حضرت مسیح موعودؑ کا مطالعہ اخبارات اور ایڈیٹر الحکم اور البدر کو ہدایات
نیز الفضل کے ذریعہ پاک تبدیلیوں کے چند نمونے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات اور نصائح یعنی ملفوظات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اپنے زمانہ کے حالات سے ممکنہ حد تک باخبر تھے اور اس کی وجہ اخبارات کا مطالعہ تھا۔ شہری آبادی سے دور قادیان جیسی جگہ پر رہنے والا شخص نہ صرف ہندوستان کے تفصیلی حالات جانتا تھا بلکہ اس کو یورپ اور امریکہ کے مذہبی حالات کے علاوہ ان کی سائنسی ترقیات کی بھی خبر تھی امریکہ میں ڈاکٹر ڈوئی سے متعلق مقابلہ اور اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں نہ صرف حضرت مسیح موعودؑ کے علم میں تھیں بلکہ آپ نے اپنی کتب میں ان کو درج کیا ہے یہ 32 اخبارات تھے۔ آپ کے بہت سے مضامین اور کئی کتب کا ایک حصہ ان اعتراضات کے جوابات پر مشتمل ہے جو آپ نے اخبارات میں پڑھے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی اخبار پڑھنے کی عادت
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب بیان فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعودؑ کو اخبار پڑھنے کی بھی عادت تھی۔ اپنی بعثت سے پہلے اخبار وکیل ہندوستان، سفیر ہندامرتسر، نور افشاں لدھیانہ، برادرہند لاہور، وزیر ہند سیالکوٹ، منشور محمدی بنگلور، ودیا پرکاش امرتسر، آفتاب پنجاب لاہور، ریاض ہند امرتسر اور اشاعة السنہ بٹالہ خرید کر پڑھا کرتے تھے۔ ان میں سے بعض اخبارات میں خود بھی مضامین لکھتے تھے۔ اخبار بینی کا مذاق آپ کو دائمی تھا۔ بعثت کے بعد مختلف زبانوں کے اخبارات قادیان میں آنے لگے۔ جو براہ راست غیرزبانوں کے اخبارات آپ کے پاس آتے تھے آپ ان کا ترجمہ کرا کر سنتے اور اگر ان میں کوئی مضمون اسلام کے خلاف ہوتا تواس کا جواب لکھوا کر شائع کرتے تھے اور جو خود پڑھ سکتے تھے وہ ضرور پڑھتے اور اخبار کے پڑھنے کے متعلق آپ کا معمول یہ تھا کہ تمام اخبار پڑھتے اور معمولی سے معمولی خبر بھی زیر نظر رہتی۔ آخری زمانہ میں اخبار عام کو یہ عزت حاصل تھی کہ آپ روزانہ اخبار عام کو خریدتے تھے اور جب تک اسے پڑھ نہ لیتے رومال میں باندھ رکھتے تھے اور بعض اوقات اخبار عام میں اپنا کوئی مضمون بھی بھیج دیتے تھے اخبار عام کی بے تعصبی اور معتدل پالیسی کو پسند فرماتے تھے۔
(سیرت مسیح موعودؑ صفحہ71)
حضرت مفتی محمد صادق ؓ فرماتے ہیں:
ایک دن میں قرآن شریف لے کر حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کا درس سننے کے واسطے اپنے کمرے کے دروازے سے نکل رہا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے مجھے بلایا اور فرمایا میری آنکھوں کو تکلیف ہے، آپ مجھے آج اخبار سنا دیں۔ حضور اخبار عام روزانہ باقاعدہ روزانہ منگوایا کرتے تھے اور پڑھتے تھے۔ اوپر صحن میں عاجز راقم حضرت کے سامنے بیٹھ گیا اور میرا لڑکا عبدالسلام اس وقت قریباً دو سال کا تھا۔ یہ بھی میرے پاس بیٹھا تھا اور جیسا کہ بچوں کی عادت ہے۔ بیٹھا ہوا ہلنے لگا اور ہوں ہوں کرنے لگا جیسا کچھ پڑھتا ہے میں نے اسے روکا کہ چپ بیٹھو۔ حضور نے فرمایا اسے مت روکو جو کرتا ہے کرنے دیں۔
