• 2 مئی, 2024

الفضل کی نعمت کو صدقہ و خیرات سمجھ کر لوگوں تک پھیلائیں

اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ
الفضل کی نعمت کو صدقہ و خیرات سمجھ کر لوگوں تک پھیلائیں

قرآن کریم کی سورۃ الضحیٰ آیت 12 کا ترجمہ مامور زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں فرمایا کہ:
’’ہر ایک نعمت جو خدا سے تجھے پہنچے اس کا ذکر لوگوں کے پاس کر۔‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد14 صفحہ365 – 366)

آپؑ ایک موقع پر اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’یاد رکھو کہ انسان کو چاہیے کہ ہر وقت اور ہر حالت میں دعا کا طالب رہے اور دوسرے اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ پرعمل کرے۔ خدا تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی تحدیث کرنی چاہیے اس سے خداتعالیٰ کی محبت بڑھتی ہے اور اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لیے ایک جوش پیدا ہوتا ہے۔ تحدیث کے یہی معنیٰ نہیں ہیں کہ انسان صرف زبان سے ذکر کرتا رہے بلکہ جسم پر بھی اس کا اثر ہونا چاہیے۔‘‘

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد8 صفحہ290-291 ایڈیشن 2016ء)

اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں پر اظہار تشکر کی تلقین و نصیحت قرآن واحادیث میں کثرت سے ملتی ہے جس کا ذکر خاکسا را پنے متعدد آرٹیکلز میں کرتا آیا ہے۔ لیکن زیر نظر عنوان آیت کریمہ اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ میں جہاں اظہار تشکر کی نصیحت فرمائی گئی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں، برکتوں کا ذکر زبان پر لا کر اپنے عمل سے اس کا اظہار بھی کرناہے جسے تحدیث نعمت کہتے یا بولتے ہیں۔

تحدیث نعمت کے ذکر سے محض اپنی بڑائی،اچھائی عیاں کرنا مقصود نہ ہو۔ ہمارے بزرگوں نے اپنے اوپر ہونے والے افضال الٰہی کا ذکر اپنی خود نوشت میں کر رکھا ہے۔ جیسے حضرت مولوی حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ نے اپنے حالات زندگی ’’مرقاۃ الیقین‘‘ میں قلم بند کروائے، حضرت مولانا غلام رسول راجیکیؓ نے ’’حیات قدسی‘‘ اورحضرت سر چوہدری محمد ظفر اللہ خانؓ نے ’’تحدیث نعمت‘‘ میں اپنے اوپر ہونے والے فضلوں، رحمتوں، برکتوں اور نعمتوں کا ذکرفرمایا ہے۔ جنہیں پڑھ کر آج بھی روح وجد میں آ جاتی ہے اور ان روح پرور ہستیوں کو اپنی جماعت کا حصہ دیکھ کر ا للہ تعالیٰ کا مزید شکر ادا کرنے کو دل کرتا ہے اور جس طرح یہ ’’صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا‘‘ کے مصداق ہوئے اور آپ تمام کی اسلام، احمدیت کی خاطر قربانیوں اور اطاعتِ رسولؐ کی اداؤں کو دیکھ کر دل عش عش کرتا ہے وہاں اس مبارک عشاق رسول کے گروہ میں اپنے آپ کو دیکھنے کے لئے دل مچلنے لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام بزرگوں کے درجات بلند کرتا رہے۔ آمین

