• 19 اپریل, 2024

’’ربوہ ربوہ اى اے‘‘

الفضل آن لائن کے اىڈىٹر محترم  کا مضمون ’’ربوہ ربوہ اى اے‘‘ پڑھ کر اس بستى مىں گزرے شب و روز کى ىادىں تازہ ہو گئىں۔ موصوف نے اعلىٰ پىرائے مىں ربوہ کى تارىخ بىان کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالىٰ کے ان بے شمار افضال کا ذکر کىا ہےجو اس شہر کے باسىوں کو حضرت ابراہىم ؑکى دعاؤں کے مطابق عطا ہوئے۔

ربوہ کى چھوٹى سى سادہ بستى نے اس کے مکىنوں اور ہر نووارد کوکھلے دل  کے ساتھ اپنى بانہوں مىں سمىٹا اور انہىں امن و سکون کى زندگى دىتے ہوئے دىنى اور دنىاوى تعلىم کے اعلىٰ مرتبہ تک پہنچا دىا کہ بڑے بڑے شہر اس کا مقابلہ نہىں کر سکتے۔ الحمد للّٰہ۔

اس بستى کى بنأ تقدىر الہىٰ کے مطابق تمام زمىنى اسباب  و سہولىات کے بغىر اىک بنجر بے آب وگىاہ زمىن پرصرف  چند مہاجرىن کے ہاتھوں اللہ کے توکل اور ابراہىمى دعاؤں پر رکھى گئى۔ مکہ معظمہ کى عظىم الشان بستى کے تاجدار اعظم حضرت محمدﷺ کے مسىح و مہدى وقت کے مصلح موعود حضرت مرزا بشىرالدىن محمود احمد خلىفة المسىح الثانىؓ نےاپنى عظىم قىادت اور شبانہ روز دعاؤں کے پانى سے اللہ کے بے شمار فضلوں کے ساتھ اس بستى کو سىنچا۔ ربوہ، حضرت مسىح موعودؑ کى صداقت کا خود اىک منہ بولتا ثبوت پىش کرتا ہے۔

گہما گہمى کى مشىنى زندگى سے بھرے پُر شہروں کے بر عکس ربوہ  کى خاموش پر سکون فضا، دىنى و دىناوى علم دوست ماحول ،مساجد،اس کے پہاڑ اور سب سے بڑھ کر خلىفة المسىح کا مسکن ہونے کى وجہ سے ہمىشہ سےمىرے دل کو بھاتا تھا۔ دل کے اندر اىک چھپى ہوئى خواہش رہتى کہ کاش اللہ مىاں مجھے بھى اس بستى کى درسگاہوں مىں تعلىم حاصل کرنے اور بزرگان جماعت کى صحبت عطاکرے۔ اپنے آبائى شہر کھارىاں سے جلسوں اور اجتماعات پر کبھى پسنجر ٹرىن اور کبھى رىل گاڑى پر ربوہ آنا اور بہت سى خوبصورت ىادوں کو سمىٹ کر آئندہ سال آنے کى امىدپر رخصت ہونا کبھى نہىں بھولتا۔ بچپن کى ىادوں مىں جلسوں کے موقعوں پر عزىزو اقارب سے مىل ملاقات کے علاوہ  امى جان مرحومہ کے ساتھ افراد خاندان حضرت مسىح موعودؑ کے گھروں مىں جا کر ملنا بہت اہم ہوتا تھا۔ اسى طرح  چھوٹى موٹى خرىدارى کے بہانے اپنے پسندىدہ گول بازار چکر لگانا اور وہاں کى مشہور آئس کرىم اور شامى کباب کے مزے اڑانا سال بھر کى عىاشى کى انتہا ہوتى تھى۔

اللہ تعالىٰ نے ہمارے دل کى خاموش صدائىں سنىں اور مىٹرک کے بعد 1974ء کے بعد کےحالات کے تقاضوں کے تحت گھر والوں نے ىہ فىصلہ کىا کہ ان حالات مىں جامعہ نصرت ربوہ ہى مىرى مزىد تعلىم کے لىے موزوں ترىن درسگاہ ہو سکتى ہے۔ دلى مراد بھر آنے کى خوشى مىں سب سے پہلے کالا برقعہ (جو کہ ربوہ کى خواتىن کا طُرہّ امتىاز تھا) سلواىا گىا اور مزىد ضرورى انتظامات کے بڑے فخر سے جامعہ نصرت ربوہ  مىں داخلہ لے کرمتصل ہوسٹل مىں رہائش پذىر ہو گئے۔ ہمارے اباجان چوہدرى بشىر احمد صاحب مرحوم نے حضرت مىاں مبارک احمد صاحب کا نام ان کى اجازت سےگارڈىن کى حثىت سےلکھوا دىا۔

