• 28 مارچ, 2024

اقوال و افکار

مدیر کے قلم سے
اقوال و افکار
حاصل مطالعہ (قسط دوم)

خوشی:خوشی کوئی ٹھوس چیز نہیں ہے جسے ایک بار پا لینے کے بعد ہم عمر بھر کے لئے خوش ہو جائیں بلکہ یہ خوبصورت اور خوشگوار احساس کا نام ہے یہ احساس جب بھی ملے اور جہاں سے بھی ملے قبضے میں کر لیں کیونکہ اسے بار بار دہرایا نہیں جاسکتا یہ جلدمرجاتا ہے۔

دکھ درد:یاد رکھیے دس دکھ جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں:

وار۔۔۔۔۔زبان کا
دشمنی۔۔۔۔۔دوست کی
بے وفائی۔۔۔۔۔شوہر کی
گستاخی۔۔۔۔۔اولاد کی
چبھن۔۔۔۔۔گناہ کی
ظلم۔۔۔۔۔مظلوم کا
ضرب۔۔۔۔۔کرب کی
رحم۔۔۔۔۔ظالم کا
بددعا۔۔۔۔۔ماں کی
اعتبار۔۔۔۔۔کمینے کا

صبر وتحمل:جس طرح پہاڑ پر چٹکی نہیں کاٹی جا سکتی بعینہٖ آپ صبر و حوصلے کا پہاڑ بن جاتے ہیں تو آپ کے کردار و وقار میں سیندھ نہیں لگ سکتی۔

پُرانے زمانے میں بچوں کے جسم پر پھوڑے پھنسیاں نکلا کرتی تھیں تو انہیں فوراً کڑواہٹ پلائی جاتی تھی پنیر یا چرائتہ کرائیتہ چٹایا جاتا تھا جس کی وجہ سے ان کا فساد خون ٹھیک ہو جاتا تھا۔ ایسا بہت زیادہ میٹھا کھانے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے جس کا حتمی توڑ کڑواہٹ ہے۔ یہی بات ہمارے اندر کے حوالے سے ہے اسے بھی ستھرا رہنے کے لئے باہر کے حالات کی تلخی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ مسلسل موافق حالات ، سہولیات اور عیش و عشرت کی مٹھاس سے روح پر شیطنت گناہ اور خباثت کےپھوڑے پھنسیاں اگ آتی ہیں۔ اگر اُسے شفاف رکھنا ہے تو پھر حالات کی تلخی برداشت کرنی ہوگی صبر کے کڑوے گھونٹ بھرنے ہوں گے۔

انسان:کسی کو اچھا یا بُرا مت کہیں آپ خود ہی اچھے یا بُرے ہیں۔

انسان کی اس سے بڑھ کر ناکامی اور کیا ہوگی کہ وہ تمام عمر دوسروں کو فتح کرنے میں گزار دیتا ہے اسے خود کو خود فتح کرنے کا خیال کبھی نہیں آیا۔

اچھا یا بُرا ہونے کے حوالے سے میرے نزدیک انسان کی دو قسمیں ہیں یا تو وہ ہیرا ہوتا ہے یا پھر پتھر۔ ہیرے کی پہچان اُس کی تین خوبیوں سے ہوتی ہے۔

  1. شیشے سے لے کے سخت سے سخت چیز تک کو کاٹ ڈالتا ہے۔
  2. اُس کو نگل لینے سے انسان مرجاتا ہے۔
  3. اُس پر کوئی دوسرا رنگ نہیں چڑھ سکتا۔

بعنیہٖ کوئی شخص اگر ہیرے کی طرح کھرا ہے تو اعلیٰ اور مکمل شخصیت کی کاٹ کو کھوٹے اور بدنیت لوگ برداشت نہیں کرسکتے۔ نتیجتاً اسے توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔(2) شیطان صفت لوگ چونکہ اس کی صفات کو ہضم نہیں کرسکتے، نگل نہیں سکتے اس لئے اُس پر اپنی تمام تر شیطنت اگل دیتے ہیں۔ (3) اس کی شخصیت اور کردار کا رنگ ہمیشہ منفرد رہے گا اس پر کسی دوسرے شخص کا، دوسرے ماحول کا، بدی یا خباثت کا رنگ نہیں چڑھ سکتا۔