آج ان جیسی مبارک ہستیوں اور جماعت کے مرحومین کو زندگی دلانے والا اخبار روز نامہ الفضل آن لائن اور بہت سے عناوین کو اپنے اندر سماتے ہوئے 13؍دسمبر 2022ء کو اپنے تین سال نہایت کا میابی کے ساتھ پورا کرتا ہوا اپنی سالگرہ منانے جارہا ہے۔ ابھی کل ہی کی بات معلوم ہوتی ہے جب ہمارے بہت ہی پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ برطانیہ 2019ء میں ایک ملاقات کے دوران خاکسار کو ہدایت فرمائی کہ اصل نام (یعنی الفضل) سے پرچہ جاری کر دیں۔ اس سے قبل پاکستان کے حالات کے پیش نظر الفضل کے متبادل کے طور پر ’’گلدستہ علم وادب‘‘ کے نام سے روزانہ پرچہ جاری تھا۔ چنانچہ ضروری و انتظامی امور طے پانے کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے موٴرخہ 13؍دسمبر 2019ء کو مسجد مبارک اسلام آباد ٹلفورڈسرے یوکے میں خطبہ جمعہ میں اخبار الفضل کا مختصر تعارف کرواتے ہوئے نماز جمعہ کے بعد اس کی ویب سائیٹ کا افتتاح فرمایا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’اس وقت میں ایک تو یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ روزنامہ الفضل کی ویب سائٹ انہوں نے شروع کی ہے اور اس کے بارے میں اعلان کروں گا ……الفضل کے 106 سال پورے ہونے پر لندن سے الفضل آن لائن ایڈیشن کا آغاز ہو رہا ہے اور یہ اخبار روزنامہ الفضل آج سے 106 سال پہلے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی اجازت اور دعاؤں کے ساتھ 18؍جون 1913ء کو شروع فرمایا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد کچھ عرصہ لاہور سے شائع ہوتا رہا۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ کی قیادت میں یہ ربوہ سے نکلنا شروع ہوا۔ اس قدیم اردو روزنامہ اخبار کا لندن سے الفضل آن لائن ایڈیشن کا مؤرخہ 13؍دسمبر 2019ء سے آغاز ہو رہا ہے۔ آج ان شاء اللّٰہ تعالیٰ آغاز ہو جائے گا جو بذریعہ انٹرنیٹ دنیا بھر میں ہر جگہ بڑی آسانی کے ساتھ دستیاب ہو گا۔ اس کی ویب سائٹ alfazlonline.org تیار ہو چکی ہے اور پہلا شمارہ بھی اس پر دستیاب ہے۔ یہاں ہماری آئی ٹی کی جو مرکزی ٹیم ہے انہوں نے اس کے لیے بڑا کام کیا ہے۔

اس میں الفضل کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے بہت کچھ موجود ہے جو ارشاد باری تعالیٰ کے عنوان کے تحت قرآن کریم کی آیات بھی آیا کریں گی اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت احادیث نبویؐ بھی ہوں گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے اقتباسات بھی ہوں گے۔ اسی طرح بعض احمدی مضمون نگاروں کے مضمون اور دوسرے جو اہم مضامین ہیں وہ بھی ہوں گے۔ نظمیں بھی احمدی شعراء کی ہوں گی۔ یہ اخبار ویب سائٹ کے علاوہ ٹوئٹر پر بھی موجود ہے اور اینڈرائڈ (Android) کا ایپ (app) بھی بن گیا ہے۔ (اب تو سمارٹ ایپ بھی ہے) یہ کیونکہ اب روزانہ شروع ہو گیا ہے تو سوشل میڈیا کے ان ذرائع سے بھی اردو پڑھنے والے احباب کو استفادہ کرنا چاہیے اور اسی طرح مضمون نگار اور شعراء حضرات بھی اس کے لیے اپنی قلمی معاونت کریں تا کہ اچھے اور تحقیقی مضامین بھی اس میں شائع ہوں۔ اس ویب سائٹ میں روزانہ کے شمارہ کی پی ڈی ایف کی شکل میں امیج فائل بھی موجود ہو گی جس کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ ڈاؤن لوڈ بھی کیا جا سکے گا جو پرنٹ کی شکل میں پڑھنا چاہیں وہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ بہرحال اس کا آج ان شاء اللّٰہ آغاز ہو جائے گا۔ اسی طرح پیر کے روز اس میں خطبہ جمعہ کا مکمل متن جو ہے وہ شائع کیا جائے گا اور تازہ خطبے کا خلاصہ بھی بیان ہو جائے گا۔ تو ان شاء اللّٰہ جمعے کے بعد اس کا افتتاح ہو جائے گا۔‘‘

یہ اخبار اس سے قبل قادیان، لاہور اور ربوہ میں پرنٹ ہوتا ہوا اپنی 106 بہاریں دیکھتے ہوئے چار سالوں سے حکومتی پابندیوں کا سامنا کر رہا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے پرنٹ میڈیا سے اسے آزادی دلوا کر آن لائن جاری فرمایا اوریوں پاکستان میں نام نہاد مولویوں کے ظالمانہ چنگل سے رہائی پا کر یہ پیارا اخبار آسمانی فضاؤں کے سپرد ہوا۔ 2016ء میں جب نام نہاد مولویوں کی شہ پر حکومت پنجاب نے اخبار کی اشاعت پر پابندی لگائی تو اس وقت 9300 کی تعداد میں پرنٹ ہوکر تقسیم ہو تا تھا اور پاکستان سے باہر مطالعہ کرنے والوں کی تعداد بہت کم تھی مگران 3 سالوں کے قلیل عرصہ میں دنیا کے کونے کونے میں 5 لاکھ سے زائد لوگ اس کا مطالعہ کررہے ہیں۔ 2016ء میں 9300 کی تعداد میں اشاعت کے برابراب صرف غیر از جماعت اتنی تعداد میں اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہی وہ ایمان افروز مضمون ہے جس نے آج اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ کو عنوان بنا کر اللہ کے حضور ہدیہ شکر اور اس کے بندوں کا شکریہ ادا کرنے کا ارادہ باندھا ہے کیونکہ قولِ رسولؐ ہے مَنْ لَّايَشْكُرُالنَّاسَ لَايَشْكُرُاللّٰهَ کہ جس نے اللہ کے بندوں کا شکریہ ادا نہ کیا اس نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا۔

