ہے ورنہ جس نے اپنے اوپر خدا تعالیٰ کے اس قدر نشان دیکھے ہوں جن کو وہ گن بھی نہیں سکتا وہ ایک منٹ کے لئے بھی یہ خیال نہیں کرسکتا کہ میرا فلاں کام خدا نہیں کرے گا اور فلاں دعا قبول نہیں ہوگی۔ خواہ اس کی کیسی ہی خطرناک حالت ہو اور کیسی ہی مشکلات اور مصائب میں گھرا ہوا ہو پھر بھی وہ یہی سمجھتا اور یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ایک ادنی سے ادنی اشارہ سے بھی یہ سب کچھ دور ہوسکتا ہے اور خدا ضرور دور کرے گا۔ اور اگر اسے دعا کرتے کرتے بیس سال بھی گزر جائیں تو بھی یہی یقین رکھتا ہے کہ میری دعا ضائع نہیں جائے گی۔ اور اس وقت تک دعا کرنے سے باز نہیں رہتا جب تک کہ خدا تعالیٰ ہی منع نہ کردے کہ ا ب یہ دعا مت کرو۔ گو اس کی دعا قبول نہ ہو لیکن آخر کار خدا تعالیٰ کے کلام کا شرف تو حاصل ہوگیا کہ خدا نے فرما دیا کہ اب دعا نہ مانگو۔ تو جب تک خدا تعالیٰ نہ کہے اس وقت تک دعا کرنے سے نہیں رکنا چاہئے۔

(الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۱۶ء بحوالہ خطبات محمود جلد ۵)

حضرت اقدس مسیح موعودؓ فرماتے ہیں: سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ جس سے دعا کرتا ہے اس پر کامل ایمان ہو۔ اس کو موجود۔ سمیع۔ بصیر۔ خبیر۔ علیم۔ متصرف۔ قادر سمجھے اور اس کی ہستی پر ایمان رکھے کہ وہ دعاؤں کو سنتا ہے اور قبول کرتا ہے۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ 522)

خشوع وخضوع کا التزام کرنا

خدا تعالیٰ کامیاب ہوجانے والے مؤمنوں کے بارے فرماتا ہے الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ (المؤمنون 3) وہ جو اپنى نماز مىں عاجزى کرنے والے ہىں۔

فضل بن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا نماز دو دو رکعت ہے اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہے خشوع عاجزی سکون اور دونوں ہاتھوں کو اٹھانا ہے۔

(ترمذی کتاب الصلاۃ)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: نماز کی اصلی غرض اور مغز دعا ہی ہے اور دعا مانگنا اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کے عین مطابق ہے۔ مثلاً ہم عام طور پر دیکھتے ہیں کہ جب بچہ روتا دھوتا ہے اور اضطراب ظاہر کرتا ہے، تو ماں کس قدر بے قرار ہوکر اس کو دودھ دیتی ہے۔ اُلوہیت اور عبودیت میں اسی قسم کا ایک تعلق ہے، جس کو ہر شخص سمجھ نہیں سکتا۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کے دروازہ پر گر پڑتا ہے اور نہایت عاجزی اور خشوع وخضوع کے ساتھ اس کے حضور اپنے حالات کو پیش کرتا ہے اور اس سے اپنی حاجات کو مانگتا ہے، تو اُلوہیت کا کرم جوش میں آتا ہے اور ایسے شخص پر رحم کیا جاتا ہے۔

(ملفوظات جلد 1 صفحہ 234)

دعا کرتے وقت ظاہر اور باطن کو پاک رکھنا

دعا مانگتے ہوئے ظاہری آداب، طہارت، پاکیزگی کا پورا پورا خیال رکھنا چاہئے اور قلب کو بھی ناپاک جذبات، گندے خیالات اور بےہودہ معتقدات سے پاک رکھنا چاہئے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:

إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ

(البقرة 223)

یقیناً اللہ کثرت سے توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اور پاک صاف رہنے والوں سے بھی محبت کرتا ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ

(صحيح مسلم، كتاب الطهارة)

