’’اخبار قوم کی زندگی کی علامت ہوتا ہے جو قوم زندہ رہنا چاہتی ہے اسے اخبار کو زندہ رکھنا چاہیے اور اپنے اخبار کے مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہیے‘‘
(الفضل 31؍دسمبر 1954ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے یہ افکار اور ایک خواب جو الفضل کی شکل میں شرمندہٴ تعبیر ہوا۔ میں الفضل ہوں اور آج کل روزنامہ الفضل آن لائن کے نام سے جانا جاتا ہوں۔ میرے بانی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی اجازت اور دعاؤں سے خود استخارہ کرتے ہوئے 18؍جون 1913ء بمطابق 12؍رجب 1331ھ بروز بدھ قادیان سے جاری فرمایا۔ میرا نام حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے الفضل رکھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے رویا میں بتایا گیاکہ الفضل نام رکھو۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام ’’الفضل‘‘، فضل ہی ثابت ہوا۔
(انوار العلوم جلد8 صفحہ371)
میرے اجراء کے لئے ابتدائی سرمایہ حضرت ام ناصر صاحبہ نے اپنے دوزیورات کی صورت میں دیا جن کو بیچ کر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کارِ خیر کا آغاز فرمایا۔ مختلف ادوار میں میری اشاعت ہفتہ میں دو بار اور کبھی تین بار ہوتی رہی۔ بالآخر 8؍مارچ 1935ء کو مجھے روزنامہ بنا دیا گیا۔ قادیان، لاہور اور ربوہ میری اشاعت و ترسیل کے مرکز رہے۔ اگر ان کو اپنے آبائی گھر کہوں تو غلط نہ ہو گا۔ 109 سال کی تاریخ میں مَیں 1935ء، 1984ء، 1990ء، 2005ء اور 2016ء میں حکومتِ پاکستان کی جبری بندش کا نشانہ بنا۔
(روزنامہ الفضل کی 109 سالہ تاریخ پر ایک طائرانہ نظر صفحہ3 مطبوعہ 26؍جولائی 2022ء)
2016ء کی بندش کے بعد میرا مکرر اجراء 13؍دسمبر 2019ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دست مبارک سے ویب سائٹ کا افتتاح کرتے ہوئے کیا۔ میری چند ہزار کی اشاعت کو روکنے والے اس وقت تصور بھی نہ کر سکتے تھے کہ مجھے تین سال کے قلیل عرصہ میں ہی ہاف ملین سے زائد افراد کے فونز اور دیگر ڈیجٹل گیجٹس کے ذریعے علم کے خزانے بانٹتے ہوئے پائیں گے۔ وہ کیا جانیں کہ جماعت احمدیہ کے لیے کِیا جانےوالا ہر اندھیرا اپنے اندر روشنی کی بے شمار کرنیں لئے ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ شریروں کے شراروں کو انہیں پر لوٹاتے ہوئے ہمارے لئے خیر کے در وَا فرماتا ہے۔
یہ خیر کی راہ میرا (الفضل) کا آن لائن اجراء تھا۔ کہ آج زمانے کی ترقی نے ہر کام کو فون کے ذریعے آسان اور ڈیجیٹل کر دیا ہے ایسے میں اخباراور کتاب کو ہاتھ میں پکڑ کر پڑھنے والوں کی تعداد برائے نام رہ گئی ہے۔ دوسری جانب فونز میں مختلف ایپس کی شکل میں موجود طاغوتی طاقتیں ہر پیر و جواں کو اپنی جانب کھینچتی ہیں۔ ایسے میں میری آن لائن آمد نے دلوں اور ذہنوں کو اطمینان کی ایک نئی راہ دکھلائی کہ علم کی پیاس بجھانا کس قدر آسان ہوگیا۔
ایک وقت تھا جب اخبار کے دلدادہ ہاکر کی آواز سنتے ہی اخبار وصول کرنے کے لئے دروازے کی طرف لپکتے تھے۔ بعینہٖ آج بھی میرا انتظار کیا جاتا ہے بس فرق اتنا سا ہے کہ کچھ انداز بدل گیا۔
اب مقررہ اوقات پر پابندی سے ایڈیٹر صاحب کی جانب سے بھیجے گئے لنکس کا میسج ہوتا ہے اور اس میسج کی آواز سنتے ہی میرے منتظرین بے اختیار اپنے فونز کی جانب لپکتے ہیں۔ یوں میری ترسیل کا سلسلہ چل نکلتاہے۔ سب ہی بصد شوق ہاکر کا روپ دھارے میرے لنکس اور پی ڈی ایف اپنے پیاروں کو بھیجنے لگتے ہیں۔ تا علم اور حکمت کے موتی سب ہی اپنی بساط کے مطابق چُن لیں۔ پھر کوئی مجھے اپنے واٹس ایپ سٹیٹس، فیس بک یا انسٹا گرام پوسٹ کی زینت بناتا اور کوئی پرنٹ نکال کر اپنی لائبریری کا حصہ بنا لیتا ہے۔
میری تیاری میں خلیفہ وقت کی دعائیں، ایڈیٹر صاحب اور ان کی ٹیم سمیت 48 سے زائد رضاکار خواتین و مردوں کی عرق ریزی، قلمکاروں کی محنت شاقہ شامل ہے۔ جو مجھے سنوارنے اور ہر جہت سے مفید و دلکش بنانے کے لیے ہمہ وقت مصروفِ عمل ہیں۔
میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس دعا کا اعجاز ہوں:
’’اے میرے مولا !اس مشتِ خاک نے ایک کام شروع کیا ہے اس میں برکت دے اور اسے کامیاب کر۔ میں اندھیروں میں ہوں تو آپ ہی راستہ دکھا۔ لوگوں کے دلوں میں الہام کر کہ وہ الفضل سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے فیض کو لاکھوں نہیں کروڑوں تک وسیع کر اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی اسے مفید بنا اس سے بہت سی جانوں کو ہدایت ہو۔‘‘
(الفضل 19؍جون 1913ء)
(روزنامہ الفضل کی 109سالہ تاریخ پر ایک طائرانہ نظر
موٴرخہ 26؍جولائی 2022ء صفحہ5)
(ثمرہ خالد۔ جرمنی)