(ذکر حبیب صفحہ87)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
میں نے تو حضرت مسیح موعودؑ کو دیکھا ہے آپ راتوں کو بھی کام کرتے اور دن کو بھی کام کرتے اور اخبارات کا باقاعدہ مطالعہ رکھتے۔ اسی تحریک (تحریک احرار 1934ء) کے دوران میں خود اکتوبر سے لے کر آج تک بارہ بجے سے پہلے کبھی نہیں سویا اور اخبار کا مطالعہ کرنا بھی نہیں چھوڑا۔
(خطبات محمود 1935ء جلد16 صفحہ36)
الحکم اور البدر کی خدمات
حضرت مسیح موعودؑ نے 20؍دسمبر 1902ء کو قادیان کے اخبارات الحکم اور البدر کی نسبت فرمایا۔
یہ بھی وقت پر کیا کام آتے ہیں الہامات وغیرہ جھٹ چھپ کر ان کے ذریعے سے شائع ہو جاتے ہیں ورنہ اگر کتابوں کی انتظار کی جاوے تو ایک ایک کتاب کو چھپتے بھی کتنی دیر لگ جاتی ہے اور اس قدر اشاعت بھی نہ ہوتی۔
(البدر 2؍جنوری 1903ء صفحہ74)
3جون 1905ء کو فرمایا۔ یہ اخبار ہمارے دو بازو ہیں الہامات کو فوراً ملکوں میں شائع کرتے اور گواہ بنتے ہیں۔
(بدر 8؍جون 1905ء صفحہ2، ملفوظات جلد4 صفحہ292)
اخبار بدر کا مطالعہ
حضرت مفتی محمد صادق ؓ ایڈیٹر بدر فرماتے ہیں:
اس اخبار (بدر) کو حضرت مسیح موعودؑ بغور پڑھا کرتے تھے اور اگر کچھ غلطی ہوتی تھی تو اصلاح کرا دیا کرتے تھے۔
(الفضل 21؍جولائی 1938ء صفحہ4)
نومبائعین کی فہرست
21؍اپریل 1903ء کو حضور نے فرمایا کہ اس سے پیشتر بیعت کرنے والوں کے نام اخباروں میں چھپا کرتے تھے مگر اب نظر نہیں آتے اور ان لوگوں نے اس التزام کو چھوڑ دیا ہے اگر ان کی اخباروں سے ہمارے سلسلہ کی اتنی بھی امداد نہ ہوئی تو پھر یہ کس کام کے۔ پھر تو صرف دنیا ہی دنیا ہے کہ اسی کے کمانے کے واسطے یہ سب کاروبار ہوا۔ اگرچہ یہ مشکل امر ہے کہ کاموں میں انسان کو اخلاص حاصل ہو اور محض خدا کی رضا کو مدنظر رکھ کر صرف دین کے واسطے ان کو کیا جاوے مگر تاہم اگر ملونی ہی ہو تو بھی کچھ حصہ دین کا مل ہی جاتا ہے اور بالکل دنیاداری کی حد سے وہ نکل جاتا ہے بیعت کے نام یکجا چھپے ہوئے ہونے سے اس سلسلہ کا ایک رعب اور ایک اثر ہوتا ہے۔ مخالف اور مکذبین کو دیکھ کرمعلوم ہوتا ہے کہ ان کی کوششوں کا کیا انجام ہے اور یہ ایک بڑا نشان الٰہی ہے۔ یہ ان لوگوں سے بڑی غلطی ہوئی ہے کہ اس کی اشاعت کو ترک کر دیا ہے اب تو بہ کریں اور آئندہ ایسا نہ کریں۔ ایک صفحہ پورا اخبار میں بیعت کے ناموں کے واسطے ہونا چاہئے۔ لکھتے لکھتے جو ان لوگوں نے بند کردیا۔ یہ ان کی سستی ہے۔ قاعدہ کی بات ہے کہ انسان سست ہوتا ہوتا بہت دور تک چلاجاتا ہے۔ اس لئے آئندہ اس کی اصلاح کریں یہ شیطانی وساوس ہوتے ہیں ہمیشہ ان کا خیال رکھنا چاہئے۔
(ضمیمہ البدر 24؍اپریل 1903ء صفحہ1)
اس پر ایڈیٹر بدر لکھتے ہیں: اس تقریر پر میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر کیا کہ اس سے پیشتر ہی یہ امر میری زیر نظر تھا کہ رجسٹر بیعت کنندگان کی اشد ضرورت ہے اور اس تقریر نے اس ارادہ کی اس طرح اصلاح کردی ہے کہ اشاعت بیعت کو اخبار کا ضمیمہ نہ رکھا جاوے کہ کم استطاعت احباب پر اس کی خریداری دو بھرہو۔ بلکہ اخبار کے مضمون کا ایک جزو اعظم قرار دے کر اس کے 8 صفحوں میں سے ایک صفحہ اس کو دیا جاوے اسی امر کی اطاعت کی نیت سے اس دفعہ یہ الگ شائع کیا جاتا ہے اور آئندہ اخبار کا صفحہ 8 اسمائے مبائعین کے واسطے ہو ا کرے گا۔
