تربىت کے متعلق احادىث نبوىﷺ مىں بىان کىے گئے اصولوں کو مدنظر رکھ کر ہم اپنے گھروں کو جنت نظىر بنا سکتے ہىں۔کىونکہ آنحضرتﷺنے فرماىا ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلامى پر پىدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے ىہودى ىا نصرانى ىا مجوسى بناتے ہىں( ىعنى قرىبى ماحول سے بچے کا ذہن متاثر ہوتا ہے)
(مسلم۔ کتاب القدر۔ باب معنى۔کل مولود ىولد على الفطر)
بچوں کو صحبت صالحىن فراہم کرنا
حضرت ابوہرىرہ رضى اللہ عنہ سے مروى ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرماىا: ’’آدمى اپنے دوست کے زىر اثر ہوتا ہے پس تم مىں سے ہر اىک خىال رکھے کہ کسے دوست بنا رہا ہے۔‘‘
(ترمذى۔ ابواب الزھد۔باب ماجاء فى اخذ المال بحقہ)
بچوں کو حلال اور طىب کھانے کى تربىت دى جائے
حضرت ابوہرىرہ رضى اللہ عنہ سے رواىت ہے کہ اىک دفعہ حضرت على ؓکے بىٹے حسن نے صدقہ کى اىک کھجور منہ مىں ڈالى تو حضور نے فرماىا۔ چھى ! چھى ! تم جانتے نہىں کہ ہم صدقہ نہىں کھاىا کرتے۔
(بخارى۔کتاب الجھاد۔ باب من تکلم بالفار سىۃ والرطانۃ)
بچىوں کى مسلسل نگرانى اور تربىت
حضرت جابر بن عبداللہؓ سے اىک طوىل رواىت مىں ذکر ہے کہ اپنے والد کى شہادت کے بعد مىں نے شادى کى تو آنحضرت ﷺ نے فرماىا :تم نے کنوارى عورت سے شادى کى ہے ىا بىوہ سے؟ مىں نے عرض کى کہ بىوہ سے۔ حضور نے فرماىا۔ تم نے کنوارى سے کىوں شادى نہ کى تا کہ تم اس کے ساتھ کھىلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھىلتى۔ مىں نے عرض کى کہ حضور! مىرے والد شہىد ہو گئے تو مىرى چھوٹى چھوٹى بہنىں تھىں۔ مىں نے ناپسند کىا کہ مىں ان جىسى لڑکى سے ہى شادى کروں جو نہ تو ان کو ادب سکھائے اور نہ ان کى نگرانى کرے۔ مىں نے تو اس لئے بىوہ سے شادى کى ہے کہ وہ مىرى ان بہنوں کى نگرانى کرے اور انہىں ادب آداب سکھائے۔
(بخارى۔کتاب الجھاد۔ والسىر۔ باب استئذان الرجل الامام)
نئى نسل کوبچپن سے ہى نماز کے آداب سکھانا
حضرت ابن عباس ؓ سے رواىت ہے وہ کہتے ہىں کہ مىں نے اپنى خالہ کے گھر رات گزارى۔ رات کو آنحضرت ﷺ نماز کے لئے کھڑے ہوئے۔ مىں بھى حضور کے ساتھ حضور کى بائىں جانب کھڑا ہوا۔ حضور نے مجھے سر سے پکڑا اور مجھے اپنى دائىں طرف کھڑا کر دىا۔ (بخارى۔کتاب الاذان۔ باب اذالم ىنو الا مام ان ىوم ثم جاء قوم فامھم) ابو ىعفور رواىت کرتے ہىں کہ مىں نے مصعب بن سعد ؓ کو ىہ کہتے ہوئے سنا کہ مىں نے اپنے باپ کے پہلو مىں نماز پڑھى تو رکوع کے لئے جاتے ہوئے مىں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر اپنى رانوں کے درمىان رکھ لىا اس پر مىرے والد نے اىسا کرنے سے منع کىا اور انہوں نے بتاىا کہ ہم اىساکرتے تھے تو ہمىں اىسا کرنے سے منع کر دىا گىا تھا اور ہمىں حکم دىا گىا کہ ہم اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھىں۔
(بخارى۔کتاب الاذان۔باب وضع الاکف على الرکب فى الرکوع)
