• 8 مئی, 2024

تائید اسلام کے لئے ایک لفظ

تائید اسلام کے لئے ایک لفظ، ایک شعر بھی موتیوں
اور اشرفیوں کی جھولی سے بیش قیمت

حضرت خلیفةالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں:
خصوصیات سلسلہ کے لحاظ سے یہاں کے اخباروں میں سے دو اخبار الفضل و مصباح کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس سے نظام سلسلہ کا علم ہو گا۔ بعض لوگ اس وجہ سے ان اخباروں کو نہیں پڑھتے کہ ان کے نزدیک ان میں بڑے مشکل اور اونچے مضامین ہوتے ہیں ان کے سمجھنے کی قابلیت ان کے خیال میں ان میں نہیں ہوتی اور بعض کے نزدیک ان میں ایسے چھوٹے اور معمولی مضامین ہوتے ہیں وہ اسے پڑھنا فضول خیال کرتے ہیں۔ یہ دونوں خیالات غلط ہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو کبھی کوئی لائق استاد بھی ملا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے ایک بچے سے زیادہ کوئی نہیں ملا۔

اس نے مجھے ایسی نصیحت کی کہ جس کے خیال سے میں اب بھی کانپ جاتا ہوں۔ اس بچے کو بارش اور کیچڑ میں دوڑتے ہوئے دیکھ کر میں نے اسے کہا۔ میاں کہیں پھسل نہ جانا۔ اس نے جواب دیا۔ امام صاحب! میرے پھسلنے کی فکر نہ کریں اگر میں پھسلا تو اس سے صرف میرے کپڑے ہی آلودہ ہوں گے مگر دیکھیں کہ کہیں آپ نہ پھسل جائیں آپ کے پھسلنے سے ساری امت پھسل جائے گی۔ پس تکبر مت کرو اور اپنے علم کی بڑائی میں رسائل اور اخبار کو معمولی نہ سمجھو۔ قوم میں وحدت پیدا کرنے کے لئے ایک خیال بنانے کے لئے ایک قسم کے رسائل کا پڑھا ضروری ہے۔

(مستورات سے خطاب، انوارالعلوم جلد11 صفحہ66-67)

رسالہ ’’انصارالدین‘‘ یوکے ستمبر و اکتوبر 2013ء میں مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن کی ایک تقریر بعنوان ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جذبۂ خدمتِ اسلام‘‘ شامل اشاعت ہے۔

حضرت مسیح پاکؑ نے اپنی بیعت کی شرائط میں اس بات کو بطور خاص شامل کیا کہ ہر بیعت کنندہ اس بات کا عہد کرے کہ وہ ’’دین اور دین کی عزت اور ہمدردی ٔ اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا۔‘‘

اسی کا اظہار ایک فارسی شعر میں یوں فرمایا:
(ترجمہ) دشمنانِ دین کی کثرت اور دینِ احمد کے مددگاروں کی قلت، یہ دو فِکریں ہیں جنہوں نے ہمارے دل ودماغ کو گداز کردیا ہے۔

؎میرے آنسو اس غمِ دلسوز سے تھمتے نہیں
دیں کا گھر ویران ہے دنیا کے ہیں عالی منار
دن چڑھا ہے دشمنان دیں کا ہم پر رات ہے
اے مرے سورج نکل باہر کہ میں ہوں بے قرار

نیز فرمایا:؎

دیکھ سکتا ہی نہیں مَیں ضعفِ دینِ مصطفیٰ ؐ
مجھ کو کر اے میرے سلطاں! کامیاب و کامگار

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’میں اُس مولیٰ کریم کا اِس وجہ سے بھی شکر کرتا ہوں کہ اُس نے ایمانی جوش اسلام کی اشاعت میں مجھ کو اِس قدر بخشا ہے کہ اگر اِس راہ میں مجھے اپنی جان بھی فدا کرنی پڑے تو میرے پر یہ کام بفضلہ تعالیٰ کچھ بھاری نہیں …اُسی کے فضل سے مجھ کو یہ عاشقانہ روح ملی ہے کہ دکھ اٹھا کر بھی اُس کے دین کے لیے خدمت بجا لائوں اور اسلامی مہمات کو بشوق و صدق تمام تر انجام دوں۔ اِس کام پر اُس نے آپ مجھے مامور کیا ہے اب کسی کے کہنے سے مَیں رُک نہیں سکتا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ35) حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹیؓ فرماتے ہیں کہ کوئی دوست کوئی خدمت کرے۔ کوئی شعر بنا لائے کوئی شعر تائید حق پر لکھے آپؑ بڑی قدر کرتے ہیں اور بہت ہی خوش ہوتے ہیں اور بارہا فرماتے ہیں کہ اگر کوئی تائید دین کے لیے ایک لفظ نکال کر ہمیں دے تو ہمیں موتیوں اور اشرفیوں کی جھولی سے بھی زیادہ بیش قیمت معلوم ہوتا ہے۔