کہ صفائی ایمان کا آدھا حصہ ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: دعا کی قبولیت کے لئے یہ بھی یاد رکھو کہ دعا کرنے سے پہلے اپنے کپڑوں اور بدن کو صاف کرو۔ گو ہر ایک دعا کرنے والا نہیں سمجھتا اور نہ محسوس کرتا ہے مگر جو محسوس کرتے یا کرسکتے ہیں ان کا تجربہ ہے کہ جب انسان دعا کرتا ہے تو اسے خدا تعالیٰ کا ایک قرب حاصل ہوجاتا ہے اس کی روح اللہ تعالیٰ کے حضور کھینچی جاتی ہے گو دیکھنے والے کو معلوم نہیں ہوتا کہ خدا نظر آرہا ہے مگر جس طرح خواب میں روح کو جسم سے آزاد کردیا جاتا ہے اسی طرح اس وقت خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے لئے روح الگ کی جاتی ہے۔ چونکہ روح کی صفائی جسم کی صفائی سے تعلق رکھتی ہے اور روح کی ناپاکی جسم کی ناپاکی سے۔ اس لئے اگر جسم ناپاک ہو تو روح پر بھی اس کا ناپاک ہی اثر پڑتا ہے اور اگر جسم پاک ہو تو روح پر بھی اس کا پاک ہی اثر پڑتا ہے۔ ایک واقعہ لکھا ہے واللہ اعلم کہاں تک درست ہے، مگر ہے نتیجہ خیز۔ لکھا ہے کہ کسی شہزادی نے ایک معمولی شخص سے شادی کرلی۔ جب وہ دونوں خلوت میں جمع ہوئے تو چونکہ مرد نے کھانا کھا کر ہاتھ نہ دھوئے تھے اس لئے ہاتھوں کی بُو سے اسے اتنی تکلیف ہوئی کہ اس نے کہا کہ اس کے ہاتھ کاٹ دو۔ چنانچہ اس کے ہاتھ کاٹ دئیے گئے۔ گو خدا تعالیٰ پر کسی کے گندہ اور ناپاک ہونے کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا مگر خدا تعالیٰ ہر ایک گند اور ہر ایک ناپاکی کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے تمام عبادتوں کے لئے صفائی کی شرط ضروری قرار دی ہے۔ جس طرح وہ شخص جو پیشاب سے بھرے ہوئے کپڑوں کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز پڑھتا ہے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ اسی طرح وہ دعائیں جو ایسی حالت میں کی جائیں وہ بھی قبول نہیں ہوتیں۔ بلکہ جب کوئی انسان گندی حالت میں خدا کے حضور پیش ہوتا ہے تو بجائے فائدہ اٹھانے کے وہاں سے نکال دیا جاتا ہے۔ یہی سرّ ہے کہ صوفیاء نے دعائیں کرنے کا لباس الگ بنا رکھا ہوتا ہے جسے خوب صاف ستھرا رکھتے اور خوشبوئیں لگاتے ہیں۔ تو دعا کے قبول ہونے کا یہ بھی ایک طریق ہے کہ دعا کرنے سے پہلے انسان اپنے کپڑوں کو صاف ستھرا کرلے۔ جو شخص غریب ہے وہ اس طرح کرسکتا ہے کہ ایک الگ جوڑا بنا رکھے اور اسے صاف کرلیا کرے۔ اس طرح دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔

(الفضل ۸اگست ۱۹۱۶ء۔ بحوالہ خطبات محمود جلد ۵)