بچوں کو نماز پڑھنے کى تلقىن کا مناسب وقت
ہشام بن سعد سے رواىت ہے کہ ہم معاذ بن عبداللہ بن خبىب جہنى کے گھر گئے انہوں نے اپنى بىوى سے درىافت کىا کہ بچوں کو کب نماز پڑھانى شروع کرىں۔ انہوں نے بتاىا کہ ہمارے اىک آدمى نے بتاىا تھا کہ حضور ﷺ سے ىہ امر درىافت کىا گىا تو حضور نے فرماىا کہ ’’بچہ جب اپنے دائىں ہاتھ اور بائىں ہاتھ مىں تمىز کرنا جان لے تو اسے نماز کا حکم دو۔‘‘
(ابو داؤد ٗ کتاب الصلوۃ ٗ باب متى ىومر الغلام بالصلوۃ)
عمرو بن شعىب کے دادا رضى اللہ عنہم سے مروى ہے کہ رسول اللہ نے فرماىا: ’’اپنى اولاد کو سات سال کى عمر مىں نماز کا حکم دو پھر دس سال کى عمر تک انہىں اس پر سختى سے کاربند کرو نىز بچوں کے بستر بھى الگ الگ بچھاؤ۔‘‘
(سنن ابى داؤد۔ کتاب الصلوۃ۔ باب متى ىومر الغلام بالصلوۃ)
اولاد سے سلوک مىں مساوات
حضرت نعمان بن بشىرؓ سے رواىت ہے کہ مىرے والد نے مجھے تحفۃً کچھ دىا اور وہ مجھے لے کر آنحضرت ﷺ کى خدمت مىں حاضر ہوئے تاکہ حضور اس بارہ مىں گواہ بن جائىں۔ تو آنحضرت ﷺ نے فرماىا۔ اپنى اولاد مىں مساوات رکھو۔
(مسلم۔کتاب الھبات۔ باب کراھۃ تفضىل بعض الاولاد فى الھبۃ)
اولاد سے پىار کا اظہار اور ان کا اکرام
حضرت عائشہ ؓ بىان کرتى ہىں کہ مىں نے حضرت فاطمہ ؓ سے بڑھ کر شکل و صورت ٗ چال ڈھال اور گفتگو مىں رسول اللہ ﷺ کے مشابہ کسى اور کو نہىں دىکھا۔ فاطمہ ؓ جب کبھى حضور ؐ سے ملنے آتىں تو حضور ؐ ان کے لئے کھڑے ہو جاتے ان کے ہاتھ کو پکڑ کر چومتے۔ اپنے بىٹھنے کى جگہ پر بٹھاتے۔ اسى طرح جب حضور ؐ ملنے کے لئے فاطمہ ؓ کے ىہاں تشرىف لے جاتے تو وہ کھڑى ہو جاتىں۔ حضورؐ کے دست مبارک کو بوسہ دىتىں اور اپنى خاص بىٹھنے کى جگہ پر حضورؐ کو بٹھاتىں۔
(ابو داؤد۔ کتاب الادب۔ باب فى القىام)
بىٹىوں سے محبت کى تلقىن
عقبہ ؓ بن عامر سے رواىت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرماىا۔ بىٹىوں کو ناپسند نہ کرو۔ وہ تو غلوکى حد تک محبت کرنے والى ہوتى ہىں۔
(مسند احمد بن حنبل – مسند الشامىىن – حدىث عقبۃ بن عامر الجھنى)
بىوہ ىا مطلقہ بىٹى سے حسن سلوک
حضرت سراقہ ؓ بن مالک سے رواىت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرماىا کىا مىں تمہىں افضل ترىن صدقہ کے بارے مىں نہ بتاؤں؟
تمہارى وہ بىٹى جو (کسى و جہ سے) تمہارے پاس (سسرال سے) واپس آجائے اور اس کا تمہارے سوا کوئى کمانے والا نہ ہو۔
(سنن ابن ماجہ۔ کتاب الادب۔ باب بر الوالد والاحسان على البنات)
نومولود بچوں کوبزرگان سے گڑھتى دلوانا
حضرت ام المومنىن عائشہ رضى اللہ تعالىٰ عنہا رواىت کرتى ہىں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بچے لائے جاتے تھے تو آپ ان کے لئے دعا کرتے اور مبارک باد دىتے تھے۔ اور ان کو گڑھتى دىتے تھے۔
(مسلم۔کتاب الادب۔ باب استھباب تحنىک المولود عند ولادتہ وحملہ الى صالح)
بچوں کے اچھے نام رکھنے کى تلقىن