ربوہ مىں گزرے چند سالوں نے مىرى دىنى اور دنىاوى  اور اخلاقى تعلىم  مىں اہم کردار ادا کىا۔ علمى، عملى اور اخلاقى لحاظ سے جو علم  جامعہ نصرت کے باوقار اساتذہ نے ہمىں دىا کسى اور شہر کى کوئى درسگاہ اس کا مقابلہ نہىں کر سکتى تھى۔ اس زمانے مىں ہمارے جامعہ نصرت مىں بے مثال خواتىن پروفىسرز مسز رضىہ درد، مس نعىمہ سلہرى، مس احسن، مس صادقہ ظفر، مس امتہ الحکىم عائشہ، مس انجم اسى طرح دىگر اور قابل  اساتذہ بھى تھىں۔ کالج کى پرنسپل محترمہ مسز فرخندہ شاہ (اللہ تعالىٰ ان کے درجات بلند کرے) اور ان کے بعد مسز بشرى  بشىر مرحومہ تھىں کہ جو اپنى ذات مىں علم عمل کا بلند چراغ  تھىں۔ الحمدللّٰہ علىٰ ذٰلک۔ اللہ تعالىٰ ان سب اساتذہ پر اپنى رحمت اور فضلوں کى بارشىں برسائے۔ آمىن

حضرت آپا جان مرىم صدىقہ مرحومہ (المعروف چھوٹى آپا جان) اور حضرت مہر آپاجان مرحومہ کا ورود ہمارے کالج اور ہوسٹل کى تمام تقرىبات مىں ہوتا اور ان کى اقتدأ مىں نمازىں ادا کى جاتىں پھر خوبصورت ارشادات اور نصائح سے لطف اندوز ہوتےجو کہ ذہن کے پردے پہ آج بھى نقش ہىں۔ ىہ دونوں قابل احترام ہستىاں بہت نادر  اور پر شفقت وجود تھىں۔ اللہ تعالىٰ ان پىارى ہستىوں کے درجات بے شمار بلند کرتا چلا جائے، آمىن۔ کئى دفعہ ہم ہوسٹل کى لڑکىاں حضرت چھوٹى آپاجان کى رہائش گاہ پر بغرض ملا قات و دعا حاضر ہوتىں تو بہت خوشى کا اظہار فرماتىں۔ بے حد مہمان نوازى اور دل جوئى کرتىں کہ بچىاں دوسرے شہروں سے تعلىم کى غرض سے اپنے ماں باپ سے جدا ہو کر آئىں ہىں اس  لىے فردا ً فردا ً پاس بٹھا کر حال احوال درىافت فرماتىں۔ اسى طرح حضرت مىاں مبارک احمد مرحوم اوران کى بىگم محترمہ آپا طىبہ بىگم مرحومہ کى شفقت دل و دماغ کے پردے پرانمٹ نقوش ثبت کر گئى۔ کئى بار حضرت مىاں صاحب مرحوم خادمہ کے ہاتھ چٹ دے کر ہوسٹل کى انچارج وارڈن محترمہ آپا نعىمہ مرحومہ کے پاس بھجوا دىتے کہ ان بچىوں کو گارڈىن ہونے کى حىثىت سے گھر پر  بلانا ہے فلاں دن اور وقت بھجوا دىں۔ اس طرح گھر بلا کر محترم مىاں صاحب مرحوم اور آپا طىبہ صاحبہ مرحومہ خوب خاطر مدارت کرتے۔ ان کے پر لطف ڈائىنگ ٹىبل کے پکوان  ابھى تک ىاد آتے ہىں۔ ان عظىم پر شفقت وجودوں پر اللہ تعالىٰ جنت مىں اپنے انوار کى بارشىں برساتا چلا جائے۔ آمىن