کثرت سے خدا تعالیٰ کی حمد کریں

دعا کے آداب میں یہ بھی شامل ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی کثرت سے حمد کرے۔ فقراء جب کچھ مانگنے آتے ہیں تو جس سے مانگتے ہیں اس کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔ کبھی اسے بادشاہ بناتے ہیں، کبھی اس کی بلند شان ظاہر کرتے ہیں، کبھی کوئی اور تعریفی کلمات کہتے ہیں۔ حالانکہ جو کچھ وہ کہتے ہیں اس میں وہ کوئی بات بھی نہیں پائی جاتی۔ مگر مانگنے والا اس طرح کرتا ضرور ہے۔ اور ساتھ ہی اپنے آپ کو بڑا محتاج اور سخت حاجتمند بھی ظاہر کرتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کرنے سے میں اپنے مخاطب کو رحم اور بخشش کی طرف متوجہ کرلوں گا اور اللہ تعالیٰ کی تو جس قدر بھی تعریف کی جائے وہ کم ہوتی ہے۔ کیونکہ وہی سب خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے اسی لئے دوسرے لوگوں کی جو تعریف ہوتی ہے وہ سچی اور جھوٹی دونوں طرح کی ہوسکتی ہے مگر خدا تعالیٰ کی جو تعریف بھی کی جائے وہ سب سچی ہی ہوتی ہے۔ اس لئے جب کبھی دعا کی ضرورت ہو تو دعا کرنے سے پہلے خدا تعالیٰ کی حمد کرلینی چاہئے۔

چنانچہ سورۃ فاتحہ خدا تعالیٰ کی حمد کے لئے وہ جامع دعا ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں سکھائی ہے اور ہم اسے ہر روز پڑھتے ہیں اور خدا کے انعامات کے وارث ہوتے ہیں۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ

(الفاتحة 2-7)

تمام حمد اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ بے انتہاء رحم کرنے والا، بن مانگے دینے والا اور باربار رحم کرنے والا ہے۔ جزا سزا کے دن کا مالک ہے۔ تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے ہم مدد چاہتے ہیں۔ ہمیں سیدھے راستہ پر چلا۔ ان لوگوں کے راستہ پر جن پر تو نے انعام کیا۔ جن پر غضب نہیں کیا گیا اور جو گمراہ نہیں ہوئے۔ (آمین)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ کی حمد کرکے دعا کرنے سے بہت زیادہ دعا قبول ہوتی ہے۔ پس انسان کو چاہئے کہ دعا کرنے سے پہلے خدا تعالیٰ کی حمد کرے، اس کی عظمت اور جلال کا اقرار کرے اور اس کی تعریف بیان کرے اس طرح دعا بہت زیادہ قبول ہوتی ہے۔ وجہ یہ کہ چونکہ بندہ خدا تعالیٰ کی صفات کو بیان کرتا اور اپنے آپ کو بالکل ہیچ ظاہر کرتا ہے اس لئے وہ خدا جو رحمان اور رحیم، مالک، خالق، قادر ہے اور جس کے خزانوں میں کبھی کمی نہیں آسکتی۔ اس کی دعا کو قبول کرلیتا ہے۔

(الفضل ۸اگست ۱۹۱۶ء۔ بحوالہ خطبات محمود جلد ۵)

آنحضرتﷺ پر کثرت سے درود بھیجنا

خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

(الأحزاب 57)

یعنی اللہ اور اس کے فرشتہ نبیؐ پر درود وسلامتی بھیجتے ہیں۔ پس اے ایمان لانے والو تم بھی اس نبی پاکؐ پر درود اور سلامتی بھیجا کرو۔

دعا کے آداب میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کثرت سے نبی کریمﷺ پر درود بھیجا جائے۔ چنانچہ اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ پر درود بھیجنا کتنا ضروری ہے۔ آپؐ اس شان کے نبی ہیں کہ خدا تعالیٰ اور اس کے فرشتہ بھی آپ پر درود بھیجتے ہیں۔