حضرت ابو درداء ؓ رواىت کرتے ہىں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرماىا تمہىں قىامت کے روز تمہارے ناموں اور تمہارے آباء کے ناموں سے پکارا جائے گا۔ پس تم اچھے نام رکھا کرو۔
(سنن ابى داؤد ٗ کتاب الادب ٗ باب فى تغىىر الاسماء)
حضرت عبداللہ بن سلام کے بىٹے ىوسف بىان کرتے ہىں کہ رسول اللہ ﷺ نے مىرا نام ىوسف رکھا ٗ مجھے اپنى گود مىں بٹھاىا اور مىرے سر پر پىارے سے ہاتھ پھىرا۔
(مسند احمد بن حنبل جلد6 صفحہ6 مطبوعہ بىروت)
آنحضورﷺ نىا پھل آنے پرپہلے کم عمر بچوں کو عطاء فرماتے:
حضرت ابوہرىرہ رضى اللہ تعالىٰ عنہ بىان کرتے ہىں کہ جب کسى پھل کا آغاز ہوتا تو لوگ پہلا پھل رسول اللہ ﷺ کے پاس لاتے تو رسول اللہ ﷺ اس پھل کو اپنے ہاتھ مىں لے کر ىہ دعا کرتے ’’ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِى ثَمَرِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِى مَدِىْنَتِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِى صَاعِنَا وَبَارِکْ لَنَا فِى مُدِّنَا ‘‘ اے اللہ ہمارے پھلوں مىں ہمارے لئے برکت دے ہمارے شہر مىں ہمارے لئے برکت رکھ دے۔ اور ہمارے ماپنے کے پىمانے صاع اور مد مىں برکت رکھ دے۔ راوى کہتے ہىں کہ پھر رسول اللہ ﷺ اپنے سب سے چھوٹے بچے کو بلاتے اور وہ پھل اسے کھانے کو عطا فرماتے۔
(مسلم۔ کتاب الحج۔ باب فضل المدىنۃ ودعاء النبى ؐ فىھا بالبرکۃ)
بچوں سے شفقت اور بڑوں کا ادب
عمرو بن شعىب اپنے والد سے رواىت کرتے ہىں اور وہ اپنے دادا سے کہ آنحضرت ﷺ نے فرماىا کہ ’’وہ شخص ہم مىں سے نہىں ہے جو ہمارے بچوں سے رحم کا سلوک نہىں کرتا اور ہمارے بڑوں کے حق کا پاس نہىں کرتا۔‘‘
(الادب المفرد للبخارى باب رحمۃ الصغىر)
حضرت ابو ہرىرہ ؓ بىان کرتے ہىں کہ آنحضرت ﷺ کى خدمت مىں اىک شخص حاضر ہوا اس کے ساتھ اس کا اىک چھوٹا بچہ تھا وہ اسے اپنے ساتھ چمٹانے لگا۔ اس پرنبى کرىم ﷺ نے فرماىا کىا تو اس سے رحم کا سلوک کرتا ہے؟ اس پر اس نے جواب دىا جى حضور۔ آنحضرت ﷺ نے فرماىا؟؟ اللہ تجھ پر اس سے بہت زىادہ رحم کرے گا جتنا تو اس پر کرتا ہے اور وہ خدا ارحم الراحمىن ہے۔‘‘
(الادب المفرد للبخارى باب رحمۃ العىال)
بچوں سے شفقت کرنا بہت مستحسن ہے
حضرت ابوہرىرہ رضى اللہ عنہ آنحضرت ﷺ سے رواىت کرتے ہىں کہ حضورؐ نے فرماىا۔ اونٹوں پر سوار ہونے والى بہترىن عورتىں قرىش کى وہ صالح عورتىں ہىں جو اپنے بچوں پر ان کے بچپن مىں بہت مہربان ہوتى ہىں اور اپنى ملکىت کے سلسلہ مىں اپنے خاوندوں سے بہت رعاىت کرنے والى ہوتى ہىں۔
(بخارى۔کتاب النکاح۔باب الى من ىنکح و اى النساء خىر)
حضرت ابوہرىرہ ؓ سے رواىت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (اپنے نواسے) حسن بن على کو چوما تو پاس بىٹھے اقرع بن حابس تمىمى نے کہا کہ مىرے تو دس بچے ہىں لىکن مىں نے کسى کو کبھى نہىں چوما۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کى طرف دىکھا اور فرماىا: جو رحم نہىں کرتا اس پر رحم نہىں کىا جائے گا۔
(بخارى کتاب الادب باب رحمۃ الولد وتقبىلہ ومعانقتہ)
بچوں کو پىارے ناموں سے بلانا
حضرت انس بن مالک رضى اللہ تعالىٰ عنہ رواىت کرتے ہىں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ’’ىَا بَنِى‘‘ ىعنى اے مىرے بچے کہہ کر مخاطب کىا۔
(صحىح مسلم۔کتاب الادب۔ باب جواز قولہ لغىر ابنہ ىا بنى)
حضرت انس بن مالک رضى اللہ عنہ بىان کرتے ہىں کہ نبى ﷺنے انہىں مخاطب کر کے فرماىا: ’’ىَاذَا اْلاُذُنَىْنِ ‘‘ ىعنى اے کھڑکنے۔
(شمائل الترمذى ٗ باب ماجاء فى صفۃ مزاح رسول اللّٰہ ﷺ)
آنحضرت ﷺ کى بچوں سے شفقت
کے چند نرالے انداز
حضرت انس بن مالک کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہم مىں اس طرح گھل مل جاىا کرتے تھے کہ مىرے چھوٹے بھائى کو کہتے اے ابوعمىر ’’نُغَىْر‘‘ (ممولہ) نے کىا کىا۔
٭ ’’نُغَىْر‘‘ چڑىا کى طرح کا اىک پرندہ جو سفىد اور سىاہ ہوتا ہے۔ ابو عمىر رضى اللہ تعالىٰ عنہ نے وہ پال رکھا تھا وہ مر گىا آنحضرت ؐ نے ازراہ ہمدردى فرماىا۔
(صحىح بخارى۔کتاب الادب۔ باب الانبساط الى الناس)
خالد ؓ بن سعىد کى بىٹى ام خالد رواىت کرتى ہىں کہ مىں رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنے والد کے ساتھ زرد رنگ کى قمىص پہنے ہوئے گئى۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرماىا۔ ’’سنہ سنہ واہ! واہ کىا کہنے (سنہ حبشى زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنى حسنۃ کے ہىں۔) ىعنى ىہ کپڑے تمہىں بہت اچھے لگ رہے ہىں۔
راوىہ کہتى ہىں کہ مىں آگے بڑھى اور خاتم نبوت سے کھىلنے لگى۔ اس پر مىرے والد نے مجھے ڈانٹا تو رسول اللہ ﷺ نے فرماىا۔ اسے کھىلنے دو۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے تىن مرتبہ فرماىا۔ ان کپڑوں کو خوب پہن کر پرانے کر کے پھاڑنا۔
(بخارى ٗ کتاب الادب ٗ باب من ترک صبىۃ غىرہ حتى تلعب بہ او قبلھا او مازحھا)
اپنى اولاد کے لخت ِجگروں سے محبت کے دلنشىن انداز
حضرت ابو قتادہ رضى اللہ تعالىٰ عنہ رواىت کرتے ہىں کہ رسول اللہ ﷺ اپنى نواسى حضرت امامہ بنت حضرت زىنب رضى اللہ تعالىٰ عنہا وابى العاص رضى اللہ تعالىٰ عنہ کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھتے تھے جب آپ قىام فرماتے اسے اٹھالىتے اور جب آپ سجدہ مىں جاتے اسے بٹھا دىتے۔
(مسلم۔ کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ۔ باب جواز حمل الصبىان فى الصلوۃ)
معاوىہ بن ابى مزرد اپنے والد سے رواىت کرتے ہىں کہ مىں نے ابوہرىرہ ؓ کو ىہ بىان کرتے ہوئے سنا کہ مىرے ان کانوں نے سنا اور ان آنکھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دىکھا کہ آپ ؐ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے حسن ىا حسىن رضى اللہ عنہما کو ان کى ہتھىلىوں سے پکڑا ان کے دونوں پاؤں رسول اللہ ﷺ کے دونوں قدموں پر تھے اور رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے ’’اوپر چڑھو‘‘ راوى کہتا ہے اس پر اس بچے نے اوپر کو چڑھنا شروع کىا ىہاں تک کہ اس نے اپنے پاؤں رسول اللہ ﷺ کے سىنہ مبارک پر رکھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرماىا ’’ اِفْتَحْ فَاکَ‘‘ اپنا منہ کھولو اس نے منہ کھول لىا تو آپ نے اسے بوسہ دىا پھر ىہ دعا کى ’’اَللّٰھُمَّ اَحِبْہْ فَاِنِّى اُحِبُّہُ‘‘ اے اللہ ! اسے اپنا پىارا بنا لے کىونکہ مجھے ىہ بڑا محبوب ہے۔
(الادب المفرد للبخارى باب الانبساط الى الناس)
عبداللہ بن شداد بن الھاد اپنے والد کے حوالہ سے بىان کرتے ہىں کہ رسول اللہ ﷺ نماز عشاء ظہر ىا عصر پڑھانے کے لئے آئے تو آپ اپنے بچوں حسن ىا حسىن مىں سے کسى کو اٹھائے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھانے کے لئے آگے بڑھے تو بچے کو اپنے دائىں پاؤں کے پاس بٹھا دىا پھر رسول اللہ ﷺ نے سجدہ کىا اور اس کو لمبا کر دىا۔ مىرے والد کہتے ہىں کہ لوگوں مىں سے مَىں نے سر اٹھا کر دىکھا تو کىا دىکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ تو سجدہ مىں ہىں اور بچہ آپ کى پىٹھ پر سوار ہے۔ پھر مىں واپس سجدہ مىں چلا گىا۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھا کر سلام پھىرا تو لوگوں نے درىافت کىا ٗ ىا رسول اللہ! آپ نے اپنى اس نماز مىں اىسا (لمبا) سجدہ کىا ہے جو عموماً آپ نہىں کرتے۔ کىا کسى امر کا آپ کو حکم دىاگىا ىا آپ پر وحى نازل ہو رہى تھى۔ آپ نے فرماىا ىہ دونوں باتىں نہ تھىں بلکہ مىرا بىٹا مجھ پر سوار ہو گىا تھا اور مىں نے ناپسند کىا کہ اس کى خوشى پورى کرنے سے پہلے مىں جلدى سے سجدہ سے اٹھ جاؤں۔
(المستدرک للحاکم ٗ کتاب معرفۃ الصحابۃ رکوب الحسن والحسىن على عاتقىہ ؐ)
حضرت اسامہ بن زىد ؓ بىان کرتے ہىں کہ رسول اللہ ﷺ مجھے پکڑ کر اپنے اىک زانو پر بٹھا لىتے اور دوسرے پر حسن کو۔ پھر ہم دونوں کو اپنے سىنے سے چمٹا لىتے اور فرماتے ’’اَللّٰھُمَّ ارْحَمْھُمَا فَاِنِّى اَرْحَمُھُمَا‘‘ اے اللہ ان دونوں پر رحم فرمانا۔ مىں ان دونوں سے شفقت رکھتا ہوں۔
(بخارى ٗ کتاب الادب ٗ باب وضع الصبى على الفخذ)
خدا کى ان نعماء سے بىزار احباب کے لىے جائے تأسف!
سہىل اپنے والد سے رواىت کرتے ہىں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرماىا۔ اللہ تبارک وتعالىٰ کے کچھ بندے اىسے بھى ہىں جن سے قىامت کے دن اللہ نہ بات کرے گا نہ ان کو پاک ٹھہرائے گا اور نہ ان کى طرف دىکھے گا۔
حضورؐ سے درىافت کىا گىا کہ ىا رسول اللہ وہ کون لوگ ہىں۔ حضورؐ نے فرماىا اىسا شخص جو اپنے والدىن سے بىزار ہو اور ان سے بے رغبتى رکھتا ہو اور اىسا شخص جو اپنى اولاد سے بىزار ہو۔ اور اىسا شخص جسے اس کى قوم نے نوازا تو اس نے ان کى نوازشات کى ناقدرى کى اور ان سے بىزارى کا اظہار کىا۔
(مسند احمد بن حنبل ٗ مسند المکىىن حدىث معاذ بن انس ؓ)
(رحمت اللہ بندیشہ۔استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)