(ضمیمہ البدر 24؍اپریل 1903ء صفحہ1)
منظوم کلام کی اشاعت
حضرت مفتی محمد صادق ؓ فرماتے ہیں:
18؍اپریل 1903ء کو حضرت مسیح موعودؑ نے بعد نماز مغرب ایک معاملہ پر فرمایا کہ اخبار میں ایک حصہ نظم کا لگاتار ہونا چاہئے اور وہ ہمارے سلسلہ کے متعلق ہوا کرے۔
(ضمیمہ البدر 24؍اپریل 1903ء صفحہ1)
پرچوں کا تبادلہ جاری رکھنا چاہئے
مولوی ثناء اللہ صاحب کا رسالہ اہل حدیث کے تبادلہ میں قادیان سےریویو آف ریلیجنز اردو جاتا تھا۔ مینیجر ریویو نے اس خیال سے کہ یہاں اہل حدیث دوسرے دفتروں میں آتا رہتا ہے ضروری نہ سمجھا کہ اس کے ساتھ تبادلہ وہ بھی جاری رکھیں اس واسطے بند کر دیا تھا جس پر مولوی ثناء اللہ صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے نام ایک کارڈ لکھا کہ کیا یہ تجویز آپ کی منظوری سے ہوئی ہے اس پر حضور نے دریافت کیا کہ تبادلہ کیوں بند کیا گیا ہے؟
اور پھر فرمایا کہ ’’تبادلہ جاری رکھنے میں یہ فائدہ ہے کہ مولوی صاحب پر اتمام حجت ہوتا رہے گا اور شاید کوئی بندہٴ خدا ان کے دفتر میں اس کو پڑھ کر اس سے مستفید ہوجائے۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ270)
مرکزی اخبارات کو محتاط رہنے کی ہدایت
2؍نومبر 1902ء کو حضرت مسیح موعودؑ نے الحکم اور البدر کے ایڈیٹروں کو بلا کر تاکید فرمائی کہ وہ مضامین قلمبند کرنے میں ہمیشہ محتاط رہا کریں ایسا نہ ہو کہ غلطی سے کوئی بات غلط پیرایہ میں درج ہو جاوے یا کسی الہام کے الفاظ غلط شائع ہوں تو اس سے معترض لوگ دلیل پکڑیں اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایسے مضامین … دکھا لیا کریں اس میں آپ کو بھی فائدہ ہے اور تمام لوگ بھی غلطیوں سے بچتے ہیں۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ 478)
صدقہ جاریہ
ایڈیٹر البدر تحریر فرماتے ہیں:
پرچے سالانہ البدر کے خریدکر ان کم استطاعت احباب کو دیویں یا خاص طورپر البدر کی امداد فرماویں کیونکہ کارخانہ ابھی تک اس قابل نہیں ہے کہ صرف اپنے اخراجات کی آپ برداشت کرے۔ اسی غرض کی تکمیل کے لئے میں نے 9؍فروری 1904ء کی سیر میں حضرت مسیح موعودؑ سے یہ مسئلہ پوچھا کہ اگر کوئی اخبار کسی غریب شخص کے نام جاری کروا کر اس کا ثواب کسی متوفی کو پہنچایا جاوے تو پہنچتا ہے کہ نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ پہنچتا ہے بشرطیکہ وہ دینی اخبار ہو۔
(البدر 16؍فروری 1904ء صفحہ8)
اخبار کی قسمت جاگ اٹھی
مارچ 1905ء میں حضرت منشی محمد افضل خان صاحب ایڈیٹر البدر کی وفات ہوئی تو مالکان نے حضرت مفتی محمد صادق ؓ کو ایڈیٹر مقرر کیا اور اخبار کا نام بدر رکھا گیا۔ اس موقع پر حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کی طرف سے تہنیت کے اعلانات شائع ہوئے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے تحریر فرمایا: میں بڑی خوشی سے یہ چند سطریں تحریر کرتا ہوں کہ اگرچہ منشی محمد افضل مرحوم ایڈیٹر اخبار البدر قضائے الٰہی سے فوت ہوگئے ہیں۔ مگر خداتعالیٰ کے شکر اور فضل سے ان کا نعم البدل اخبار کو ہاتھ آگیا ہے۔ یعنی ہمارے سلسلہ کے ایک برگزیدہ رکن، جوان صالح اور ہر یک طور سے لائق جن کی خوبیوں کے بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ یعنی مفتی محمد صادق صاحب بھیروی قائم مقام منشی محمد افضل مرحوم ہو گئے ہیں۔ میری دانست میں خداتعالیٰ کے فضل اور رحم سے اس اخبار کی قسمت جاگ اٹھی ہے کہ اس کو ایسا لائق اور صالح ایڈیٹر ہاتھ آیا۔ خداتعالیٰ یہ کام ان کے لئے مبارک کرے اور ان کے کاروبار میں برکت ڈالے۔ آمین ثم آمین
خاکسار مرزا غلام احمد
23؍محرم الحرام 1323ھ
علی صاحبہا التحیہ والسلام
30؍مارچ 1905ء
حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ نے تحریر فرمایا:
میرا دل گوارا نہیں کرسکتا تھا کہ قادیان سے کوئی مفید سلسلہ جاری ہو اور وہ رک جاوے۔ البدر کا چند روزہ وقفہ رنج تھا۔ سردست اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے تدبیر نکالی ہے کہ میاں معراج الدین عمر جن کو دینی امور میں اللہ تعالیٰ نے خاص جوش بخشا ہے۔ اس طرف متوجہ ہوئے اور نصرت اللہ یوں جلوہ گر ہوئی کہ اس کی ایڈیٹری کے لئے میرے نہایت عزیز مفتی محمد صادق ہیڈماسٹر ہائی سکول قادیان کو منتخب کیا گیا اور اس تجویز کو حضرت امام نے بھی پسند فرمایا۔ میں یقین کرتا ہوں کہ ہمارے احباب اس نعم البدل پر بہت خوش ہوں گے۔ نورالدین
(بدر 6؍اپریل 1905ء صفحہ1)
نصرت دین اور تجارت
حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں بدر کے ایک پرچہ میں حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ سے بذریعہ خط کئے جانے والے سوال اور ان کا جواب۔
سوال: امداد لنگر، مدرسہ، میگزین فرض ہے یا نفل۔ باقی رسالہ جات تعلیم الاسلام و تشحیذ الاذہان خریدنا فرض ہے یا نفل۔ اخبارات الحکم و بدر خریدنا فرض ہے یا نفل؟
جواب: امداد لنگر، مدرسہ، میگزین وغیرہ کو جو لوگ تعاون علی البر یقین کرتے ہیں ان پر بعض قسم ضروری اور بعض قسم اچھا اور غیرضروری ہوگا۔ امداد لنگر ان لوگوں کے لئے ہے جو یہاں ہم لوگوں کے نزدیک دین سیکھنے کو آتے ہیں اور ایسے لوگوں کے واسطے قرآنی خاص حکم ہے۔ لِلۡفُقَرَآءِ الَّذِیۡنَ … پر غور کرو۔ مدرسہ ومیگزین کی غرض یہی فی سبیل اللہ ہے۔ رسائل کا مسئلہ بعینہ وہی ہے جو پہلے عرض ہوا۔ عزیز من! ہم لوگ ان رسائل کو نصرت دین الٰہی یقین کرتے ہیں اور کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللّٰہِ کا صریح حکم قرآن مجید میں ہے۔
اخبارات الحکم اور البدر میں دو قسم کے مضامین ہوتے ہیں ایک حصہ ان میں نصرت دین کا ہوتا ہے اور ایک حصہ وہ ہے جس سے اخبار فائدہ اٹھاتے ہیں پس حصہ اولیٰ اوامر الٰہیہ کے نیچے ہوگا اور حصہ ثانیہ کسب و تجارت کے ماتحت اور کسب و تجارت مستحب بھی ہے اور ضروری بھی۔
(بدر 11؍جولائی 1907ء صفحہ3)
نئے اخبار کی پیشگوئی
حضرت مسیح موعودؑ نے 11؍فروری 1906ء کو فرمایا: الہاماً میری زبان پر جاری ہوا دیکھو! میرے دوستو! اخبار شائع ہو گیا۔
(تذکرہ صفحہ 508)
