• 5 مئی, 2024

الفضل کا گوجرانوالہ سے بریڈفورڈ تک کا سفر

میری قیمتی روحانی متاع اور دینی علوم کے خزانے الفضل کا
گوجرانوالہ سے بریڈفورڈ تک کا سفر

خدا تعالیٰ کے فضل سے موٴرخہ 13؍دسمبر 2022ء کو الفضل آن لائن کو جاری ہوئے تین سال پورے ہو رہے ہیں۔ بظاہر اس قلیل عرصہ میں اس اخبار نےترقیات کی جو منازل طے کی ہیں۔ و ہ محض خلیفة المسیح کی دعاؤں کا ثمرہ اور اعجاز ہے۔ اس مبارک موقع پرمیں محترم ایڈیٹر صاحب کی خدمت میں دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ سب لکھنےوالوں کے قلم میں برکت دے اور وہ تمام کارکنان جو کسی نہ کسی رنگ میں خدمت کررہے ہیں۔ ان سب کو بہترین جزاء دے۔ آمین

ادارہ الفضل آن لائن اس تاریخی موقع پر خصوصی نمبر شائع کررہا ہے اللہ تعالیٰ اس نمبر کی اشاعت ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔ آمین

میری پیدائش گوجرانوالہ شہر میں ہوئی۔ آج اللہ کےفضل سے زندگی کی 75بہاریں دیکھ چکی ہوں۔ آج بھی وہ حسین یادیں میرے ذہن میں اچھی طرح نقش ہیں جب میرےوالد چوہدری نورداد صاحب مرحوم (سابق معلم وقف جدید) نے الفضل کےذریعے ہماری تربیت فرمائی۔ آپ کو اخبار الفضل سےایک خاص عشق اور لگاؤ تھا۔ صبح ہوتے ہی الفضل کے انتظار میں بیٹھ جاتےاور جب اخبار آجاتا تو بہت خوش ہوتےاور اس کوپڑھ کر دلی سکون حاصل ہوتا۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا، والد صاحب کوباقاعدگی سے الفضل کامطالعہ کرتے ہوئے پایا۔ الفضل کے مطالعہ سےفارغ ہوکر ناشتہ یاکوئی اور کام کرتے۔ آپ کے پاس اہل محلہ اور دیگر احباب جب تشریف لاتے تو ان سب کو بھی ہمیشہ اونچی آواز سےالفضل پڑھ کرسناتے۔ چونکہ ان کاایک اہم مقصد دعوت الی اللہ تھاجس کے لیے وہ الفضل سے وہ رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ غیراز جماعت ملنے والوں سے بھی جب مختلف مسائل پر گفتگو کرتے تو الفضل کےذریعےان کو اچھی طرح سمجھاتے۔ ان کے پاس کپڑے کا ایک تھیلا مستقل رہتا تھاجس میں الفضل اور دیگر جماعتی لٹریچر ہمہ وقت موجود رہتا تھا۔

ان دنوں نماز جمعہ پڑھنے کے لیے ہم تانگے پرباغبانپورہ (گوجرانوالہ) کی مسجد میں جایاکرتےتھے۔ بعض دفعہ جب کسی وجہ سےدیر ہوجاتی تو والد صاحب کی ہدایت کےمطابق گھر میں نماز جمعہ پڑھنے کااہتمام کیا جاتا اور آپ الفضل اخبار میں سے خلیفة المسیح کے خطبات میں سےاقتباسات پڑھ کرسناتے۔ الفضل کے مطالعہ کے بعدان کو ایک صندوق میں محفوظ کرکےرکھتے۔ آپ تمام جلدوں کو ایک ترتیب سے رکھا کرتے تھے تاکہ ضرورت پڑنے پر دقت نہ ہو۔ بعض دفعہ اگر کوئی اخبار لےکر ترتیب سے نہ رکھتاتو اس کووالد صاحب سے ڈانٹ پڑ تی کہ میں نےتمام اخبارات ترتیب سے رکھے ہوتے ہیں۔ تم میر ی ترتیب خراب نہ کیاکرو۔

محترم والد صاحب کی وفات کے بعد والدہ صاحبہ نے وہ صندوق مجھے بھجوادیا۔ میں اس قیمتی روحانی متاع کے ملنے پر بہت خوش ہوئی۔ آج بھی وہ صندوق میرے پاس محفوظ ہے اور میں اپنےخاندان کی نئی نسل کو الفضل کے پرانے شماروں کاذخیرہ دکھاتی ہوں۔ جس پر جلی حروف میں لکھاہے، دینی علوم کاخزانہ، اللہ کرے کہ ہم ہمیشہ اس روحانی خزانے سے ہمیشہ فیض یاب ہوتے رہیں۔