ہرنئی چیز آہستہ آہستہ اپنی شناخت بناتی ہے اور اپنا مقام پاتی ہے۔ ہم اپنے باغیچوں میں پھولوں کی پنیریوں اور پھر ان کی نشو ونما دیکھتے رہتے ہیں۔ آغاز میں تو ایک ہی ڈنٹھل نظر آتا ہے (جسے پودوں اور درختوں میں ہم تنا بولتے ہیں) وہ زمین سے باہر آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور زمین کے اندر اس کی جڑ اپنی جگہیں بنا کر مضبوط بھی ہو رہی ہوتی ہے اور پھیلتی بھی ہے جبکہ زمین سے باہر اس کا ننھا مناسر آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اورکچھ وقت کے بعد شاخیں نکلتی ہیں پھر ان شاخوں پر آگے مزید شاخیں نکل آتی ہیں جن پر کو نپلیں اور پھول لگنے شروع ہوتے ہیں۔ نشوونما پانے کا یہ Process پھولوں کے پودوں میں اچھا خاصا وقت لے رہا ہوتا ہے۔ حتی کہ کونپل بن کر کھلنے کا Process بھی خاصا طویل ہوتا ہے۔ یہی کیفیت دنیا میں بنائی جانے والی تنظیموں، پارٹیوں اور جماعتوں کی تشکیل میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھتی اور عوام میں اپنی جگہ بناتی اور مقبولیت پاتی ہیں۔ مگر جو روحانی جماعتیں اللہ کی ایماء، اس کے اشارے اور اس کی مدد سے انبیاء یا اس کے فرستادے بناتے ہیں وہ باوجود مخالفتوں کے جلد جلد بڑھتی دنیا میں پھیل جاتی اور اپنا لوہا منواتی ہیں۔ آج کے دور میں جماعت احمدیہ اس کی ایک روشن مثال ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور سے ہی جماعت کو مخالفتوں کا سامنا رہا اور آہستہ آہستہ اس مخالفت میں ملکوں کی انٹری ہوئی اور اس جماعت کا نام و نشان مٹانے کے لیے سر توڑ کوششیں کی گئیں۔ فرعون اور ہامان نے پابندیوں کے جال بچھائے۔ مگر اللہ تعالیٰ کا لگایا ہوا یہ پودا 133 سال کے قلیل عرصہ میں 220 سے زائد ممالک میں اپنی تناور شاخیں قائم کر چکا ہے۔ اس کی تشہیر کا کام تو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لیا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں جبکہ رسل ورسائل اور ابلاغ عامہ نہ ہونے کے برابر تھے۔ آپؑ کا پیغام برطانیہ، امریکہ اور افریقہ کے بعض ممالک میں نہ صرف پہنچ چکا تھا بلکہ وہاں کے باشندوں سے خط و کتابت کا بھی آغاز ہو گیا تھا اور ایک خاتون Miss Rose نے امریکہ سے آپؑ کو پھولوں کی پتیاں بھی بطور تحفہ بھجوائی تھیں۔

یہ تو جماعت کی من حیث الجماعت ترقی کا ایک مختصر نقشہ پیش کیا ہے۔ اگر اس کی ان فروعات کو دیکھا جائے جو حضرت مسیح موعودؑ اور آپؑ کے خلفاء کی طرف سے وقتاً فوقتاً جاری ہوتی رہیں تو وہ بھی چند سالوں اور دہائیوں میں آسمانوں کی بلندیوں کو چھونے لگیں۔ ان میں سے ایک مثال ہمارا ایم ٹی اے ہےجو تین دہائیوں میں دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا چکا ہے جس کے غیر بھی معترف ہیں۔ ان میں سے ایک الفضل آن لائن ہے۔ جس کی خاطر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے خاکسار آج یہ اداریہ لکھ رہا ہے۔ جیسا کہ میں اوپرلکھ آیا ہوں کہ 2016ء کے یہی دن تھے جب اسے پابندی کا سامنا کرنا پڑا اور سالانہ نمبر پرنٹ ہوکر دفتر میں ہی دھرے کا دھرا رہ گیا۔ نام نہاد مولویوں کا اس حد تک زور تھا کہ کوئی حکومتی کارندہ حتی کہ کوئی جج بھی اس کیس میں جماعت کی طرف سے دائر کردہ اپیل سننے کو تیار نہ تھا اور تاریخوں پر تاریخیں ڈال کر ٹال مٹول سے کام لیا جاتا رہا اور جب ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسے آن لائن جاری فرمایا تو تین سال، جو صرف 36 ماہ، 156 ہفتے، 1095دن، 26280 گھنٹے بنتے ہیں میں اس کو پڑھنے والے، اس سے محبت رکھنے والے، اس سےعشق کرنے والے اور محبین کی تعداداپنے دامن میں ہاف ملین سے زائد سموئے بانی الفضل حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے درج ذیل دعائیہ الفاظ کی تکمیل کی طرف کوشاں ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں:
’’اے میرے مولیٰ! اس مُشتِ خاک نے ایک کام شروع کیا ہے اس میں برکت دے اور اسے کامیاب کر۔ میں اندھیروں میں ہوں تو آپ ہی رستہ دکھا۔ لوگوں کے دلوں میں الہام کر کہ وہ الفضل سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے فیض لاکھوں نہیں کروڑوں پر وسیع کر اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے اسے مفید بنا۔‘‘ آمین

(الفضل 18؍جون 1913ء)

لاریب اس غیر معمولی ترقی میں اللہ تعالیٰ کا فضل تو شامل حال ہے ہی اور رہا بھی اور ان شاء اللّٰہ رہے گا بھی۔ کیونکہ حضرت مصلح موعودؓ سے متعلقہ ’’پیشگوئی مصلح موعود‘‘ کی علامات میں سے ایک یہ تھی کہ:
’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا‘‘

آج یہی فضل ’’الفضل آن لائن‘‘ کو دنیاوی حدود سے نکال کر آسمانی حدود میں لے گیا ہے۔ ہم الفضل کی اس تاریخ ساز ترقی پر اپنے اللہ تعالیٰ کے حضور اَلحَمْدُللِّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن کا ورد کرتے ہیں۔

ii۔ دوسرے نمبر پر اس تعداد تک پہنچانے میں ہمارے پیارے خلیفہ کی دعائیں، خاص توجہ شامل حال ہے جن کی امی جان کی مالی قربانی اس کی اساس میں بنیاد مرصوص کی طرح موجود ہے۔ اس تاریخی موقع پر ہم درددل سے حضور انور کے لئے دعا کرتے ہیں۔

اَللّٰھُمَّ اَیِّدْ اِمَامَنَا حضرت مرزا مسرور احمد بِرُوْحِ الْقُدُس وَبَارِکْ لَنَا فِیْ عُمُرِہٖ وَاَمْرِہٖ

iii۔ تیسرے نمبر پر الفضل کے لاکھوں کی تعداد میں دنیا بھر کے قارئین ہیں جن کی دعاؤں کو دربار الٰہی میں شرف قبولیت بخشا گیا اور ان قارئین کی طرف سے ہزاروں کی تعدار میں روزانہ جب یہ پیارا الفضل تقسیم ہوتا رہا اور اتنی کثرت سے دنیا بھر میں پھیلا کہ احمدی احباب و خواتین اور نوجوانوں کے Gadgets میں نظر آنے لگا تو مجھے وہ کہاوت یاد آگئی جب ایک بادشاہ نےایک بوڑھے شخص کو پھلدار درخت لگاتے دیکھا تو دریافت کیا کہ اس ادھیڑ عمر میں تم یہ درخت لگا رہے ہو کب اس کا پھل کھاؤ گے؟ بزرگ نے بادشاہ کو جواب دیا کہ بادشاہ سلامت !ہمارے بزرگوں نے پھلدار درخت لگائے اور ہم اسے کھا رہے ہیں۔ اب ہم لگائیں گے تو ہماری نسلیں ان سے فائدہ اٹھائیں گی۔ بادشاہ، بزرگ کی اس بات پر بہت خوش ہوا اس نے اپنے پاس کھڑے وزیر سے اشرفیوں سے بھری ایک تھیلی لے کر اس بزرگ کو بطور انعام کے دی۔ بزرگ فوراً بولا کہ بادشاہ سلامت! آپ تو ا بھی کہہ رہے تھے کہ کب کھاؤ گے اس درخت کا پھل۔ میں نے تو ابھی پھل کھا لیا ہے۔ بادشاہ کو بزرگ کی یہ بات بھی پسند آئی۔ اس نے ایک اور تھیلی بطور انعام بزرگ کو تھما دی۔ بزرگ بولا۔ بادشاہ سلامت! عمومی طور پر پھل دار درخت سال میں ایک دفعہ ہی پھل لاتا ہے۔ اس درخت نے تو سال میں دو بار پھل دے دیا۔ بادشاہ نے جب بزرگ کی اس بات پر بھی خوش ہوکر تیسری تھیلی دی تو وزیر بادشاہ سے یوں گویا ہوا کہ بادشاہ سلامت! یہاں سے چلتے ہیں یہ بزرگ تو ہماری تمام تھیلیاں لے لے گا۔