اس وقت جماعت میں الحکم اور البدر جاری تھے۔ اس لئے اس سے مراد کسی آئندہ زمانہ میں شائع ہونے والا اخبار ہے۔ جس کا مصداق الفضل بھی ہو سکتا ہے۔ ’’دیکھو میرے دوستو اخبار شائع ہو گیا‘‘ کے اعداد اپنے اندر عجیب حکمت رکھتے ہیں جس کا ایک تعلق الفضل انٹرنیشنل سے ہے اور ان تمام اخبارات سے بھی جو جماعت احمدیہ میں شائع ہوتے رہیں گے۔
الفضل کے ذریعہ پاک تبدیلیاں
الحکم اور بدر حضرت مسیح موعودؑ کے دو بازو تھے ان کے ذریعہ ہزاروں لوگوں تک مسیح موعودؑ کا پیغام پہنچا اور پاک تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ 1913ء میں الحکم اوربدرکے ساتھ امام وقت کی آواز بننے کا اعزاز الفضل کے حصہ میں آیا اور تبلیغ اور تربیت کی نئی راہیں اس نے کھولیں۔ اس کی ہزاروں مثالیں ہیں چند ایک ملاحظہ فرمائیں۔
• چوہدری نور احمد صاحب ناصر لکھتے ہیں: میرے دادا چوہدری نور محمدصاحب سفید پوش تھے۔ وہ علا قہ کے بڑے ہی با اثر شخص تھے۔ دور دور تک ان کا چرچا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ایک صحابی حضرت چوہدری عبدالقادر صاحبؓ سجووال کے رہنے والے تھے جو اس وقت گورنمنٹ انگریزی میں ملٹری ڈرائیور تھے۔ انہیں علم ہوا کہ اگر وہ چوہدری نور محمد صاحب سفید پوش کو احمدی کر لیں تو سارے علاقے میں احمدیت پھیلنے میں آسانی ہو جائے گی۔ چنانچہ احمدیت کا پیغام پھیلانے کے جنون نے حضرت چوہدری عبدالقادر صاحب کو چوہدری نور محمد صاحب سفید پوش کے پیچھے لگا دیا۔ ادھر چوہدری نور محمد صاحب احمدیت کے سخت خلاف تھے اور کوئی بھی بات سننے کے لئے تیار نہ تھے اور ہمیشہ حضرت چوہدری عبدالقادر صاحب سے بدسلوکی سے پیش آتے۔
حضرت عبدالقادر صاحب ان ساری بدسلوکیوں کو درگزر کرتے ہوئے مسلسل آتے اور جماعتی اخبار الفضل دادا جان کے تکیے کے نیچے رکھ کر چلے جاتے اور ہمارے دادا جان اس کو بغیر پڑھے اور دیکھے دادی جان کو دے دیتے کہ اسے چولہے میں جلا دینا۔ حضرت چوہدری عبدالقادر صاحب مسیح پاک کے مضبوط جرنیل ثابت ہوئے اور مسلسل یہ سلسلہ جاری رکھا اور ادھر اللہ تعالیٰ نے بھی اس خاندان کو احمدیت کے فیضان سے فیض یاب کرنا تھا ایک دن ہمارے داداکی نظر اخبار پر لکھے ایک حرف ’’محمد‘‘ پر پڑی جب تھوڑا سااخبار پڑھا۔ لکھا تھا۔
؎وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمد دلبر میرا یہی ہے
اس شعر نے تو گویا ان کی کایا ہی پلٹ دی وہ دھول جو علماء سُوء نے ان کے دل پر چڑھا رکھی تھی وہ ہٹنے لگی سارا اخبار پڑھا اور پھر بھاگے بھاگے ہماری دادی کے پاس آئے اور کہنے لگے۔ کیا تم نے وہ اخبار جلا دیئے ہیں جو عبد القادر لایا تھا۔ وہ کہنے لگیں نہیں میں نے سارے سنبھال کے رکھے ہوئے ہیں۔ کہا سارے لے آ۔ جب وہ لائیں تو سارے اخبار ایک ایک کر کے پڑھنے لگے جوں جوں پڑھتے جاتے توں توں دل کی میل صاف ہوتی گئی اس وقت اٹھے جب سارے اخبار ختم ہو گئے اور دل مسیح پاک کی پاکیزہ تحریرات سے دھل گیا اور امام الزماں کا غلام ہو گیا۔ چنانچہ فوراً حضرت عبدالقادر صاحب کو بلا یا اور فوراً بیعت کی۔
(الفضل 28؍اکتوبر 2011ء صفحہ9)