پھل جب پک جاتا ہے تو ٹہنی چھوڑ دیتا ہے بعنیہٖ انسان بھی جب نیکی، نیک نیتی اور تجربے میں مکمل ہو جاتا ہے تو اپنی ہٹیلا رویہ چھوڑ دیتا ہے اس کے مزاج میں حِلم اور مُلائمت پیدا ہو جاتی ہے۔

دودھ خالص ہو تو خودبخود ذائقے میں میٹھا معلوم ہوتا ہے انسان بھی ایمان و اخلاق و اخلاص میں خالص ہو جائے تو اس کے اعمال خودبخود راست ہو جاتے ہیں لب و لہجے میں شیرینی اتر آتی ہے۔

عزم و ارادہ:تتلیاں زرِ گل پی کر صرف اتنی خوراک حاصل کرتی ہیں جس سے وہ اُڑسکتی ہیں ان کی جسامت نہیں بڑھتی اس کے برعکس باز فضاؤں سے ٹکرا کر اپنا شکار حاصل کرتا ہے۔ انسان کوباز کی طرح زندہ رہنا چاہیے بے شک قناعت پسندی میں تتلی کی طرح ہو۔

حیرت کی بات ہے انسان زمین سے آسمان تک کا فاصلہ طے کرکے چاند تک جا پہنچا ہے لیکن ابھی تک خود سے خود تک کا سفر نہیں کر سکا۔

دوستی:دوست کا انتخاب کرتے وقت یہ مت دیکھیں کہ وہ آپ کو کتنا نفع پہنچا سکتا ہے یہ سوچیں کہ دشمن بن جانے کی صورت میں کتنا نقصان پہنچا سکتا ہے؟

اپنے دشمن کی بات دوست کو اور دوست کی بات دشمن کو نہ بتاؤ ورنہ ان دونوں کے سامنے آپ کی بھی یہی دوغلی پوزیشن ہو جائے گی۔

ظلم و جبر:اگر آپ تلخ ہری مرچ یا کوئی دوسری شدید مرچیلی چیز کھانے کے بعد منہ میں ایک دم چینی ڈال لیں تو زبان کی جلن دو چند ہو جاتی ہے، یہی حال انسان کے ساتھ انسان کے بلاجواز ظلم و ستم و نا انصافی کاہے ظالم کے بےوقت پچھتا وے یا ہمدردی سے مظلوم کی دکھن اور دل کی جلن ہزار گنا بڑھ جاتی ہے۔

احسان:جب آپ بلندی پر پہنچنے کی اندھا دھند لگن میں اوپر ہی اوپر چڑھ رہے ہوتے ہیں تو آپ کی نظر میں اہمیت صرف منزل کی ہوتی ہے زینےکی نہیں لیکن جب نیچے بخیریت اُترنے کے لئے زینہ آپ کے قدموں سے ہٹا لیا جاتا ہے تو تب آپ کو زینے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ خلا میں لٹکنے اور سہارا چھن جانے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ آپ اب تک بے سہارا نہ تھے ایسی ہی صورت حال کا سامنا دوسروں پر احسانات کرنے اور مفادات پہنچانے والوں کو احسان فراموشوں کی طرف سے اچانک اپنا ہاتھ روک لینے کی وجہ سے کرنا پڑتا ہے۔ وہ محسن کشی پر اُتر آتے ہیں۔

غربت و امارت:جب آپ کسی دوکان پر کچھ خریدنے کے لیے جاتے ہیں تو قیمت سودے کی نہیں دیتے، دام مجبوری کے ادا کرتے ہیں لہٰذا اپنے جیب میں مجبوریوں کی تعداد کم رکھیے آپ کو کبھی اپنی غربت کا احساس نہیں ہوگا۔

کہا جاتا ہے یہ نہ دیکھو بات کون کر رہا ہے یہ دیکھو بات کیا کر رہا ہے۔ آج کل دیکھا یہ جاتا ہے کہ کس جاہ و مرتبے کا آدمی بات کر رہا ہے یہ کوئی نہیں دیکھتا بات کتنی سچی ہے یا جھوٹی ہے کتنی کھری اور کتنی کھوٹی ہے۔