1961ء میں میری شادی ہوئی تو میں گکھڑمنڈ ی میں شفٹ ہوگئی۔ بچپن سے الفضل کےمطالعہ کی جوچاٹ لگی تھی وہ یہاں بھی برقرار رہی۔ میرا یہ معمول رہا کہ نہ صرف گھر میں بلکہ ارد گرد سےآنےوالی غیر از جماعت خواتین کو بھی الفضل سےاقتباسات پڑ ھ کرسناتی۔ ابھی میرے بچےچھوٹے چھوٹے تھے۔ میں ان کو بتاتی کہ آج ہم اجلاس کرتےہیں اور پھر ان کو گروپ میں بٹھاکر جماعتی رسائل اور الفضل میں شائع شدہ اقتباسات پڑ ھ کر سناتی۔ پھر بڑے ہوکر وہ خود پڑھ کر سنانے لگے۔ اس طرح ان کو بچپن ہی سے تقریر کرنے کا شوق پیدا ہوگیا۔ یہ شوق نسل در نسل بڑھتا چلاگیا اور آج اللہ کے فضل سے میرے خاندان کی تیسری نسل کے بچے تقریر ی مقابلہ جات میں حصہ لیتے ہیں تو نمایاں پوزیشن حاصل کرتے ہیں۔

1988ء میں میرے میاں مشتاق احمد صاحب مرحوم نے واپڈا سے ریٹائر منٹ کےبعد ربوہ میں اپنا مکان تعمیر کیاتو ہم وہاں شفٹ ہوگئے۔ میرے میاں نے دوران ملازمت ہی میں کئی سال قبل ربوہ میں زمین خرید لی اور آہستہ آہستہ مکان بنانا شروع کیا اور آخر ان کا بچوں کی تربیت کے لیے ربوہ شفٹ ہونے کا خواب خدا نے پورا کردکھایا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

مرکز سلسلہ میں بھی ہاکر کےذریعےروزانہ الفضل اخبار مل جاتاتھا۔ بعض دفعہ کسی وجہ سے الفضل لیٹ ہوجاتا تو بہت بے چینی ہوتی۔ چند سال بعد ہم دارالصدر شمالی میں شفٹ ہوگئے۔ میر امعمول تھاکہ روزانہ صبح کی نماز کےبعد سیر ضرور کرتی۔ سیر کےبعد ہاکر آتااور ہمارے گیٹ پر الفضل لٹکاکرچلاجاتا اور مجھے اس کامطالعہ کرنے کاموقع مل جاتا۔ میری پوتی عروسہ قمر جو چند سال کی تھی اُس نےمیرے معمول کونوٹ کیا۔ ایک دن الفضل آیاتو میں گھر کے اندر تھی۔ میرے بیٹے نےگیٹ سے وہ الفضل اُٹھالیااور پڑھنے لگا۔ میری پوتی نے یہ دیکھاتو کہنےلگی کہ بابا! یہ اخبار دادو کا ہے۔ ان کودے دیں۔ اس طرح الفضل بچوں کےذہنوں پربھی نقش قائم کرتا ہے۔

ابھی چند سال گزرے تھے کہ ایک المناک سانحہ ہوگیا۔ اس روحانی نہر کوجبری طورپر بند کردیاگیا۔ وقتی طورپر دل کو صدمہ تو ہوا لیکن خدانےجلد ہی ہماےدُکھی دلوں پر مرہم کے سامان کردیے۔ کہتےہیں کہ ایک در بند ہو تو سو در کھل جاتے ہیں۔ 2016ء میں میری بیٹی امة المتین نے مجھے اپنے پاس بریڈ فورڈ (یوکے) بلالیا۔ یہاں آکر پیارے آقا سےملاقات ہوئی۔ پھر نمازوں اور اجلاسات میں جانےسےایک نئی روحانی زندگی مل گئی۔ قصہ مختصر یہ کہ دیگر بے شمار برکتوں کےساتھ ساتھ الفضل آن لائن کی برکت بھی نصیب ہوگئی۔ اب میں خد ا کے فضل سےگھر بیٹھے الفضل کامطالعہ کرتی ہوں۔ نئی ٹیکنالوجی کی بدولت ہمارے لیے بےشمار سہولتیں پیدا ہورہی ہیں۔ میں پاکستان میں پہلے پرنٹڈاخبار پڑھتی تھی۔ پھر لند ن آئی تو یہاں خدا نے لیپ ٹاپ کی سہولت دے دی۔ میں اپنے لیپ ٹا پ پر الفضل آن لائن پڑھنے لگی۔ اس کےبعد مزید ترقی یہ ہوئی کہ میں نے اپنے آئی پیڈ پر الفضل پڑھنا شروع کردیا اور اب اس سے مزید قدم آگے بڑھا تو میں نے اپنے موبائل پرالفضل آن لائن سے استفادہ شروع کردیا۔ پس یہ سب خداتعالیٰ کا فضل اور خلافت احمدیہ کی برکت ہے۔ دشمن نےاپنے زعم میں ہمیں اس سےمحروم کرناچاہا لیکن خدا نے ان کےمذموم عزائم کوخاک میں ملا دیا اور آج الفضل آن لائن کےذریعے اس روحانی نہر کافیض جاری وساری ہے۔

پس الفضل سے میرا تعلق جوگوجرانوالہ سے شروع ہوا تھا آج بھی قائم ودائم ہے اور ان شاء اللّٰہ یہ تعلق نسل درنسل جاری رہے گا اللہ کرے یہ تعلق ہمیشہ قائم رہے اور ہم خلافت احمدیہ سےجڑے رہیں کیونکہ اسی میں ہماری تمام ترقیات کاراز ہے۔

(نسیم اختر۔ بریڈ فورڈ، یوکے)

پچھلا پڑھیں

الفضل کی اہمیت ،افادیت اور قلم کے استعمال کی ترغیب (کتاب)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی