اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الفضل آن لائن لندن کے تین سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اس شہرہ آفاق اخبار کا اجراء سیدنا حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آج ہی کے دن 13؍دسمبر 2019ء کو اپنے دست مبارک سے اجراء کرتے ہوئے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے جدید دور کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روزنامہ الفضل کے آن لائن ایڈیشن کا اجراء کیا جارہا ہے۔ یہ جماعت کا اہم اخبار ہے۔ حضرت امیرالمؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی دوربین نگاہوں نے جن کو اللہ تعالیٰ نے بڑی دور اندیشی اور غیر معمولی بصیرت اور بصارت عطا فرمائی ہوئی ہے، زمانہ اور وقت کی رفتار اور نبض کو محسوس کرتے ہوئے کہ یہ دور وہی دور ہے جس کے متعلق مخبر صادق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ ظہور مہدی کے وقت کی من جملہ علامات میں سے ایک علامت یہ ہوگی کہ اس زمانہ میں نشر و اشاعت کی کثرت ہوگی اور قرآن کریم میں بھی بڑے واضح الفاظ میں یہ پیشگوئی موجود ہے:
وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (التکویر: 11) اور جب صحیفے نشر کئے جائیں گے۔
نشر کا ایک ذریعہ اخبار بھی ہے۔ اس لئےایک اخبار کی ضرورت تھی جو اس پیشگوئی کو عملی طور پر پورا کرنے کے ساتھ ساتھ وقت کے اہم ترین تقاضوں اور درپیش دینی و دنیاوی مسائل کے حل کا بھی ازالہ کرسکے اور تشنگان روحانیت بھی سیراب ہوں۔ الفضل صرف ملکی سطح تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر دنیا کواپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ایساطوفانی اخبار ہےجو ملکوں کی سرحدوں کو عبور کر کے اپنی خوشبو بکھیر رہا ہے۔ ساری دنیا کواسلام کی روح پرور، امن وشانتی اور عافیت بخش سائےمیں لانے کے لئے ایک نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ نہ صرف احمدی دنیا بلکہ غیر احمدی و غیر مسلم دُنیا بھی اس سے فیض حاصل کر رہی ہے۔ احمدیہ جماعت کے ہر طبقہ کی یکساں طور پر تعلیم و تربیت کا فریضہ بھی کمال حسن خوبی سے سر انجام دے رہا ہے۔ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے تازہ بہ تازہ خطبات جمعہ، خطابات، دینی مصروفیات، مجالس عرفان، فقہی مسائل، غیر ملکی دوروں کی رپورٹیں، اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز، دنیا بھر کی احمدیہ جماعتوں کی تبلیغی، تربیتی و تنظیمی کارکردگی کی رپورٹیں اور حالات حاضرہ پر ادائے اور تبصرے اس اخبار میں پڑھنےکوملتے ہیں۔ عالمی سطح پر احمدیہ جماعتوں کے باہمی رابطوں میں بھی ایک اہم رول رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر مذہب اسلام اور بانی اسلام پر جو ناپاک حملےاور اعتراضات کی یلغار ہو رہی ہے اس کا احسن رنگ میں دفاع کرتے ہوئے دندان شکن جوابات دیتے ہوئے اسلام کی اصل روح اور اس کے حقیقی روشن چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے۔
اس اخبار کی ضرورت یوں بھی تھی جوقو میں اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو زندہ نہیں رکھتیں وہ ترقی کے منازل طے نہیں کر سکتیں۔ اس لئےاخبار کا سدا بہار جاری رہنا ضروری ہے جس کے ذریعے اسلاف کی قربانیوں اور کارناموں کا وقتاً فوقتاً تذکرہ ہوتا رہے۔ تاکہ ان واقعات کو پڑھ کر اپنےاندر ایک نیا جوش اور ایمانی جذبہ پیدا ہو۔ ’’گا ہے گاہے باز خواں ایں دفتر پارینہ راہ۔‘‘
بلا شبہ الفضل آن لائن آج کی ضرورت ہے اور خلافت خامسہ کےسنہری دور کا ایک عظیم کارنامہ ہے جس پر آئندہ آنے والی نسلیں بھی فخر کریں گی۔ اس اخبار کا پہلا شمارہ 13؍دسمبر 2019ء کو منظر عام پر آیا۔ پھر ایک بار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام عظیم الشان رنگ میں پورا ہوا:
’’دیکھو! میرے دوستو! اخبار شائع ہو گیا۔‘‘
(تذکرہ صفحہ 509)
