• 26 اپریل, 2024

استغفار اور گناہوں سے راہِ فرار

قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ ﴿۵۴﴾

(الزمر: 54)

تو کہہ دے اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقیناً اللہ تمام گناہوں کو بخش سکتا ہے وہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

احادیث رسول ﷺ سے بھی استغفار کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت اِبن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ہمہ وقت استغفارکرتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ ہر تنگی کے وقت اس کے نکلنے کے لئے راہ پیدا کردیتا ہے اور ہر غم سے نجات دیتا ہے اور اسے اس راہ سے رزق عطا فرماتا ہے جس کا وہ گمان بھی نہ کرسکے۔

(ابو داؤد کتاب الوتر باب فی الاستغفار)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے تھے کہ بخدا میں اللہ تعالیٰ سے دن میں 70 مرتبہ سے بھی زیادہ توبہ و استغفار کرتا ہوں۔

(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب استغفار النبی ؐ فی الیوم واللیلۃ)

ابو بردہ بن ابی موسیٰؓ اپنے والد ابو موسیٰؓ کے حوالہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری امت کو دو امانتیں دینے کے بارہ میں وحی نازل کی جو یہ ہیں۔ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَاَنۡتَ فِیۡہِمۡ ؕ وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمۡ وَہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ ﴿۳۴﴾ (الانفال: 34) یعنی اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک تو ان میں موجود ہو اور اللہ ایسا نہیں کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ بخشش طلب کرتے ہوں۔ پس جب میں ان سے الگ ہوا تو میں نے ان میں قیامت تک کے لئے استغفار چھوڑا۔

(جامع ترمذی۔ کتاب تفسیر القرآن۔ تفسیر سورۃ الانفال)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اے ابن آدم!جب تک تو مجھ سے گناہوں کی بخشش مانگے اور بخشش کی امید رکھے گا میں تجھے بخش دوں گا۔ تجھ میں جو بھی گناہ ہوں مجھے کوئی پرواہ نہیں لَوْبَلَغَتْ ذُنُوبُکَ عَنَانَ السَّمَاءِ اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے بخشش مانگے میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کوئی پرواہ نہیں اگر تو اس حال میں مجھے ملے کہ ساری زمین تیرے گناہوں سے بھری ہو تو میں بھی اُتنی ہی بڑی مغفرت کے ساتھ تیرے پاس آوں گا۔

(سنن ترمذی باب فضل التوبۃ الاستغفار)

• حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں’’کیسے نادان وہ لوگ ہیں جن کا یہ مذہب ہے کہ خدا اپنے ارادوں کو بدلا نہیں سکتا اور وعید یعنی عذاب کی پیش گوئی کو ٹال نہیں سکتا۔ مگر ہمارا یہ مذہب ہے کہ وہ ٹال سکتا ہے اور ہمیشہ ٹالتا رہا ہے اور ہمیشہ ٹالتا رہے گا اور ہم ایسے خدا پر ایمان ہی نہیں لاتے کہ جو بلا کو توبہ اور استغفار سے رد نہ کر سکے اور تضرع کرنے والوں کے لئے اپنے ارادوں کو بدل نہ سکے وہ ہمیشہ بدلتا رہے گا یہاں تک کہ پہلی آسمانی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ کی صرف پندرہ دن کی عمر رہ گئی تھی خدا نے اُس کی تضرع اور گریہ وزاری سے بجائے پندرہ دن کے پندرہ سال کر دیئے یہی ہمارا ذاتی تجربہ ہے کہ ایک خوفناک پیش گوئی ہوتی ہے اور دُعاسے ٹل جاتی ہے۔ پس اگر ان لوگوں کا فرضی خدا ان باتوں پر قادر نہیں تو ہم اُس کو نہیں مانتے۔ ہم اُس خدا کو مانتے ہیں جس کی صفت قرآن شریف میں یہ لکھی ہے کہ اَلَم تَعلَم اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدِیرٌ۔ اور وعید یعنی عذاب کی پیش گوئی ٹلنے کے بارہ میں تمام نبی متفق ہیں۔ رہی وعدہ کی پیش گوئی جس کی نسبت یہ حکم ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ ‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 571)

• ’’دُنیا کی تمام قومیں اس بات پر اتفاق رکھتی ہیں کہ آنے والی بلائیں خواہ وہ پیشگوئی کے رنگ میں ظاہر کی جائیں اور خواہ صرف خدا تعالیٰ کے ارادہ میں مخفی ہوں وہ صدقہ خیرات اور توبہ استغفارسے ٹل سکتی ہیں تبھی تو لوگ مصیبت کے وقت میں صدقہ خیرات دیا کرتے ہیں ورنہ بے فائدہ کام کون کرتا ہے اور تمام نبیوں کا اس پر اتفاق ہے کہ صدقہ، خیرات اور توبہ و استغفار سے ردّ بلا ہوتا ہے اور میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ بسا اوقات خدا تعالیٰ میری نسبت یا میری اولاد کی نسبت یا میرے کسی دوست کی نسبت ایک آنے والی بلا کی خبر دیتا ہے اور جب اس کے دفع کے لئے دُعا کی جاتی ہے تو پھر دوسرا لہام ہوتا ہے کہ ہم نے اس بلا کو دفع کر دیا۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 195-196)

• ’’ تمہارا خدا وہ خدا ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی بدیاں ان کومعاف کر دیتا ہے کسی کو یہ دھوکا نہ لگے کہ قرآن شریف میں یہ آیت بھی ہے وَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ۔ یعنی جو شخص ایک ذرّہ بھی شرارت کرے گا وہ اُس کی سزا پائے گا۔ پس یاد رہے کہ اس میں اور دُوسری آیات میں کچھ تناقض نہیں کیونکہ اس شرّ سے وہ شرّ مراد ہے جس پر انسان اصرار کرے اور اس کے ارتکاب سے باز نہ آوے اور توبہ نہ کرے۔ اسی غرض سے اِس جگہ شر کا لفظ استعمال کیا ہے نہ ذنب کا۔ تا معلوم ہوکہ اس جگہ کوئی شرارت کا فعل مراد ہے جس سے شریر آدمی باز آنا نہیں چاہتا۔ ورنہ سارا قرآن شریف اِس بار ہ میں بھرا پڑاہے کہ ندامت اور توبہ اور ترکِ اصرار اور استغفار سے گناہ بخشے جاتے ہیں بلکہ خدا تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیُحِبُّ المُتَطَھِّرِینَ۔ یعنی اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے اور نیز اُن لوگوں سے پیار کرتا ہے کہ جو اِس بات پر زور لگاتے ہیں کہ کسی طرح گناہ سے پاک ہو جائیں۔ ‘‘

(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 24)

• ’’بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ اِسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفارکا التزام کرایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا ہو،اسے علم ہو یا نہ ہو۔ اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتارہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 577)

• ’’گناہ ایک ایسا کیڑاہے جو انسان کے خون میں ملا ہوا ہے مگر اس کا علاج استغفار سے ہی ہوسکتا ہے۔ استغفا رکیا ہے ؟یہی کہ جو گناہ صادر ہوچکے ہیں ان کے بد ثمرات سے خدا تعالیٰ محفو ظ رکھے اور جو ابھی صادر نہیں ہوئے اور جو بالقوہ انسان میں موجود ہیں ان کے صدور کا وقت ہی نہ آوے اور اندر ہی اندر وہ جل بھن کر راکھ ہوجاویں۔ ‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ218)

• ’’استغفار اور توبہ دو چیزیں ہیں۔ ایک وجہ سے استغفار کو توبہ پر تَقَدُّم ہے،کیونکہ استغفار مدد اورقوت ہے جو خدا سے حاصل کی جاتی ہے۔ اور توبہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے۔ عادتُ اللہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے گا،تو خدا تعالیٰ ایک قوت دے دے گا۔ اور پھر اس قوت کے بعد اِنسان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجاوے گا اور نیکیوں کے کرنے کے لئے اس میں ایک قوت پیدا ہوجاوے گی۔ جس کا نام تُوْبُوْا اِلَیْہِ ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 349)

• آپؑ استغفارکو روحانی طاقت کے حصول کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’صوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے مثلاً مُگدَروں اور مُوگرِیوں کے اُٹھانے اور پھیرنے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے۔ اِسی طرح پر روحانی مگدر استغفار ہے۔ اس کے ساتھ رُوح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں اِسْتِقَامَت پیدا ہوتی ہے۔ جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 348)