مگر میرا خدا، ہاں الفضل کے تمام قارئین کا مشترکہ خدا جس کا ذاتی نام اللہ ہے اور 104 اس کے صفاتی نام ہیں جن میں سے اکثر اللہ تعالیٰ کی دیالو صفت کو اُجاگر کرتے ہیں دنیوی بادشاہ کی طرح ہرگز ہمیں نہیں کہے گا کہ چلیں! یہ تو سارا مال ومتاع لوٹ لے گا بلکہ وہ خدا رحمان صفت کے تحت خود بھی بغیر مانگے انعامات سے نوازتا ہے اور رحیم صفت کے تحت انسان کے مانگنے پر اس کواس کے مانگنے سے بہت بڑھ کربے انتہا دیتاہے اور اپنے بندوں کی پیاری اداؤں کو دیکھتے ہوئے دیتا چلا جاتا ہے اور نہ وہ تھکتا ہے، نہ وہ اکتاتا ہے اور نہ اس کے لازوال خزانوں میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے۔ ہم اپنے اس دیالو خدائے عظیم سے یہ تمنا بھی رکھتے ہیں اوردعا بھی کرتے ہیں کہ وہ لازماًہماری مساعی اور ہماری التجاؤں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ہمارے اس ہدف کو جو ایک بزرگ خلیفہ کی زبان سے نکلا ضرور پورا کرے گا۔ ان شاء اللّٰہ

iv۔ میں اس اظہار تشکر میں اپنے پاکستانی بھائیوں کا ذکر نہ کروں تو شکریہ کا حق ادا نہیں ہوگا۔ جن کو اس روحانی نہر کی بندش کا سامنا رہا اور اب اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کے صلہ اس بند کو توڑا اور اتنی تیزی کے ساتھ یہ پانی دنیا میں پھیلا کہ اس نے دنیا بھر کی بنجر زمینوں کو بھی سیراب کر دیا اور اب ان مولویوں کی حدبست سے یہ باہر ہے کہ وہ پابندیاں لگوا سکیں۔

v۔ پانچویں نمبر پر وہ تمام قلمکار اور شعراء حضرات کے ہم ممنون ہیں جن کے زرخیز ذہنوں میں ایک تصویر ابھری اورقلم کے رنگ میں ڈھل کر اخبار الفضل آن لائن کی زینت بنی۔ جس کے عکس اور نقش ونگار قارئین کے دلوں اور دماغوں میں قائم ہوکر نہ صرف جگہ بنائی بلکہ ان تصاویر کو پھیلانے کا موجب بھی بنے۔ فجزاھم اللّٰہ تعالیٰ

vi اور آخر پر الفضل ٹیم کے ممبران میرے بازو، دنیا بھر میں پھیلے نمائندگان الفضل، پروف و کمپوز کرنے والی ممبرات وممبران اور انگریزی زبان میں آنے والی رپورٹس کو اردو قارئین کے لیے ترجمہ کرنے والے احباب وخواتین نیز پس پردہ رہ کر تعاون کرنے والے اور بہتری کے لئے مشورے دینے والے تمام پیاروں کو دعاؤں کے ساتھ جزاهم اللّٰه احسن الجزاء في الدنيا والاخرۃ کے مبارک الفاظ میں ہدیہ تشکر ادا کرنا ہے جن کی چھوٹی سے چھوٹی نگاہ اور بڑی سے بڑی خدمت الفضل کو ایک حسین و خوبصورت گلدستہ کی شکل دینے میں ممد و معاون ثابت ہوتی رہی ہے۔