روزنامہ الفضل 26؍دسمبر 1958ء میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے ایک مضمون ’’سیف کا کام قلم سے ہے دکھایا ہم نے‘‘ میں آپؓ فرماتے ہیں:
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا منشاء یہ ہے کہ یہ زمانہ اپنے وقتی تقاضوں اور پیش آمدہ حالات اور مخالفوں کے رویہ کے مطابق تلوار کے جہاد کا زمانہ نہیں ہے بلکہ قلم کے جہاد کا زمانہ ہے۔ جب کہ مخالفین اسلام کی طرف سے اسلام کے خلاف معاندانہ لٹریچر کے ذریعہ بے پناہ حملے کئے جارہے ہیں۔ ایسے وقت میں اصل جہاد قلم کا جہاد ہے تاکہ قلم کے ذریعہ غیر مسلموں کے اعتراضوں کا ایسا دندان شکن جواب دیا جائے کہ ان کے قلموں اور ان کی زبانوں کی گولہ باری پر موت وارد ہو جائے اور یہی رستہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدائی منشاء کے ماتحت اختیار کیا۔

قرآن کریم میں

اِقۡرَاۡ وَرَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ ۙ﴿۴﴾ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ﴿۵﴾

(العلق: 4-5)

یعنی اے رسول! لوگوں تک ہمارا نام اور ہمارا پیغام پہنچا۔ کیونکہ تیرا رب تمام بزرگیوں کا مالک ہے۔ ہاں وہی آسمانی آقا جس نے قلم کے ذریعہ علم کی اشاعت کا سامان پیدا کیا ہے۔

پس قلم علم کی اشاعت اور حق کی تبلیغ کا سب سے بڑا اور سب سے اہم اور سب سے مؤثر ترین ذریعہ ہے اور زبان کے مقابلہ پر قلم کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ اس کا حلقہ نہایت وسیع اور اس کا نتیجہ بہت لمبا بلکہ عملاً دائمی ہوتا ہے۔ زبان کی بات عام طور پر منہ سے نکل کر ہوا میں گم ہو جاتی ہے سوائے اس کے کہ اسے قلم کے ذریعہ محفوظ کر لیا جائے۔ مگر قلم دنیا بھر کی وسعت اور ہمیشگی کا پیغام لے کر آتی ہے اور پریس کی ایجاد نے تو قلم کو وہ عالمگیر پھیلاؤ اور وہ دوام عطا کر دیا ہے جس کی اس زمانہ میں کوئی نظیر نہیں کیونکہ قلم کا لکھا ہوا گویا پتھر کی لکیر ہوتا ہے جسے کوئی چیز مٹا نہیں سکتی۔

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (الفضل آن لائن ایڈیشن کے آغاز کے موقع پہ:
’’اس وقت میں ایک تو یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ روزنامہ الفضل کی ویب سائٹ انہوں نے شروع کی ہے اور اس کے بارے میں اعلان کروں گا …الفضل کے 106 سال پورے ہونے پر لندن سے الفضل آن لائن ایڈیشن کا آغاز ہو رہا ہے اور یہ اخبار روزنامہ الفضل آج سے 106 سال پہلے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی اجازت اور دعاؤں کے ساتھ 18؍جون 1913ء کو شروع فرمایا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد کچھ عرصہ لاہور سے شائع ہوتا رہا۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ کی قیادت میں یہ ربوہ سے نکلنا شروع ہوا۔ اس قدیم اردو روزنامہ اخبار کا لندن سے الفضل آن لائن ایڈیشن کا مؤرخہ 13؍دسمبر 2019ء سے آغاز ہو رہا ہے۔ آج ان شاء اللّٰہ تعالیٰ آغاز ہو جائے گا جو بذریعہ انٹرنیٹ دنیا بھر میں ہر جگہ بڑی آسانی کے ساتھ دستیاب ہو گا۔ اس کی ویب سائٹ Alfazlonline.org تیار ہو چکی ہے اور پہلا شمارہ بھی اس پر دستیاب ہے۔ یہاں ہماری آئی ٹی کی جو مرکزی ٹیم ہے انہوں نے اس کے لیے بڑا کام کیا ہے۔

(خطبہ جمعہ موٴرخہ 13؍دسمبر 2019ء)