• ’’اِنسانوں میں سے وہی معصومِ کامِل ہے جو استغفار سے الٰہی طاقت کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اور اس کَشِش کے لئے تضرع اور خُشُوع کا ہر دم سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ تا اُس پر روشنی اُترتی رہے… اور انسانِ کامِل کا استغفار اُن شَرَاءِین اور عُرُوق کی مَانَند ہے جو دل کے ساتھ پَیوَسْتہ ہیں اور خون صافی اس میں سے کھینچتی ہیں۔ اور تمام اَعضاء پر تقسیم کرتی ہیں جو خون کی محتاج ہیں۔ ‘‘

(ریویو آف ریلیجنز اردو جلد 1 نمبر 5صفحہ 190)

• ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرض کے متعلق دعا کی درخواست کی کہ میرا قرض بہت زیادہ ہے دعا کریں اُتر جائے۔ تو آپؑ نے فرمایا: ’’استغفار بہت پڑھا کرو اِنسان کے واسطے غموں سے سَبُک ہونے کے واسطے یہ طریق ہے، نیز استغفار کَلیدِ ترقیات ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 442)

• ’’استغفار کے اصل معنی تویہ ہیں کہ یہ خواہش کرنا کہ مجھ سے کوئی گناہ نہ ہو یعنی میں معصوم رہوں اور دوسرے معنے جو اس کے نیچے درجے پر ہیں کہ میرے گناہ کے بد نتائج جو مجھے ملنے ہیں میں ان سے محفوظ رہوں۔ ‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ 303)

• ایک شخص نے عرض کی کہ حضور! میرے لئے دعا کریں کہ میرے اولاد ہو جائے، آپؑ نے فرمایا: ’’استغفار بہت کرو اس سے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں،اللہ تعالیٰ اولاد بھی دے دیتا ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 444)

• ’’قوت حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے جس کو دوسرے لفظوں میں اِستمِدَاد اور اِستِعاَنَت بھی کہتے ہیں۔ اس کیساتھ روح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے۔ جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد1صفحہ348)

• پھر آپؑ فرماتے ہیں۔ ’’خواہشِ استغفار فخرِ انسان ہے۔ جو شخص کسی عورت کے پیٹ سے پیدا ہوا اور پھر ہمیشہ کے لئے استغفار اپنی عادت نہیں پکڑتا وہ کیڑا ہے نہ انسان،اور اندھاہے نہ سوجا کھا اور ناپاک ہے نہ طیّب۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی،روحانی خزائن جلد 10صفحہ413)

• ’’ یقین جانو کہ توبہ میں بڑے بڑے ثمرات ہیں۔ یہ برکات کا سر چشمہ ہے۔ درحقیقت اولیا,اورصلحا,یہی لوگ ہوتے ہیں جو توبہ کرتے ہیں اور پھر اس پر مضبوط ہو جاتے ہیں۔ وہ گناہ سے دور اور خدا کے قریب ہو جاتے ہیں۔ کامل توبہ کرنے والا شخص ولی،قطب اور غوث کہلا سکتا ہے۔ اسی حالت میں وہ خدا کا محبوب بنتا ہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ 146)

• ’’ پس اٹھو اور توبہ کرو اور اپنے مالک کو نیک کاموں سے راضی کرو۔ تم خدا سے صلح کرلووہ نہایت درجہ کریم ہے۔ ایک دم کے گداز کرنے والی توبہ سے ستر برس کے گناہ بخش سکتا ہے۔ ‘‘

(لیکچر لاہور،روحانی خزائن جلد20صفحہ174)