بانی الفضل حضرت مصلح موعودؓ نے اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ کی جو تفسیر سورۃ الضحیٰ میں بیان فرمائی۔ اس میں چار دفعہ آپ نے تحدیث بالنعمت کے ذکر میں صرف خود شکر ادا کرنا مراد نہیں لیا بلکہ ان نعمتوں کا لوگوں کے سامنے اظہار کرنا بھی ضروری قرار دیا ہے۔ چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں:
’’تحدیث نعمت دو طرح ہوتی ہے۔ ایک اس طرح کہ انسان علیحدگی میں اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا کرے اور اس کے پیہم فضلوں کو دیکھ کر سجدات تشکر بجالائے اور زبان کو اس کی حمد سے تررکھے۔ دوسرا طریق تحدیث نعمت کا یہ ہوتا ہے کہ لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ذکر کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے کتنا بڑافضل کیا۔ فرماتا ہے ہم نے جو نعمتیں تجھے عطا کی ہیں ان کا خود بھی شکر ادا کرو اور اپنے رب کی ان نعمتوں کا لوگوں میں بھی خوب چرچا کرو۔ یا خدا تعالیٰ نے جو نعمتیں تجھے دی ہیں ان سے خود بھی فائدہ اٹھاؤ اور اپنے جسم پر ان کے آثار کو ظاہر کرو اور کچھ حصہ صدقہ و خیرات کے طور پر لوگوں میں بھی تقسیم کرو۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد9 صفحہ109-110)

پھر آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں:
’’ہم نے تجھ پر جو احسانات کئے ہیں ان کا تو شکر ادا کر۔ ہماری نعمتوں سے خودبھی فائدہ اٹھا اور لوگوں میں بھی ان نعماء کو تقسیم کر۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد9 صفحہ110)

صدقہ و خیرات کے طور پر تقسیم کرو

الفضل بھی ایک نعمت خداوندی ہے۔ بانی الفضل کے اس ارشاد کے مطابق اس نعمت کی تقسیم صدقہ و خیرات سے کم نہیں جو سراسر ثواب کاموجب ہے اور اس تحدیث نعمت کے اظہار کی تلقین سے قبل فرمایا کہ ہم نے تجھے کثیر العیال پا یا تو غنی کر دیا۔ آج الفضل کا روحانی خاندان بھی کثیر العیال ہو گیا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ علیٰ ذالک۔ پس لازم ہے ہم پر کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر بجالائیں اور اس نعمت کوزیادہ سے زیادہ دنیا میں پھیلائیں۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :
’’سو ڈھنڈورا دو اور خوب دو۔ تبلیغ کرو اور خوب کرو۔ خدا کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچاؤ اور خوب پہنچاؤ۔ سوتی دنیا کو جگاؤ اور خوب جگاؤ اور جو خزانے خدانے تمہیں عطا کئے ہیں انہیں بلا دریغ لوگوں میں تقسیم کردو کہ یہی مقصد ہے جس کے لئے تمہیں دنیا میں کھڑا کیا گیا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد9 صفحہ111)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ آیت اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ کے تحت فٹ نوٹ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’آنحضرتﷺ کی احادیث سے بکثرت پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو احسانات اور دنیاوی فضل آپؐ پر نازل فرمائے تھے ان کو بنی نوع انسان سے چھپایا نہیں بلکہ کھل کر ظاہر کیا۔ جو روحانی فضل آپؐ پر نازل فرمائے گئے اگر اللہ کا آپ کو یہ حکم نہ ہوتا تو آپؐ اپنی ذات میں ہی پوشیدہ رکھتے۔ جو دنیاوی فضل آپ پر فرمائے گئے اس کا بیان اس لئے ضروری تھا کہ ضرورت مند اس کے ذکر سے آپؐ کی طرف لپکیں اور ان کی ضرورتیں پوری ہوسکیں اور ان سے جو احسان کا معاملہ ہوگا وہ ایسا ہی ہے جیسے اپنے اہل وعیال سے کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں انسان کوئی شکریہ نہیں چاہتا۔‘‘

(قرآن کریم اردوترجمہ مع سورتوں کا تعارف اور مختصر تشریحی نوٹس صفحہ1184)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام ’’الفضل‘‘ فضل ہی ثابت ہوا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 دسمبر 2022