• 30 اپریل, 2024

جب سچی محبت ہو گی، انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے تو سلامتی کا پیغام بھی پہنچے گا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حکم دیتا ہے کہ دنیا کی سلامتی کا دارومدار انصاف پر ہے اور انصاف کا معیار تمہارا کتنا بلند ہو، اس بار ہ میں فرماتا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ۔ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ اِعْدِلُوْا۔ ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔ وَاتَّقُوا اللّٰہَ۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔(المآئدۃ : 9) کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ اور اللہ سے ڈرو یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو۔ انصاف پر قائم رہو کہ تقویٰ اسی میں ہے…‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’آپ کو معلوم ہے کہ جو قومیں ناحق ستاویں اور دکھ دیویں اور خونریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں جیسا کہ مکّہ والے کافروں نے کیا تھا اور پھر لڑائیوں سے باز نہ آویں ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔ مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی۔ …… مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل و انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا، یہ بہت مشکل اور فقط جوانمردوں کا کام ہے‘‘۔ یہ تو آسان ہے کہ دشمن سے آدمی بیٹھ کرآرام سے بات کر لے لیکن یہ کہ دشمن کو بالکل بھول جانا اور پھر اس سے انصاف کرنا یہ بڑا مشکل کام ہے۔ بہت دل گردے کا کام ہے……۔

فرماتے ہیں کہ ’’پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں محبت کا ذکر نہ کیا بلکہ معیار محبت کا ذکر کیا۔ کیونکہ جو شخص اپنے جانی دشمن سے عدل کرے گا اور سچائی اور انصاف سے درگزر نہیں کرے گا وہی ہے جو سچی محبت بھی کرتا ہے‘‘۔

(نورالقرآن۔ روحانی خزائن جلد نمبر 9 نمبر 2 صفحہ409-410)

فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ محبت کرو بلکہ فرمایا کہ تمہارا محبت کایہ معیار ہونا چاہئے کہ دشمن سے جو اپنی دشمنی کی انتہا ء کو پہنچا ہوا ہے۔ اس انتہاء کو، اس مثال کو سامنے رکھیں جو مکّہ والوں نے مسلمانوں سے کی، آنحضرتﷺ سے کی، قتل کئے، ظلم کئے، لیکن اس کے باوجود فرمایا کہ ایسے لوگوں سے بھی انصاف کرنا۔ اس سے پھر محبت بڑھتی ہے اور یہ ہے وہ سلامتی کا پیغام جو دنیا کو حقیقت میں سلامتی پہنچانے والا بن سکتا ہے۔

تو یہی ہے اسلام کی سچی تعلیم اور اس کے معیار۔ جب سچی محبت ہو گی، انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے تو سلامتی کا پیغام بھی پہنچے گا۔ آنحضرتﷺ کا اسوہ حسنہ بھی یہی تھا جس نے فتح مکّہ کے موقع پر کفّار کے بڑے بڑے سرداروں کو اسلام کی آغوش میں لا ڈالا۔ آپؐ کا یہ اُسوہ دشمنوں کے لئے سلامتی کی پناہ گاہ بن گیا۔ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کا جواعلان تھا وہ اس موقع پر اور ہمیشہ سلامتی کی خوشبو بکھیرتا چلا گیا۔ تو یہ ہے وہ معراج جس سے دنیا کی سلامتی وابستہ ہے۔ ورنہ دنیاکی جتنی بھی بڑی سے بڑی انصاف پسند حکومتیں ہیں وہ سازشیوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنتی رہیں گی۔ وہ ایسی تنظیموں کے حکموں پرچلتی رہیں گی جن کے ہاتھ میں دنیا کی معیشت کی چابی ہے۔ جو ظاہراً تو دنیا کی سلامتی کی دعویدار ہیں لیکن عملاً بحروبرمیں، خشکی و تری میں فساد بپا کئے ہوئے ہیں۔ تو اس ضمن میں قرآن کریم کے یہ چند احکامات تھے جو مَیں نے بیان کئے جن سے اس خوبصورت تعلیم کی عکاسی ہوتی ہے۔ اللہ کرے وہ دن جلد آئیں جب دنیا میں اسلام کی حقیقی تصویر دکھانے والی حکومتیں بھی قائم ہوں۔ ایسے مسلمان حکمران آئیں جو آنحضرتﷺ کے غلامِ صادق اور امام الزمان کی ڈھال کے پیچھے آکر اسلام کی سلامتی کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں جاری کرنے میں مددگار ہوں۔ تقویٰ پر قدم مارنے والے ہوں۔ اس بات کے حصول کے لئے آج احمدی کا کام ہے کہ دعاؤں میں لگ جائے۔ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول کرے اور اس دنیا کو پیار، محبت اور سلامتی کا گہوار ہ بنا دے اور اللہ کرے ہر ایک کا ایک ہی معبود ہو۔ جو خدائے واحد ویگانہ ہے۔

(خطبہ جمعہ 22؍ جون 2007ء)
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن مورخہ 13 تا 19 جولائی 2007ء ص 5 تا 8)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 نومبر 2020