(بحوالہ روزنامہ الفضل لندن آن لائن 2؍جنوری 2020ء)

معاشرے ترقی، تربیت و اصلاح کا انحصار زیادہ تر اخبار پر ہوتا ہے۔ اگر اخبار افراد جماعت کی اصلاح کے لئے بہترین و انواع و اقسام کے نوادرات سے لبریز روحانی سیرابی کا باعث ہو تو اس جماعت کی اخلاقی و روحانی ترقی ناگزیر ہے

ہر وہ تحریر جو انسانی خیال کو خدا کی محبت کی طرف مائل کرے وہ سب کو بہت پسند ہوتی ہے جو کہ عشق الٰہی میں ڈوبی ہوئی، روحانی پیاس کو بجھانے والی اور قاری کا تعلق خالق سے جوڑنے والی ہو اور لقائے الٰہی کے سہل راستوں کی طرف رہنمائی، اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کے تحت کرنے والی ہو۔

الفضل اخبار خدا کے فضل سے ایسی بے شمار تحریروں سے مزین ہوتا ہے۔ جس میں قرآن کریم کے ارشادات، احادیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رشحات قلم سے، فرمان خلیفہ اور اچھے تحقیقی مضامین، دنیا بھر سے جماعتی ترقی کی رپورٹس اوراے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز، کے تحت حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہ جات کی رپورٹ جس کو پڑھ کر اپنے پیارے آقا کی قدم قدم پہ چھوٹی چھوٹی پرحکمت نصائح سےدل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہ جات کی مفصل رپورٹس جو کہ قارئین کو ساتھ ساتھ مہیا ہوتی رہتی ہیں۔ پڑھ کر لگتا ہے ہم بھی شریک سفر ہیں۔ خطبہ جمعہ کا خلاصہ اور خطبہ جمعہ کا پورا متن بھی قارئین کے استفادہ کے لئے مہیا ہوتا ہے۔

سو سالہ الفضل کا خلاصہ جو شروع کیا گیا ہے وہ بھی بہت دلچسپ اور ازدیاد ایمان کا باعث ہے دئیے گئے لنک پہ پورا الفضل پڑھا جا سکتا ہےاور جیسا کہ ایڈیٹر صاحب نے لکھا ہے کہ اس کے قارئین کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ

حدیقةالنساء ایک اچھا اضافہ ہے۔ صدف علیم صدیقی صاحبہ ما شاءاللّٰہ اچھی لکھاری ہیں۔ یہاں پہ امةالباری ناصر صاحبہ بھی خصوصی دعاؤں کی مستحق ہیں۔ کسی موضوع پہ الفضل میں سے کچھ ڈھونڈنے کے لئے بیٹھیں، پیاری امة الباری آپا کا مضمون سامنے آجاتا ہے۔ ماشاءاللّٰہ ان کو اللہ تعالیٰ نے قلمی میدان میں گراں قدر خدمات کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ ان کی یہ خدمت ہمارے لئے قابل تقلید ہے۔

سب نام تو نہیں لکھے جاسکتے البتہ صفیہ بشیر صامی صاحبہ، طاہرہ زرتشت صاحبہ اور درثمین احمد صاحبہ اور مبارکہ شاہین صاحبہ ،عائشہ چوہدری صاحبہ کی تحاریر الفضل کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ کئی گران قدر مربیان کرام کے تحقیقی اور بہترین و معیاری مضامین، اُن لکھنے والوں کی اعلی صلاحیتوں اور عمدہ دینی ذوق کا منہ بولتا ثبوت ہوتے ہیں۔ اللہ کرے زور رقم اور زیادہ تین سال کے مختصر عرصے میں الفضل آن لائن خدا کے فضل، پیارے حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کی دعاؤں اور ایڈیٹر صاحب کی انتھک و مسلسل محنت اور جانفشانی اور ذاتی دلچسپی (یہاں ایڈیٹر صاحب کی، ازراہ شفقت، نو آموز لکھاریوں سے ذاتی طور پہ رابطہ کر کے ان کی رہنمائی کرنا اور ان کو تحریر کے رموزو اوقاف سمجھانا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا مراد ہے۔) کی وجہ سے شہرت کی بلندی حاصل کر نے کو ہے۔ اَللّٰھُمَّ زِدْ فَزِدْ۔