لیکن اب یہ اخبار ملک ہند سے نہیں بلکہ تثلیث کے گڑھ براعظم یورپ کے مرکزی شہر لندن سے شائع ہو رہا ہے جو اپنی نظیر آپ ہے۔ مغربی ممالک کے مرکز سے اس اخبار کی اشاعت ایسے ہی ہے جیسے موسم خزاں میں بہار آگئی ہو۔ ہر طرف اس کی شعاعیں پھیل رہی ہیں اس کو سراہا جا رہا ہے۔ اس اخبار نے ایسے نئے قلم کار اور شعراء کو بھی متعارف کرایا ہے جن کے حوصلہ بلند ہیں۔ بہتر سے بہتر مزید سے مزید تر کی خواہش اُن میں پیدا ہو گئی ہے۔ ان کی تخلیقات کا الفضل میں شائع ہونا ان کے لئے ایک اعزاز ہے۔ بلا مذہب و ملت قارئین کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ غیر معمولی دلچسپی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ گویا اس اندھیری دنیا میں ہر روز ہدایت کا ایک چراغ جل رہا ہے۔ اس اخبار کی اشاعت میں کسی قدر تاخیر اور روک پیداہوجائے تو نبض ہستی کے رُک جانے سے کم نہیں۔ ہر پہلو سے اس کی خوبیاں اور خصوصیات تعارف کی محتاج نہیں۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ دلکش مصوری خطاطی، حسین وجمیل رنگوں کا امتزاج، عالمانہ مضامین، سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدید ترین تحقیقات سے آراستہ و پیراستہ ایک ایسا منفرد اخبار ہے جس کی ورق گردانی سےلہو میں گردش اور ذہن میں ترنگیں اُٹھنے لگتی ہیں۔ ہر چند کے قارئین کی دلچسپی اور دلجمعی برقرار رکھنے کے تمام تر موضوعات مؤثر انداز میں مہیا ہو رہے ہیں۔ دور جدید میں اردو ادب کو بالخصوص مذہبی اخبارات کو جو مسائل و مشکلات درپیش ہیں ان کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے سے آگے بڑھنا الفضل کا خاصہ رہا ہے مضامین و تحقیقات کی ترتیب و تزئین میں الفضل کو داد نہ دینا ادبی اور دینی حق تلفی ہوگی۔ تحقیقی مضامین کے باب میں ایسے ایسے نادر نکات اخبار کی زینت بنتے ہیں جن سے تحقیق کی نئی راہیں ہموار ہو رہی ہیں۔ تبصروں اور خطوط نگاری اور آراء میں ان کا تذکرہ نہ ہونا ان کی اہمیت کو کم نہیں کرتا بلکہ مسلم اور مستند ہیں۔ پھر حالات حاضرہ اور عوامی حقوق پر مبنی حق اطلاعات کے حوالہ سے اداریہ نگاری میں سیر حاصل بحث ہر عام و خاص، موافق و مخالف کے مفادات کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے جو کہ قابل ستائش ہے۔ جس کے لئےمدیر محترم ابو سعید صاحب قابل مبارکباد ہیں۔ جَزَاکُمُ اللّٰہُ تَعَالیٰ۔
روز اول ہی سے احمدیہ جماعت کی کاوشوں کا کھلے الفاظ میں اعتراف اور اقرار ہوتارہا ہے۔ حتی کے مخالفین احمدیت کو بھی برملا اس کا اظہار کرنا پڑا۔ آریہ سماج کا مشہور و معروف اخبار رقمطراز ہے:
’’ویسے تو اخبار ہر ایک انجمن اور سبھاکی طرف سے شائع ہوتے ہیں لیکن احمدیوں کے اخبار میں بہت سی خوبیاں ہوتی ہیں۔ اخبارات کے مضامین اور خبریں نہایت اچھی اور فائدہ مند ہوتی ہیں اور ان کو اس سلیقہ سےمرتب کیا جاتا ہےوہ ناظرین کےلئے نہایت مفید اور دلچسپ ہوجاتے ہیں۔‘‘
(اخبار تیج دہلی 25؍جولائی 1927ء)
الجزائر کی ایک عرب خاتون لکھتی ہیں:
’’میں بڑی خوشی کے ساتھ آپ کو بتاتی ہوں آپ جس طرح (اخبار) میں اسلام کے محاسن پیش کر رہے ہیں اس کی دن بدن قائل ہوتی جا رہی ہوں گویا میں بھی آپ میں سے ہی ایک ہوں۔ مجھے اس گھر کی تلاش تھی۔‘‘
بھارت میں حال ہی کے دنوں میں حجاب تنازعہ عروج پر تھا اور اب بھی ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ میں علماء اور دانشور وکلاء اسلامی تعلیمات اور قرآن کریم کی صحیح ترجمانی سے محروم رہے۔ اسلامی نظریہ کو صحیح رنگ میں عدلیہ کے سامنے نہیں رکھ سکے۔ بیانات کی روشنی میں عدالت نے فیصلہ سنایا کہ ’’حجاب اسلام کا ضروری حصہ نہیں۔‘‘
الفضل آن لائن لندن نے اس پر اداریہ لکھا۔ قرآن کریم، حدیث شریف اور معاشرہ سماج کے تقاضوں کی بنیاد پر ٹھوس اور مدلل مضامین شائع کئے۔ اس کی خوب تشہیر ہوئی اور پھیلا دیا گیا۔ تب ان کی آنکھیں کھلی اور ہوش میں آگئے۔ سپریم کورٹ میں اسلامی نقطہ نظر کو صحیح رنگ میں پیش کیا گیا۔ کئی روز کی میراتھن سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) کی دو رکنی بینچ نے اپنا علیحدہ علیحدہ فیصلہ سنایا۔ بینچ میں شامل جسٹس ہیمنت گُپتا نے حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ اور ریاستی حکومت کے حکم امتناع کو صحیح قرار دیتے ہوئے برقرار رکھا جبکہ جسٹس سودھانشو دھولیہ نےحجاب پر حکم امتناع کو غلط قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ گویا تسلیم کیا کہ یہ اسلام کا ضروری پارٹ ہے۔ سپریم کورٹ کے منقسم فیصلہ نےکوئی قطعی رائے قائم نہیں کی تاہم جسٹس سودھانشو دھولیہ کے تاثرات اور تبصرہ اہمیت کا حامل ہے۔
؎الفضل ترجمان ہے قوم وملت کا
الفضل اخبار کا چرچہ ہر جگہ ہے
الفضل جا رہا ہے ہر ملک و ہر شہر
الفضل دینِ خدا کا علمبردار ہے
(علامہ محمد عمرتماپوری۔ انڈیا)