• 17 مئی, 2024

اولى الامر

حضرت مسىح موعود علىہ السلام اىک جگہ فرماتے ہىں کہ:
’’اولى الامر سے مراد جسمانى طور پر بادشاہ اور روحانى طور پر امام الزمان ہے۔‘‘

(ضرورۃ الامام، روحانى خزائن جلد13 صفحہ493)

پس حکومت کے دنىاوى نظام کے اندر اىک روحانى نظام بھى چل سکتا ہے اور چلتا ہے اور ہم خوش قسمت ہىں کہ ہم اس روحانى نظام کا حصہ ہىں اور امام الزمان کے نظام کو جارى کرنے کے لئے ہى اللہ تعالىٰ نے خلافت کا نظام بھى جارى فرماىا ہے جو اللہ اور اس کے رسول کى حکومت دلوں مىں قائم کرنے کے لئے کوشش کرتا ہے۔ اور تنازعہ کى صورت مىں جىسا کہ اللہ تعالىٰ کا حکم ہے اللہ تعالىٰ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق فىصلہ کرتا ہے۔

……… تارىخ مىں جو حضرت ابوعبىدہ رضى اللہ تعالىٰ کى دانشمندى، بے نفسى اور قومى مفاد کو پىش نظر رکھنے کا اىک واقعہ آتا ہے کہ اىک جنگ کے دوران حضرت ابوعبىدہ کو حضرت عمر کا خط ملا جس مىں حضرت ابوبکر رضى اللہ تعالىٰ عنہ کى وفات کا ذکر تھا اور حضرت عمر نے حضرت خالد بن ولىد کو معزول کرتے ہوئے حضرت ابوعبىدہ کو امىر لشکر مقرر فرماىا تھا۔ حضرت ابوعبىدہ نے حضرت خالد کو وسىع تر قومى مفاد کے پىش نظر اس وقت تک اس کى اطلاع نہىں کى جب تک اہل دمشق کے ساتھ صلح نہىں ہو گئى۔ اور جو معاہدہ صلح تھا اس پر آپ نے حضرت خالد بن ولىد سے دستخط کروائے۔ حضرت خالد بن ولىد کو بعد مىں پتا چلا کہ مجھے تو معزول کر دىا گىا تھا اور ان کو سپہ سالار بناىا گىا تھا تو انہوں نے شکوہ کىا مگر آپ ٹال گئے اور ان کے کارناموں کى تعرىف کرتے ہوئے انہىں مطمئن کر دىا۔ اسلامى جرنىل حضرت خالد بن ولىدنے اس موقع پر اطاعتِ خلافت کا انتہائى شاندار نمونہ دکھاتے ہوئے کہا کہ لوگو! تم پر اس اُمّت کے امىن امىر مقرر ہوئے ہىں۔ (حضرت ابوعبىدہ کو آنحضرت صلى اللہ علىہ وسلم نے امىن کے لقب کا خطاب دىا تھا۔) حضرت ابوعبىدہ نے جواب مىں کہا مىں نے رسول اللہ صلى اللہ علىہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ خالد خدا کى تلواروں مىں سے اىک تلوار ہے اور قبىلے کا بہترىن نوجوان ہے۔

(تارىخ الطبرى جزء4 صفحہ82 ثم دخلت سنۃ ثلاث عشر…، صفحہ242 ثم دخلت سنۃ سبع عشرۃ… دارالفکر بىروت لبنان 2002ء)
(مسند احمد بن حنبل جلد5 صفحہ751 مسند خالد بن ولىد حدىث نمبر 16947، 16948 عالم الکتب بىروت 1998ء)

پس ىہ تھا خوشدلى سے خلىفہ وقت کے فىصلے کو ماننا۔ آج بھى بعض دفعہ اىسے واقعات ہو جاتے ہىں۔ عموماً تو نہىں کہ اللہ تعالىٰ کے فضل سے جماعت مىں اطاعت کا جذبہ ہے لىکن بعض اىسے بھى ہىں۔ جب کسى عہدہ سے ہٹاىا جائے تو سوال ہوتا ہے کىوں ہٹاىا گىا ہے؟ کس لئے ہٹاىا گىا ہے؟ کىا کمى تھى ہم مىں؟ اگر ىہ نمونے اپنے سامنے رکھىں جو تارىخ ہمىں دکھاتى ہے تو کبھى اس قسم کے سوال نہ اٹھىں۔ بہرحال ہمىں ىاد رکھنا چاہئے کہ آج بھى وہى قرآن ہے جس مىں اللہ تعالىٰ کے احکامات ہىں۔ اسى رسول کى ہم پىروى کرتے ہىں جس نے ہمارى رہنمائى کى ہے اور احادىث کى کتب مىں ہمىں وہ رہنمائى مل بھى جاتى ہے۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 5 دسمبر 2014ء بحوالہ الاسلام وىب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 نومبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