• 18 اپریل, 2024

یہ بات بھی خوب یاد رکھنی چاہئے کہ ہر بات میں منافع ہوتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’یہ بات بھی خوب یاد رکھنی چاہئے کہ ہر بات میں منافع ہوتا ہے۔ دُنیا میں دیکھ لو۔ اعلیٰ درجہ کی نباتات سے لے کر کیڑوں اور چوہوں تک بھی کوئی چیز ایسی نہیں جو انسان کے لئے منفعت اور فائدے سے خالی ہو۔ یہ تمام اشیاء خوا وہ ارضی ہیں یا سماوی اللہ تعالیٰ کی صفات کے اظلال اور آثار ہیں اور جب صفات میں نفع ہی نفع ہے، تو بتلاؤ کہ ذات میں کس قدر نفع اور سود ہو گا۔ اس مقام پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ جیسے ان اشیاء سے کسی وقت نقصان اٹھاتے ہیں تو اپنی غلطی اور نافہمی کی وجہ سے۔ اس لئے نہیں کہ نفس الامر میں ان اشیاء میں مضرّت ہی ہے۔ …‘‘ (یعنی ان چیزوں کے اندر سوائے نقصان کے اور کچھ ہے ہی نہیں۔) ’’… نہیں بلکہ اپنی غلطی اور خطا کاری سے…‘‘ (انسان نقصان اٹھاتا ہے۔ اگر کسی چیز میں نقصان پہنچے۔) فرمایا: ’’… اسی طرح پر ہم اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا علم نہ رکھنے کی وجہ سے تکلیف اور مصائب میں مبتلا ہوتے ہیں ورنہ خدا تعالیٰ تو ہمہ رحم اور کرم ہے۔ دُنیا میں تکلیف اٹھانے اور رنج پانے کا یہی ایک راز ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں اپنی سوئِ فہم اور قصورِ علم کی وجہ سے مبتلائے مصائب ہوتے ہیں۔ …‘‘ (صحیح طرح ہم کسی بات کو سمجھ نہیں سکتے یا ہمیں علم نہیں ہوتا اس وجہ سے مصیبتوں اور مشکلات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔) فرمایا: ’’… پس اس صفاتی آنکھ کے روزن سے ہی ہم اللہ تعالیٰ کو رحیم اور کریم اور حد سے زیادہ قیاس سے باہر نافع ہستی پاتے ہیں اور ان منافع سے زیادہ بہرہ ور وہی ہوتا ہے جو اس کے زیادہ قریب اور نزدیک ہو جاتا ہے اور یہ درجہ اُن لوگوں کو ہی ملتا ہے جومتّقی کہلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں جگہ پاتے ہیں۔ جوں جوں متقی خدا تعالیٰ کے قریب ہوتا جاتا ہے ایک نور ہدایت اسے ملتا ہے جو اس کی معلومات اور عقل میں ایک خاص قسم کی روشنی پیدا کرتا ہے اور جوں جوں دور ہوتا جا تا ہے ایک تباہ کرنے والی تاریکی اس کے دل ودماغ پر قبضہ کر لیتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ (البقرۃ: 19) کا مصداق ہو کر ذلّت اور تباہی کا مَوردْ بن جاتا ہے، مگر اس کے بالمقابل نور اور روشنی سے بہرہ ورانسان اعلیٰ درجہ کی راحت اور عزّت پاتا ہے ’چنانچہ خدا تعالیٰ نے خود فرمایا ہے۔ یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ۔ ارْجِعِیٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً (الفجر:28۔29)…‘‘ (یعنی اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ۔ اسے پسند کرنے والا بھی ہے اور اس کا پسندیدہ بھی ہے۔ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ) ’’…یعنی اے وہ نفس جو اطمینان یافتہ ہے اور پھر یہ اطمینان خداکے ساتھ پایا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ69۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