کمینہ پن:جو دھات دیر تک نہ بگڑے، اس پر کالک نہ اُبھرے،اُلی نہ لگے اسے سونا کہتے ہیں یہی تفریق شریف اور کمینے انسان میں ہے کمینہ شخص جس کے قریب رہے گا اسے زخمی کرے گا یاد رکھیے کان یا ناک چھیدنے کے فوراً بعد اس میں سونے کی تار داخل کی جاتی ہے کیونکہ تانبے کی تار سے زخم کانا ہو جاتا ہے۔

ناقدر دانوں کی بھی قدر کرو کیونکہ اگر وہ قدر دانوں کی ناقدری نہ کرتے تو آپ کو اپنی قدر کیسے معلوم ہوتی؟

جس طرح یہ طے ہے کہ پاکیزہ و زرخیز زمین سے عمدہ پھل نکلتے ہیں اور خراب زمین سے ناقص پیداوار ہوتی ہے بعینہٖ یہی صورت حال انسان کے اندر کی ہے اُس کے من میں جو پاکیزہ یا ناقص مواد موجود ہوگا وہی اُس کے بیان و زبان کے ذریعے باہر آئے گا آپ کمینے شخص سے نیکی اور نیک نیت انسان سے کمینگی کی توقع کس طرح کرسکتے ہیں؟

رازداری:ہر قیمتی پھل کا بیج اس کے سینے میں محفوظ ہوتا ہے کھجور تک کے ایک کونے پر چھوٹی سی ٹوپی لگی ہوتی ہے تاکہ مٹھاس باہر نہ نکلے اور گٹھلی اِدھر اُدھر لڑھکتی نہ پھرے آپ اپنے قیمتی رازوں کی حفاظت کیوں نہیں کرتے؟

ننھی منی الائچی میں خوشبو اس لئے محفوظ رہتی ہے کیونکہ چھلکے میں بند ہوتی ہے۔ آپ کی شخصیت کی خوشبو اڑ گئی تو آپ چھلکے کی مانند خالی رہ جائیں گے۔

غنچہ جب تک ٹہنی پر رہتا ہے محفوظ و معطر رہتا ہے جب کھل کر پھول بنتا ہے تو اس کی خوشبواڑ جاتی ہے کسی دوکان پر بک جاتا ہے یا پھر اپنے کلیجے میں چھید کروا کر ہار میں پرولیا جاتا ہے اسی طرح جب تک تمہارا راز تمہارے سینے میں بند ہے مکمل محفوظ ہے جب لفظ بن کر زبان پر آگیا تو بے قابو خوشبو کی طرح کہیں بھی پہنچ سکتا ہے، کہیں پر بھی بک سکتا ہے کسی کے ہاتھوں بھی آپ کے کلیجے کا چھید بن سکتا ہے۔ اسے انمول اور بے ضرر رکھنا ہےتو سنبھال کر رکھو۔

محنت:جس طرح کسان زمین پر براہ راست بیج گرانے کے بجائے پہلے زمین کو گوڈی کرکے تیار کرتا ہے بعینہٖ منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے آپ کی کوششوں کو بھی ثمرآ ور ہونے سے پہلے شدید تیاری و آبیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ محنت نہیں کریں گے تو ثمربراہ راست کہاں سے ٹپکے گا؟

آپ کسی بھی حسب نسب سے تعلق رکھتے ہیں آپ کا نام آپ کے کام سے بنے گا نام سے نام نہیں بنتا۔

جنگ:اگر پھل اور سبزیاں ایک زمین سے ایک ہی قسم کا پانی پی کر ذائقے اور شکل و صورت میں مختلف ہوسکتی ہیں، چرند پرند اور جانور جاندار اپنی فطرت اور خصوصیات میں یکساں نہیں ہوتے تو پھر انسانوں کو بھی دوسرے انسانوں پر اعمال ، نیت اور تقوی کے لحاظ سے تفوق حاصل ہے اس تفوق کو مٹانے کے لئے پوری دنیا میدان جنگ بنی ہوئی ہے۔