• حضرت غلام رسول راجیکیؓ فرماتے ہیں کہ ’’قادیان مقدس میں جب میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعتِ راشدہ سے مشرّف ہوا تو حضور اقدس علیہ السلام نے ازراہِ نصیحت فرمایا کہ نمازوں کو سنوار کر پڑھنا چاہئےاور مسنونہ دعاؤں کے علاوہ اپنی مادری زبان میں بھی دعا کرنی چاہئے….. اس کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام نے ہمیں کثرت سے درود شریف اور استغفار پڑھنے کا ارشاد فرمایا۔ مجھے ایک عرصہ تک درودواستغفار کی کثرت کے متعلق خلجان رہا کہ کثرت سے نہ معلوم کتنی تعداد مراد ہے۔ تب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے بحالت کشفی ملے اور میری بیعت لی اور فرمایا کہو اَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ رَبِّىْ مِنْ كُلِّ ذَنْۢبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ۔ مِائۃُ مَرَّۃ۔ یعنی سومرتبہ استغفار پڑھو۔ اس سے مجھے معلوم ہو گیا کہ کثرت سے مراد عام حالات میں کم از کم سو مرتبہ استغفار کا وِرد ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب‘‘

(حیات قدسی صفحہ63)

• ہمارے پیارے اِمام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’استغفار کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل اور قُرب کی چادر میں لِپَٹنے کی دُعا مانگی جائے۔ جب انسان اس طرح دعا مانگ رہا ہو تو کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ دُعا نہ سنے اور انسان کی دنیا و آخرت نہ سنورے۔ ‘‘

(خطبات مسرور جلد دوم صفحہ 303)

• ’’اِستغفار وہ ہتھیار ہے جس سے شیطان کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور توبہ اس ہتھیار کا استعمال کرنا ہے۔ یعنی اُن عملی قوتوں کا اظہار جس سے شیطان دور رہے،ہمارا نفس کبھی مغلوب نہ ہو اور اس کے لئے وہ نیکیاں اور اعمال کرنے کی مسلسل کوشش ضروری ہے جن کے کرنے کا ہمیں خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے ورنہ استغفار نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا،بخشش کا حصول ممکن نہیں۔ ایک روزہ دار نمازیں بھی پڑھ رہا ہے، نوافل بھی ادا کر رہا ہے،قرآنِ کریم کی تلاوت بھی کر رہا ہے،اگر ممکن ہو اور وقت ہو تو درس بھی سن لیتا ہے۔ لیکن اگر اُن احکامات پر عمل نہیں کر رہا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بھائیوں کے حقوق کے بارے میں قرآنِ کریم میں بیان فرمائے ہیں تو یہ حقیقی توبہ و استغفار نہیں ہے۔ روزوں سے حقیقی فیض پانے کی کوشش نہیں ہے۔ حقیقی فائدہ تبھی ہو گا جب استغفار سے جو قوت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اُس کا اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہوتے ہوئے استعمال نہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے گناہوں کو ڈھانکنے کی جو قوت عطا کی ہے،جن گناہوں کو دور کرنے کی توفیق بخشی ہے،استغفار کرتے ہوئے اپنے دل کو ایک انسان نے گناہوں سے جو خالی کیا ہے تو فوری طور پر اُنہیں نیکیوں سے بھرنے کی کوشش کی جائے،اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کی جائیں ورنہ اگر دل کا برتن نیکیوں سے خالی رہا تو شیطان پھر اسے اُنہیں غلاظتوں سے دوبارہ بھر دے گا۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ (التحریم: 9) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ تعالیٰ کی طرف خالص توبہ کرتے ہوئے جھکو۔ پس وہی استغفار دائمی بخشش کا سامان کرتا ہے جس کے ساتھ خالص توبہ ہو،جس کو پھر انسان نیکیوں سے بھرتا چلا جائے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا ہمیشہ خیال رکھے،ایک مسلسل کوشش کرے…پس پہلے ذہنوں کو پاک رکھنے کے لئے استغفار کے ساتھ جہاد کیا جائے۔ پھر چھوٹی سے چھوٹی بُرائی پر بھی احساسِ ندامت اور شرمندگی ہو۔ اور پھر مضبوط قوتِ ارادی چاہئے کہ چاہے جو بھی حالات ہوں،جو بھی لالچ ملے بُرائیوں کے قریب نہیں جانا اور اپنے ہر فعل اور عمل کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کرنے کی کوشش کرنی ہے…پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو حقیقی استغفار کرنے والے اور خالص توبہ کرنے والے ہیں… یہ بندے کا کام ہے کہ استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے پھر دیکھے اللہ تعالیٰ کس طرح اس کی طرف بڑھتا ہے۔ ‘‘

(خطباتِ مسرور جلد6 صفحہ385-387)

(فراز یاسین ربانی۔ جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