آپ نے اس کی یہ وضاحت بھی فرمائی کہ بعض لوگ بظاہر حکومت سے کچھ حاصل کر کے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کے اطمینان کا ذریعہ ان کی اولاد اور رشتے دار اور ارد گرد کے لوگ ہوتے ہیں مگر یہ سب کچھ جو ہے یہ سچا اطمینان مہیا نہیں کر سکتا بلکہ پیاس کے مریض کی طرح جوں جوں ان لوگوں سے یہ بظاہر اطمینان حاصل کر رہے ہوتے ہیں پیاس بڑھتی چلی جاتی ہے، تسلی نہیں ہوتی۔ آخر انسان کو یہ بیماری ہلاک کر دیتی ہے۔ مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس بندے نے خدا تعالیٰ کا قرب پا کر یہ اطمینان حاصل کیا ہے اس کے پاس بے انتہا دولت بھی ہو تو وہ اس کی خدا تعالیٰ کے مقابلے میں ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کرتا۔ دنیا اس کا مقصود نہیں ہوتی۔ وہ اصل راحت کی تلاش کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے۔

پھر آپ نے فرمایا کہ
’’خدا تعالیٰ نے سمجھایا کہ تمام راحت انسان کی خدا تعالیٰ کے قرب اور محبت میں ہے اور جب اس سے علاقہ توڑ کر دنیا کی طرف جھکے تو یہ جہنمی زندگی ہے۔ اور اس جہنمی زندگی پر آخر کار ہر یک شخص اطلاع پا لیتا ہے اور اگرچہ اس وقت اطلاع پاوے جبکہ یکدفعہ مال و متاع اور دنیا کے تعلقات کو چھوڑ کر مرنے لگے۔‘‘

(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد20 صفحہ158)

بہر حال کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی وقت یہ اطلاع مل جاتی ہے کہ دنیا جہنمی ہے۔ چاہے مرتے وقت ہی انسان کو اس کی اطلاع ہو۔ پھر فرمایا کہ
’’اعلیٰ درجے کی خوشی خدا میں ملتی ہے۔ جس سے پرے کوئی خوشی نہیں ہے۔ جنت پوشیدہ کو کہتے ہیں …‘‘ (یعنی چھپی ہوئی چیز کو جنت کہتے ہیں) ’’…اور جنّت کو جنّت اس لئے کہتے ہیں کہ وہ نعمتوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ اصل جنت خدا ہے جس کی طرف تردّد منسوب ہی نہیں ہوتا۔ اس لئے بہشت کے اعظم ترین انعامات میں رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ (التوبۃ: 72) ہی رکھا ہے۔ انسان انسان کی حیثیت سے کسی نہ کسی دکھ اور تردّد میں ہوتا ہے، مگر جس قدر قرب الٰہی حاصل کرتا جاتا ہے اور تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ سے رنگین ہوتا جاتا ہے، اسی قدر اصل سکھ اور آرام پاتا ہے جس قدر قرب الٰہی ہو گا لازمی طور پر اسی قدر خدا کی نعمتوں سے حصہ لے گا اور رفع کے معنے اسی پر دلالت کرتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ 396۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

خدا کا قرب پانے کی کوشش کرنے والوں کے انجام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
’’جو شخص اپنے وجود کو خدا کے آگے رکھ دے اور اپنی زندگی اس کی راہوں میں وقف کرے اور نیکی کرنے میں سرگرم ہو سو وہ سرچشمہ قرب الٰہی سے اپنا اجر پائے گا اور ان لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم۔ یعنی جو شخص اپنے تمام قویٰ کو خدا کی راہ میں لگا دے اور خالص خدا کے لئے اس کا قول اور فعل اور حرکت اور سکون اور تمام زندگی ہو جائے۔ اور حقیقی نیکی کےبجالانے میں سرگرم رہے، سو اس کو خدا اپنے پاس سے اجر دے گا اور خوف اور حزن سے نجات بخشے گا۔‘‘

(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد 12صفحہ 344)

(خطبہ جمعہ 2؍ مئی 2014ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جنوری 2021