• 26 اپریل, 2024

ہدیہ نعت بحضورِ فخرِ موجودات ﷺ

اے مجسم کرم! اے رسالت مآبؐ!
تیری رحمت ہے بےپایاں و بےحساب
سب جہانوں پہ تیرے کرم کے سحاب
تجھ سے ہر ذرۂ زندگی فیضیاب
ایک مدت سے مردہ تھے ارض و سما
بحر و بر میں فسادات کی انتہا
ایسے میں تیرے رُخ کا جو سورج چڑھا
ابرِ ظلمت زمانے سے سب چھٹ گیا
’’الامانت‘‘ کا اتنا گراں بار تھا
کہ پہاڑوں کو بھی نہ ہؤا حوصلہ
اور زمیں آسماں بھی ہوئے سرنگوں
وہ ’’ظلوماً جہولاً‘‘ ہی آگے بڑھا
گرچہ ہیں عالی پرواز روح الامیں
پر تری منزل اُن سے پرے ہے کہیں
یوں تو موسیٰ بھی نبیوں میں کم تو نہیں
پر نہیں کوئی ہووے جو تجھ سا قریں
سارے گلشن میں اک تو مہکتا گلاب
رنگ و خوشبو کی تاثیر بھی لاجواب
باغِ دنیا میں جس صبح تو کھل اُٹھا
باقی سب پھول لگنے لگے اک سراب
تو ہی خیرالبشر، تو ہی خیرالانام
تو ہی خیرالرسل، تو ہی خیرالامام
ہم ہیں خیرالامم جب ہوں تیرے غلام
تو ہی خیرالوری، تجھ پہ لاکھوں سلام
تیرے چہرے میں تھا عکسِ نورِ خدا
اک ترا دل ہی تھا عرشِ ربُّ الوریٰ
تو ہی تھا اصل کا آئنہ بالیقیں
لا جرم تو ہی ’’نورٌ علیٰ نور‘‘ تھا
تو ہی ’’عبداً شکوراً‘‘، تو ہی سرفراز
واہ تیرا قیام اور جبینِ نیاز!
بہرِ عشّاق وا ہو گیا بابِ حسن
کیسے سکھلائے آدابِ راز و نیاز!
تو حقیقت ہے، باقی تو سب خواب ہے
تجھ سے ہی مقتبس نورِ مہتاب ہے
آج بھی تیرے دم سے ہیں سب رونقیں
تیرا ہی باغ سرسبز و شاداب ہے
حسن و احسان میں تو عدیم المثال
تو جمال اور جلال، ہر طرح باکمال
تجھ سا کوئی نہیں خوش ادا، خوش خصال
کس طرح ہو ترا ذکرِ حسن و جمال
میں تو ہوں بے ہنر، عمر بھی مختصر
تیری تعریف پھر مجھ سے کیونکر ہو، پر
میرا خونِ جگر صورتِ چشمِ تر
میرے ایک اک سخن میں ہؤا جلوہ گر
یہ بھی تیرا ہی اعجاز ہے سربہ سر
فکر و فن میرے ورنہ تھے بے بال و پر

(میر انجم پرویز)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 نومبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