نبی کریمﷺ پر درود بھیجنے کی اہمیت کا اس حدیث سے بھی پتہ چلتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوفٌ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَا يَصْعَدُ مِنْهُ شَيْءٌ حَتَّى تُصَلِّيَ عَلَى نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (سنن الترمذي, كتاب الصلاة) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر جاتی ہے اور جب تک اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تم درودنہ بھیجو اس میں سے کوئی حصہ بھی خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کے لئے اوپر نہیں جاتا۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: انعام دینے کا یہ بھی طریق اور رنگ ہوتا ہے کہ اپنے پیارے اور محبوب کی وساطت اور وسیلہ سے دیا جائے۔ خدا تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو تمام انعامات کا وارث کرنے اور سب سے بڑا رتبہ عطا کرنے کے لئے اس طریق سے بھی کام لیا ہےکہ جو لوگ آنحضرت ﷺ پر درود بھیج کر دعا مانگیں گے ان کی دعائیں زیادہ قبول ہونگی۔ دنیا میں کونسا انسان ہے جسے خدا تعالیٰ کی ضرورت نہیں۔ ہر ایک کو ہے۔ اس لئے ہر ایک ہی اپنی مصیبت کے دور ہونے اور حاجت کے پورا ہونے کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرے گا۔ اور جب دعا کرے گا تو اگرچہ وہ پہلے آنحضرتﷺ پر درود بھیجنے کا عادی نہ ہوگا لیکن اپنی دعا کے قبول ہونے کے لئے درود بھیجے گا جو آنحضرتﷺ کی ترقی درجات کا موجب ہوگا اور اس طرح اسے بھی انعام مل جائے گا۔ غرض خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرنے کے لئے ایک بات یہ بھی بیان کی ہے کہ آنحضرتﷺ پر درود بھیج کر پھر دعا کی جائے اور یہ کوئی ناروا بات نہیں۔ یہ اسی طرح کی ہے کہ جو محبوب سے اچھا سلوک کرتا ہے وہ بھی مُحِبّ کا محبوب ہوجاتا ہے۔

(الفضل ۸اگست ۱۹۱۶ء۔ بحوالہ خطبات محمود جلد ۵)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے ازدیاد اور تجدید کے لئے (یعنی محبت میں بڑھنے کے لئے اور اس کی تجدید کرنے کے لئے) ہر نماز میں درود شریف کا پڑھنا ضروری ہو گیا۔ تاکہ اس دعا کی قبولیت کے لئے استقامت کا ایک ذریعہ ہاتھ میں آ جائے۔ درود شریف جو حصول استقامت کا ایک زبردست ذریعہ ہے بکثرت پڑھو۔ نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسن اور احسان کو مدِّنظر رکھ کر اور آپ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لئے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ قبولیت دعا کا شیریں اور لذیذ پھل تم کو ملے گا۔

(ریویو آف ریلیجنز جنوری 1904ء جلد 3نمبر1 صفحہ 14-15)

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

(صحيح البخاري، كتاب أحاديث الأنبياء)

اپنی زبان میں دعا کرنا

حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں آکر یہ بات بھی سیکھائی ہے کہ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی زبان (جس کو وہ خوب سمجھتا ہو) میں بھی دعا کرے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:
دعا کے لئے رقّت والے الفاظ تلاش کرنے چاہئیں۔ یہ مناسب نہیں کہ انسان مسنون دعاؤں کے ایساپیچھے پڑے کہ ان کو جنتر منتر کی طرح پڑھتا رہے اور حقیقت کو نہ پہچانے۔ اتباعِ سنت ضروری ہے، مگر تلاشِ رقّت بھی اتباعِ سنت ہے۔ اپنی زبان میں جس کو تم خوب سمجھتے ہو، دعا کرو۔ تاکہ دعا میں جوش پیدا ہو۔ الفاظ پرست مخذول ہوتا ہے۔ حقیقت پرست بننا چاہئے۔ مسنون دعاؤں کو بھی برکت کے لئے پڑھنا چاہئے، مگر حقیقت کو پاؤ۔ ہاں جس کو زبانِ عربی سے موافقت اور فہم ہو وہ عربی میں پڑھے۔

(ملفوظات جلد 1 صفحہ 538)