مایوسی ناامیدی:یہ درست ہے کہ زندگی آس و یاس سے عبارت ہے لیکن آس کی ٹہنی سے یاس کے تمام زرد پتے نہیں جھاڑو گے تو اس کی جگہ آس کی نئی نئی کونپلیں کس طرح پھوٹیں گی؟ کیونکہ پتوں پر پتے نہیں اُگتے۔

دانش اور چالاکی:دانش براہ راست اللہ تعالیٰ کی دین ہے جبکہ چالاکی آپ کی اپنی منافقانہ اور خود غرضانہ سوچ کی پیداوار اور ردِ عمل ہے بلکہ آپ کی ہارجیت کا دونوں دنیاؤں میں بھی یہی تناسب ہے۔

آزمائش:جس طرح بادام کی گری نکالنے کے لئے اُسے توڑنا پڑتا ہے انسان کے اندر کا جو ہر بھی اس وقت سامنے آتا ہے جب آزمائشیں اُسے توڑپھوڑ دیتی ہے۔

جس طرح دانتوں کے ڈاکٹر مریضوں کو اکثر دانتوں کی مضبوطی کے لئے گنا چوسنے اور گاجریں کھانے کی تلقین کرتے ہیں اسی طرح زندگی میں آزمائشیں ، سختیاں اور صدمات بھی انسان کو سخت جان بناتے ہیں جبکہ انسان یہ چاہتا ہے زندگی کو میٹھے رس کے ایک گھونٹ کی طرح پی لے یہ نہیں سوچتا، یہ نہیں دیکھتا کہ گنے کا رس نکالنے کے لئے اس کے وجود کو ختم کرنا پڑتا ہے۔

جب کچی عمارتوں کی بنیاد اٹھائی جاتی ہے تو کئی دن پہلے سے گارا بنا کر پکنے کے لئے رکھ دیا جاتا ہے تاکہ دیواریں مضبوط بن سکیں بعینہٖ انسان بھی دیر تک نامساعد حالات کی کٹھالی میں رہنے کے بعد ہی زندگی کا مقابلہ کرنے کے لئے پک کر تیار ہوتا ہے کچی عمر کے کچے تجربے آپ کو منہدم کرسکتے ہیں۔

آزمائش کی بھٹی سے گزرے بغیر کسی منزل کی تحصیل کیسے ممکن ہے؟ دیئے کا دل نہ جلے تو روشنی نہیں ہوتی۔ بانسری کے دل میں چھید نہیں ہوگا تو سُر کیسے نکلے گا؟ کشتی بیچ منجدھار تھپیڑے نہیں کھائے گی تو کنارے کی جانب کیسے بڑھے گی؟

جب آپ کاغذ پر کچھ لکھتے ہیں تو اس کے نیچے سخت سطح کی کوئی چیز نہ رکھیں تو اس پر الفاظ نہیں اُبھرتے بلکہ نرم جگہ پر رکھنے سے کاغذ پھٹ جاتا ہے عین اسی طرح جب تک آپ زندگی کی سختیاں برداشت نہیں کریں گےتو زندگی میں آپ کی کامیابی کا اور فنامیں بقا کا نقش کیسے ابھرے گا؟

آزمائش، دکھ اور حالات کی نامساعدت صرف خاص، خالص اور عظیم لوگوں کے لئے مخصوص ہوتی ہے جس طرح گلاب پھولوں کا بادشاہ ہے حفاظت کے کانٹے صرف اسے لگے ہوتے ہیں یہ حصار عام گھاس پھوس کو عطا نہیں کیا جاتا وہ سب کی روند اور لتاڑ کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔

جذبے:ہر کام کی ابتداء سے انتہاء تک آپ کا جذبہ ہی جنون بن کر آپ کو اکسائے اور ابھارے رکھتا ہے۔ اگر جذبہ نہ ہو تو جنون کہاں سے آئے گا اور جنون نہ ہوگا تو منزل پر کیسے پہنچو گے؟