• محترمہ وزیر بیگم صاحبہ لکھتی ہیں: 1939ء میں میرے خاوند قاضی شریف الدین صاحب نے احمدیت قبول کرلی۔ ایک دفعہ تو گویا ہمارے گھر پر بم گر گیا مگر پھر میں ان کے پاس چلی گئی۔ گھر میں میں احمدیت کی بہت ہی مخالف تھی۔ ہر وقت قاضی صاحب سے ناراض رہتی۔ مگر وہ مجھے کچھ نہیں کہتے تھے۔ انہوں نے یہ کہا کہ میں تو خدا کے فضل سے احمدی ہو گیا ہوں اور اب میں نہیں ہٹ سکتا۔ تمہیں نہیں کہتا کہ تم احمدی ہو جاوٴ۔ تمہاری اپنی مرضی ہے۔ مجھے ہر وقت احمدیت کے متعلق اچھی باتیں بتاتے رہتے تھے مگر میں اکثر ان سے ناراض رہتی۔ جب صبح قرآن پاک پڑھتے تو مجھے اس کے معنے بتاتے۔ مسئلہ بھی بتاتے کہ دیکھو قرآن میں یہ لکھا ہے جب سے احمدی ہوئے تھے پانچ وقت نمازیں گھر میں ہی پڑھتے۔ تہجد بھی پڑھتے تھے۔ خدا کے فضل سے بہت ہی دعائیں کرتے۔ میرے لئے بہت ہی دعائیں کرتے رہتے تھے۔ اس وقت میرے دو بچے چھوٹے چھوٹے تھے۔ میں بہت کمزور تھی پھر ان کی طرف سے بہت غم کرتی تھی۔
رشتے دار اور ملنے والے بھی مخالفت کرتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میری کچھ سہیلیاں میرے گھر آئیں تو میں نے ان کی چائے وغیرہ سے خاطر کی۔ انہوں نے کوئی چیز نہیں کھائی اور کہنے لگیں کہ تو تو مرزائن ہو گئی ہے۔ اس لئے ہم نے تیرے گھر کا کچھ نہیں کھانا۔ جس پر میں بہت روئی اور قاضی صاحب کو کہا کہ دیکھا لوگ کتنا بُرا سمجھتے ہیں وہ ہنس کرکہنے لگے کہ کوئی بات نہیں ایک دن آئے گا کہ وہ خود ہی کھا لیں گے۔
گھر میں اخبار الفضل بھی آنا شروع ہو گیا تھا۔ محترم قاضی صاحب الفضل کو اونچا اونچا پڑھتے تھے اور میں سنتی رہتی تھی۔ آخر ایک دن محترم قاضی صاحب کا نیک نمونہ اور دعائیں رنگ لائیں اور میں نے ان کو کہہ دیا کہ میری بیعت کا خط بھی لکھ دیں۔ یہ 1940ء کی بات ہے۔
(الفضل 17 نومبر 2011ء)
• مکرم طارق احمد طاہر صاحب مربی سلسلہ لکھتے ہیں: روزنامہ الفضل12 اور 16؍اگست کی اشاعت میں چھپنے والے ایک مضمون بعنوان ’’عصر حاضر کی طب کی روشنی میں روزہ کی افادیت‘‘ کے بارے میں ذاتی تجربہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
خاکسار نے یہ سارا مضمون نماز فجر کے بعد درس کے طور پر قسط وار احباب جماعت کو سنایا۔ درس کے دوسرے دن ہماری جماعت چک 166 مراد ضلع بہاولنگر کے ایک بزرگ کہنے لگے کہ آپ کا کل کا درس سن کر میں نے آج روزہ رکھا ہے۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے پور اکرنے کی اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ بغیر کسی مشکل کے انہوں نے وہ روزہ مکمل کرلیا اور بعد کے روزے بھی رکھنے شروع کر دیے اور بیماری کی وجہ سے پچھلے 15 سال سے وہ بزرگ روزے نہیں رکھ رہے تھے۔ اسی طرح حلقہ کی ایک اور جماعت چک 141 مراد دورہ پر گیا تو وہاں بھی اس مضمون کا کچھ حصہ سنایا تو ایک بزرگ نے وہ اخبار مانگ لیا اور سارا مضمون مطالعہ کیا۔
• مکرم عبدالحمید طاہر صاحب معلم وقف جدید لکھتے ہیں:گزشتہ چند دنوں سے آپ روزنامہ الفضل کے صفحہ اول پر اخلاق عالیہ و ارشادات عالیہ حضرت رسول کریمﷺ شائع کررہے ہیں۔ یہ بہت ہی حسین اضافہ ہے جو آپ نے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو نیک اجر عطا فرمائے۔ آمین۔ کئی سالوں سے خاکسار سوچ رہا تھا کہ محترم ایڈیٹر صاحب کو اس قسم کی تجویز جانی چاہئے۔ لیکن سچ پوچھئے سستی آڑے آتی رہی سو بہت بھلا کیا آپ نے کہ یہ حسین کام کر ہی دیا۔