پھر فرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ آج کل لوگ جس طرح نماز پڑھتے ہیں وہ محض ٹکریں مارنا ہے۔ اُ ن کی نماز میں اس قدر بھی رقت اور لذت نہیں ہوتی جس قدر نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا میں ظاہر کرتے ہیں۔ کاش یہ لوگ اپنی دعائیں نماز میں ہی کرتے۔ شاید ان کی نمازوں میں حضور اور لذت پیدا ہوجاتی۔ اس لئے میں حکماً آپ کو کہتا ہوں کہ سرِدست آپ بالکل نماز کے بعد دعا نہ کریں۔ اور وہ لذّت اور حضور جو دعا کے لئے رکھا ہے۔ دعاؤں کو نماز میں کرنے سے پیدا کریں۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ نماز کے بعد دعا کرنی منع ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ جب تک نماز میں کافی لذّت اور حضور پیدا نہ ہو نماز کے بعد دعا کرنے میں نماز کی لذت کو مت گنواؤ۔ ہاں جب یہ حضور پیدا ہوجاوے تو کوئی حرج نہیں۔ سو بہتر ہے نماز میں دعائیں اپنی زبان میں مانگو۔ جو طبعی جوش کسی کی مادری زبان میں ہوتا ہے وہ ہرگز غیر زبان میں پیدا نہیں ہوسکتا۔ سو نمازوں میں قرآن اور ماثورہ دعاؤں کے بعد اپنی ضرورتوں کو برنگ دعا اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے آگے پیش کرو تاکہ آہستہ آہستہ تم کو حلاوت پیدا ہوجائے۔ سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضامندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو، کیونکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہوجاتا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتا ہے۔ ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کردیتے ہیں دور کردے اور اپنی رضامندی کی راہ دکھلائے۔ دنیا میں مؤمن کی مثال اس سوار کی ہے کہ جو جنگل میں جارہا ہے۔ راہ میں بسبب گرمی اور تھکانِ سفر کے ایک درخت کے نیچے سستانے کے لئے ٹھہر جاتا ہے لیکن ابھی گھوڑے پر سوار ہے اور کھڑا کھڑا گھوڑے پر ہی کچھ آرام لے کر آگے اپنے سفر کو جاری رکھتا ہے لیکن جو شخص اس جنگل میں گھر بنالے وہ ضرور درندوں کا شکار ہوگا۔ مؤمن دنیا کو گھر نہیں بناتا اور جو ایسا نہیں خدا تعالیٰ اس کی پروا نہیں کرتا نہ خدا تعالیٰ کے نزدیک دنیا کو گھر بنانے والے کی عزت ہے۔ خدا تعالیٰ مؤمن کی عزت کرتا ہے۔

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 29)

دعا کے ساتھ اسباب بھی اختیار کرنے چاہییں

صرف دعا پر اکتفا کرنا کہ اے اللہ! مجھے گھر بیٹھے بیٹھے رزق دے دے اور پورا دن گھر میں پڑا رہے، کوئی سبب اختیار نہ کرے، تو ایسی دعا کہاں قبول ہوگی؟

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ پر بھروسہ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ انسان تدبیر کو ہاتھ سے چھوڑ دے بلکہ یہ معنے ہیں کہ تدبیر پوری کرکے پھر انجام کو خدا تعالیٰ پر چھوڑے اس کا نام توکل ہے اور اگر وہ تدبیر نہیں کرتا اور صرف توکل کرتا ہے تو اس کا توکل پھوکا ہوگا۔ اور اگر نری تدبیر کر کے اس پر بھروسہ کرتا رہے اور خدا تعالیٰ پر توکل نہیں ہے تو وہ تدبیر بھی پھوکی ہے۔ ایک شخص اونٹ پر سوار تھا۔ آنحضرتﷺ کو اس نے دیکھا۔ تعظیم کے لئے نیچے اترا اور ارادہ کیا کہ توکل کرے اور تدبیر نہ کرے۔ چنانچہ اس نے اونٹ کا گھٹنا نہ باندھا۔ جب رسول اللہ ﷺ سے مل کر آیا تو دیکھا کہ اونٹ نہیں ہے۔ واپس آکر آنحضرتﷺ سے شکایت کی کہ میں نے تو توکل کیا تھا لیکن میرا اونٹ جاتا رہا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تو نے غلطی کی۔ پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھتا، پھر توکل کرتا تو ٹھیک ہوتا۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ 566)

دعا مانگتے وقت خدا تعالیٰ پر پورا توکل ہونا ضروری ہے

توکل کرنے کے لئے مضبوط ایمان کی سخت ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ کی قدرت پر کامل ایمان نہ ہوگا تو اس پر بھروسہ کرنا بہت مشکل ہوگا۔ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ

(الأَنْفال 3)

