خدا کی پھر عنایت ہے، سہارے الفضل کے ہیں
سبھی ملکوں میں پھیلے یہ شمارے الفضل کے ہیں
عجب مسحور کن کالم، عدو بھی اب تو کہتے ہیں
مخالف ہیں مگر عاشق تمہارے الفضل کے ہیں
ہر اک صفحے پہ اُلفت ہے، محبت ہے، عنایت ہے
ورق کتنے ہی نظروں سے گزارے الفضل کے ہیں
یہ بحر علم ہے اس کی تہوں تک کون جائے گا
زمانے نے ابھی دیکھے کنارے الفضل کے ہیں
بہت ہیرے، بہت موتی، بہت یاقوت لائے ہیں
سفینے ساحلوں پر جو اُتارے الفضل کے ہیں
چمکتے ہیں، دمکتے ہیں سبھی اپنے رسائل جو
تو گردش میں ہر اک لمحہ ستارے الفضل کے ہیں
دعا دل سے نکلتی ہے، جزائے خیر دے اُن کو!!
جو مصروف اشاعت ہیں، جو سارے الفضل کے ہیں
بہت ان تھک ادارت ہے، مسلسل اک اشاعت ہے
فراز !! اب بال و پر پھر سے سنوارے الفضل کے ہیں
(اطہر حفیظ فراز)