الفضل کی قدر ایک ہندوکی نظر میں
• مکرم ناظر صاحب دعوت الی اللہ قادیان لکھتے ہیں:چند روز ہوئے بعض غریب جماعتوں کے لئے الفضل مفت جاری کرانے کی تحریک کی گئی تھی۔ اس پر جہاں اپنوں میں سے لجنہ اماء اللہ قادیان نے دو اخبار اور میری اہلیہ سیدہ سیارہ حکمت صا حبہ نے ایک اخبار مفت جاری کرنے کی اطلاع دی ہے وہاں ہندو اصحاب میں سے جناب لالہ سنت رام صاحب رئیس بشناہ تحصیل رنبیر سنگھ ریاست جموں لکھتے ہیں کہ وہ اخبار الفضل کوروزانہ پڑھتے ہیں اور یہ کہ وہ آپ کی تحریک پر مبلغ تین روپے مینیجر صاحب الفضل کو بھیج رہے ہیں۔ (جو پہنچ چکے ہیں) تاکہ ان کی طرف سے جماعت ریاسی کے نام اخبار الفضل مفت جاری کر دیا جائے۔ میں لالہ صاحب محترم کا اس فراخ دلی اور قدردانی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ایسا ہی لجنہ اماء اللہ قادیان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے نظارت دعوت الی اللہ کی ضرورت کو پورا کرنے میں میری مدد کی۔ سب سے بڑھ کر صدقہ جاریہ یہ ہے کہ درماندوں کو روحانی غذا پہنچانے کا انتظام کیا جائے۔
(الفضل 22ء فروری 1936ء)
الفضل میں مطبوعہ
حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات کا اثر
• ایک صاحب نے اپنے احمدی ہونے سے قبل اپنے ایک احمدی دوست کے نام مندرجہ ذیل خط لکھا:
الفضل اخبار نے میرے دل میں ایک خاص تبدیلی پیدا کردی ہے خاص کر خلیفہ صاحب کے خطبات بہت موٴثر ثابت ہوئے ہیں۔ ان سادے مگر مسحور کر دینے والے خطبات کے بغور مطالعہ کے بعد زنگ آلودہ دلوں کی تسخیر یقینی اور لازمی امر ہے۔ اگر آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں ضرور اس نیک دل اور روشن دماغ کی کرنیں گم گشتہ راہ لوگوں کے لئے ہدایت کا باعث ہوں گی۔ اگر آپ کے پاس بیعت فارم موجود ہوں تو ارسال کرکے ممنون فرمائیں ورنہ مرکز سے منگوانے کی تکلیف گوارا کریں۔
(الفضل 24؍مئی 1936ء صفحہ3)
• ایک غیراحمدی عالم اور دانشور الفضل کے خریدار تھے ان کے متعلق الفضل لکھتا ہے:
سرشفاعت احمد خان صاحب الٰہ آباد کئی سال سے الفضل کے مستقل خریدار ہیں حال ہی میں جب ان کی خدمت میں آئندہ سال کے لئے قیمت کی وصولی کا وی پی بھیجا گیا تو خلاف توقع واپس آگیا۔ اس پر بذریعہ خط انہیں وی پی واپس آنے کی اطلاع دی گئی۔ اس کے جواب میں انہوں نے سالانہ قیمت پندرہ روپے کا چیک بھیجتے ہوئے تحریر فرمایا ہے۔
مکرمی بندہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ والا نامہ جناب صادر ہوا مجھے نہایت افسوس ہے کہ الفضل کا وی پی واپس کر دیا گیا میں بمبئی تھا ابھی آج آیا ہوں اور نوکروں کی بیوقوفی اور غلطی ہے۔ معافی کا خواستگار ہوں۔ بعض الفضل کے مضامین نہایت دلچسپ ہوتے ہیں اور تقریباً تمام پرچہ روز میں پڑھتا ہوں۔
(الفضل 25؍اکتوبر 1940ء صفحہ2)