یعنی مؤمن صرف وہى ہىں کہ جب اللہ کا ذکر کىا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہىں اور جب ان پر اُس کى آىات پڑھى جاتى ہىں تو وہ ان کو اىمان مىں بڑھا دىتى ہىں اور وہ اپنے ربّ پر ہى توکل کرتے ہىں۔

رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ اگر تم خدا پر توکل کرو جیسا کہ اس کے توکل کا حق ہے تو خدا تعالیٰ تم کو ایسے رزق عطا کرے گا جیسا کہ وہ پرندوں کو عطا کرتا ہے۔ وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے ہوئے واپس آتے ہیں۔

(سنن الترمذی کتاب الزہد)

اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ایک دفعہ ہمیں اتفاقاً پچاس روپیہ کی ضرورت پیش آئی اور جیسا کہ اہل فقر اور توکل پر کبھی کبھی ایسی حالت گزرتی ہے اس وقت ہمارے پاس کچھ نہ تھا سو جب ہم صبح کے وقت سیر کے واسطے گئے تو اس ضرورت کے خیال نے ہم کو یہ جوش دیا کہ اس جنگل میں دعا کریں۔ پس ہم نے ایک پوشیدہ جگہ میں جاکر اس نہر کے کنارہ پر دعا کی جو قادیان سے تین میل کے فاصلہ پر بٹالہ کی طرف واقع ہے۔ جب ہم دعا کرچکے تو دعا کے ساتھ ہی ایک الہام ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے قبول کرتا ہوں‘‘۔ تب ہم خوش ہوکر قادیان کی طرف واپس آئے اور بازار کا رخ کیا تاکہ ڈاکخانہ سے دریافت کریں کہ آج ہمارے نام کچھ روپیہ آیا ہے یا نہیں۔ چنانچہ ہمیں ایک خط ملا جس میں لکھا تھا کہ پچاس روپیہ لدھیانہ سے کسی نے روانہ کئے ہیں اور غالباً وہ روپیہ اسی دن یا دوسرے دن ہمیں مل گیا۔

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 617)

اس سے پتہ چلتا ہے کہ دعا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ پر توکل کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ توکل کے بغیر دعا قبول نہیں ہوتی۔

دعا برابر مانگتے رہنا چاہئے

خدا تعالیٰ کے حضور اپنی عاجزی، احتیاج اور عبودیت کااظہار خود ایک عبادت ہے، خدا نے خود دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ بندہ جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی سنتا ہوں۔ اس لئے دعا مانگنے سے کبھی نہ اکتایئے اور اس چکر میں کبھی نہ پڑیئے کہ دعا سے تقدیر بدلے گی یا نہیں، تقدیر کا بدلنا، دعا کا قبول کرنا یا نہ کرنا خدا کا کام ہے، جو علیم وحکیم ہے۔ بندے کا کام بہر حال یہ ہے کہ وہ ایک فقیر اور محتاج کی طرح برابر اس سے دعا کرتا رہے اور لمحہ بھر کے لئے بھی خود کو بے نیاز نہ سمجھے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’سب سے بڑا عاجز وہ ہے جو دعا کرنے میں عاجز ہو۔‘‘ (طبرانی)۔