الفضل کی محض للہ رضاکار ٹیم جوکہ دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے کے باوجود دن رات جہد مسلسل میں مصروف ہے۔ وہ بھی دعا کے مستحق ہیں علاوہ ازیں لکھاری حضرات و خواتین اور شاعر وشاعرات بھی شکریہ کے مستحق ہیں جن کے عمدہ کلام، الفضل کی تزئین و آرائش کا باعث ہوتے ہیں۔ ان سب کی اجتماعی کوشش سے اتنا خوبصورت اور معیاری، دیدہ زیب، مختلف قسم کے علمی و دینی نوادرات سے بھرپور گلدستہ گھر بیٹھے ہمیں میسر آجاتا ہے۔ مذکورہ بالا سب خوش قسمت احباب و خواتین جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جہاد بالقلم کے کار خیر میں بھر پور حصہ ڈا ل رہے ہیں وہ سب مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے متعلق بہترین معیار کے عمدہ مضامین بہت محنت سے پیش کئے جاتے ہیں۔ یورپ میں نماز فجر سے قبل رات کے تیسرے پہر، یہ روحانی مائدہ روزانہ الفضل آن لائن کی صورت میں سب کے لئے مہیا کر دیا جاتاہے۔

ایڈیٹر صاحب کے علم و آگہی اور حساسیت کی عکاس تحریر وں پہ مشتمل بہترین و باکمال اور دلچسپ اداریے بھی خالص علمی انداز میں، فکر انگیز، متنوع اور دینی معلومات کا خزانہ لئے ہوئے ہوتے ہیں۔

ایڈیٹر صاحب اور ان کی ساری ٹیم کے احباب و خواتین جہاد بالقلم میں حصہ لینے والے، ڈھیروں شکریہ اور دلی مبارکباد کے مستحق میں جن کی رات دن کی انتھک محنت کے باعث اتنا خوبصورت اور معیاری اخبار دنیا کے ہر کونے میں آن لائن مہیا کر دیا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سب کو اس کار خیر کی انجام دہی اور کوششوں کے لئے اجرعظیم عطا فرمائے اورسب کی صلاحیتوں میں اور نکھار پیدا فرمائے، ان کو مزید قوت و فراست سے لیس کرے۔ آمین ثم آمین

سب مضامین بہت عمدہ، حقائق پہ مبنی، اور علم کے متلاشی قارئین کی روحانی پیاس بجھانے کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی سب کاوشات کو قبول فرمائے اور عوام الناس کی اصلاح کا جو بیڑا سلطان القلمؑ کے ارشادپہ لبیک کہتے ہوئے، پیارے حضور کی رہنمائی میں ایڈیٹر صاحب نے اٹھایا ہے اس میں اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب کرے اور اخبار کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقیات سے نوازے۔ آمین ثم آمین

اختتام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ان الفاظ پہ کروں گی:
پس اے عزیزو اور اے دوستو! اپنے فرض کو پہچانو اور سلطان القلم کی جماعت میں ہو کر اسلام کی قلمی خدمت میں وہ جوہر دکھاؤ کہ اسلاف کی تلواریں تمہاری قلموں پر فخر کریں۔ تمہارے سینوں میں اب بھی سعد بن ابی وقاص اور خالد بن ولید اور عمرو بن عاص اور دیگر صحابہ کرام اور قاسم اور قتیبہ اور طارق اور دوسرے فدایانِ اسلام کی روحیں باہر آنے کے لئے تڑپ رہی ہیں۔ انہیں رستہ دو کہ جس طرح وہ قرونِ اولیٰ میں تلوار کے دھنی بنے اور ایک عالم کی آنکھوں کو اپنے کارناموں سے خیرہ کیا۔ اسی طرح وہ تمہارے اندر سے ہو کر (کیونکہ خدا اب بھی انہی قدرتوں کا مالک ہے) قلم کے جوہر دکھائیں اور دنیا کی کایا پلٹ دیں۔

پس اے احمدی نوجوانو! آؤ! اور اس چمنستان کی وادیوں میں گھوم کر دنیا کو نئے علوم سے شناسا کرو۔ آؤ! اور اسلام کی نشأۃِ ثانیہ کی تعمیر میں حصہ لے کر اقوامِ عالم کو علم و عرفان کے وہ خزانے عطا کرو کہ حجاز اور بغداد اور قرطبہ اور قدس اور مصر کی یادگاریں زندہ ہو جائیں۔ تا دنیا تم پر فخر کرے اور آسمان تم پر رحمت کی بارشیں برسائے اور آنے والی نسلیں تمہاری یاد سے امنگ اور ولولہ حاصل کریں۔ اے کاش! کہ ایسا ہی ہو۔ وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ

(محررہ 18؍دسمبر 1958ء)

(روزنامہ الفضل ربوہ 26؍دسمبر 1958ء)

(منزہ سلیم۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام ’’الفضل‘‘ فضل ہی ثابت ہوا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 دسمبر 2022