دنیا دو ستونوں پر قائم ہے مال و دولت اور جذبے کی دولت پر، آپ جذبے کی دولت لگا کر مال پیدا کرسکتے ہیں لیکن مال کی لاگت سے جذبے کی دولت نہیں خرید سکتے۔

حسد:جس طرح چور دوسروں کی چوریاں کرکر کے اپنا گھر نہیں بھر سکتا اسی طرح حاسد لوگ بھی کسی بھی سطح پر اپنی کسی کوشش کے تحت دوسروں کی خوبیاں اپنے نام نہیں لگا سکتے۔

گھی جما ہو یا پگھلا ہوا اسے پانی میں جتنا مکس کریں مکس نہیں ہوگا۔ بلکہ سطح پر تیر کر اپنا تشخص برقرار رکھے گایہی صورت حال آپ کے غیر معمولی پن کی ہے اگر آپ زمانے بھر میں کسی بھی حوالے سے منفرد ہیں تو زمانے کا جذبہ حسد و جلن آپ کو اپنے ساتھ مکس کرنے اور اپنے جیسا بنالینے کیلئے مسلسل پریشر میں رکھے گا گو کہ ناکام ہوجائے گا۔

محاورہ ہے جہاں سونا وہاں چور۔ اگر آپ بھی صلاحیتوں میں امیر ہیں تو اس امارت میں نقب لگانے کیلئے حاسدین موجود ہیں حفاظت کا بندوبست کر لیجئے۔

استحصال:جس طرح پورے گھر کی چھت پر بارش کا پانی پھرتا پھراتا صرف اس مقام پر سے ٹپکتا ہے جو کمزور ہوتا ہے یا جس میں رخنہ ہوتا ہے بعینہٖ دنیا بھی انسان کی کمزوریاں اور کمزور مقامات کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہیں چوٹ لگاتی ہے بہتر ہے اس پر اپنی کمزوریاں ظاہر نہ کریں ڈھانپ کر رکھ لیں۔

آپ کو کسی کانظر انداز کرنا دراصل آپ کو تسلیم کرلینے کا عمل ہے کیونکہ کسی ٹھوس وجود کو موجود دیکھ کرناموجود نہیں کہا جاسکتا۔

کامیابی و ناکامی:دل میں خود اعتمادی کا بیج ڈال دیں بہت جلد اس میں سے کامیابیوں کا پھلدار درخت اگ آئے گا۔

زندگی میں ناکامیوں سے گھبرانا بزدلی ہی نہیں حماقت بھی ہے یہ آپ کو آگے بڑھانے کے لئے پیچھے سے push کرتی ہیں جس طرح آپ کسی دروازے میں داخل ہونے کے لئے اسےpush کرتے ہیں۔

ایثار و قربانی:ہر وقت کچھ نہ کچھ پانے کے چکر میں نہ رہیں کیونکہ کچھ نہ کچھ پانے سے پہلے ہمیشہ کچھ نہ کچھ کھونا پڑتا ہے۔ بالکل اس طرح جس طرح برتن خالی نہ ہو تو آپ اس میں کچھ نہیں ڈال سکتے یا اگر درخت اپنا تمام پھل توڑنے والوں پر لٹانہ دے تو اس پر دوبارہ پھل نہیں لگتا جب تک آپ زندگی کیلئے، دوسروں کیلئے اور راست اصولوں کے لئے کچھ قربانی نہیں دیں گےکوئی ثمر کیسے پاسکتے ہیں؟

ستم ظریفی دورآن دیکھئے آپ جب بچہ ہوتے ہیں تو محبت کے مارے والدین آپ کو روئی میں انگور کی طرح رکھ کر پالتے ہیں لیکن یہی والدین جب بڑھاپے کے آخری مقام پر آکر دوبارہ بچوں کی پوزیشن پر آجاتے ہیں تو ان کے ساتھ وہی بچے ویسا محبت بھرا سلوک نہیں کرتے جیسا کہ ان کے ساتھ بچپن میں ہوا تھا۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ وقت کا چکر گولائی میں گھوم رہا ہے۔

(باقی آئندہ ان شاء اللہ)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 نومبر 2020