ایک بزرگ کی قبولیت دعا کا واقعہ

کہتے ہیں ایک بزرگ ہر روز دعا مانگا کرتے تھے۔ ایک دن جبکہ دعا مانگ رہے تھے ان کا ایک مرید آکر پاس بیٹھ گیا۔ اسوقت ان کو الہام ہوا جو اس مرید کو بھی سنائی دیا لیکن وہ ادب کی خاطر چپ رہا اور اس کے متعلق کچھ نہ کہا۔ دوسرے دن پھر جب انہوں نے دعا مانگنی شروع کی تو وہی الہام ہوا جسے اس مرید نے بھی سنا۔ اس دن بھی چپ رہا۔ تیسرے دن پھر وہی الہام ہوا اس دن اس سے نہ رہا گیا اس لئے اس بزرگ کو کہنے لگا کہ آج تیسرا دن ہے کہ میں سنتا ہوں ہر روز آپ کو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہاری دعا قبول نہیں کروں گا۔ جب خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے تو پھر کیوں کرتے ہیں۔ جانے دیں۔ انہوں نے کہا، نادان! تُو تو صرف تین دن خدا کی طرف سے یہ الہام سن کر گھبرا گیا ہے اور کہتا ہے کہ جانے دو دعا ہی نہ کرو مگر مجھے تیس سال ہوئے ہیں یہی الہام سنتے لیکن میں نہیں گھبرایا۔ اور نہ ناامید ہوا ہوں۔ خدا تعالیٰ کا کام قبول کرنا ہے اور میرا کام دعا مانگنا۔ تو خواہ مخواہ دخل دینے والا کون ہے؟ وہ اپنا کام کرہا ہے میں اپنا کررہا ہوں۔ لکھا ہے کہ دوسرے ہی دن الہام ہوا کہ تم نے تیس سال کے عرصہ میں جس قدر دعائیں کی تھیں ہم نے سب قبول کرلی ہیں۔

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کبھی ناامید نہیں ہونا چاہئے۔ ناامید ہونے والے پر اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑک اٹھتا ہے۔ جو شخص ناامید ہوتا ہے وہ سوچے کہ کون سی کمی ہے جو اس کے لئے خدا نے پوری نہیں کی۔ کیسے کیسے فضل اور کیسے کیسے انعام ہوئے اور ہورہے ہیں۔ پھر آئندہ ناامید ہونے کی کیا وجہ ہے؟

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: پس تم اول اپنے اعمال کو شریعت کے مطابق بناؤ اور دوسری یہ کہ خدا کے فضل اور رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو بلکہ دعا کرتے وقت یہ پختہ یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ تمہاری دعا ضرور سنے گا اور ضرور سنے گا اور اس وقت تک دعا کرتے رہو کہ خدا کی طرف سے یہ حکم نہ آجائے کہ اب یہ دعا مت مانگو۔ لیکن جب تک خدا تعالیٰ یہ کسی کو نہیں کہتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ میں تمہاری دعا قبول نہیں کرتا اس وقت تک ہرگز ہرگز باز نہ رہو۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ کہنا کہ میں تمہاری دعا قبول نہیں کرتا گویا اشارۃ ًیہ کہنا ہے کہ اے میرے بندے تو مانگتا جا، میں گو اس وقت قبول نہیں کرتا لیکن کسی وقت ضرور کرلوں گا۔ ورنہ اگر اس کہنے سے یہ مراد نہ ہوتی بلکہ دعا کرنے سے روکنا ہوتا تو خداتعالیٰ یہ کہہ سکتا تھا کہ یہ دعا مت مانگ نہ یہ کہ میں نہیں مانوں گا۔ پس جب تک کان میں یہ الفاظ نہ پڑیں کہ ’’یہ دعا مت مانگ، اس کے مانگنے کی میں تمہیں اجازت نہیں دیتا‘‘ اس وقت تک نہیں رکنا چاہئے۔ اس طرح تو ان کو مطلع کیا جاتا ہے جنہیں الہام اور کشف کا رتبہ حاصل ہوتا ہے۔ اور جنہیں یہ نہ ہو ان کو اس بات سے متنفر کردیا جاتا ہے جس کے متعلق وہ دعا کرتے ہیں۔