• حضرت مصلح موعودؓ نے خطبہ جمعہ 1935ء میں فرمایا: مجھے کل ہی ایک نوجوان کا خط ملا ہے۔ وہ لکھتا ہے میں احراری ہوں میری ابھی اتنی چھوٹی عمر ہے کہ میں اپنے خیالات کا پوری طرح اظہار نہیں کرسکتا۔ اتفاقاً ایک دن ’’الفضل‘‘ کا مجھے ایک پرچہ ملا جس میں آپ کا خطبہ درج تھا میں نے اسے پڑھا تو مجھے اتنا شوق پیدا ہوگیا کہ میں نے ایک لائبریری سے لے کر ’’الفضل‘‘ باقاعدہ پڑھنا شروع کیا پھر وہ لکھتا ہے خدا کی قسم کھا کر میں کہتا ہوں اگر کوئی احراری آپ کے تین خطبے پڑھ لے تو وہ احراری نہیں رہ سکتا۔ میں درخواست کرتا ہوں کہ آپ خطبہ ذرا لمبا پڑھا کریں۔ کیونکہ جب آپ کا خطبہ ختم ہوجاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ دل خالی ہوگیا اور ابھی پیاس نہیں بجھتی۔
(خطبات محمود جلد16 صفحہ361)
• 1940ء میں غیرمبائعین کے سابق منتظم مہمان خانہ نے حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی خدمت میں سیالکوٹ سے لکھا:
آداب کے بعد عرض ہے کہ بندہ جناب سید حامد شاہ صاحب مرحوم سیالکوٹ کے خاندان اور حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ سے ہے اور حضرت اقدس کی بیعت کا شرف حاصل ہے۔ ان کے بعد حضرت خلیفہ اول کی بیعت کی اس کے بعد چند ایک وجوہ سے لاہور کی جماعت کے ہاں سلسلہ آمدورفت رہا۔ مگر حضور کی عزت اور احترام بدستور میرے دل میں رہا۔
یہ میرا ایمان ہے کہ کسی جماعت کی تنظیم یا ترقی اس وقت تک نہیں ہوسکتی۔ جب تک کسی خلیفہ یا امیر کے ماتحت نہ ہو اور اس کے حکم کے ماتحت نہ چلے۔ مگر لاہور کی رہائش میں مجھے جو تجربہ ہوا۔ وہ یہ ہے کہ ان لوگوں میں تنظیم نہیں ہے اور وہی وہ اپنے امیر کے ماتحت چلتے ہیں۔ کئی ایک ان میں خود سر ہیں اور حضرت امیر مولوی محمد علی صاحب چشم پوشی فرماتے ہیں۔ دوسرے اخلاقی حالت بھی مصری عبدالرحمٰن صاحب کے لاہور آنے پر درست نہ رہی اور پبلک گفتگو بھی شرافت کی حد سے گر گئی ہے۔
چونکہ حضور کی عزت اور احترام میرے دل میں بہت تھا۔ اس لئے میں برداشت نہ کرسکتا تھا اور اکثر بحث مباحثہ تک نوبت پہنچتی تھی۔ جس سے مجھے قادیانی جاسوس کہنے لگے۔ چونکہ ان ایام میں میری رہائش لاہور احمدیہ بلڈنگ میں تھی اور میں سپرنٹنڈنٹ مہمان خانہ بھی تھا۔ اس لئے حالات زیادہ وضاحت سے معلوم ہوتے رہے جس سے میں ان لوگوں سے دلبرداشتہ ہو گیا اور حضور کی قدم بوسی کا اشتیاق بڑھتا گیا۔ انہی دنوں جناب میر عبدالسلام صاحب لندن سے سیالکوٹ آئے ہوئے تھے جو کہ میرے ماموں زاد بھائی ہیں اور ہم زلف بھی ہیں۔ انہوں نے مجھے سیالکوٹ کی رہائش کا مشورہ دیا۔ چنانچہ دو سال سے میں سیالکوٹ میں ہوں۔ یہاں اخبار الفضل روزانہ پڑھتا رہا اور جناب ہمشیرہ صاحبہ سیدہ فضیلت بیگم سے تبادلہ خیالات بھی ہوتا رہا جس سے میرے تمام شکوک رفع ہو گئے۔
اب میں حضور سے سابقہ غفلت اور کوتاہیوں کی معافی چاہتا ہوں اور حضور کی بیعت میں داخل ہوتا ہوں اور فارم بیعت پُرکرکے ارسال خدمت کرتا ہوں۔ حضور میری بیعت قبول فرمائیں اور میرے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے استقامت دے۔
(الفضل 24؍مئی 1940ء)
یہی سلسلہ آج بھی جاری ہے اور حضور کے خطبات براہ راست سننے والوں کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں احمدی اور غیر احمدی الفضل سے ان کو پڑھتے ہیں اور برکت حاصل کرتے ہیں۔
(عبد السمیع خان۔ سابق ایڈیٹر روزنامہ الفضل ربوہ)