جمعۃ المبارک کا روز اپنى شان کے لحاظ سے اىک اعلىٰ درجہ رکھتا ہے لىکن ربوہ مىں پڑھےگئے جمعے  ىوں لگتا ہے اىک علىحدہ ہى فضا اور ماحول بنا دىتے تھے۔ خلىفۃ المسىح کى اقتدأ مىں خطبہ جمعہ سننا اور نماز ادا کرنا دل مىں اىک  خاص جوش اور ولولہ پىدا کر دىتا تھا۔ جمعہ کے روز خاص  اہتمام کے ساتھ اپنى وارڈن آپا نعىمہ صاحبہ کے ہمراہ تمام ہوسٹل کى لڑکىاں خوبصورت عظىم الشان مسجد اقصىٰ جاتىں۔ حضرت خلىفۃالمسىح الثالثؒ کى دل نشىن آواز مىں خطبہ سنتے اور حضور کى اقتدأ مىں نماز کى ادائىگى کى جاتى۔ الحمد اللّٰہ

ربوہ کی یادوں میں اگر ہمارے واجب الاحترام مولانا سلطان محمود انور مرحوم ان کی بیگم ہماری بہت عزیز خالہ جان محمودہ شوکت صاحبہ اور ان کے بچوں کا ذکر نہ کروں تو نا انصافی ہو گی۔ انہوں نے جامعہ نصرت ہوسٹل کے قیام کے دوران ہمارا اس قدر پیار سے خیال رکھا کہ دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔خالہ جان نے اکثر ویک اینڈ پر(ہمارے کزن ) اپنے بیٹے نعمان محمود کو بھجوا دینا کہ آپا کو جا کر لے آؤ پھر خالہ جان کے گھر سے واپس جانے کو ہی دل نہ کرنا۔ اس قدر بے تکلفی، اپنائیت کے ماحول میں کھانا پینا، رہنا ہوتا لگتا تھا کہ اپنے ہی گھر آگئے ہیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا۔ ہماری خالہ جان بے حد مہمان نواز، خوش اخلاق اور محبت بھری بے تکلف طبعیت کی مالک ہیں، انہوں نے کہنا کہ لڑکیو ! اپنا گھر سمجھو جو دل چاہتا ہے کھاؤ اور دل چاہتا ہے تو پکا بھی لو، ہم نے ہفتے بھر کے کپڑے دھونے، خالہ جان کے ہاتھ کے مزیدار کھانے کھانے۔ خالہ جان کے ساتھ اپنے پسندیدہ گول بازار جا کر ضروری خریداری کرنی اور کپڑے سلوانے کے لیےمشہور زمانہ ماڈرن ٹیلر کی دکان کے چکر لگانے۔ خالہ جان نے اگلے ہفتے واپس آنے کے وعدے پر نعمان بھائی کے ساتھ واپس ہوسٹل بھجوا دینا۔ اللہ تعالیٰ پیاری خالہ جان کو صحت کے ساتھ لمبی عمر عطأ کرے، اور ان کی اولاد کو اپنے فضلوں سے نوازے،آمین۔ان کے پیار بھرے احسان کبھی دل سے محو نہیں ہو سکتے۔

اللہ تعالیٰ اس شہر کے باسیوں کو اپنی حفاظت میں رکھے اور اپنے عظیم بزرگان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آنے والی نسلوں کے لیے اپنے کردار اور عمل سے نمونہ پیش کرتے ہوئے یادوں کے خوب صورت پھول چننے کی توفیق دے، آمین۔ دنیا کے تمام شہر، قصبے اور گاؤں اپنے درو دیوار اور زمین کے لحاظ سے کچھ حثیت نہیں رکھتے جب تک ان میں باعمل افراد اپنے کردار کی خوبصورتی سے گلی کوچوں کی تزئین کرنے والے نہ ہوں ربوہ اس کی ہمیشہ مثال پیش کرتا رہا ہے۔ اللہ کرے آئندہ بھی ایسا ہی ہو، آمین۔ واقعی ربوہ ربوہ ای اے اس کا کوئی مقابلہ نہیں۔ محترم ایڈیٹر صاحب کے مضمون کے رد عمل میں ایڈیٹر کی ڈاک میں ان کے مضمون پر تبصرہ لکھنے بیٹھی تو قلم ہی نہ رکا اور ربوہ کی بے شمار یادوں نے اپنے حصار میں لے لیا کہ خط طوالت اختیار کرتا چلا گیا ۔ان بہت سی انمول یادوں میں سے چند سپرد قلم کر دی ہیں۔ اب یہ خط ہے یا مضمون محترم ایڈیٹر صاحب ہی فیصلہ کر کے اخبار کی زینت بنا دیں تو مہربانی ہو گی۔ جزاک اللّٰہ

(ناصرہ احمد۔بریمپٹن، کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 12 نومبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