پھر فرمایا: جن پر الہام اور وحی کا دروازہ کھلا ہوتا ہے ان کو تو خدا کہہ دیتا ہے کہ ایسا مت کرو لیکن جن کے لئے نہیں ہوتا ان کے دل میں نفرت پیدا کردی جاتی ہے اس لئے وہ خود ہی اس دعا کے مانگنے سے باز رہ جاتے ہیں۔ اس کا نام مایوسی نہیں بلکہ ان کا یہ تو یقین ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارا فلاں مقصد پورا کرسکتا ہے اور ہمیں فلاں چیز دے سکتا ہے۔ لیکن ہم خود ہی اسے نہیں لینا چاہتے۔ پس اگر کسی کے دل میں دعا مانگتے ہوئے اس چیز سے نفرت پیدا ہوجائے تو اسے بھی دعا کرنا چھوڑ دینا چاہئے ورنہ نہیں رکنا چاہئے خواہ قبولیت میں کتنا ہی عرصہ کیوں نہ لگ جائے۔ بعض دفعہ دعا کرتے کرتے کچھ ایسے سامان پیدا ہوجاتے ہیں کہ اگر دعا قبول ہوجائے تو اس سے شریعت کا کوئی حکم ٹوٹتا ہے اس سے بھی سمجھ لینا چاہئے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ اس دعا سے باز رہنا چاہئے۔ خدا تعالیٰ کے دعا کو قبول کرنے سے انکار کرنے کا یہ بھی ایک طریق ہے یعنی بجائے قول کے خدا تعالیٰ کا فعل سامنے آجاتا ہے اس لئے اس کے کرنے سے رک جانا چاہئے۔ تو دعا کرنے سے رکنے کے تین پہلو ہیں۔ اول یہ کہ الہام یا کشف ہوجائے کہ یہ دعا مت کرو۔ یا ہماری طرف سے اس کے کرنے کی اجازت نہیں۔ دوم یہ کہ جس مقصد کے حصول کے لئے دعا کی جائے اس سے نفرت پیدا ہوجائے۔ سوم یہ کہ جس بات کے لئے دعا کی جائے وہ شریعت کے محذورات کے ساتھ وابستہ ہوجائے۔

(الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۱۶ء۔ بحوالہ خطبات محمود جلد۵)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: پھر میں ایک اور نقص بھی دیکھتا ہوں۔ بعض لوگ تھک جاتے ہیں۔ میرے پاس ایسے خطوط آئے ہیں جن میں لکھنے والوں نے ظاہر کیا کہ ہم چار سال یا اتنے سال تک نماز پڑھتے رہے دعائیں کرتے رہے۔ کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایسے لوگوں کو میں مخنّس سمجھتا ہوں تھکنا نہیں چاہئے۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں اگر تیس چالیس برس گزر جاویں تب بھی تھکے نہیں اور باز نہ آوے خواہ جذبات بڑھتے جاویں۔

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 106)

اپنے نفس کی کمزوریوں کا مطالعہ کرنا

دعا کے آداب میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جب کوئی انسان کسی معاملہ کے متعلق دعا کرنے لگے تو پہلے اپنے نفس کی کمزوریوں کا مطالعہ کرے اور اتنا مطالعہ کرے کہ گویا اس کا نفس مر ہی جائے اور اسے اپنے نفس سے گھِن آنی شروع ہوجائے اور نفس کہہ اٹھے کہ تو بغیر کسی بالادست ہستی کی مدد اور تائید کے خود کسی کام کا نہیں ہے اور کچھ نہیں کرسکتا۔ جب نفس کی یہ حالت ہوجائے تو دعا کی جائے ایسی حالت میں جس طرح ایک بے دست وپا بچہ کی ماں باپ خبر گیری کرتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ بھی اپنے بندے کی کرتا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ماں باپ کو دیکھو جب بچہ بڑا ہوجاتا ہے تو اسے کہتے ہیں خود کھاؤ پیو۔ مگر دودھ پیتے بچے کی ہر ایک ضرورت اور احتیاج کا انہیں خود خیال اور فکر ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے حضور بھی انسان کو اپنے نفس کو اسی طرح ڈال دینا چاہئے جس طرح دودھ پیتا بچہ ماں باپ کے آگے ہوتا ہے۔ لیکن اگر نفس فرعون ہو اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہو تو اس کی کوئی بات قبول نہیں ہوسکتی۔ اس لئے سب سے پہلے انسان کو چاہئے کہ اپنے نفس کو بالکل گرادے یہ بندے اور خدا میں تعلق پیدا ہونے کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور اس سے دعا بہت زیادہ قبول ہوتی ہے۔

(الفضل ۸اگست ۱۹۱۶۔ بحوالہ خطبات محمود جلد ۵)

(مرسلہ: مرزا فراز احمد طاہر۔ مربی سلسلہ برکینا فاسو)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 اکتوبر 2020